عباس اطہر بھی چلے گئے
ان کی پارٹی نے ان کی آخری زندگی میں ان کے تعلق کو زندہ نہیں رکھا تاہم انھیں ان کے دفتر کی طرف سے پوری تنخواہ اور...
گندم کی نئی فصل کے خیر مقدم میں اس دیہاتی نے جو لاہور میں بھی گاؤں کی مٹی کی پیدا کی ہوئی گندم کھاتا ہے عرض کیا تھا کہ نئی فصل سے صرف کاشتکار کا گھر ہی نہیں ہوتا پورا گاؤں امام مسجد سمیت ایک لمبے عرصے کے لیے آٹے دانے سے بے فکر ہو جاتا ہے۔
یہ سب اس لیے کہ ہمارا کسان اور کاشتکار انسانی مٹی سے بنا ہوا ہے جو مل جل کر زندگی کرنے کا قائل ہے اور اپنی محنت میں نہ صرف غیر کاشتکاروں کو شریک کرتا ہے بلکہ کھلیان پر بکھری ہوئی گندم سے پرندوں کا حصہ بھی نکالتا ہے۔ میں نے صبح کے وقت چکوروں اور تیتروں کو بھی دانہ گندم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے والے کوؤں اور کبوتروں کو دن بھر پیٹ بھرتے دیکھا ہے۔گندم کی برداشت کا یہ موسم گویا تمام دانہ چگنے والوں کے لیے ایک نعمت بن جاتا ہے جن میں چرند و پرند اور غیر کاشتکار انسان سبھی شامل ہوتے ہیں۔
دیہات میں ایک طبقہ شاہ صاحبان کا بھی ہوتا ہے جو سال بھر ادھر ادھر سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، ان کے پاس ایک گھوڑی ہوتی ہے جس کے پیٹھ پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہم وزن بوری ہوتی ہے، بوری کے دونوں حصوں کا منہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور اہل خیر ان منہ کھلی بوریوں میں حسب توفیق کچھ اناج ڈال دیتے ہیں اگرچہ کسان کی پیداوار سال بھر دانہ دانہ ہو کر بٹتی رہتی ہے لیکن فصل کی برداشت کے دنوں میں کاشتکار کا دل بہت بڑا ہوتا ہے اور دل کی اسی سخاوت سے غیر کاشتکار فائدہ لیتے ہیں۔
ان دنوں الیکشن کی فصل تیار ہے اور جو لوگ اس انتخابی فصل سے فیض یاب ہو رہے ہیں، ان میں اگرچہ کارکن اور دوسرے کارندے بھی شامل ہیں لیکن سب سے بڑی موج میڈیا کی ہے جس کی فصل مدتوں بعد پکی ہے اور کھلیان میں پڑی ہے، اب صرف چار دن باقی رہ گئے ہیں پانچویں دن یہ مجرا الٹ جائے گا، کسی گھر میں جشن اور کسی میں ماتم ہو گا اور ہمارے ایک نواب صاحب کی طرح ایسے لوگ اب نایاب ہو گئے ہیں جو ایک الیکشن ہار گئے لیکن پھر عمر بھر گھر سے باہر نہ نکلے۔ ان سے اپنی نسلوں پشتوں کی سرداری کی یہ بے آبروئی دیکھی نہ گئی۔ انھوں نے اپنی اس جدی پشتی نوابی کی بے حرمتی کا ذمے دار خود کو قرار دیا اور دنیا سے روپوشی اختیار کر لی۔
میں نے الیکشن کی اس بے حد نفع بخش فصل کو اپنے میڈیا کے لیے گندم کی سالانہ فصل سے تشبیہہ دی ہے، اخباری اشتہاروں سے بھرے ہوئے پورے پورے صفحے کے اشتہار اور ایک اشتہار شاید لاکھوں کا۔ میں کسی دن اپنے اخبار کے شعبہ اشتہارات سے پوچھوں گا کہ ان کی یہ فصل کیسی جا رہی ہے لیکن ان دنوں انھیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ہے۔ آپ جو چند روپے کا اخبار خریدتے ہیں، آپ کو پتہ نہیں کہ اخبار پر اپنی اس قیمت سے کہیں زیادہ لاگت آتی ہے اور یہ لاگت دنیا بھر میں اشتہاروں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اخبار کی قیمت کا کوئی نصف حصہ تو ہمارے اخبار فروش دوست ہی لے جاتے ہیں، ہماری تنخواہیں اشتہاروں سے آتی ہیں اور اب امید ہے کہ اخبار والے تنخواہیں حسب سابق بروقت ادا کرتے رہیں گے کیونکہ ان کی فصل برداشت ہو کر ان کے گھروں میں پہنچ چکی ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ صبح کے وقت میں ٹی وی نہیں دیکھتا آج بھی میرا ٹی وی بند تھا۔ مجھے گاؤں سے ٹیلی فون پر اطلاع ملی کچی پکی۔ پھر جب ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ ہمارا دوست چلا گیا۔ کینسر کے موذی اور تکلیف دہ مرض میں زندگی کے آخری دن گزار کر وہ عزیزوں دوستوں کو چھوڑ گیا۔ وہ تو غم مرض سے بچ گیا مگر اس کے متوسلین اسے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ وہ پیپلز پارٹی کے حامی صحافی تھے اور انھوں نے پوری صحافتی زندگی اس پارٹی کی خدمت اور اس کی قیادت کے طلسم میں اسیر رہ کر گزار دی۔
ان کی پارٹی نے ان کی آخری زندگی میں ان کے تعلق کو زندہ نہیں رکھا تاہم انھیں ان کے دفتر کی طرف سے پوری تنخواہ اور تمام مراعات حاصل رہیں۔ وہ طویل عرصہ تک بستر پر رہے لیکن ان کے دفتر نے ان کی خدمت جاری رکھی۔ ان کا وسیع حلقہ احباب تھا اور ان کے دفتر کے بعض ساتھی کم و بیش بلا ناغہ اسپتال میں ان کی خیریت دریافت کرتے رہے، آپ کو شاید علم نہ ہو کہ صحافت میں ان کا ایک ریکارڈ یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی قابل ذکر اردو اخبار ایسا نہیں جس میں انھوں نے کام نہ کیا ہو۔ ان میں سے کئی اخبارات تو بند ہو چکے ہیں، اس طرح وہ ایک بڑے تجربہ کار صحافی تھے۔
میں نے مرحوم کے ساتھ صرف ایکسپریس میں کام کیا، میں ایک کالم نگار تھا اور صرف کالم لکھنے تک ہی اخبار سے اور ان سے رابطہ رہا، اس طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کے اور میرے صحافتی نظریات مختلف تھے لیکن یہ ذاتی تعلق میں کوئی رکاوٹ نہیں تھے۔ وہ ایک خوشگوار شخصیت تھے اور صحافت و سیاست میں سرگرم۔ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری دن خوشحالی میں بھی۔
وہ ایک کامیاب نیوز ایڈیٹر تھے، ان کی ایک سرخی بہت مشہور ہوئی جو دراصل مرحوم نثار عثمانی کی اختراع تھی ''ادھر تم ادھر ہم'' بھٹو صاحب کی تقریر سن کر عثمانی نے کہا کہ یہ تو ادھر تم ادھر ہم والی بات ہوئی۔ اور یہ بات عباس اطہر کے روزنامہ آزاد کے دفتر میں کہی گئی یہی بات مشہور سرخی بن گئی۔ عباس اطہر بہت اچھے کالم نویس تھے، خدا نے انھیں طنز کی خوبی عطا کی تھی۔ بیماری میں انھوں نے بڑی تکلیف دیکھی، اپنی پارٹی کا انتخابی نتیجہ دیکھنے سے پہلے ہی چلے گئے۔ ہمارا دوست ہمیں یاد رہے گا۔
یہ سب اس لیے کہ ہمارا کسان اور کاشتکار انسانی مٹی سے بنا ہوا ہے جو مل جل کر زندگی کرنے کا قائل ہے اور اپنی محنت میں نہ صرف غیر کاشتکاروں کو شریک کرتا ہے بلکہ کھلیان پر بکھری ہوئی گندم سے پرندوں کا حصہ بھی نکالتا ہے۔ میں نے صبح کے وقت چکوروں اور تیتروں کو بھی دانہ گندم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنے والے کوؤں اور کبوتروں کو دن بھر پیٹ بھرتے دیکھا ہے۔گندم کی برداشت کا یہ موسم گویا تمام دانہ چگنے والوں کے لیے ایک نعمت بن جاتا ہے جن میں چرند و پرند اور غیر کاشتکار انسان سبھی شامل ہوتے ہیں۔
دیہات میں ایک طبقہ شاہ صاحبان کا بھی ہوتا ہے جو سال بھر ادھر ادھر سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں، ان کے پاس ایک گھوڑی ہوتی ہے جس کے پیٹھ پر دو حصوں میں بٹی ہوئی ہم وزن بوری ہوتی ہے، بوری کے دونوں حصوں کا منہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور اہل خیر ان منہ کھلی بوریوں میں حسب توفیق کچھ اناج ڈال دیتے ہیں اگرچہ کسان کی پیداوار سال بھر دانہ دانہ ہو کر بٹتی رہتی ہے لیکن فصل کی برداشت کے دنوں میں کاشتکار کا دل بہت بڑا ہوتا ہے اور دل کی اسی سخاوت سے غیر کاشتکار فائدہ لیتے ہیں۔
ان دنوں الیکشن کی فصل تیار ہے اور جو لوگ اس انتخابی فصل سے فیض یاب ہو رہے ہیں، ان میں اگرچہ کارکن اور دوسرے کارندے بھی شامل ہیں لیکن سب سے بڑی موج میڈیا کی ہے جس کی فصل مدتوں بعد پکی ہے اور کھلیان میں پڑی ہے، اب صرف چار دن باقی رہ گئے ہیں پانچویں دن یہ مجرا الٹ جائے گا، کسی گھر میں جشن اور کسی میں ماتم ہو گا اور ہمارے ایک نواب صاحب کی طرح ایسے لوگ اب نایاب ہو گئے ہیں جو ایک الیکشن ہار گئے لیکن پھر عمر بھر گھر سے باہر نہ نکلے۔ ان سے اپنی نسلوں پشتوں کی سرداری کی یہ بے آبروئی دیکھی نہ گئی۔ انھوں نے اپنی اس جدی پشتی نوابی کی بے حرمتی کا ذمے دار خود کو قرار دیا اور دنیا سے روپوشی اختیار کر لی۔
میں نے الیکشن کی اس بے حد نفع بخش فصل کو اپنے میڈیا کے لیے گندم کی سالانہ فصل سے تشبیہہ دی ہے، اخباری اشتہاروں سے بھرے ہوئے پورے پورے صفحے کے اشتہار اور ایک اشتہار شاید لاکھوں کا۔ میں کسی دن اپنے اخبار کے شعبہ اشتہارات سے پوچھوں گا کہ ان کی یہ فصل کیسی جا رہی ہے لیکن ان دنوں انھیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ہے۔ آپ جو چند روپے کا اخبار خریدتے ہیں، آپ کو پتہ نہیں کہ اخبار پر اپنی اس قیمت سے کہیں زیادہ لاگت آتی ہے اور یہ لاگت دنیا بھر میں اشتہاروں کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اخبار کی قیمت کا کوئی نصف حصہ تو ہمارے اخبار فروش دوست ہی لے جاتے ہیں، ہماری تنخواہیں اشتہاروں سے آتی ہیں اور اب امید ہے کہ اخبار والے تنخواہیں حسب سابق بروقت ادا کرتے رہیں گے کیونکہ ان کی فصل برداشت ہو کر ان کے گھروں میں پہنچ چکی ہے۔
میں نے عرض کیا تھا کہ صبح کے وقت میں ٹی وی نہیں دیکھتا آج بھی میرا ٹی وی بند تھا۔ مجھے گاؤں سے ٹیلی فون پر اطلاع ملی کچی پکی۔ پھر جب ٹی وی کھولا تو معلوم ہوا کہ ہمارا دوست چلا گیا۔ کینسر کے موذی اور تکلیف دہ مرض میں زندگی کے آخری دن گزار کر وہ عزیزوں دوستوں کو چھوڑ گیا۔ وہ تو غم مرض سے بچ گیا مگر اس کے متوسلین اسے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ وہ پیپلز پارٹی کے حامی صحافی تھے اور انھوں نے پوری صحافتی زندگی اس پارٹی کی خدمت اور اس کی قیادت کے طلسم میں اسیر رہ کر گزار دی۔
ان کی پارٹی نے ان کی آخری زندگی میں ان کے تعلق کو زندہ نہیں رکھا تاہم انھیں ان کے دفتر کی طرف سے پوری تنخواہ اور تمام مراعات حاصل رہیں۔ وہ طویل عرصہ تک بستر پر رہے لیکن ان کے دفتر نے ان کی خدمت جاری رکھی۔ ان کا وسیع حلقہ احباب تھا اور ان کے دفتر کے بعض ساتھی کم و بیش بلا ناغہ اسپتال میں ان کی خیریت دریافت کرتے رہے، آپ کو شاید علم نہ ہو کہ صحافت میں ان کا ایک ریکارڈ یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی قابل ذکر اردو اخبار ایسا نہیں جس میں انھوں نے کام نہ کیا ہو۔ ان میں سے کئی اخبارات تو بند ہو چکے ہیں، اس طرح وہ ایک بڑے تجربہ کار صحافی تھے۔
میں نے مرحوم کے ساتھ صرف ایکسپریس میں کام کیا، میں ایک کالم نگار تھا اور صرف کالم لکھنے تک ہی اخبار سے اور ان سے رابطہ رہا، اس طرح میں نہیں کہہ سکتا کہ میں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کے اور میرے صحافتی نظریات مختلف تھے لیکن یہ ذاتی تعلق میں کوئی رکاوٹ نہیں تھے۔ وہ ایک خوشگوار شخصیت تھے اور صحافت و سیاست میں سرگرم۔ انھوں نے بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری دن خوشحالی میں بھی۔
وہ ایک کامیاب نیوز ایڈیٹر تھے، ان کی ایک سرخی بہت مشہور ہوئی جو دراصل مرحوم نثار عثمانی کی اختراع تھی ''ادھر تم ادھر ہم'' بھٹو صاحب کی تقریر سن کر عثمانی نے کہا کہ یہ تو ادھر تم ادھر ہم والی بات ہوئی۔ اور یہ بات عباس اطہر کے روزنامہ آزاد کے دفتر میں کہی گئی یہی بات مشہور سرخی بن گئی۔ عباس اطہر بہت اچھے کالم نویس تھے، خدا نے انھیں طنز کی خوبی عطا کی تھی۔ بیماری میں انھوں نے بڑی تکلیف دیکھی، اپنی پارٹی کا انتخابی نتیجہ دیکھنے سے پہلے ہی چلے گئے۔ ہمارا دوست ہمیں یاد رہے گا۔