چار دن کی بادشاہی کرلیں
اب تک سوشل میڈیا پر الیکشن کے تعلق سے جو اقوالِ زریں سامنے آئے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے...
اب تک سوشل میڈیا پر الیکشن کے تعلق سے جو اقوالِ زریں سامنے آئے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے ،
'' پانچ سال منہ کالا کرنے سے بہتر ہے کہ ایک دن انگوٹھا کالا کرلیا جائے''۔
صرف چار دن اور تین راتیں باقی ہیں، اس بادشاہی کی جس میں ووٹر کا ہاتھ اوپر اور امیدوار کا ہاتھ نیچے ہے۔گیارہ مئی کی شام پانچ بج کر ایک منٹ پر حکمران بدل جائیں گے۔آپ چاہیں تو اس چار دن کی چاندنی کو پانچ برس کا چاننا بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو ان چار دنوں اور تین راتوں کو باقی طاق و جفت راتوں کی طرح گزرنے بھی دے سکتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ پر یہ چہار روزہ حکمرانی کتنی کٹھن گزر رہی ہوگی۔کیونکہ آپ اس کے عادی نہیں ہیں بلکہ کبھی بھی عادی نہیں تھے۔آپ میں سے بہت سوں کو تو آخری وقت تک یقین نا آئے گا کہ آپ واقعی حکمران ہیں۔کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں یہ باتیں ووٹ کی پیٹی تک پہنچتے پہنچتے بھی خواب و خیال لگیں گی اور وہ نیند کی کیفیت میں ٹھپا لگا کر جب باہر نکلیں گے تب بھی نیند میں چل رہے ہوں گے۔اور بہت سے آخری ساعت تک یہ سمجھتے رہیں گے کہ ووٹ ڈالنا ایک فضول مشق ہے۔جس سے نا تو کبھی حالات بدلے ہیں نا بدلیں گے۔کسی کو بھی ووٹ دے دو ہونا تو وہی ہے جو ہوتا آیا ہے۔
ہاں آپ یقیناً کسی فیصلے تک پہنچتے ہوئے پریشان ہو رہے ہوں گے، اس بچے کی طرح جسے کھلونوں کی دکان میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ اپنے لیے سیکڑوں میں سے ایک کھلونا پسند کرلو۔تو کیا وہی کھلونا لے لوں جو میں نے پچھلی دفعہ خرید کر توڑ ڈالا تھا یا یہ والا کھلونا لے لوں جو دیکھنے میں بڑا اچھا لگ رہا ہے مگر پتہ نہیں چلے یا نا چلے ...چلو وہ والا لے لیتا ہوں۔لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے...ارے یہ ٹھیک ہے... مگر یہ تو اتنا سستا ہے کہ اس کی پائیداری کے بارے میں بھی ابھی سے شک ہورہا ہے...سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔
مجھے احساس ہے کہ آپ کو ایک بہتر امیدوار کے انتخاب میں کس قدر ذہنی کوفت ہو رہی ہوگی۔بالکل ان حافظ صاحب کی طرح جن سے ایک شاگرد نے آ کر پوچھ لیا کہ حافظ جی آپ کے لیے گھر سے کیا لاؤں ؟ امی جی نے مرغا بھی پکایا ہے اور حلوہ بھی۔۔۔حافظ جی سوچتے رہے سوچتے رہے اور پھر شاگردسے بولے۔ برخوردار جس طرح تم نے ہمیں مشکل میں ڈالا ہے، خدا تمہیں بھی ایسی ہی مشکل میں ڈالے۔
آپ کے لیے مزید مشکل انتخابی سرکس کے اردگرد لگی سیاسی دوکانوں نے بھی پیدا کردی ہوگی۔ آپ کا دل کہیں جا رہا ہوگا۔دماغ کہیں اور ہوگا۔ آنکھیں کسی اور سے لڑ رہی ہوں گی۔ہاتھ کسی اور جانب کھینچ رہا ہوگا۔پاؤں کسی اور طرف بڑھنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔بالکل اس میلے کی طرح جہاں پھنس جانے والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جیب میں جو بھی تھوڑا بہت پیسہ ہے، وہ سرکس کے پھٹے پر دل پھینک اشارے کرنے والے میک اپ زدہ چمکیلے رقصیلے کھسرے پر نچھاور کردے یا پھر قتلموں پر خرچ کرکے قلندری شربت پی لے۔یا پھر ان پیسوں سے کرینہ اور کترینہ کے قدِ آدم کٹ آؤٹس کے گلے میں بانہیں ڈال کر رنگین فوٹو کھنچوا لے۔یا پھر سارے پیسے بچا کر میلے ہی سے نکل لے۔
ہاں آپ میں سے بہت سے اس انتخابی مشق کو ایک لاٹری بھی سمجھ رہے ہوں گے۔جیسے شادی ایک لاٹری ہوتی ہے۔جیسے آپ کے بچے کا مستقبل ایک لاٹری میں بند ہوتا ہے۔اور بچہ ہی کیوں خود ہماری زندگی بھی تو ایک لاٹری ہے۔پھر بھی ہم اسے کھیلتے ضرور ہیں۔چلیے ووٹ دینے کے لیے کوئی اور وجہ نا بھی سمجھ میں آئے تو اسے لاٹری سمجھ کر ہی کھیل لیجیے۔نا بھی انعام نکلا تو آپ کا ایسا کیا نقصان ہوجائے گا جو اب تک نہیں ہوا۔
تو کیا آپ کو یہ بہت اچھا لگے گا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سو میں سے صرف پینتالیس ووٹر یہ فیصلہ کریں کہ اگلے پانچ برس سو فیصد آبادی پر کونسی پارٹی حکومت کرے گی ، پالیسیاں بنائے گی اور ملک کو اپنی مرضی کی سمت میں لے جائے گی۔آپ ووٹ نا بھی دیں تب بھی اگلے پانچ برس کا اچھا برا تو آپ کو بھی برابر کے حصے دار کے طور پر بھگتنا ہی پڑے گا۔تب کیا فائدہ ہوگا، یہ سوچ کر کہ یار اگر ووٹ دے دیتے تو شائد نتیجہ مختلف ہوتا۔
لہذا یہ جو چار دن اور تین راتیں آپ کی دسترس میں ہیں، ان میں یا تو آپ بچے سقے کی طرح چمڑے کے سکے چلوا کر ، دانشوری کا تجزیاتی رعب بگھار کر اور کچھ نہیں بدلے گا کا نعرہ لگا کر بے فکری کا کمبل اوڑھ کرسوجائیں حتیٰ کہ بارہ مئی کا سورج آپ کو خود اٹھائے اور پانچ برس آپ کے سر پر چمکتا رہے۔یا پھر ووٹ کی چھتری کا استعمال کریں۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے...
اگلے ہفتے جب آپ سے ملاقات ہوگی تو حالات خاصی حد تک بدل چکے ہوں گے۔آپ کے نہیں تو کم ازکم ان کے حالات جنہوں نے آپ کے ووٹ کے لیے سارا میلہ سجایا تھا۔لیکن اس میلے میں کسی کو اپنی جیب سے ووٹ چرانے مت دیجیے گا۔اپنے ہاتھ سے کسی مستحق کو دے دیجیے گا۔بچا کے گھر لانے کی ضرورت نہیں۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.comپر کلک کیجیے )
'' پانچ سال منہ کالا کرنے سے بہتر ہے کہ ایک دن انگوٹھا کالا کرلیا جائے''۔
صرف چار دن اور تین راتیں باقی ہیں، اس بادشاہی کی جس میں ووٹر کا ہاتھ اوپر اور امیدوار کا ہاتھ نیچے ہے۔گیارہ مئی کی شام پانچ بج کر ایک منٹ پر حکمران بدل جائیں گے۔آپ چاہیں تو اس چار دن کی چاندنی کو پانچ برس کا چاننا بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو ان چار دنوں اور تین راتوں کو باقی طاق و جفت راتوں کی طرح گزرنے بھی دے سکتے ہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ پر یہ چہار روزہ حکمرانی کتنی کٹھن گزر رہی ہوگی۔کیونکہ آپ اس کے عادی نہیں ہیں بلکہ کبھی بھی عادی نہیں تھے۔آپ میں سے بہت سوں کو تو آخری وقت تک یقین نا آئے گا کہ آپ واقعی حکمران ہیں۔کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں یہ باتیں ووٹ کی پیٹی تک پہنچتے پہنچتے بھی خواب و خیال لگیں گی اور وہ نیند کی کیفیت میں ٹھپا لگا کر جب باہر نکلیں گے تب بھی نیند میں چل رہے ہوں گے۔اور بہت سے آخری ساعت تک یہ سمجھتے رہیں گے کہ ووٹ ڈالنا ایک فضول مشق ہے۔جس سے نا تو کبھی حالات بدلے ہیں نا بدلیں گے۔کسی کو بھی ووٹ دے دو ہونا تو وہی ہے جو ہوتا آیا ہے۔
ہاں آپ یقیناً کسی فیصلے تک پہنچتے ہوئے پریشان ہو رہے ہوں گے، اس بچے کی طرح جسے کھلونوں کی دکان میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ اپنے لیے سیکڑوں میں سے ایک کھلونا پسند کرلو۔تو کیا وہی کھلونا لے لوں جو میں نے پچھلی دفعہ خرید کر توڑ ڈالا تھا یا یہ والا کھلونا لے لوں جو دیکھنے میں بڑا اچھا لگ رہا ہے مگر پتہ نہیں چلے یا نا چلے ...چلو وہ والا لے لیتا ہوں۔لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ ہے...ارے یہ ٹھیک ہے... مگر یہ تو اتنا سستا ہے کہ اس کی پائیداری کے بارے میں بھی ابھی سے شک ہورہا ہے...سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔
مجھے احساس ہے کہ آپ کو ایک بہتر امیدوار کے انتخاب میں کس قدر ذہنی کوفت ہو رہی ہوگی۔بالکل ان حافظ صاحب کی طرح جن سے ایک شاگرد نے آ کر پوچھ لیا کہ حافظ جی آپ کے لیے گھر سے کیا لاؤں ؟ امی جی نے مرغا بھی پکایا ہے اور حلوہ بھی۔۔۔حافظ جی سوچتے رہے سوچتے رہے اور پھر شاگردسے بولے۔ برخوردار جس طرح تم نے ہمیں مشکل میں ڈالا ہے، خدا تمہیں بھی ایسی ہی مشکل میں ڈالے۔
آپ کے لیے مزید مشکل انتخابی سرکس کے اردگرد لگی سیاسی دوکانوں نے بھی پیدا کردی ہوگی۔ آپ کا دل کہیں جا رہا ہوگا۔دماغ کہیں اور ہوگا۔ آنکھیں کسی اور سے لڑ رہی ہوں گی۔ہاتھ کسی اور جانب کھینچ رہا ہوگا۔پاؤں کسی اور طرف بڑھنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔بالکل اس میلے کی طرح جہاں پھنس جانے والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جیب میں جو بھی تھوڑا بہت پیسہ ہے، وہ سرکس کے پھٹے پر دل پھینک اشارے کرنے والے میک اپ زدہ چمکیلے رقصیلے کھسرے پر نچھاور کردے یا پھر قتلموں پر خرچ کرکے قلندری شربت پی لے۔یا پھر ان پیسوں سے کرینہ اور کترینہ کے قدِ آدم کٹ آؤٹس کے گلے میں بانہیں ڈال کر رنگین فوٹو کھنچوا لے۔یا پھر سارے پیسے بچا کر میلے ہی سے نکل لے۔
ہاں آپ میں سے بہت سے اس انتخابی مشق کو ایک لاٹری بھی سمجھ رہے ہوں گے۔جیسے شادی ایک لاٹری ہوتی ہے۔جیسے آپ کے بچے کا مستقبل ایک لاٹری میں بند ہوتا ہے۔اور بچہ ہی کیوں خود ہماری زندگی بھی تو ایک لاٹری ہے۔پھر بھی ہم اسے کھیلتے ضرور ہیں۔چلیے ووٹ دینے کے لیے کوئی اور وجہ نا بھی سمجھ میں آئے تو اسے لاٹری سمجھ کر ہی کھیل لیجیے۔نا بھی انعام نکلا تو آپ کا ایسا کیا نقصان ہوجائے گا جو اب تک نہیں ہوا۔
تو کیا آپ کو یہ بہت اچھا لگے گا کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سو میں سے صرف پینتالیس ووٹر یہ فیصلہ کریں کہ اگلے پانچ برس سو فیصد آبادی پر کونسی پارٹی حکومت کرے گی ، پالیسیاں بنائے گی اور ملک کو اپنی مرضی کی سمت میں لے جائے گی۔آپ ووٹ نا بھی دیں تب بھی اگلے پانچ برس کا اچھا برا تو آپ کو بھی برابر کے حصے دار کے طور پر بھگتنا ہی پڑے گا۔تب کیا فائدہ ہوگا، یہ سوچ کر کہ یار اگر ووٹ دے دیتے تو شائد نتیجہ مختلف ہوتا۔
لہذا یہ جو چار دن اور تین راتیں آپ کی دسترس میں ہیں، ان میں یا تو آپ بچے سقے کی طرح چمڑے کے سکے چلوا کر ، دانشوری کا تجزیاتی رعب بگھار کر اور کچھ نہیں بدلے گا کا نعرہ لگا کر بے فکری کا کمبل اوڑھ کرسوجائیں حتیٰ کہ بارہ مئی کا سورج آپ کو خود اٹھائے اور پانچ برس آپ کے سر پر چمکتا رہے۔یا پھر ووٹ کی چھتری کا استعمال کریں۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے...
اگلے ہفتے جب آپ سے ملاقات ہوگی تو حالات خاصی حد تک بدل چکے ہوں گے۔آپ کے نہیں تو کم ازکم ان کے حالات جنہوں نے آپ کے ووٹ کے لیے سارا میلہ سجایا تھا۔لیکن اس میلے میں کسی کو اپنی جیب سے ووٹ چرانے مت دیجیے گا۔اپنے ہاتھ سے کسی مستحق کو دے دیجیے گا۔بچا کے گھر لانے کی ضرورت نہیں۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.comپر کلک کیجیے )