خودکشی کا رجحان ایک سنگین چیلنج

اگرچہ اسلام میں خودکشی کو واضح طورپر حرام قرار دیاگیا ہے، تاہم خودکشی کے واقعات ہمارے ...


Shakeel Farooqi May 06, 2013
[email protected]

ابھی چند روز قبل کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں شوہر کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بیوی اور تین پیارے پیارے بچوں کی اخبارات میں شایع ہونے والی تصویروں کو دیکھ کر دل میں ایک طوفان سا امڈ آیا، میڈیا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق شوہر نے مبینہ طورپر اپنی اہلیہ اور تینوں بچوں کو کنپٹیوں پر گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔

اگرچہ اسلام میں خودکشی کو واضح طورپر حرام قرار دیاگیا ہے، تاہم خودکشی کے واقعات ہمارے ملک میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے بے شمار اسباب ہیں، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں ہر سال ایک ملین افراد خودکشی کرتے ہیں جو کہ ہوش ربا اور انتہائی تشویشناک تعداد ہے، ایک سروے کے مطابق دنیا میں ہر 40سیکنڈ بعد کوئی نہ کوئی شخص خودکشی کررہاہوتا ہے، اگر خودکشی کا واحد سبب مالی نا آسودگی ہوتا تو جاپان جیسے خوش حال ملک میں شاید کوئی بھی خودکشی پر آمادہ نہ ہوتا مگر اس ملک میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے زور پکڑرہاہے،

اس کے علاوہ روس اور وسط ایشیاء کی نو آزاد ریاستوں میں بھی خودکشی کے واقعات میں نہایت تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور وہاں خودکشی کی شرح بہت بلند ہے، چین اور بھارت میں بھی اموات کے اسباب میں خودکشی کی شرح40فیصد کے لگ بھگ ہے، تاہم مسلم ممالک میں دیگر ممالک کے مقابلے میں خودکشی کی شرح کم ہے، چین میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ خودکشی کرتی ہیں، عام تاثر یہ ہے کہ جہالت اور ناخواندگی شاید خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے مگر بعض حقائق اس کی نفی کرتے ہیں،

دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو ایسی کئی نام ور شخصیات بھی خودکشی کرنے والوں میں شامل نظر آئیں گی جو مالی اعتبار سے انتہائی مالا مال ہونے کے علاوہ سیاسی اور علمی سطح پر بھی انتہائی بلند تھیں، مثلاً مصر کی ملکہ قلوپطرہ، روم کاسیاست دان بروٹس، مصور ونسینٹ وین گوہ، ممتاز اور مقبول ترین امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگوے، جرمنی کا ڈکٹیٹر ہٹلر اور راک اسٹار کرلٹ کو بٹین، یہ سب کی سب وہ اہم اور عہد ساز شخصیات تھیں جنہوں نے تاریخ کے اوراق پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

خودکشی بنی نوع انسان کا ایک دیرینہ اور انتہائی سنجیدہ وسنگین مسئلہ ہے جس کا مطالعہ عرصہ دراز سے مسلسل جاری ہے، اگرچہ اس سے قبل بھی مختلف ادوار میں وقتاً فوقتاً اس مسئلے کا جائزہ لیاجاتا رہا لیکن فرائیڈ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس موضوع کو انسانی زاویے سے دیکھنے اور جانچنے کی پہلی مرتبہ سنجیدگی اور ہمدردی سے کوشش کی۔

فرانسیسی سوشیالوجسٹ ایملی ڈرک ہیٹم نے بہت گہرائی میں جاکر ان سماجی عوامل کا مطالعہ کرنے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے جن کے باعث انسان کا ذہن خودکشی کرنے کی جانب مائل ہوجاتاہے، ان عوامل میں شدید احساس انتہائی، احساس کمتری، احساس محرومی، خود کو معاشرے میں گرا ہوا تصور کرنا، معاشرے سے کٹ کر رہ جانا اور خود کو سب سے زیادہ بدنصیب سمجھنے جیسے خطرناک منفی خیالات شامل ہیں، جہاں تک نفسیاتی عوامل کا تعلق ہے تو ان میں خودکشی کا سب سے بڑا سبب ڈپریشن ہے جس کے باعث انسان زندگی سے مایوس ہوکر راہ فرار تلاش کرنے لگتاہے، اسے دور دور تک اپنا کوئی ہمدرد ، غم خوار نظر نہیں آتا اور کیفیت کچھ اس طرح کی ہوتی کہ :

کوئی ہمدرد نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا

ایسا انسان دوسروں سے ہی نہیں بلکہ اپنے وجود سے بھی بیزار ہوجاتاہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

ایک تحقیق کے مطابق خودکشی کرنے والے لوگوں میں80فیصد تعداد ان لوگوں کی دیکھی گئی ہے جو کلینکل ڈپریشن کا شکار تھے۔

ایک مشہور مغربی ماہر نفسیات ڈی کیٹن زرو کے تجزیے کے مطابق مزدوروں میں عام طورپر یہ رجحان پایاگیا ہے کہ وہ خواتین کی بہ نسبت اپنی زندگی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے، اس کے علاوہ موت کا خوف بھی ان میں اتنا زیادہ نہیں ہوتا جب کہ اس کے برعکس خواتین موت سے بہت زیادہ خوف زدہ رہتی ہیں اور Death Phobiaان میں بہت عام ہے، سچی اورکھری بات یہ ہے کہ یاسیت پسندی انسان کی سب سے بڑی دشمن ہے اور مایوسی میں گھرا ہوا انسان ذہنی انتشارکا شکار ہوکر خود کو دنیا کا سب سے بڑا اور ناکام انسان تصور کرنے لگتاہے، انسان کی اس شدید اضطرابی کیفیت کو غالب نے کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یہی وہ پس منظر ہے جس کا تجزیہ کرتے ہوئے عظیم مفکر البرٹ کامو یہ کہنے پر مجبور ہوگیاتھا کہ''سب سے زیادہ سنجیدہ فلسفیانہ مسئلہ صرف ایک ہی ہے اور یہ مسئلہ ہے خودکشی کا''

زود رنجی بھی خودکشی کا ایک اہم سبب ہے، بعض لوگ بڑے نازک مزاج ہوتے ہیں اور ذراسی ترش بات سے ان کی رگ خود داری چنگاری کی طرح سے بھڑک اٹھتی ہے، میر انیس نے انسان کی اس زود رنجی اور نازک مزاجی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ:

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب بالخصوص اسلام میں سخت تاکید کی گئی ہے کہ کسی کا دل ہرگز نہ دکھاؤ کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے، بہ قول شاعر:

دل بدست آید کہ حج اکبراست

تیونس کے ایک ریڑھی والے سبزی فروش نے محض اتنی سی بات پر برانگیختہ ہوکر خودکشی کرلی تھی کہ میونسپلٹی کے اہلکاروں نے اسے اپنا ٹھیلا ہٹانے کے لیے سختی سے چند الفاظ کہہ دیے تھے، جائز وناجائز کی تمیز سے بے نیاز دولت جمع کرنے کی ہوس نے بھی آج کے انسان کو اندھا کردیاہے اور روپیہ کمانے کی دوڑ Rat raceمیں ہر کوئی ایک دوسرے کو روندتا ہوا چلاجارہاہے، یہ وہ دلدل ہے کہ جو کوئی اس میں پھنس گیا بس وہ مسلسل دھنستا ہی چلاجائے گا اسی لیے تو ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں رزق حلال کمانے اور زندگی میں سادگی اور قناعت پسندی اختیار کرنے کا درس اور ترغیب دیتاہے، اس حوالے سے بھگت کبیر کا یہ خوبصورت دوہا ملاحظہ فرمایئے:

دیکھ پرائی چوپڑی، مت للچائے جی
روکھی سوکھی کھائی کے ٹھنڈا پانی پی

اس بات کو عظیم عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے اپنے انداز میں ان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

ٹک حرص وہوس کو چھوڑمیاں، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجاکر نقارہ

عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ حلال وحرام کی تمیز کرنے والے سادگی اور قناعت پسند لوگ دولت مند لوگوں کے مقابلے میں زیادہ صحت مند،خوش وخرم،آسودہ مزاج اور مطمئن نظر آتے ہیں اور خودکشی کرنے کا باطل خیال ان کے ذہن کو کبھی چھوکر بھی نہیں گزرتا، اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں مسلم ممالک میں خودکشی کے واقعات کی شرح بہت کم ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ہر مذہب محبت، ہمدردی، رواداری اور انسان دوستی کا درس دیتاہے، جس میں ہمارا دین اسلام بلاشبہ سرفہرست ہے، روپیہ پیسہ اور مال وزر انسان کے قلبی سکون کا سب سے بڑا دشمن ہے، جو شخص99کے چکر اور پھیر میں پڑجاتاہے وہ کہیں کا نہیں رہتا، اقبال نے اس بنیادی اور نازک بات کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتاہے دھن جاتا ہے دھن

ہمارا دین اسلام دین فطرت ہے اور اس نے مایوسی کو کفر قرار دیا ہے جو انسان کو گمراہ کرکے خودکشی کرنے پر اکساتی ہے، ہماری زندگی ایک میدان جنگ ہے اور اسی لیے اسے کارزار ہستی قرار دیاگیا، مردانگی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان کسی حالت میں بھی ہمت نہ ہارے اور امید کا دامن ہاتھ سے کسی صورت میں بھی نہ چھوڑے، اس مفہوم کو کسی شاعر نے کس خوبصورتی سے بیان کیاہے:

مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ زندگی اﷲ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت اور امانت ہے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم مایوسی کے کفر سے اجتناب کریں اور رب کریم کی بخشی ہوئی اس عظیم نعمت کی قدر کریں اور اس کی دی ہوئی امانت کو خوب اچھی طرح سنبھال کر رکھیں، مردانگی کا شیوا نہیں کہ انسان حالات سے گھبراکر مایوسی کا شکارہوجائے اور خودکشی پر آمادہ ہوجائے ، ساحر لدھیانوی نے کس حوصلہ مندی کے ساتھ جینے کا درس دیاہے۔

غم کی اندھیری رات میں دل کو نہ بے قرار کر
صبح ضرور آئے گی صبح کا انتظار کر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں