ابن آدم کا گھمنڈ
پاکستان میں نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد اب تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے...
پاکستان میں نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد اب تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے، اس قسم کی سیکیورٹی کمپنیاں جو اپنے ملازمین کو ان کی عمر اور تجربے کے لحاظ سے معاوضے دیتی ہیں کیا واقعی قابل بھروسہ ہیں، ایک سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں ابھرنے لگا ہے۔
گزشتہ دس سال کے عشرے میں اس قسم کے نجی سیکیورٹی محافظین کی وجہ سے معاشرے میں ایک ہلچل سی اٹھی ہے، جو معاشی اور نفسیاتی لحاظ سے انتہائی غیر تسلی بخش ہے، اس تمام صورتحال کے ذمے دار ہمارے حکومتی اداروں کی بھی نا اہلی ہے، جس پر عدم اعتماد کی وجہ سے عوام میں سیکیورٹی کمپنیوں کے نجی محافظوں کو رکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اس قسم کے سیکیورٹی محافظین کی جانچ پڑتال کا خدا جانے کون سا طریقہ کار ہے جو وہ چوری کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں اور سیکیورٹی کے حوالے سے اتنے محتاط بھی ہوجاتے ہیں کہ عارضی مالکوں کے حکم پر اپنی بندوقوں کے منہ کھول کر بھول جاتے ہیں، ڈیفنس کراچی میں ہونے والے حالیہ واقعے جس میں ایک سولہ سالہ نوجوان اس سیکیورٹی کے نام پر اپنی جان سے چلاگیا، کیا ایسی کمپنیوں کا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہوتا کہ جو وہ اپنے گارڈ کو ڈیوٹی پر بھیجنے سے پہلے اسے اس کا پابند کریں یا عارضی مالکوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے چھینک آنے کی وجہ سے لے کر غصہ، لڑائی، جھگڑا اور دوسرے نفسیاتی رجحانات کو دیکھتے ہوئے ان کے حکم کی تعمیل کرے اور خاص کر اگر عارضی مالک کوئی کم عمر بچہ ہو جو اچھے برے کی تمیز سے واقف نہ ہو، محض بچکانہ سوچ رکھنے والے ایک ذہن پر اعتبار کرکے اس کے حکم کی تعمیل کرنا بھی کیا سیکیورٹی کمپنیوں کے ضابطہ اخلاق اور قوانین میں شامل ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل سطح پر اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو یہ غریب ممالک کی فہرست میں اونچے نمبروں پر نظر آتا ہے، لیکن اندرونی طور پر ہمارے عوام اتنے معصوم ہیں کہ وہ اپنے آپ کو امیر تصور کرکے نجانے کن واہمات کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک غریب ملک کے بسنے والے ایسی ایسی حرکتیں سرانجام دے جاتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاید یہی وہ وہم، وہ بے عقلی ہے جس کی وجہ سے ہم زمین پر اس قدر اکڑ کر چلتے ہیں اور خدا کا عذاب بار بار ہم پر نازل ہوتا ہے، لیکن ہم اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں، اس میں ہمارے مذہبی رجحان کی جانب سے کم علمی کا ثبوت ملتاہے وگرنہ یہ صورتحال نہ ہوتی۔
ابھی زیادہ دن دور کی بات نہیں جب اندرون سندھ کے ایک ٹاؤن میں ایک پندرہ سال کے لڑکے کے ساتھ تشدد کی انتہائی بری واردات ہوئی، اس چرواہے لڑکے کا ایک اونٹ جو غلطی سے چرتے چرتے ایک زمیندار کی زمین پر نکل گیا، زمیندار صاحب کو اپنے کھیتوں پر ایک کم عقل جانور کی یہ حرکت اس حد تک ناگوار گزری کہ انھوں نے اپنی عقل بھی اسی جانور کی عقل کے برابر کرلی، اونٹ کو پکڑلیا اور لڑکے کو سزا کے طور پر اس اونٹ کی ایک ٹانگ سے باندھ دیا اور اسے دوڑایا، اب ذرا سوچیے وہ اونٹ کیسے کیسے میدانوں میں دوڑا ہوگا اور اس کے پیر سے بندھا معصوم بچہ اس کے پیر کے ساتھ زمین پر رگڑتا گیا، اس بھیانک تشدد کے دوران لڑکا چیختا چلاتا رہا لیکن زمیندار پر اثر نہ ہوا، اس عمل سے لڑکے کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹ گئیں اور بالآخر اس نے اپنی جان دے دی، اسے اسپتال تو پہنچادیا گیا لیکن وہ تو کب کا اپنی جان سے گزر چکا تھا، اگر لمحہ بھر خدا کی بخشی دولت کے نشے میں جو وہ شخص سوچ لیتا کہ اس سے اس لڑکے کی جان بھی جاسکتی ہے تو شاید ایسا نہ ہوتا لیکن اپنی طاقت کی مستی کا نشہ ایسا تھا کہ تمام باتیں پس پشت ڈال دی گئی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی اسی طرح کی ایک ہولناک واردات پیش آئی جب گاؤں کے نمبردار کے گھر شادی کی تقریب میں ایک چھ سالہ خانہ بدوش بچی نے شادی میں شامل لوگوں سے بریانی مانگی، اس معصوم بچی کو علم ہی نہ تھاکہ لذیذ چاولوں کی ایک پلیٹ کے عوض اسے اپنی جان سے ہی جانا پڑے گا، بچی نے بریانی مانگنے میں ضد کی جیسا کہ ہم بھی عادی ہی ہیں کہ سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے اور کچھ لوگ پیچھے ہی پڑجاتے ہیں لیکن اس شادی میں شامل چند اوباش نوجوانوں کو دیکھیے جنہوںنے اس بات پر اس قدر غصہ کیا کہ پکڑ کر بچی کو کھولتے پانی کے برتن میں پھینک دیا، کیا اس طرح ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تھا، یقیناً نہیں۔
ایسا کرتے ہی وہ اپنی شیطانی سحر سے تو نکل گئے کیونکہ بچی کے چیخنے چلانے نے ان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس دلادیا تھا لہٰذا اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے، لوگوں نے بچی کی آہ و بکا پر اسے نکالا اور اسے اسپتال پہنچایا گیا لیکن بچی کا وجود تو جھلس چکا تھا، معصوم چھ سالہ بچی کا دل اور کس قدر احتجاج کرتا، چیخ چیخ کر خاموش ہوگیا۔
اخبار میں چھپنے والی ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی خبریں انسانی عقل سے سوال کرتی ہیں کہ اے ابن آدم! کیا خدا کی بخشی ہوئی نعمتیں صرف تیرے لیے ہیں، کیا خدا نے اس میں سے دوسروں کے لیے تجھے حصہ نہیں بھیجا، یا تو خدا کے دوسروں کے لیے بھیجے ہوئے حصے کو بھی ہڑپ کرگیا...؟ اور اس ہڑپ کیے ہوئے حصے پر اتنا غرور اتنی اکڑ کہ دوسروں کے لیے عذاب ہی بن گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے خدا سے ڈرنا ہی چھوڑ دیا ہے، ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ جب مریں گے تب دیکھا جائے گا، لیکن وہ اس حقیقت سے ذرہ برابر بھی واقف نہیں کہ اس تب میں تو سارے راز پوشیدہ ہیں، یہ دنیا تو محض ایک کلاس روم کی مانند ہے، خدا نے انسان کو اس کلاس روم میں کچھ اصول و ضوابط کے ساتھ اتارا ہے لیکن انسان ان تمام اصولوں، تمام ضوابط و اخلاق کو کہیں رکھ کر شریر بچوں کی طرح اس میں اچھل کود، شرارتیں کرتا رہتا ہے، اپنے نتیجے سے ناواقف انسان اگر لمحہ بھر کے لیے بھی ایسا سوچ لے تو یقیناً فائدے میں رہے گا۔
نوجوان حمزہ کی موت نے شاہ زیب کے قتل کے کیس کو پھر سے نظروں کے سامنے تازہ کردیا، کیس کی نوعیت کیا تھی وہ ایک طرف لیکن دولت اور غرور کی اکڑ نے کیا کھیل کھیلے کہ اب کیا اندرون سندھ اور پنجاب کے کم سہولتوں والے گاؤں اور کیا ڈیفنس کا پوش علاقہ سب برابر ہوگئے۔ ہم اپنی اولاد اور دولت کی چاہ میں اتنا آگے نکل گئے کہ اس کی خاطر دوسرے انسانوں کو چیونٹی کی طرح رگڑتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ سوچے بنا کہ یہ دنیا ایک آئینہ بھی ہے، آپ نے تو کسی کو دکھادیا بس انتظار کریں اوپر والا آپ کو اس آئینے میں آپ کا اپنا چہرہ کب دکھاتا ہے...؟
گزشتہ دس سال کے عشرے میں اس قسم کے نجی سیکیورٹی محافظین کی وجہ سے معاشرے میں ایک ہلچل سی اٹھی ہے، جو معاشی اور نفسیاتی لحاظ سے انتہائی غیر تسلی بخش ہے، اس تمام صورتحال کے ذمے دار ہمارے حکومتی اداروں کی بھی نا اہلی ہے، جس پر عدم اعتماد کی وجہ سے عوام میں سیکیورٹی کمپنیوں کے نجی محافظوں کو رکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اس قسم کے سیکیورٹی محافظین کی جانچ پڑتال کا خدا جانے کون سا طریقہ کار ہے جو وہ چوری کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوجاتے ہیں اور سیکیورٹی کے حوالے سے اتنے محتاط بھی ہوجاتے ہیں کہ عارضی مالکوں کے حکم پر اپنی بندوقوں کے منہ کھول کر بھول جاتے ہیں، ڈیفنس کراچی میں ہونے والے حالیہ واقعے جس میں ایک سولہ سالہ نوجوان اس سیکیورٹی کے نام پر اپنی جان سے چلاگیا، کیا ایسی کمپنیوں کا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہوتا کہ جو وہ اپنے گارڈ کو ڈیوٹی پر بھیجنے سے پہلے اسے اس کا پابند کریں یا عارضی مالکوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے چھینک آنے کی وجہ سے لے کر غصہ، لڑائی، جھگڑا اور دوسرے نفسیاتی رجحانات کو دیکھتے ہوئے ان کے حکم کی تعمیل کرے اور خاص کر اگر عارضی مالک کوئی کم عمر بچہ ہو جو اچھے برے کی تمیز سے واقف نہ ہو، محض بچکانہ سوچ رکھنے والے ایک ذہن پر اعتبار کرکے اس کے حکم کی تعمیل کرنا بھی کیا سیکیورٹی کمپنیوں کے ضابطہ اخلاق اور قوانین میں شامل ہوتا ہے۔
انٹرنیشنل سطح پر اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو یہ غریب ممالک کی فہرست میں اونچے نمبروں پر نظر آتا ہے، لیکن اندرونی طور پر ہمارے عوام اتنے معصوم ہیں کہ وہ اپنے آپ کو امیر تصور کرکے نجانے کن واہمات کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک غریب ملک کے بسنے والے ایسی ایسی حرکتیں سرانجام دے جاتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاید یہی وہ وہم، وہ بے عقلی ہے جس کی وجہ سے ہم زمین پر اس قدر اکڑ کر چلتے ہیں اور خدا کا عذاب بار بار ہم پر نازل ہوتا ہے، لیکن ہم اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ سمجھتے ہیں، اس میں ہمارے مذہبی رجحان کی جانب سے کم علمی کا ثبوت ملتاہے وگرنہ یہ صورتحال نہ ہوتی۔
ابھی زیادہ دن دور کی بات نہیں جب اندرون سندھ کے ایک ٹاؤن میں ایک پندرہ سال کے لڑکے کے ساتھ تشدد کی انتہائی بری واردات ہوئی، اس چرواہے لڑکے کا ایک اونٹ جو غلطی سے چرتے چرتے ایک زمیندار کی زمین پر نکل گیا، زمیندار صاحب کو اپنے کھیتوں پر ایک کم عقل جانور کی یہ حرکت اس حد تک ناگوار گزری کہ انھوں نے اپنی عقل بھی اسی جانور کی عقل کے برابر کرلی، اونٹ کو پکڑلیا اور لڑکے کو سزا کے طور پر اس اونٹ کی ایک ٹانگ سے باندھ دیا اور اسے دوڑایا، اب ذرا سوچیے وہ اونٹ کیسے کیسے میدانوں میں دوڑا ہوگا اور اس کے پیر سے بندھا معصوم بچہ اس کے پیر کے ساتھ زمین پر رگڑتا گیا، اس بھیانک تشدد کے دوران لڑکا چیختا چلاتا رہا لیکن زمیندار پر اثر نہ ہوا، اس عمل سے لڑکے کے جسم کی ہڈیاں کئی جگہ سے ٹوٹ گئیں اور بالآخر اس نے اپنی جان دے دی، اسے اسپتال تو پہنچادیا گیا لیکن وہ تو کب کا اپنی جان سے گزر چکا تھا، اگر لمحہ بھر خدا کی بخشی دولت کے نشے میں جو وہ شخص سوچ لیتا کہ اس سے اس لڑکے کی جان بھی جاسکتی ہے تو شاید ایسا نہ ہوتا لیکن اپنی طاقت کی مستی کا نشہ ایسا تھا کہ تمام باتیں پس پشت ڈال دی گئی۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی اسی طرح کی ایک ہولناک واردات پیش آئی جب گاؤں کے نمبردار کے گھر شادی کی تقریب میں ایک چھ سالہ خانہ بدوش بچی نے شادی میں شامل لوگوں سے بریانی مانگی، اس معصوم بچی کو علم ہی نہ تھاکہ لذیذ چاولوں کی ایک پلیٹ کے عوض اسے اپنی جان سے ہی جانا پڑے گا، بچی نے بریانی مانگنے میں ضد کی جیسا کہ ہم بھی عادی ہی ہیں کہ سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے اور کچھ لوگ پیچھے ہی پڑجاتے ہیں لیکن اس شادی میں شامل چند اوباش نوجوانوں کو دیکھیے جنہوںنے اس بات پر اس قدر غصہ کیا کہ پکڑ کر بچی کو کھولتے پانی کے برتن میں پھینک دیا، کیا اس طرح ان کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تھا، یقیناً نہیں۔
ایسا کرتے ہی وہ اپنی شیطانی سحر سے تو نکل گئے کیونکہ بچی کے چیخنے چلانے نے ان کو صورتحال کی سنگینی کا احساس دلادیا تھا لہٰذا اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے، لوگوں نے بچی کی آہ و بکا پر اسے نکالا اور اسے اسپتال پہنچایا گیا لیکن بچی کا وجود تو جھلس چکا تھا، معصوم چھ سالہ بچی کا دل اور کس قدر احتجاج کرتا، چیخ چیخ کر خاموش ہوگیا۔
اخبار میں چھپنے والی ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی خبریں انسانی عقل سے سوال کرتی ہیں کہ اے ابن آدم! کیا خدا کی بخشی ہوئی نعمتیں صرف تیرے لیے ہیں، کیا خدا نے اس میں سے دوسروں کے لیے تجھے حصہ نہیں بھیجا، یا تو خدا کے دوسروں کے لیے بھیجے ہوئے حصے کو بھی ہڑپ کرگیا...؟ اور اس ہڑپ کیے ہوئے حصے پر اتنا غرور اتنی اکڑ کہ دوسروں کے لیے عذاب ہی بن گیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے خدا سے ڈرنا ہی چھوڑ دیا ہے، ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ جب مریں گے تب دیکھا جائے گا، لیکن وہ اس حقیقت سے ذرہ برابر بھی واقف نہیں کہ اس تب میں تو سارے راز پوشیدہ ہیں، یہ دنیا تو محض ایک کلاس روم کی مانند ہے، خدا نے انسان کو اس کلاس روم میں کچھ اصول و ضوابط کے ساتھ اتارا ہے لیکن انسان ان تمام اصولوں، تمام ضوابط و اخلاق کو کہیں رکھ کر شریر بچوں کی طرح اس میں اچھل کود، شرارتیں کرتا رہتا ہے، اپنے نتیجے سے ناواقف انسان اگر لمحہ بھر کے لیے بھی ایسا سوچ لے تو یقیناً فائدے میں رہے گا۔
نوجوان حمزہ کی موت نے شاہ زیب کے قتل کے کیس کو پھر سے نظروں کے سامنے تازہ کردیا، کیس کی نوعیت کیا تھی وہ ایک طرف لیکن دولت اور غرور کی اکڑ نے کیا کھیل کھیلے کہ اب کیا اندرون سندھ اور پنجاب کے کم سہولتوں والے گاؤں اور کیا ڈیفنس کا پوش علاقہ سب برابر ہوگئے۔ ہم اپنی اولاد اور دولت کی چاہ میں اتنا آگے نکل گئے کہ اس کی خاطر دوسرے انسانوں کو چیونٹی کی طرح رگڑتے ہوئے آگے نکل جاتے ہیں، یہ سوچے بنا کہ یہ دنیا ایک آئینہ بھی ہے، آپ نے تو کسی کو دکھادیا بس انتظار کریں اوپر والا آپ کو اس آئینے میں آپ کا اپنا چہرہ کب دکھاتا ہے...؟