انتخابی تقریریں‘جوش و ہوش کا پیمانہ

سب سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر سننے کے بعد محسوس یوں ہوتا ہے جیسے سب کے لیے تقریریں لکھنے والا ایک ہی شخص ہے.


احمد خان May 06, 2013

ایک دن میں کئی کئی جلسے کیے جا رہے ہیں، کچھ سیاسی جماعتوں کے سربراہان ایک دن میں کئی کئی شہروں اور قصبوں میں جلسے نمٹانے کی راہ اپنائے ہوئے ہیں، ہر جلسے میں تقاریر اور پرجوش جملوں کا استعمال ہماری سیاست کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

انتخابی جلسوں کی وہی مخالفانہ روش ہے۔ ایک مقام جلسہ پر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین پر طنز کررہے ہوتے ہیں تو دوسری جانب میاں برادران اپنے سیاسی مخالف کی 'خبر' لینے کی مشق کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ حال چال صرف پی ٹی آئی اور ن لیگ پر ہی مو قوف نہیں، سیاست اور انتخابات میں سرگرم ہر سیاسی جماعت مخالفانہ ''تو تو میں میں'' کو ہی اپنی سیاسی مہم کی کامیابی تصور کرتی ہے۔ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، ہر ایک کے بیان کا لب لباب کیا سامنے آتا ہے؟ کہ گیارہ مئی کو سب سیاسی مخالفین کا صفایا اور اس کے اقتدار کا جشن ہوگا۔ کیا صرف مخالفانہ طرز سیاست ہی اقتدار میں در آنے کا ذریعہ اور سبب ہے؟

سب سیاسی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر سننے کے بعد محسوس یوں ہوتا ہے جیسے سب کے لیے تقریریں لکھنے والا ایک ہی شخص ہے۔ سیاسی مہم تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ایک منظم اور پراثر عوامی فورم ہے، اس فورم سے سیاسی جماعتیں اگر اپنے مستقبل کے پروگرام، پالیسیاں اور مستقبل میں حکومتی اور سیاسی سطح پر اختیار کیے جانے والے طرز عمل سے عوام کو آگاہ کریں، تو شاید اس سے سیاسی جماعتوں کا مفاد بھی پورا ہوسکتا ہے اور عوام بہتر انداز میں اپنے ووٹ کے اہل امیدوار کا چناؤ کرنے میں بھی آسانی محسوس کریں گے۔

وہ سیاسی آب و ہوا جس میں یہ قوم 65 سال سے رہی ہے، 65 سال جس قوم کو مختلف نعروں میں الجھا کر بے وقوف بنانے کی مشق کی گئی ہے، کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس بار سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مہم میں مخالفین کے غبارے سے ہوا نکالنے کے بجائے اپنی کارکردگی، اپنا سیاسی طرز فکر اور اپنے منشور کے بل پر عوام سے رابطہ کرتیں، عوام کو راغب کرنے کا بہترین وقت اور موثر طریقہ یہ ہے جس سے سبھی سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔ محض مخالفین کے کردار پر کیچڑ اچھالنے اور تبرہ کرنے کی روش سے ملک میں نفرتوں کی فصیلیں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن عوام کی سیاسی تربیت اور عوام کی بھلائی کا فریضہ انجام نہیں پاسکتا۔

کیا عوام کے مسائل اس وقت عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں ڈسکس کر رہی ہیں؟ بجلی کی عدم دستیابی سے عوام بے حال ہیں لیکن اس اہم ترین مسئلے پر کوئی بھی سیاسی جماعت بات کرنے سے گریزاں ہے۔ روزگار کا قضیہ اس وقت ہر گھر کا مرثیہ ہے لیکن انتخابی اور سیاسی دوڑ میں شامل کوئی بھی سیاسی جماعت بے روزگاری کے خاتمے کا واضح روڈ میپ نہیں دے پائی۔ دہشت گردی اب مسئلے سے زیادہ قومی ناسور بن چکا ہے، حالت یہ ہے کہ ایک دن میں کئی دھماکے ہورہے ہیں، روز کا معمول بننے والے ان دھماکوں میں لوگ بھی مر رہے ہیں اور املاک بھی تباہ ہورہی ہیں۔

ملک کی سماجی اور معاشرتی فضا میں دہشت گردی کا خوف رچ بس چکا ہے، لیکن اس اہم ترین ملکی اور عوامی ایشو پر کسی بھی سیاسی جماعت نے جامع روڈ میپ پیش کیا ہے؟ سابقہ حکومتوں کی دہشت گردی کے مسئلے سے چشم پوشی اور اس سنگین ترین قومی مسئلے کے بارے میں ''ڈنگ ٹپاؤ'' قسم کے طرز عمل سے اب یہ معاملہ ملک اور عوام کے لیے ناسور بن گیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس ناسور بننے والے ایشو پر سابق اقتداری جماعتوں کی طرح آج اقتدار میں آنے کی خواہش مند سیاسی جماعتیں بھی واضح پالیسی سامنے لانے سے قاصر ہیں۔ ملک کو درپیش مسائل پر کسی بھی سیاسی جماعت کی نظر نہیں ٹھہر رہی ہے، ہر ایک سیاسی جماعت اپنی تعریفوں کے پل اور سیاسی مخالفین پر بے جا تنقید کے زور پر سیاسی مہم چلانے کی راہ رو ہے۔ عوام کا مسئلہ دانش اسکول، آشیانہ اسکیم، بے نظیر انکم سپورٹ کے ذکر اذکار سے حل نہیں ہوگا۔

عوام اپنے حقیقی مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ بہت سے احباب سر پر آنے والے الیکشن سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ لیکن؟ پنگھوڑے سے پہچانی جانی والی سیاسی جماعتوں کے طرزعمل سے کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے جو بھی اقتدار میں آئے گا وہ ملک کو زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس فیصد ''آسانی'' دے پائے گا؟ کسی بھی سیاسی جماعت کا ابتدائی امتحان اس کی جانب سے چلائی جانے والی سیاسی مہم ہوا کرتی ہے، اگر سیاسی مہم کو ''پرکھ'' کا ابتدائی مرحلہ قرار دے کر اس کی جانچ کی جائے تو آج تک تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مہم میں عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے بارے میں واضح اور جامع پلان پیش کرنے سے غافل ہیں۔

جب سیاسی مہم میں عوام کے مسائل سے روگردانی کا سلسلہ چل رہا ہے، پھر اقتدار میں آکر کس نے ان عوامی مسائل کے حل کی جانب مخلصانہ ہاتھ بڑھانے ہیں؟ بہت سے احباب ان گزارشات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ بصد احترام عرض ہے کہ خوش امیدی کوئی جرم نہیں لیکن زمینی حقائق بہرطور ہر چیز پر فوقیت رکھتے ہیں۔ قلم کا حق اور ضمیر کا فرض ہے کہ قاری کو وہ کچھ دکھا اور سمجھا دیا جائے جو ''اصل'' میں ہورہا ہوتا ہے۔ جب بھی الیکشن آئے، ہر الیکشن کی شان میں بغیر سوچے سمجھے ہم نے خوب قصیدے لکھے لیکن بعد میں اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی 'ہجو' لکھنے میں بھی ہم لوگ ہی امام بننے کی دوڑ میں پہلے نمبر پر ہوتے ہیں۔ سو ہمیں اپنی خوبیوں کو خوبی اور خامیوں کو خامی کے پلڑے میں ڈال کر چلنا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ تبھی ہم بہتری کی جانب سفر جاری رکھ سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں