حبیب جالب کے والد رقم طراز ہیں
لیکشن ہونے والے ہیں، اقتدار پارٹی پھر عوام میں گھل مل کر شکار کے لیے عوام کو آلہ کار بنائیں گے...
آج کل والد صاحب کے قلمی نسخہ جات کو ترتیب دے رہا ہوں۔ ان کی تحریروں کو کتابی شکل دینا ہے۔ اﷲ مجھے اپنے ارادوں میں کامیابی عطا فرمائے، آمین۔ والد صاحب نے اپنی تحریروں میں اسلام، رسول اﷲ، پیغمبران، صحابہ رضوان اﷲ، اولیاء کرام، پیرفقیر، اﷲ کے نیک بندوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے علاوہ آپ بیتی، جگ بیتی بھی قلم بند کی ہے۔ والد صاحب کے انھی سیکڑوں صفحات میں سے تین چار صفحات نذر قارئین کررہا ہوں۔ یہ تحریر تقریباً پچاس برس پرانی ہے اور اپنے وطن پاکستان کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
''الیکشن ہونے والے ہیں، اقتدار پارٹی پھر عوام میں گھل مل کر شکار کے لیے عوام کو آلہ کار بنائیں گے۔ اقتصادی خرابی کا رونا روئیں گے، ملک ودولت کے دعویدار بنیں گے، ہر رنگ میں مزے دار تقریریں کریں گے۔ یہ سب چکر بازی سرمایہ داروں کی ہے۔ کبھی ''وہ'' نیچے کبھی ''یہ'' اوپر۔ یہ لوگ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔
حقیقتاً غریبوں کا خون سب ہی چوستے ہیں، اپنے اقتدار کی خاطر غریب کو بھٹی میں جھونک دینا ہی ان کا کام ہے۔ غریب کو سولی پر بھی چڑھا کر کہتے ہیں ''چڑھ جا بیٹا! سولی پر، رام بھلی کرے گا''۔ یہ اقتدار کے بھوکے اپنی اولاد کو انگلینڈ، امریکا تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں اور غریب کو سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ''تم شیر دل ہو جیل چلے جاؤ گے تو مقبول ہوجاؤ گے''۔ ہوس اقتدار میں ان کے دلوں سے خدا ترسی اور ہمدردی ختم ہوگئی اور خوف خدا جاتا رہا۔ خدا ہمیں ایسے سیاست دانوں، لیڈروں سے محفوظ رکھے۔
سچی بات کہنے کا زمانہ نہیں رہا۔ آج جو بھی محب وطن، محب قوم اور عوام کا حامی بنتا ہے، یہ صرف زبانی کلامی اور محض لفافہ بازی ہے۔ اور مصیبت کے وقت غریبوں کا کوئی ساتھی نہیں بنتا۔ خدائے پاک سے میری تو بس یہی دعا ہے کہ خداوند اپنی رحیمی و کریمی سے ملک پاکستان کو ظالموں سے بچائے، والیان پاکستان کو خدا اسوۂ حسنہ دے اور اہلیان پاکستان کو اتحاد، تنظیم، ہمدردی اور یقین محکم عطا فرمائے (آمین!)۔
خداوند یہ پاکستان محض تیری ذات پاک کا کرم ہے جو ہم مسلمانوں کو ایک الگ خطہ مل گیا ہے۔ جہاں ہم اگرچہ اس حقیقی آزادی کو ترستے ہیں جہاں آج بھی اسلامی قانون نافذ نہیں ہے۔ خدایا ! ہماری فریاد سن لے۔
الٰہی پھر کوئی اب صاحب قرآن پیدا کر
زمانہ منتشر ہے اس میں اطمینان پیدا کر
الٰہی پھر جہاں میں عدل فاروقی ہویدا ہو
الٰہی پھر بمثل حیدر کرار پیدا ہو
ہمارے ملک میں حلال حرام سب چل رہا ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ غریب عوام کو اگر اندر سے پھولیے (ٹٹولیے) تو وہ ڈرے ہوئے سہمے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں سرمایہ دار طاقتور ہے۔ غریب کے گلے میں غلامی کا ایسا پٹہ ڈالا گیا کہ ان کے ذہن پست ہوگئے اور غریب ایسی پستی میں جاگرا کہ اس کی اوپر اٹھنے کی طاقت ہی ختم ہوگئی۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں نے غریب کو اپنی برابری کے قابل ہی نہیں رہنے دیا۔ یہ تفریق بہت پرانی چلی آرہی ہے۔ یہ تفریق کب تک چلتی رہے گی؟ غریب کب تک اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں سے محروم رہے گا؟ حالات یہ ہیں کہ غریبوں کے لیے ترقی کی راہیں مسدود ہیں۔ غریبوں کے بچے اچھی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی تعلیم سے محروم رہتے ہیں۔ غریب بیمار ہو تو اس کے لیے اسپتال میں داخلہ بند ہے۔ یہ تمام تنگ دستی، افلاس، معاشی کمزوری، کم تعلیم، جہالت، سب نچلے طبقے کے حصے میں آچکی ہے۔ جس کی ذمے داری سب ان طاقتوروں پر عائد ہوتی ہے۔
پیٹ کی بھوک ایک خاص چیز ہے۔ حیوانات، ڈھور ڈنگر سے لے کر انسانوں تک سب کو پیٹ لگا ہوا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے انسان، انسانوں کی غلامی کرتا ہے۔ بغیر کھائے گائے، بھینس، بکری بھی دودھ نہیں دیتی، بیل اونٹ، گھوڑا، گدھا بھی کام نہیں کرتے۔
زندہ رہنے کے لیے انسان کچھ نہ کچھ دھندا ضرور کرتا ہے۔ غریب، عیال دار، مزدور، کاریگر اپنا خون پسینہ ایک کرکے محنت سے کماتا ہے، اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ مگر حقیقتاً جو لوگ روٹی، کپڑا، مکان، پانی اور تمام خور و نوش کی چیزوں یعنی تمام ضروریات زندگی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں، وہ آخر خدا کو کیا جواب دیں گے؟ کبھی انھوں نے سوچا، یا پھر ان کا خدا اور آخرت پر ایمان ہی نہیں ہے؟
میں نے بھی تمام عمر محنت مزدوری کرتے ہوئے گزاری ہے، رزق حلال سے بچوں کی پرورش کی ہے۔ اﷲ اپنے بندوں کی محنتوں کا پھل ضرور بہ ضرور عطا کرتا ہے۔ سو اﷲ نے میری اور میری اہلیہ کی دن رات کی ریاضتوں کا صلا یوں عطا فرمایا کہ ہمارے بچے پڑھ گئے اور ان کے ہاتھوں میں قلم آگئے۔ خصوصاً میرے ایک بیٹے حبیب جالب نے قلم کو ہتھیار بنالیا۔ وہ سچ لکھتا ہے۔ سچ بولتا ہے۔
اب دوران ملاقات بہت سے لوگ مجھے کہتے ہیں کہ ''حبیب جالب کو سیاست نے کیا دیا؟ یہ تو جاگیرداروں، وڈیروں، خانوں، سرداروں کا کھیل ہے'' کوئی کہتا ہے کہ سیاست دان مطلب پرست لوگ ہوتے ہیں اور حبیب جالب بھوکے غریب لوگوں کی پارٹی سے منسلک ہے (نیشنل عوامی پارٹی) اگر یہ حکومتوں سے مل کر رہتا تو بڑے اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا۔ آپ اپنے بیٹے کو سمجھاؤ کہ یہ حکومتوں کے خلاف نہ بولا کرے، خاموش رہے، اپنے خیالات بدل دے، خوامخواہ قیدوبند کی صعوبتیں اٹھاتا ہے، اس کو ان لیڈروں سے کیا ملے گا، کل کو وہ تو وزیر بن جائیں گے''۔
میں ان کم نظر لوگوں کی باتیں بھی سن لیتا ہوں، یقیناً یہ ناسمجھ ہیں، ابن الوقت قسم کے لوگ، سچائی سے بہت دور، مگر میں ان معززین سے یہی کہوں گا کہ میرے حبیب کو خدا نے دردمند دل عطا کیا ہے، خدا اس کی عمر دراز کرے یہ کسی بھی قیمت پر خریدا نہیں جاسکتا۔ یہ وہ انمول موتی ہے جسے خدا نے اپنی رحمت کے خزانے سے دنیا کو عطا کیا ہے۔ یہ غریبوں، مزدوروں، ہاریوں، کسانوں کا حبیب ہے اور یہ ان کی حمایت کرتا رہے گا، کرتا رہے گا۔ اس کا مقصد حیات حق گوئی، حق پرستی ہے اور وہ کہتا ہے:
مرے ہاتھ میں قلم ہے ، مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا، کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم، تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں ، تو غروب ہونے والا