اس تباہی کے ذمے دار سیاست دان نہیں
حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے ہی ان تمام کرپٹ لوگوں سے لوٹے ہوئے دولت واپس لی جاتی۔
تاریخ کا چہرہ کبھی مسخ نہیں ہوتا، لیکن جب کوئی قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے تو اس کا جغرافیہ ضرور بدل جاتا ہے، ہوائیں کتنی ہی بے رحم کیوں نہ ہوں پھر بھی امید فردا انسان کو زندہ رکھتی ہے کہ شب کے بعد سحر یقینی ہے، لیکن کیسی ہے اس ملک کی ہسٹری کہ روشنی آنے بھی نہیں پاتی کہ اندھیرے اپنا ڈیرہ جمالیتے ہیں۔ شاید وہ کوئی وقت ہوگا جب ارضِ پاک کی فضاؤں میں خوشیوں کے بادل امڈ امڈ کر آئے ہوں اور ذرہ ذرہ آفتاب بن گیا ہو، اور اب تو ایک ہی حال ہے شب ماہ سے شب تار تک یا پھر بقول شخصے
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ ملک کو اس نہج میں پہنچانے میں نہ سیاست دانوں کا قصور ہے نہ ایوان بالا کا اور نہ ہی فوج کا۔ ڈکٹیٹر کی اصطلاح ہمارے ہاں منفی معنوں میں استعمال ہوتی ہے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور ملک میں جمہوریت کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ آزادی رائے، آزادی صحافت بہت اہم سہی، لیکن ہم نے آزادی کو دشنام طرازی کے نام کردیا، رہی صحافت تو اس میں اتنی زردی آگئی ہے جس نے بلیک میلنگ کا روپ دھار لیا۔
پہلے سنا تھا کہ لفافے ڈاک کے کام آتے تھے، پھر شادی بیاہ میں ان میں رکھ کر پیسے دیے جاتے تھے، مگر اب اس کا مصرف کیا آپ کو معلوم ہے جو ایک کرپٹ، بدمعاملہ شخص کو اس طرح نواز رہے ہیں، جیسے اس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو، سو تب ہماری ناقص فہم میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ سیاستدان کیوں جیتتے ہیں، عمران خان باریوں کا رونا کیوں روتے ہیں، ان تمام ضمیر فروش اور زرپرستوں کو اسمبلیوں میں بٹھانے والے عوام ہیں اور انھی کا کیا دھرا ہے جو ملک اس حال میں پہنچا ہے، ہم بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم کا رونا روتے ہیں، اس مسئلے پر بڑے بڑے ٹاک شوز ہوتے ہیں، سڑکوں پر بازاروں میں اسٹریٹ اینکر سب کی رائے معلوم کرتے ہیں، نوے فیصد عوام کا یہی کہنا ہے کہ ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔ بیروزگاری نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا۔
بیماری نے اپنا ڈیرہ جمالیا، تشنہ لبی نے کربلائی یاد دلائی ہے، عدم مساوات نے پاکستان کو دنیا کا پسماندہ ترین ملک بنادیا، جو صرف ایتھوپیا اور صومالیہ سے بہتر ہے، اس سرزمین پر دو دنیائیں ہیں جہاں مرتے کو مارو اور بھرتے کو بھرو کا نظام قائم ہے۔
تازہ ترین اطلاع کے مطابق وفاقی ملازمین کو پنشن میں 4 ہزار کا اضافہ کیا گیا ہے، بیورو کریٹ کی تنخواہ میں کوئی سو فیصد، ایسے میں صوبائی ملازمین اگر شکوہ کریں تو کیا حق بجانب نہیں ہوگا، سب یہ بات جانتے ہیں کہ ایک ایماندار پنشنر اپنی تمام جمع پونجی بچوں کی شادیوں اور قرضوں میں خرچ کردیتا ہے، اس کے پاس رہنے کو چھت بھی ضروری نہیں کہ ہو اس پر یہ تفادت، یہ ظلم، یہ فرق کیوں؟ کیا وفاقی ملازمین کے سرخاب کے پر لگے ہیں؟ ہر جگہ لابی ہے، صحافت ہو، سیاست دان ہو، ادب ہو، یہاں تک کہ خاندان بھی اس سے مبرا نہیں، کل پرسوں تمام ٹی وی چینلز پر بڑا شور برپا تھا کہ کیپٹن صفدر صاحب گرفتاری دینے تشریف لارہے ہیں۔ دو دن تک مفرور رہنے کے بعد ان کی یہ قربانی سمجھ میں تو نہیں آتی مگر ان کا وہ فقید المثال استقبال کیا گیا جیسے بقول عمران خان انھوں نے کشمیر فتح کرلیا ہو، میرے خیال میں کیپٹن صفدر کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں، یہ ان کی مجبوری تھی کہ ان کو بہرحال آنا تھا اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ کسی بند گلی سے تو نہیں آتے، یہ اور بات کہ اب وہ بند گلی میں آگئے ہیں۔
سنا ہے کہ لاہور میں پھول والوں کی چاندی ہوگئی کہ کئی من گلاب کی پتیاں آناً فاناً میں فروخت ہوگئیں۔ احمق حضرات یہ سمجھے کہ شاید آج کسی بزرگ کا عرس شریف ہے جن کی درگاہ پر یہ بھر بھر کر گلاب کی پتیوں کے ٹوکرے جارہے مگر میڈیا سے پتہ چلا کہ نہیں ایسا نہیں، نواز شریف کے داماد لاہور کی سرزمین پر قدم رنجہ فرمارہے ہیں، یہ مناظر دیکھ کر ناظرین نے بے چارے کیپٹن صاحب کو برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ ذرا ان کے تیور دیکھیے کس سج دھج اور شان بان سے تشریف لارہے ہیں اور کس قدر اعتماد اور رعونت سے فرمارہے ہیں کہ ن لیگ ہی فاتح ہوگی۔ یوں تو ہم بنیادی طور پر اس کرپٹ مافیا کے خلاف ہیں، خواہ وہ کسی جماعت کا ہو مگر اس دن ہم کو داماد صاحب پر ذرا تاؤ نہ آیا، اس لیے کہ جس قدر پرتپاک طریقے سے عوام نے انھیں ویلکم کیا تو ان کا انداز ایسا ہی ہونا تھا کہ خوشامد انسان کو رام کرنے کا سب سے بڑا حربہ ہے حیرت اور رنج اس بات پر ہے کہ کیا ہمارے لوگوں کی عقل گھانس چرنے گئی ہے جو ایک کرپٹ بدمعاملہ شخص کو اس طرح نواز رہے ہیں جسے اس نے کوئی بہت بڑاکارنامہ انجام دیا ہے ۔
سو الیکشن کی آمد آمد ہے، بڑے بڑے نعرے، دلکش دعوے، دلفریب دعوے، بڑے بڑے پینافلیکس میں نصب ہیں، عظیم الشان جلسوں میں شرکت کرنے کے لیے اس قوم کے پاس بڑا وقت ہے، تالیاں بجانے سے ان کے مسئلے حل نہیں ہوںگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نیب بے رحم احتساب کرے اس لیے کہ انقلاب صرف اسی صورت میں آتا ہے جب انصاف ہو اور انصاف جب ہوگا جب صرف میاں صاحب کا خاندان ہی نہیں وہ سب سزا بھگتیں جنھوں نے قوم کا پیسہ بیدردی سے لوٹا ہے، مگر یہاں تو ان گنہگار آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا جب ہمارے ایک معزز وزیر صاحب کو سونے کا تاج پہناکر بہترین پارلیمنٹیرین کا اعزاز دیا گیا، یہ وہی موصوف ہیں جن کے گھر سے اربوں روپے برآمد ہوئے تھے۔
ضرورت تو اس بات کی تھی اور حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے ہی ان تمام کرپٹ لوگوں سے لوٹے ہوئے دولت واپس لی جاتی ان کو ٹکٹ نہ دیے جاتے مگر ایسا ابھی تک نہیں ہوا تو صاحبو اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ گناہ کرنے والوں کو گناہ کی ترغیب کون دیتا ہے؟
تھوڑی سی تبدیلی کے بعد پھر وہی قیامت کا سماں ہوگا، وہی رہزن ہوںگے، وہی لٹیرے جو عوام کی عقل پر پتھر ڈال کر کامیاب ہوتے ہیں اور اپنی شاطرانہ چالوں سے ایوان بالا میں براجمان ہوجاتے ہیں، اب ہمارے ملک کی سیاست خاندانوں کی جاگیر بن گئی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اﷲ تعالیٰ نے ہم سے عقل سلیم واپس لے لی ہو، مشہور مقولہ ہے کہ جیسی قوم ویسے حکمران، یہ حکمران اپنا قبلہ بھول جائیں اگر عوام اس بات کا عزم کرلے کہ ان کو دوبارہ مسند اقتدار پر نہیں لانا، ورنہ یقین کیجیے کہ پاکستان کی مثال اس وقت ٹائی ٹینک کی سی ہے، یہ جہاز ڈول رہا ہے، خدارا اسے ڈوبنے سے بچالیں اور ان لوگوں کو ووٹ نہ دیں جن کے نام بلیک لسٹ میں شامل ہیں جنھوں نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنائے اور ملک کی تعمیر کرنے کے بجائے اپنے محلات کی تعمیر کی۔خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے وہ بہار جسے اندیشۂ خزاں نہ ہو۔ ورنہ خدانخواستہ وقت آئے گا کہ لوگ دنیا کے نقشے پر پاکستان کو تلاش کرتے کرتے نابینا ہوجائینگے۔