الیکشن کمیشن کا امتحان

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یوم شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی یقین دہانی کرائی...


MJ Gohar May 06, 2013

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یوم شہداء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر کی یقین دہانی کرائی ہے کہ انتخابات بہرصورت 11 مئی کو ہوں گے، اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، یہ ایک سنہری موقع ہے جس سے جمہوریت کی اعلیٰ روایات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ فوج اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر آئینی حدود میں رہتے ہوئے انتخابات کے صاف و شفاف اور پرامن انعقاد میں بھرپور معاونت کرے گی، جنرل کیانی نے واضح طور پر کہا کہ بیرونی دشمن انتہاپسندی کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف فوج کی لڑائی سمجھنا انتشار کی طرف لے جائے گا جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں پاک فوج، ایف سی، لیوی اور پولیس کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور لواحقین کے بلند حوصلوں کو سراہا۔

جنرل کیانی کے خطاب پر ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں نے اپنے اپنے انداز میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ انتخابات کے التوا کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔ یہ امر بہرحال خوش آیند ہے کہ فوج، عدلیہ، میڈیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان تسلسل کے ساتھ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں انتخابات بہرصورت 11 مئی کو ہوں گے الیکشن سے محض 10 روز قبل فوج کے سپہ سالار نے پختہ عزم و یقین کے ساتھ باور کراتے گویا مہر تصدیق ثبت کردی کہ الیکشن کے التوا کا کوئی امکان ہی نہیں اور پاک فوج ملک میں جمہوری کلچر کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں پوری طرح سنجیدہ اور یکسو ہے اور جمہوریت ہی کو عوام کے تحفظ اور فلاح و بہبود کی اساس سمجھتی ہے۔

فوجی قیادت کی سوچ میں یہ مثبت تبدیلی کی علامت ہے تاہم جنرل کیانی کے خطاب میں ملفوف الفاظ میں کچھ پیغامات اور اشارے بھی موجود ہیں جنھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ انھوں نے فرمایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہیں یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ کیا یہ ہماری جنگ ہے، فوج اس کا اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتی، ہم سب کو اس جنگ کے خلاف متحد ہونا پڑے گا کیونکہ وطن عزیز اس جنگ کے نقصانات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

آرمی چیف کے خطاب میں مذکورہ اشارے ان حلقوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں و رہنماؤں کے لیے کھلا پیغام ہیں جو شرپسندوں اور دہشت گر عناصر کی کھل کر مذمت نہیں کرتے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کو صرف فوج کی لڑائی سمجھتے ہیں، خاص طور سے دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں و رہنماؤں نے ملک کے طول و ارض میں ہونے والے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر کھل کر مذمتی ردعمل کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وہ طالبان کے لیے اپنے دلوں اور ذہنوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکشن مہم میں ان کے جلسے، جلوس اور ریلیاں ہر قسم کی دہشت گردی سے محفوظ ہیں، آپ میاں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، منور حسن اور مولانا فضل الرحمن کے گزشتہ چند روز کے انتخابی جلسوں میں کی گئی ان کی تقاریر پر غور کرلیں آپ پر سچائی آشکارا ہوجائے گی۔

انتہا پسند عناصر نے ملک کی لبرل سوچ اور نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں پی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ان جماعتوں کی انتخابی سرگرمیوں کو سبوتاژ کیا جارہا ہے۔ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنماؤں، انتخابی امیدواروں اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، کراچی میں ایم کیو ایم سب سے مقبول اور منظم و متحد سیاسی قوت ہے لیکن دہشت گرد عناصر ان کے دفاتر اور کارکنوں پر حملے کر رہے ہیں۔

نتیجتاً ایم کیو ایم نے اپنے انتخابی دفاتر بند کردیے ہیں، یہی صورت حال پی پی پی اور اے این پی کے ساتھ بھی ہے۔ یہ جماعتیں اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کی لاشیں اٹھا رہی ہیں۔ انتخابی جلسوں اور ریلیوں کے بجائے جنازے کے جلوس نکالے جارہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی دہشت گرد عناصر نے چاروں جانب اپنا نیٹ ورک اس قدر وسیع کردیا ہے کہ وہاں کی لبرل سیاسی جماعتیں پی پی اور اے این پی کے لیے انتخابی مہم چلانا ناممکن ہوگیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے جاری کردہ بیان کے مطابق وہ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو نشانہ نہیں بنائیں گے، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں امن سے شریف برادران اور عمران خان کھل کر وہاں انتخابی جلسے کر رہے ہیں۔

سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا صرف پنجاب ہی پاکستان ہے؟ باقی تین صوبے کسی اور ملک کا حصہ ہیں؟ کیا تبدیلی کے نعرے لگانے اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے دعویدار مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے رہنما صرف پنجاب کے لیڈر ہیں؟ کیا قومی سوچ اور قومی سطح کے لیڈر ہونے کے دعویدار صرف ایک صوبے سے فتح یاب ہوکر حکمران بننا چاہتے ہیں؟ کیا اس طرح یہ رہنما ملک کی سیاست کو علاقائی و صوبائی سطح پر تقسیم کرنے کا باعث نہیں بن رہے ہیں؟ کیا یہ تقسیم ہمیں 1970-71 کے حالات کی طرف نہیں لے جارہی ہے؟ کیا اس طرز عمل سے بیرونی قوتوں کو اپنا سازشی کھیل کھیلنے کے مواقع نہیں ملیں گے؟ کیا ایسے رہنما اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے مسمار کرنے کا سامان نہیں کر رہے؟

موجودہ حالات ارباب حل و عقد کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ملک کے مقبول اور لبرل نظریات کی حامی سیاسی جماعتوں پی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کی قیادت حالات کے جبر کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے۔ صدر آصف علی زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ولی نے متحد و منظم ہوکر ہر صورت الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دہشت گرد عناصر کی حمایت یافتہ جماعتوں کے لیے میدان کھلا نہ رہے، تینوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اسلام اور ملک کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ انتخابات کا شفاف انعقاد جمہوریت کے لیے ضروری ہے ورنہ عوام نتائج قبول نہیں کریں گے۔ موجودہ مخدوش حالات میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے کڑا امتحان ہے یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کے نتائج سب کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے، الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انتخابات کی شفافیت مشکوک ہوچکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔