انسان نما حیوان
ہمارے اردگرد بہت سی چیزیں خراب ہونے لگتی ہیں اور بھیانک شکل میں نمودار ہونے لگتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے انسان کی اصلی اور فطری حالت کو جاننے کے لیے ایک تجربہ کیا۔ اس نے چند نومولود بچوں کو الگ تھلگ کسی ایسی کال کوٹھری میں بند کردیا جہاں کسی دوسرے انسان کی پرچھائی بھی ان پر نہ پڑے۔ انھیں زندہ رکھنے کے لیے خوراک بھی اس طرح دی جاتی تھی کہ وہ خوراک دینے والے کو دیکھ نہ سکتے تھے۔
جب چند سال گزر گئے اور وہ بچے چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو انھیں باہر لایا گیا۔ باہر آنے کے بعد ان کی حالت یہ تھی کہ نہ تو وہ کچھ سمجھتے تھے اور نہ کسی بات کا جواب دے سکتے تھے۔ وہ آداب معاشرت سے قطعاً نابلد تھے۔ جانوروں کی طرح آوازیں نکالتے اور اچھل کود کرتے تھے۔ غرض ان میں انسانوں والی کوئی بات دکھائی نہ دیتی تھی۔وہ اپنی عادتوں اور حرکات و سکنات میں بالکل انسان نما حیوان تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر انسان کو تعلیم و تربیت میسر نہ آئے تو اس کے لیے انسان بننا ہی ممکن نہیں ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس تحریر میں جو تجربہ کیا گیا کچھ اس طرح کے رویے ہمارے اردگرد اب بھی موجود ہوتے ہیں حیوان تو نہیں لیکن حیوانوں جیسی حرکتیں، ایک پڑھا لکھا طبقہ جب ایسی حرکتیں کرنے لگے تو ان کو کیا کہا جائے گا؟کچھ ہفتے پہلے مجھے کچھ اسی طرح کے رویے نظر آئے جنھیں دیکھ کر صرف صد افسوس ہوا کہ ہم اب بھی تعلیم و تربیت سے سنور نہیں سکے۔وہ ایک موسیقی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ورکشاپ تھی،اس روز میں ہمیشہ کی طرح وقت کی پابندی کرتے ہوئے ٹھیک وقت پر ہال میں پہنچی، مجھ سے پہلے کچھ لوگ آچکے تھے اور میرے بعد بھی آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا، ان سب کا تعلق موسیقی سے تھا۔بہت سے لوگ جو میرے اردگرد نشستوں پر بیٹھے تھے، میں نے اس وقت محسوس کیا کہ غیر ملکیوں کے فنکاروں کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے بہت سے ہال میں بیٹھے لوگوں کے چہروں پر ایک خوشی نمایاں تھی۔ دراصل اس لیے بھی یہ ماحول نظر آیا کیونکہ جو ورکشاپ اسٹارٹ کرنے جا رہے تھے وہ ایک موسیقی کا بینڈ تھا جو یو ایس سے آیا تھا، اور یہ امریکن بینڈ گروپ تھا۔
کچھ ہی دیر میں ہال کچھا کھچ بھر گیا پہلے تو دھیمی آوازوں اور بے ہنگم ماحول کو دیکھتی رہی اور پھر جیسے ہی میوزک پروگرام شروع ہوا ہال میں بیٹھے موسیقی سے محبت کرنے والوں نے غیر ملکی موسیقی کو محظوظ کیا اور انگریزی زبان میں گیتوں پر خوشی سے جھومتے رہے۔ پروگرام کے درمیان میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے لڑکوں نے گروپس بنا کر مزید جھومنا شروع کیا۔چونکہ امریکن موسیقی کے بینڈ کی سربراہ خصوصی فنکارہ (سنگر) خاتون تھیں، یہی وجہ ہے کہ محظوظ ہونے والے پرجوش نظر آئے۔ ویسے دیکھا جائے تو کسی بھی موسیقی کے پروگرام میں لوگوں کا پرجوش ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن ڈھولک پر ناچ کرنا یا جھومنا تو بندر بھی کہیں بہتر طریقے سے فطری طور پر کرتا ہے لیکن جب انسان ہو تو پھر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے بندر کی طرح اچھل کود سے اجتناب کرے۔ تاکہ بندر اور انسان میں کچھ فرق نظر آئے۔
بہرحال موسیقی کے پروگرام کے آخر اور اختتام تک ہال میں بیٹھے موسیقی سے محبت کرنے والوں کا حال دیکھ کر جو غیر ضروری بلاوجہ ہنس رہے تھے اور آوازیں کس رہے تھے، شدید افسوس ہوا۔ وہاں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے سیٹیاں بجانا شروع کیں۔ اس ماحول کو دیکھ کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک عام سی بات ہے، لوگوں کا جھومنا، تالیاں بجانا اور سیٹیاں بجانا، ایسی محفلوں میں تو ہونا ایک روایت سا بن گیا ہے۔ لیکن کسی اور غیر ملک سے آئے ہوئے فنکاروں کے سامنے خود کو عجیب و غریب روپ میں پیش کرنا، انگریزی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ایک دوسرے کو آوازیں دینا اور انگریز سنگر خاتون کی توجہ حاصل کرنا، یہ دیکھ کر شدید افسوس ہونے لگا۔
بظاہر اس خاتون نے اپنے رویے سے محسوس نہیں کروایا لیکن جو ہال میں غیر ضروری طور پر شایقین نے پرجوشی دکھائی وہ سب دیکھ چکی۔ وہ کیا سوچتی ہوگی ہمارا معیار کیا ہے۔ ہم موسیقی کی محفلوں میں خود کو کیسے ڈھالتے ہیں اور اپنی حدود سے کس طرح پار ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ انسان کو خود اکثر اوقات اندازہ نہیں ہوتا کہ جو عمل یا حرکت وہ کر رہا ہے ٹھیک ہے یا نہیں، لیکن یہ اندازہ سامنے والا لگاتا ہے جو آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ایک دن میں نے بندر نچوانے والے مداری سے پوچھا کہ آپ بندر کو کس طرح ٹریننگ دیتے ہیں کہ وہ انسانوں کی طرح نقل بھی کرتا ہے اور انسانوں جیسا ہی دکھنے لگتا ہے۔
اس کا کہنا یہ تھا کہ میں بندر کو اپنے ساتھ چوبیس گھنٹے ساتھ رکھتا ہوں، وہ مجھے میری عادتوں اور روز مرہ کے کیے ہوئے کام، میرے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے طریقوں کو دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے اس کو ٹریننگ دینے میں آسانی ہوتی ہے۔اب اس بات سے اندازہ لگائیں ایک بندر انسان کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزارتا ہے اور وہ انسانوں والے عمل کرنے لگتا ہے لیکن ہم انسانوں میں بیٹھنے اٹھنے اور ساری زندگی ساتھ گزارنے کے باوجود وہ حرکات کر جاتے ہیں جو شاید اشرف المخلوقات کو نہیں کرنی چاہئیں۔
دنیا میں ایسے کتنے ہی ممالک ہیں جنھوں نے خود کو معاشرے میں تہذیب یافتہ قوم بننے کے لیے اپنے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں پر چلتے ہوئے اپنی قوم اور ملک کا نام تہذیب یافتہ ممالک میں شمار کروایا، غرض کہ وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہوں، جو دین نے ہمیں سمجھایا اور پیغام دیا اس سے ہٹ کر ہم اپنی من مانی سے زندگی گزارنے کے خواہش مند تو ہیں لیکن دین کے پیغام کی غیر مسلم پیروی کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔جب ہمارے اردگرد بہت سی چیزیں خراب ہونے لگتی ہیں اور بھیانک شکل میں نمودار ہونے لگتی ہیں تو پھر ہم ضرور دوسری چیزوں سے جو بہتر ہوں مطابقت اور مثالیں دینے لگتے ہیں۔
اسی طرح کے عوامل بات اور کہنے پر یہ مجبور کردیتے ہیں کہ غیر ممالک کے رہن سہن اور ہماری عام زندگی میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟میں نے اپنی تحریر کے آغاز میں بندر کی مثال دی، کیونکہ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے ہم مفروضوں پر زندگی گزاریں گے تو جھوٹ اور جھوٹی تعریفوں میں اپنی زندگی کا اصل مقصد کھو دیں گے یہی وجہ ہے کہ تہذیب کے دائرے سے اگر کوئی باہر نظر آئے نشاندہی کرنے کا سب کو حق ہونا چاہیے اگرچہ میں نے تہذیب کے دائرے سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں کو جب بھی دیکھا ہے وہ کسی ایک جگہ پر بڑی تعداد میں کھانا کھاتے دیکھا ہے، معذرت کے ساتھ ٹیلی ویژن پر کسی بھی سیاسی یا سماجی تقریب میں لوگوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر جنھوں نے دیگوں پر بھری ہوئی چاولوں سے پلیٹوں پر لڑتے دیکھا ہے، کیک کاٹنے کی تقاریب میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ چاول اور سالن زمین پر گرے ہوئے نظر آتے ہیں اور کیک پانچوں انگلیوں سے کھاتے ہوئے دیکھ کر اب اس صورتحال کو دیکھ کر کیا الفاظ استعمال کیے جائیں؟
فقط افسوس ہوتا ہے کہ نظم و ضبط تہذیب صرف نام کے رہ گئے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسکول میں چھٹی کے بعد اسٹوڈنٹس کی لائنیں (قطاریں) بنتی تھیں تاکہ دھکا ماری نہ ہو اور قطار میں چلتے ہوئے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن اس کے بعد میں نے کبھی اس طرح کی قطاریں نہیں دیکھیں، ہم نے قطار بنانا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ان صفوں سے باہر نکل آئے جو ہمیں قطاریں سیدھا راستہ دکھاتی تھیں، گلہ یہ ہے کہ یہ قطاریں اور نظم و ضبط غیر ممالک میں ہی دکھائی دیتا ہے اپنے وطن میں نہیں۔ہماری زندگیوں میں ربط نہیں رہا، ہم نے اپنی قطاریں خود توڑی ہیں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہونے سے تو نہیں لیکن جلسے جلوسوں کی بے ہنگم بھیڑ میں کھڑے ہونے سے نہیں کتراتے اور پھر جب گر کر ٹکرا کر زخمی ہوتے ہیں تو قصور وار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں۔
جب چند سال گزر گئے اور وہ بچے چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو انھیں باہر لایا گیا۔ باہر آنے کے بعد ان کی حالت یہ تھی کہ نہ تو وہ کچھ سمجھتے تھے اور نہ کسی بات کا جواب دے سکتے تھے۔ وہ آداب معاشرت سے قطعاً نابلد تھے۔ جانوروں کی طرح آوازیں نکالتے اور اچھل کود کرتے تھے۔ غرض ان میں انسانوں والی کوئی بات دکھائی نہ دیتی تھی۔وہ اپنی عادتوں اور حرکات و سکنات میں بالکل انسان نما حیوان تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اگر انسان کو تعلیم و تربیت میسر نہ آئے تو اس کے لیے انسان بننا ہی ممکن نہیں ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس تحریر میں جو تجربہ کیا گیا کچھ اس طرح کے رویے ہمارے اردگرد اب بھی موجود ہوتے ہیں حیوان تو نہیں لیکن حیوانوں جیسی حرکتیں، ایک پڑھا لکھا طبقہ جب ایسی حرکتیں کرنے لگے تو ان کو کیا کہا جائے گا؟کچھ ہفتے پہلے مجھے کچھ اسی طرح کے رویے نظر آئے جنھیں دیکھ کر صرف صد افسوس ہوا کہ ہم اب بھی تعلیم و تربیت سے سنور نہیں سکے۔وہ ایک موسیقی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی ورکشاپ تھی،اس روز میں ہمیشہ کی طرح وقت کی پابندی کرتے ہوئے ٹھیک وقت پر ہال میں پہنچی، مجھ سے پہلے کچھ لوگ آچکے تھے اور میرے بعد بھی آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا، ان سب کا تعلق موسیقی سے تھا۔بہت سے لوگ جو میرے اردگرد نشستوں پر بیٹھے تھے، میں نے اس وقت محسوس کیا کہ غیر ملکیوں کے فنکاروں کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے بہت سے ہال میں بیٹھے لوگوں کے چہروں پر ایک خوشی نمایاں تھی۔ دراصل اس لیے بھی یہ ماحول نظر آیا کیونکہ جو ورکشاپ اسٹارٹ کرنے جا رہے تھے وہ ایک موسیقی کا بینڈ تھا جو یو ایس سے آیا تھا، اور یہ امریکن بینڈ گروپ تھا۔
کچھ ہی دیر میں ہال کچھا کھچ بھر گیا پہلے تو دھیمی آوازوں اور بے ہنگم ماحول کو دیکھتی رہی اور پھر جیسے ہی میوزک پروگرام شروع ہوا ہال میں بیٹھے موسیقی سے محبت کرنے والوں نے غیر ملکی موسیقی کو محظوظ کیا اور انگریزی زبان میں گیتوں پر خوشی سے جھومتے رہے۔ پروگرام کے درمیان میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے لڑکوں نے گروپس بنا کر مزید جھومنا شروع کیا۔چونکہ امریکن موسیقی کے بینڈ کی سربراہ خصوصی فنکارہ (سنگر) خاتون تھیں، یہی وجہ ہے کہ محظوظ ہونے والے پرجوش نظر آئے۔ ویسے دیکھا جائے تو کسی بھی موسیقی کے پروگرام میں لوگوں کا پرجوش ہونا ایک فطری عمل ہے، لیکن ڈھولک پر ناچ کرنا یا جھومنا تو بندر بھی کہیں بہتر طریقے سے فطری طور پر کرتا ہے لیکن جب انسان ہو تو پھر اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے بندر کی طرح اچھل کود سے اجتناب کرے۔ تاکہ بندر اور انسان میں کچھ فرق نظر آئے۔
بہرحال موسیقی کے پروگرام کے آخر اور اختتام تک ہال میں بیٹھے موسیقی سے محبت کرنے والوں کا حال دیکھ کر جو غیر ضروری بلاوجہ ہنس رہے تھے اور آوازیں کس رہے تھے، شدید افسوس ہوا۔ وہاں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے سیٹیاں بجانا شروع کیں۔ اس ماحول کو دیکھ کر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک عام سی بات ہے، لوگوں کا جھومنا، تالیاں بجانا اور سیٹیاں بجانا، ایسی محفلوں میں تو ہونا ایک روایت سا بن گیا ہے۔ لیکن کسی اور غیر ملک سے آئے ہوئے فنکاروں کے سامنے خود کو عجیب و غریب روپ میں پیش کرنا، انگریزی ٹوٹی پھوٹی زبان میں ایک دوسرے کو آوازیں دینا اور انگریز سنگر خاتون کی توجہ حاصل کرنا، یہ دیکھ کر شدید افسوس ہونے لگا۔
بظاہر اس خاتون نے اپنے رویے سے محسوس نہیں کروایا لیکن جو ہال میں غیر ضروری طور پر شایقین نے پرجوشی دکھائی وہ سب دیکھ چکی۔ وہ کیا سوچتی ہوگی ہمارا معیار کیا ہے۔ ہم موسیقی کی محفلوں میں خود کو کیسے ڈھالتے ہیں اور اپنی حدود سے کس طرح پار ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ انسان کو خود اکثر اوقات اندازہ نہیں ہوتا کہ جو عمل یا حرکت وہ کر رہا ہے ٹھیک ہے یا نہیں، لیکن یہ اندازہ سامنے والا لگاتا ہے جو آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ایک دن میں نے بندر نچوانے والے مداری سے پوچھا کہ آپ بندر کو کس طرح ٹریننگ دیتے ہیں کہ وہ انسانوں کی طرح نقل بھی کرتا ہے اور انسانوں جیسا ہی دکھنے لگتا ہے۔
اس کا کہنا یہ تھا کہ میں بندر کو اپنے ساتھ چوبیس گھنٹے ساتھ رکھتا ہوں، وہ مجھے میری عادتوں اور روز مرہ کے کیے ہوئے کام، میرے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے طریقوں کو دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے اس کو ٹریننگ دینے میں آسانی ہوتی ہے۔اب اس بات سے اندازہ لگائیں ایک بندر انسان کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزارتا ہے اور وہ انسانوں والے عمل کرنے لگتا ہے لیکن ہم انسانوں میں بیٹھنے اٹھنے اور ساری زندگی ساتھ گزارنے کے باوجود وہ حرکات کر جاتے ہیں جو شاید اشرف المخلوقات کو نہیں کرنی چاہئیں۔
دنیا میں ایسے کتنے ہی ممالک ہیں جنھوں نے خود کو معاشرے میں تہذیب یافتہ قوم بننے کے لیے اپنے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصولوں پر چلتے ہوئے اپنی قوم اور ملک کا نام تہذیب یافتہ ممالک میں شمار کروایا، غرض کہ وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہوں، جو دین نے ہمیں سمجھایا اور پیغام دیا اس سے ہٹ کر ہم اپنی من مانی سے زندگی گزارنے کے خواہش مند تو ہیں لیکن دین کے پیغام کی غیر مسلم پیروی کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔جب ہمارے اردگرد بہت سی چیزیں خراب ہونے لگتی ہیں اور بھیانک شکل میں نمودار ہونے لگتی ہیں تو پھر ہم ضرور دوسری چیزوں سے جو بہتر ہوں مطابقت اور مثالیں دینے لگتے ہیں۔
اسی طرح کے عوامل بات اور کہنے پر یہ مجبور کردیتے ہیں کہ غیر ممالک کے رہن سہن اور ہماری عام زندگی میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟میں نے اپنی تحریر کے آغاز میں بندر کی مثال دی، کیونکہ انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیے ہم مفروضوں پر زندگی گزاریں گے تو جھوٹ اور جھوٹی تعریفوں میں اپنی زندگی کا اصل مقصد کھو دیں گے یہی وجہ ہے کہ تہذیب کے دائرے سے اگر کوئی باہر نظر آئے نشاندہی کرنے کا سب کو حق ہونا چاہیے اگرچہ میں نے تہذیب کے دائرے سے باہر نکلتے ہوئے لوگوں کو جب بھی دیکھا ہے وہ کسی ایک جگہ پر بڑی تعداد میں کھانا کھاتے دیکھا ہے، معذرت کے ساتھ ٹیلی ویژن پر کسی بھی سیاسی یا سماجی تقریب میں لوگوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر جنھوں نے دیگوں پر بھری ہوئی چاولوں سے پلیٹوں پر لڑتے دیکھا ہے، کیک کاٹنے کی تقاریب میں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ چاول اور سالن زمین پر گرے ہوئے نظر آتے ہیں اور کیک پانچوں انگلیوں سے کھاتے ہوئے دیکھ کر اب اس صورتحال کو دیکھ کر کیا الفاظ استعمال کیے جائیں؟
فقط افسوس ہوتا ہے کہ نظم و ضبط تہذیب صرف نام کے رہ گئے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسکول میں چھٹی کے بعد اسٹوڈنٹس کی لائنیں (قطاریں) بنتی تھیں تاکہ دھکا ماری نہ ہو اور قطار میں چلتے ہوئے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جائے، لیکن اس کے بعد میں نے کبھی اس طرح کی قطاریں نہیں دیکھیں، ہم نے قطار بنانا چھوڑ دیا ہے۔ ہم ان صفوں سے باہر نکل آئے جو ہمیں قطاریں سیدھا راستہ دکھاتی تھیں، گلہ یہ ہے کہ یہ قطاریں اور نظم و ضبط غیر ممالک میں ہی دکھائی دیتا ہے اپنے وطن میں نہیں۔ہماری زندگیوں میں ربط نہیں رہا، ہم نے اپنی قطاریں خود توڑی ہیں اور ایک ہی صف میں کھڑے ہونے سے تو نہیں لیکن جلسے جلوسوں کی بے ہنگم بھیڑ میں کھڑے ہونے سے نہیں کتراتے اور پھر جب گر کر ٹکرا کر زخمی ہوتے ہیں تو قصور وار کسی اور کو ٹھہراتے ہیں۔