آوارہ کتوں سے شہری خوف زدہ
کتا ایک وفادار جانور ہے جسے عموماً گاؤں میں لوگ گھروں کی حفاظت کے لیے پالتے ہیں...
کتا ایک وفادار جانور ہے جسے عموماً گاؤں میں لوگ گھروں کی حفاظت کے لیے پالتے ہیں، یہ جانور وہ ہے جو بھوکا رہ کر بھی مالک کا گھر نہیں چھوڑتا مگر جب پاگل ہوجاتا ہے تو مالک کو بھی کاٹ کھاتا ہے، شہر کے کئی عالی شان بنگلوں کے محافظ بھی خطرناک مگر تربیت یافتہ کتے ہیں۔لیکن ان کتوں کا کیا کریں جو آوارہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور ان کی کسی سے بھی کوئی جان پہچان نہیں ہوتی اور وہ ہر آنے جانے والے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
جب کتوں کی میٹنگ سیزن ہوتی ہے تو یہ بڑی تعداد میں گلیوں اور کوچوں میں گھومتے پھرتے ہیں، آپس میں اتنا لڑتے ہیں کہ ایک دوسرے کو لہولہان کردیتے ہیں، ان کے زخموں میں کیڑے پڑجاتے ہیں جن کا کوئی علاج کرنے والا نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں ان میں بہت ساری ایسی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں جس کا اثر انسانوں اور ارد گرد کے ماحول پر پڑتا ہے، زخمی کتا کوشش کرتا ہے کہ ایسی جگہ چھپا رہے جہاں وہ سب کو دیکھے مگر اس کو کوئی نہ دیکھے، ایسے زخمی کتے پاگل اور باؤلے ہوجاتے ہیں اور وہ بظاہر چپ گاڑی کے نیچے یا پھر درخت کے سائے میں پڑے رہتے ہیں اور جیسے ہی کوئی بچہ، عورت یا پھر مرد وہاں سے گزرتا ہے یہ اس پر اچانک حملہ کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ جب کتیا بچے دیتی ہے تو وہ بھی لوگوں کو اس جگہ سے گزرنے نہیں دیتی، کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ لوگ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
کتا دن بھر سوتا ہے اور رات میں جاگتا ہے اور خاص طور پر سردیاں تو ان کا آئیڈیل موسم ہے، کیونکہ اس موسم میں راستے اور گلیاں جلد سنسان ہوجاتی ہیں، اس لمحے کو کتے اپنی سلطنت تصور کرتے ہیں اور خاص طورپر وہ چلتی ہوئی گاڑیاں، موٹر سائیکل اور سائیکل کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر آپ گاڑی آہستہ کریں تو یہ خاموش ہوجاتے ہیں، پیدل چلنے والے تو ان کا شکار ہیں، ایک وقت تھا کہ ضلعی انتظامیہ اور میونسپل انتظامیہ مل کر ایک لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔
جس کے نتیجے میں شہر کے آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ختم کرنے کے لیے سال میں دو مرتبہ ایک مہم چلاتے تھے، جس کے تحت زہر کی گولی کو گوشت کے ٹکڑے میں یا پھر کھوئے ، گلاب جامن میں ڈال کر رکھا جاتا تھا اور کتا اسے کھانے کے بعد پانی کی طرف بھاگتا تھا۔ جسے روکنے کے لیے ایک لوہے کی بڑی قینچی اس کے گلے میں ڈال کر روکا جاتا، کیونکہ زہر کھانے کے بعد کتے کے اندر بڑی گرمی پیدا ہوتی ہے اگر وہ کسی پانی میں بیٹھ گیا تو پھر نہ صرف زہر کا اثر ختم ہوجاتا ہے بلکہ کتا اور طاقتور بن جاتا ہے۔
اب یہ مہم شاید کاغذ پر تو موجود ہو مگر بظاہر نظر نہیں آتی اور ہر آئے دن پورے سندھ میں خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ اتنے لوگوں کو پاگل کتے نے کاٹ لیا جس میں زیادہ تر بچے ہوتے ہیں، کیونکہ بچوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور بچے کتے کا حملہ روک بھی نہیں سکتے، ایک بار دلچسپ خبر چھپی تھی کہ حیدرآباد میں ایس ایچ او کو پاگل کتے نے اس وقت کاٹا جب وہ اس کے پیچھے پکڑنے کے لیے دوڑ رہے تھے، ایک ہفتہ پہلے بھی ایک خبر آئی تھی کہ کراچی کے چنیسر گوٹھ میں پاگل کتے نے 11 آدمی کاٹ لیے جس میں بچے بھی شامل تھے اور لوگوں نے خوف زدہ ہوکر گھر سے باہر نکلنا بند کردیا ۔ پاگل کتے کی یہ نشانی ہے کہ اس کے منہ سے رال ٹپکتی رہتی ہے اور وہ خاموش بیٹھا رہتا ہے۔
ان پاگل کتوں میں ریبیز (Rabies) نام کا ایک جرثومہ ہوتا ہے جو کاٹنے سے انسان کے اندر خون کے نروس سسٹم کے ذریعے دماغ تک پہنچ جاتا ہے اگر وقت پر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ جب بھی کسی کو پاگل کتا کاٹ لے تو اسی وقت زخم کو صابن یا ڈیٹول سے پانی کے ساتھ 15 منٹ تک دھونا چاہیے اور پھر اسپتال لے جانا چاہیے تاکہ اسے جراثیم کو ختم کرنے والے ٹیکے لگائے جائیں، پہلے 14 ٹیکے پیٹ میں لگتے تھے اور اب 3 لگتے ہیں، یہ ٹیکے سرکاری اسپتالوں میں اس لیے ناپید اور کم ہوتے ہیں کیونکہ حکومت سندھ اسے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد سے خریدتی ہے مگر رقم کی ادائیگی صحیح طریقے سے نہ ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکے نہیں ملتے جب کہ کچھ اسپتالوں میں این جی اوز اور مخیر حضرات یہ ٹیکے فراہم کرتے ہیں۔
صاحب حیثیت تو باہر اسٹور سے خرید لیتے ہیں باقی غریب تو اسے نہیں خرید سکتا اس لیے کہ یہ بہت مہنگے ہیں۔ پاگل کتے کے کاٹنے سے Hydrophobia بیماری ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے مریض پانی کو دیکھ کر ڈرتا ہے، وہ اس کے حلق سے نہیں اترتا اور اسے روشنی سے بھی خوف آتا ہے اور کبھی کبھی وہ کتے جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے، اس لیے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے داروں کو بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے کیونکہ اگر یہ مریض کسی کو کاٹ کھائے گا تو جراثیم ٹرانسفر ہوجاتے ہیں۔
سندھ میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں پر لوگوں کو دو وقت کھانا بھی میسر نہیں ہوتا، اس لیے وہ شہر نہیں جاتے اور گاؤں میں ہی ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو تعویذ دیتا ہے، جیسے ہی پاگل کتا کسی کو گاؤں میں کاٹتا ہے تو مریض کو ایک دم اس کے زخم پر مرچ، تمباکو وغیرہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ جراثیم وہیں مرجائیں ، اگر کتے نے پاؤں میں کاٹا ہے تو جراثیم کو وقت لگے گا اور اگر گردن یا اس کے آس پاس کاٹا ہے تو جرثومہ جلد سفر طے کرلیتا ہے۔
حکومت سندھ نے دس کے قریب اینٹی ریبیز مرکز صوبے کے مختلف اضلاع میں قائم کیے ہیں مگر وہاں پر ٹیکے اگر نہیں ہوں گے تو یہ بیکار ہوجائیں گے، اس ٹیکے کو حیدرآباد سے باقی علاقوں میں تھرماس کے ذریعے برف ڈال کر بھیجا جاتا ہے اور پھر صحت مرکز میں ڈیپ فریزر میں ایک مخصوص درجہ حرارت میں رکھنا ہوتا ہے، لیکن بجلی تو ہمیشہ گم ہوتی ہے اور جنریٹر نہیں ہوتے تو پھر اس ٹیکے کا اثر نہیں رہے گا۔
ریبیز جراثیم سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس طرف دھیان دے ۔ پاگل اور آوارہ کتوں کے خلاف مہم باقاعدگی سے چلائی جانی چاہیے اور اس کی تشہیر کرنی چاہیے، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ واقعی مہم چل رہی ہے اور آوارہ کتے مارے جارہے ہیں۔
اس مہم کے دوران پالتوجانوروں کو گھر میں ہی رکھا جائے، بچوں کو منع کیا جائے کہ کتوں، بلیوں، گھوڑوں کے قریب نہ جائیں کیونکہ ان میں بھی یہ جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ڈی ایچ اے کے علاقے میں بھی یہ مہم چلائی جائے جہاں پر ایسے آوارہ کتے خاص طور پر رات میں کافی نظر آتے ہیں، اس کے علاوہ اینٹی (ریبیز) مرکز میں ٹیکے دستیاب ہونے چاہئیں کیونکہ پرائیویٹ طور پر اسے خریدنا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔