پشاور حملہ سیکیورٹی سربراہان کا اجلاس جلد متوقع
وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں خطرات سے نمٹنے کا لائحہ عمل بنایا جائے گا
لاہور:
پشاور میں دہشت گردی کے حالیہ حملے میں دشمن انٹیلی جنس اداروں اور کالعدم دہشت گردتنظیموں کی باقیات کا گٹھ جوڑ کارفرما ہونے کا خدشہ ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق نگران وزیر اعظم ناصرالملک کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کے سکیورٹی اجلاس میں دی گئی بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ بھارتی خفیہ ادارے ''را''اورافغانستان کی ''این ڈی ایس'' کاممکنہ طورپرکالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام اورلشکرجنگوی کی باقیات کیساتھ گٹھ جوڑ ہے۔
ڈائریکٹرجنرل انٹیلی جنس بیورو احسان غنی نے بتایاکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اورچھوٹی سیاسی جماعتوں میں بعض افراد کوجوانتخابات کیلئے مہم چلارہے ہیں شدید سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
ایک سکیورٹی ادارے کے باوثوق ذریعے کے مطابق وزیراعظم جلدانٹیلی جنس اور متعلقہ اداروں کے سربراہوں کے اجلاس کی صدارت کریں گے جس کامقصد پشاورحملے کے تناظرمیں درپیش نئے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کیلئے فوج،سول آرمڈفورسزاورسکیورٹی اداروں کے درمیان باہمی تعاون پرمبنی سکیورٹی لائحہ عمل وضع کرناہے۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ کامیابی فوجی کارروائیوں کے باعث دہشتگردی کاخاتمہ ہوگیاہے تاہم ٹی ٹی پی،لشکرطیبہ اور لشکراسلام جیسی دہشتگردی تنظیموںکے بعض باقیات موجود ہیں جن کا جلد صفایا کردیا جائیگا۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم سکیورٹی ذرائع کاکہناہے کہ ٹی ٹی پی تنہا ایسے حملے کرنیکی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ذرائع نے پشاورحملے میں داعش کے ملوث ہونے کی تردیدکرتے ہوئے کہاکہ اس تنظیم کی پاکستان میں ایسی مستحکم موجودگی نہیں کہ ایسے حملے کرسکے۔
پشاور میں دہشت گردی کے حالیہ حملے میں دشمن انٹیلی جنس اداروں اور کالعدم دہشت گردتنظیموں کی باقیات کا گٹھ جوڑ کارفرما ہونے کا خدشہ ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق نگران وزیر اعظم ناصرالملک کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کے سکیورٹی اجلاس میں دی گئی بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ بھارتی خفیہ ادارے ''را''اورافغانستان کی ''این ڈی ایس'' کاممکنہ طورپرکالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر اسلام اورلشکرجنگوی کی باقیات کیساتھ گٹھ جوڑ ہے۔
ڈائریکٹرجنرل انٹیلی جنس بیورو احسان غنی نے بتایاکہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اورچھوٹی سیاسی جماعتوں میں بعض افراد کوجوانتخابات کیلئے مہم چلارہے ہیں شدید سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔
ایک سکیورٹی ادارے کے باوثوق ذریعے کے مطابق وزیراعظم جلدانٹیلی جنس اور متعلقہ اداروں کے سربراہوں کے اجلاس کی صدارت کریں گے جس کامقصد پشاورحملے کے تناظرمیں درپیش نئے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کیلئے فوج،سول آرمڈفورسزاورسکیورٹی اداروں کے درمیان باہمی تعاون پرمبنی سکیورٹی لائحہ عمل وضع کرناہے۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ کامیابی فوجی کارروائیوں کے باعث دہشتگردی کاخاتمہ ہوگیاہے تاہم ٹی ٹی پی،لشکرطیبہ اور لشکراسلام جیسی دہشتگردی تنظیموںکے بعض باقیات موجود ہیں جن کا جلد صفایا کردیا جائیگا۔ اگرچہ ٹی ٹی پی نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم سکیورٹی ذرائع کاکہناہے کہ ٹی ٹی پی تنہا ایسے حملے کرنیکی پوزیشن میں نہیں ہے۔
ذرائع نے پشاورحملے میں داعش کے ملوث ہونے کی تردیدکرتے ہوئے کہاکہ اس تنظیم کی پاکستان میں ایسی مستحکم موجودگی نہیں کہ ایسے حملے کرسکے۔