آم کی برآمدات کا 25 مئی سے آغاز ہدف1 لاکھ 75 ہزار ٹن مقرر

رواں سال آم کی پیداوار5.5لاکھ ٹن کے اضافے سے15.5 لاکھ ٹن تک پہنچ جائے گی،سندھ میں موسمی اثرات کے باعث 25فیصدکمی کاخدشہ


Business Reporter May 07, 2013
امریکی مارکیٹ غیرپرکشش، ایرانی منڈی بند، آسٹریلوی کلیئرنس کا انتظار، جاپان کو برآمد محدود، رمضان میں مسلم دنیا سے اچھے آرڈرز ملیں گے، وحید احمد فوٹو فائل

رواں سیزن میں آم کی برآمدات کے لیے 1 لاکھ 75 ہزار ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس سے 60 ملین ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ حاصل ہو گا، وفاقی وزارت تجارت نے آم کی برآمدات شروع کرنے کیلیے 25 مئی کی تاریخ مقرر کی ہے جس کیلیے وزارت تجارت کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل امپورٹرز ایکسپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین وحید احمد کے مطابق اس سال آم کی پیداوار کا تخمینہ 15.5 لاکھ ٹن لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال کی 10 لاکھ ٹن پیداوار کے مقابلے میں 5.5 لاکھ ٹن زائد ہے، اس سال سندھ میں موسمی اثرات کی وجہ سے سندھ کی پیداوار 25فیصد تک کم رہنے کی توقع ہے جس سے سندھ میں آم کی پیداوار 1.5لاکھ ٹن تک کم رہے گی۔

گزشتہ سیزن میں آم کی برآمدات کا ہدف 1.5 لاکھ ٹن رکھا گیا تھا تاہم ایکسپورٹ 1 لاکھ15 ہزار ٹن تک محدود رہی جس سے 38 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا، رواں سیزن میں رمضان کے دوران اسلامی ملکوں کی جانب سے اچھے آرڈرز متوقع ہیں، اسی لیے ہدف گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 ہزار ٹن زائد رکھا گیا ہے، اس بار بھی موسم کی تبدیلی کے باعث سیزن 2 ہفتے تاخیر کا شکار ہے، سندھ میں حیدرآباد، ٹنڈوالہ یار، میرپورخاص اور مٹیاری کے علاقوں میں آم کے باغات زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن میں محدود پیمانے پر جاپان کو کمرشل ایکسپورٹ کی جائیگی۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل امپورٹرز ایکسپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کراچی میں جاپان کی معاونت سے نصب کیے گئے پائلٹ وی ایچ ٹی پلانٹ سے پراسیس شدہ آم جاپان ایکسپورٹ کریگی اور جاپان میں پاکستانی آم کی پروموشن بھی کی جائیگی۔ امریکا کی جانب سے پاکستانی آم کو امریکی معیار کے مطابق قرار دیے جانے کے باوجود امریکا کو آم برآمد نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ براہ راست فلائٹ نہ ہونا ہے۔



وحید احمد کے مطابق گزشتہ سال آزمائشی بنیادوں پر امریکا کو آم برآمد کیا گیا جس کی اریڈیشن امریکا میں کی گئی تاہم یہ مہنگا اور خدشات سے پر طریقہ ہے، آم کی پوری کنسائمنٹ امریکا جانے کے بعد اریڈیشن کے عمل سے گزرے گی جس کے بعد ہی آم امریکی منڈی کے لیے کلیئر ہوگا، پاکستان سے سمندری راستے سے آم امریکا بھجوانا مہنگا اور خدشات سے پر ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹرز محدود امریکی منڈی میں دلچسپی نہیں لے رہے، امریکا کی مارکیٹ کیلیے پاکستان میں ہی اریڈیشن کی سہولت کا ہونا بہت ضروری ہے، یہ سہولت ترجیحاً کراچی اور ملتان میں فراہم کرکے امریکا کو کمرشل بنیادوں پر آم برآمد کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو بھی آم برآمد نہیں ہوسکے گا، ایران کو 30 ہزار ٹن تک آم ایکسپورٹ کیا جاتا ہے تاہم زمینی راستے سے بغیر کسی دستاویزی عمل کے ہونے والی ایکسپورٹ سے معیشت کو فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی زرمبادلہ ریکارڈ پر آتا ہے۔

انہوں نے اسٹیٹ بینک پر زور دیا ہے کہ ایران کے حوالے سے پالیسی واضح کی جائے، بینکوں کو ایران کیلیے ایکسپورٹ فارم جاری کرنے کی ہدایت جاری کی جائے تو آم کی برآمدات میں 30 ہزار ٹن کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ وحید احمد کے مطابق گزشتہ سال آسٹریلیا کے قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کے ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان کا دورہ کرکے آم کے باغات اور پراسیسنگ فیکٹریوں کا معائنہ کرچکی ہے تاہم ابھی تک پاکستان کو آسٹریلیا سے کلیئرنس نہیں ملی جس کیلیے وزارت تجارت اورقرنطینہ ڈپارٹمنٹ کو فوری طور پر آسٹریلوی حکام سے رابطہ کرکے آسٹریلوی منڈی کھلوانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔

پاکستان سے دنیا کے 40 سے زائد ممالک کو آم برآمد کیا جاتا ہے جن میں کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، آئرلینڈ، سوئیڈن، ڈنمارک، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، بلجیم، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین، کویت، مسقط، سنگاپور، ہانگ کانگ، ملائیشیا، جنوبی کوریا، چین ، لبنان، اردن، کویت شامل ہیں جبکہ پاکستان سے ایکسپورٹ کی جانے والی آم کی ورائٹیز میں سندھڑی، سنہری، فجری، بیگن پھلی، چونسا، کالا چونسا اور سفید چونسا شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں