فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں مسلح افواج کے کوٹہ سے متعلق آفس میمورنڈم طلب

سول سروس میں آرمڈ فورسز کے کوٹہ کے لئے کوئی آئینی منظوری نہیں، نمائندہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن

سول سروس میں آرمڈ فورسز کے کوٹہ کے لئے کوئی آئینی منظوری نہیں، نمائندہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن فوٹو:فائل

ہائی کورٹ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں مسلح افواج کے کوٹہ سے متعلق آفس میمورنڈم طلب کرلیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں مسلح افواج کے کوٹہ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ ہائی کورٹ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا 1991 کا آفس میمورنڈم طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل یا کوئی ذمہ دار افسر عدالت کی معاونت کرے۔


جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ آفس میمورنڈم کے علاوہ آرمڈ فورسز کے کوٹہ کے لئے کوئی آئینی منظوری ہے؟۔ نمائندہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے کہا کہ آفس میمورنڈم کے سوا آرمڈ فورسز کے کوٹہ کے لئے کوئی آئینی منظوری نہیں ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آئین میں خلل ڈالنے کے لیے یہ دروازہ کھولا گیا ہے، کتنی زیادتی ہے کہ سی ایس ایس ٹاپر کے اوپر آرمڈ فورسز کا آفیسر بٹھا دیا جاتا ہے، کیا سی ایس ایس کے ٹاپر کو چھ ماہ کے لیے کپتان بنا سکتے ہیں، آرمڈ فورسز صرف ٹاپ کے تین گروپس ہی کیوں جوائن کرتے ہیں، یہ ایک سوچ کا نتیجہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کا ہر کام کر سکتے ہیں۔

عدالت نے وزارتِ دفاع کے افسر سے استفسار کیا کہ ایک کپتان تیار کرنے میں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے؟۔ تاہم وزارتِ دفاع کے افسر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی۔
Load Next Story