بے جی بارش اور سیاست
ضروری نہیں کہ جومیری بے جی ہے وہی آپکی بھی ہو کیونکہ جیسے ہرکسی کا سچ بھی اپنا اپنا ہوتاہے ویسے ہی زاویہ نگاہ بھی
ایک زمانہ تھا جب مکان چھوٹے لیکن مکین زیادہ ہوتے تھے، مگر کبھی گھروں میں جگہ تنگ نہ پڑتی تھی۔ سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ ہر گھر میں کم از کم ایک عدد بزرگ ہستی موجود ہوتی تھی اور ہمارے محلے کی وہ بزرگ ہستی 'بے جی' تھیں۔ جی ہاں، پورے محلے کی بے جی!
بے جی کے زمانے میں اے سی کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ ہاں شاید ڈی سی ہوتا ہو! وہ بھی کسی دور دراز ضلع کا... جی وہی ڈپٹی کمشنر!
گرمی کی شدت بڑھتے ہی ہماری ایک عدد شرارتی آنٹی نے محلے کے سب بچوں کو اکٹھا کرکے پوچھا کہ بتاؤ دل چاہتا ہے بارش ہو؟ بچہ پارٹی نے بہ آواز بلند کہا: جی جی بہت دل کرتا ہے۔ اب آنٹی نے اس کا ایک آسان طریقہ یہ بتایا کہ اس محلے میں جو سب سے بزرگ بندہ ہے، جاکر اس پر بہت سا پانی پھینکنا ہے... جب تک کہ وہ شدید سیخ پا ہو کر گالیاں دینا نہ شروع کردے۔ جتنا اسے غصہ آئے گا، اتنی جلدی بادل آئیں گے۔
اب جناب سب بچوں نے کمر کس لی اور اپنے اپنے گھروں میں برتنوں میں پانی بھرنا شروع کردیا (یہ دوپہر کا وہ وقت تھا جب اماں ابا کھانا تناول فرما کر قیلولہ کر رہے تھے)۔ یکے بعد دیگر پانی کے ڈول بے جی پر گرنا شروع ہوئے۔ آغاز میں تو وہ بھی مزہ لیتی رہیں مگر حالات کی سنگینی کا اندازہ انہیں کچھ وقت گزرنے کے بعد ہوا۔ احتجاجاً ڈانٹنا شروع ہوئیں تو بچے خوشی سے جھومنے لگے کہ جتنا ڈانٹیں گی، اتنی جلدی بارش ہوگی۔ بارش تو جناب کیا ہونی تھی، دو چار کو گیلا ہونے کی وجہ سے ڈور بیل سے کرنٹ لگا اور شام کو سب بچوں کو خوب کھری کھری سننے کو بھی ملی... سزا اضافی تھی۔
آپ حیران ہوں گے کہ میں یہ واقعہ یہاں کیوں لکھ رہی ہوں؟ آج کل کے سیاسی حالات دیکھتے ہوئے مجھے لگا کہ ان حالات کا اس واقعے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ میرا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی شریف مرد کا عورتوں کے کپڑوں پر لگنے والی سیل سے۔
یاد آیا! پچھلے دو سال سے چار حلقوں سے سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی ہونے کے ناتے اتنا یقین رہا کہ الحمدللہ پاکستان میں سزا اور جزا سب اس کے حصے میں آتی ہے جو پہلے ہی آدھا زمین میں گڑا ہو۔ اب میں جو مکمل غیر سیاسی خاتون ہوں مگر نہ جانے کیوں مجھے اس سب میں بھی ایک عدد بے جی نظر آرہی ہیں اور کچھ بے وقوف بچے بھی جو بارش کےلیے دعا کرنے کے بجائے اس بیچاری بے جی کو گیلا کرنے میں لگے رہے۔ خیال یہی تھا کہ حالات پر قابو پالیا جائے گا اور پھر سے من و سلویٰ بھی اترنا شروع ہوجائے گا لیکن وائے قسمت!
اب آپ سب یقیناً یہاں بے جی ڈھونڈ رہے ہوں گے! مزے کی بات یہ کہ بے جی ہے تو ایک ہی مگر سب کی اپنی اپنی۔ ضروری نہیں کہ جو میری بے جی ہے وہی آپ کی بھی ہو، کیونکہ جیسے ہر کسی کا سچ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے ویسے ہی زاویہ نگاہ بھی۔ لیکن سیاست چمکانے کی دکان سب نے لگائی اور اپنی سچائی کا چشمہ عوام کی نگاہ پر لگانے کی بھی بھر پور کوشش کی گئی۔ اب کبھی بے جی ہمیں کبھی سی چوک پر نظر آئیں تو کبھی ڈی چوک میں۔ پرانے کھلاڑی یہی سمجھتے تھے کہ صحیح سمت میں محنت کرنے کے بجائے بے جی کو ڈرایا جائے۔ کچھ دیر کو غصہ کریں گی مگر آخرکار جیت انہی کا مقدر بنے گی لیکن یہاں بے جی کی آواز بلند ہوئی نہیں کہ ان کی آواز نے عدل کی زنجیر ہلادی (بدقسمتی سے یہ زنجیر صرف تب عدل کی ہوتی ہے جب کسی دوسرے کےلیے ہلے)۔
اب جناب! شرارتی بچوں کو بارش تو نہ ملی مگر سوال و جواب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی دوران کرنٹ لگنے سے بہت سے ساتھی راستے میں ہی ساتھ چھوڑ گئے اور سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ (ویسے تو برے وقت کا فائدہ یہی ہے کہ اپنا پرایا فلٹر ہو جاتا ہے۔)
یہ وہ والی بے جی ہیں جو ایک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والوں کو نظر آرہی ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جیسے وہاں بچے معصوم تھے کیونکہ انہیں راستہ محلے کی آنٹی نے دکھایا تھا، بالکل ایسے ہی دوسرے مکتبِ فکر کے لوگ بھی بالکل معصوم ہیں۔ ان کے نزدیک بے جی کا احتجاج ناجائز ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے احتجاج کی وجہ ان کے پیچھے موجود نادیدہ قوتیں (خلائی مخلوق) ہیں۔ (خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ ایسی بات کرنے سے پہلے ہی آیت الکرسی ضرور پڑھتی ہوں اور ایک دائرہ بنالیتی ہوں حفاظت کا، ایسا مجھے میری بے جی نے ہی سکھایا تھا۔)
جیسا کہ اپنے غیر سیاسی ہونے کا میں پہلے ہی بتاچکی تو اس لیے کسی بھی سیاسی صورتِ حال سے اور جماعت سے وابستہ ہونے کا حال یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے ہونے والے الیکشن کے موقع پر میں ایک مکمل ہاؤس وائف (جسے گھریلو خاتون کہتے ہیں) اور ایک عدد ماسٹرز ڈگری رکھتی تھی۔ جب ووٹ چیک کرنے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ پنجاب کے شناختی کارڈز کے ووٹ بھائی لوگ کراچی میں نہ جانے کیسے رجسڑرڈ کر چکے تھے۔ (اور آواز اٹھانے سے پہلے ہی دبالی کیونکہ بوری میں سانس گھٹنے کا خوف بڑا تکلیف دہ خیال تھا۔)
آج پانچ سال بعد بھی الیکشن کا دور ہے۔ اب میں صحافی ہوں، دو عدد ماسٹرز کی ڈگریاں ہیں لیکن ووٹ اب بھی کراچی ہی میں بھائی لوگوں کے پاس رجسٹرڈ ہے۔
کاش! ہم بارش کےلیے دعا کرنے سے پہلے درخت لگائیں۔ معاشرے کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے ماحول کو صاف ستھرا رکھیے تاکہ گرمی کی شدت سے ڈر کر بے جی کی مدد نہ لینی پڑے اور نہ ہی کسی شرارتی آنٹی سے مشورہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بے جی کے زمانے میں اے سی کا تو نام و نشان نہیں تھا۔ ہاں شاید ڈی سی ہوتا ہو! وہ بھی کسی دور دراز ضلع کا... جی وہی ڈپٹی کمشنر!
گرمی کی شدت بڑھتے ہی ہماری ایک عدد شرارتی آنٹی نے محلے کے سب بچوں کو اکٹھا کرکے پوچھا کہ بتاؤ دل چاہتا ہے بارش ہو؟ بچہ پارٹی نے بہ آواز بلند کہا: جی جی بہت دل کرتا ہے۔ اب آنٹی نے اس کا ایک آسان طریقہ یہ بتایا کہ اس محلے میں جو سب سے بزرگ بندہ ہے، جاکر اس پر بہت سا پانی پھینکنا ہے... جب تک کہ وہ شدید سیخ پا ہو کر گالیاں دینا نہ شروع کردے۔ جتنا اسے غصہ آئے گا، اتنی جلدی بادل آئیں گے۔
اب جناب سب بچوں نے کمر کس لی اور اپنے اپنے گھروں میں برتنوں میں پانی بھرنا شروع کردیا (یہ دوپہر کا وہ وقت تھا جب اماں ابا کھانا تناول فرما کر قیلولہ کر رہے تھے)۔ یکے بعد دیگر پانی کے ڈول بے جی پر گرنا شروع ہوئے۔ آغاز میں تو وہ بھی مزہ لیتی رہیں مگر حالات کی سنگینی کا اندازہ انہیں کچھ وقت گزرنے کے بعد ہوا۔ احتجاجاً ڈانٹنا شروع ہوئیں تو بچے خوشی سے جھومنے لگے کہ جتنا ڈانٹیں گی، اتنی جلدی بارش ہوگی۔ بارش تو جناب کیا ہونی تھی، دو چار کو گیلا ہونے کی وجہ سے ڈور بیل سے کرنٹ لگا اور شام کو سب بچوں کو خوب کھری کھری سننے کو بھی ملی... سزا اضافی تھی۔
آپ حیران ہوں گے کہ میں یہ واقعہ یہاں کیوں لکھ رہی ہوں؟ آج کل کے سیاسی حالات دیکھتے ہوئے مجھے لگا کہ ان حالات کا اس واقعے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں کہ میرا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی شریف مرد کا عورتوں کے کپڑوں پر لگنے والی سیل سے۔
یاد آیا! پچھلے دو سال سے چار حلقوں سے سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی ہونے کے ناتے اتنا یقین رہا کہ الحمدللہ پاکستان میں سزا اور جزا سب اس کے حصے میں آتی ہے جو پہلے ہی آدھا زمین میں گڑا ہو۔ اب میں جو مکمل غیر سیاسی خاتون ہوں مگر نہ جانے کیوں مجھے اس سب میں بھی ایک عدد بے جی نظر آرہی ہیں اور کچھ بے وقوف بچے بھی جو بارش کےلیے دعا کرنے کے بجائے اس بیچاری بے جی کو گیلا کرنے میں لگے رہے۔ خیال یہی تھا کہ حالات پر قابو پالیا جائے گا اور پھر سے من و سلویٰ بھی اترنا شروع ہوجائے گا لیکن وائے قسمت!
اب آپ سب یقیناً یہاں بے جی ڈھونڈ رہے ہوں گے! مزے کی بات یہ کہ بے جی ہے تو ایک ہی مگر سب کی اپنی اپنی۔ ضروری نہیں کہ جو میری بے جی ہے وہی آپ کی بھی ہو، کیونکہ جیسے ہر کسی کا سچ بھی اپنا اپنا ہوتا ہے ویسے ہی زاویہ نگاہ بھی۔ لیکن سیاست چمکانے کی دکان سب نے لگائی اور اپنی سچائی کا چشمہ عوام کی نگاہ پر لگانے کی بھی بھر پور کوشش کی گئی۔ اب کبھی بے جی ہمیں کبھی سی چوک پر نظر آئیں تو کبھی ڈی چوک میں۔ پرانے کھلاڑی یہی سمجھتے تھے کہ صحیح سمت میں محنت کرنے کے بجائے بے جی کو ڈرایا جائے۔ کچھ دیر کو غصہ کریں گی مگر آخرکار جیت انہی کا مقدر بنے گی لیکن یہاں بے جی کی آواز بلند ہوئی نہیں کہ ان کی آواز نے عدل کی زنجیر ہلادی (بدقسمتی سے یہ زنجیر صرف تب عدل کی ہوتی ہے جب کسی دوسرے کےلیے ہلے)۔
اب جناب! شرارتی بچوں کو بارش تو نہ ملی مگر سوال و جواب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اسی دوران کرنٹ لگنے سے بہت سے ساتھی راستے میں ہی ساتھ چھوڑ گئے اور سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ (ویسے تو برے وقت کا فائدہ یہی ہے کہ اپنا پرایا فلٹر ہو جاتا ہے۔)
یہ وہ والی بے جی ہیں جو ایک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والوں کو نظر آرہی ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ جیسے وہاں بچے معصوم تھے کیونکہ انہیں راستہ محلے کی آنٹی نے دکھایا تھا، بالکل ایسے ہی دوسرے مکتبِ فکر کے لوگ بھی بالکل معصوم ہیں۔ ان کے نزدیک بے جی کا احتجاج ناجائز ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے احتجاج کی وجہ ان کے پیچھے موجود نادیدہ قوتیں (خلائی مخلوق) ہیں۔ (خدا گواہ ہے کہ میں ہمیشہ ایسی بات کرنے سے پہلے ہی آیت الکرسی ضرور پڑھتی ہوں اور ایک دائرہ بنالیتی ہوں حفاظت کا، ایسا مجھے میری بے جی نے ہی سکھایا تھا۔)
جیسا کہ اپنے غیر سیاسی ہونے کا میں پہلے ہی بتاچکی تو اس لیے کسی بھی سیاسی صورتِ حال سے اور جماعت سے وابستہ ہونے کا حال یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے ہونے والے الیکشن کے موقع پر میں ایک مکمل ہاؤس وائف (جسے گھریلو خاتون کہتے ہیں) اور ایک عدد ماسٹرز ڈگری رکھتی تھی۔ جب ووٹ چیک کرنے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ پنجاب کے شناختی کارڈز کے ووٹ بھائی لوگ کراچی میں نہ جانے کیسے رجسڑرڈ کر چکے تھے۔ (اور آواز اٹھانے سے پہلے ہی دبالی کیونکہ بوری میں سانس گھٹنے کا خوف بڑا تکلیف دہ خیال تھا۔)
آج پانچ سال بعد بھی الیکشن کا دور ہے۔ اب میں صحافی ہوں، دو عدد ماسٹرز کی ڈگریاں ہیں لیکن ووٹ اب بھی کراچی ہی میں بھائی لوگوں کے پاس رجسٹرڈ ہے۔
کاش! ہم بارش کےلیے دعا کرنے سے پہلے درخت لگائیں۔ معاشرے کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے ماحول کو صاف ستھرا رکھیے تاکہ گرمی کی شدت سے ڈر کر بے جی کی مدد نہ لینی پڑے اور نہ ہی کسی شرارتی آنٹی سے مشورہ!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔