حضور ِاکرم ﷺ کا حِلم اور جُود و سخا

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم : ’’ اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔‘‘


ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم : ’’ اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔‘‘ فوٹو : فائل

حلم اور بردباری میں باہم فرق ہے۔ کیوں کہ حلم، ایک ایسی حالت کا نام ہے جو اسباب محرکہ یعنی برانگیختہ کرنے والے اسباب کی موجودی میں ثابت و برقرار رہے اور تحمل، یعنی بردباری ایسی حالت کا نام ہے جو مصائب و آلام کے وقت ان کو برداشت کرے اور اسی کے ہم معنی و مطلب صبر ہے۔ عفو، اس حالت کو کہتے ہیں جو بدلے کو ترک کردے یعنی معاف کردے۔ یہ اوصاف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ نبی ﷺ کو متصب کیا۔

اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم : '' اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو۔'' ( سورہ الاعراف )

جب یہ آیت حضور ﷺ پر نازل ہو ئی تو آپؐ نے جبریلؑ سے اس کا مطلب دریافت کیا۔ جبریلؑ نے عرض کیا: میں اللہتعالیٰ سے پوچھ کر عرض کروں گا۔ چناں چہ وہ گئے اور آئے، اور پھر عرض کیا : اے محمد ﷺ آپ کو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ آپ اس سے ملیں جو آپؐ کو چھوڑتا ہے اور اس کو عطا فرمائیں جو آپؐ کو محروم رکھتا ہے اور اس کو معاف فرما دیں جو آپؐ پر ظلم کرتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم : '' اور بے شک جس نے صبر کیا اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے کام ہیں۔''

حضور ﷺ کا یہ حال ہے کہ کثرت ایذا کے باوجود آپ ﷺ کا صبر ہی بڑھتا اور ظالموں کی زیادتیوں پر آپ ﷺ کا حلم ہی زیادہ ہوتا رہتا۔

حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے بالاسناد مروی ہے کہ جب کبھی حضور ﷺ کو دو باتوں میں سے کسی ایک بات پر اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسان کو پسند فرماتے جب تک گناہ نہ ہو، مگر گناہ کی بات ہوتی تو اس سے لوگوں کی نسبت بہت دور رہتے، آپ ﷺ نے اپنے لیے کبھی انتقام نہ لیا۔ سوائے اس کے کہ وہ حدود الٰہی کی بے حرمتی کرے تب آپؐ اللہ کی حدود کے لیے بدلہ لیتے۔ (صحیح بخاری )

غزوہ احد میں جب آپ ﷺ کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ ﷺ کا چہرہ ٔ انور لہولہان ہوگیا تو یہ بات صحابہ کرامؓ پر سخت گراں گزری۔ سب نے عرض کیا کہ حضور ﷺ ان پر بددعا فرمائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : '' میں لعنت کرنے والا نہیں بھیجا گیا لیکن مجھ کو اللہ کی طرف بلانے والا اور رحمت فرمانے والا بھیجا ہے، اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے، وہ مجھ کو نہیں جانتے۔''

حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ حضرت نو ح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لیے یوں دعا کی۔ '' اے میرے رب کافروں میں زمین پر کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔'' اگر آپ ﷺ بھی اسی طرح ہم پر بددعا فرماتے تو ہم آخر تک ہلاک ہوجاتے کیوں کہ آپ ﷺ کی کمر دہری کی گئی اور آپؐ کا چہرۂ انور زخمی کیا گیا اور آپ ﷺ کے اگلے چاروں دانت شہید کیے گئے۔ باوجود اس کے آپ ﷺ نے کلمۂ خیر کے سوا بددعا سے انکار ہی فرمایا اور ارشاد فرمایا۔ اے خدا میری قوم کو معاف فرما دے، یہ ناسمجھ ہیں۔

قاضی ابوالفضلؒ (عیاض) فرماتے ہیں کہ اس ارشاد پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسن خلق، کرم نفس، غایت صبر اور حلم جمع ہیں۔ کیوں کہ حضور ﷺ نے صرف ان سے سکوت پر ہی اکتفا نہیں کیا بل کہ معاف بھی فرما دیا۔ پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لیے دعا اور سفارش بھی فرمائی۔

پس فرمایا: اے خدا ان کو بخش دے یا فرمایا کہ ان کو ہدایت دے، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ یہ میری قوم ہے۔ پھر ان کی عذر خواہی کے طور پران کی جہالت کی وجہ سے فرمایا یہ ناسمجھ ہیں۔

جود و کرم اور سخاوت:

جود و کرم اور سخاوت میں بھی حضور ﷺ کا کوئی برابر نہ تھا اور نہ کوئی ان میں آپ ﷺ کا معارض جو بھی آپ کو پہچانتا تھا وہ تعریف کرتا تھا۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہتعالیٰ عنہ سے بالاسناد مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے جب کبھی کوئی سوال کرتا تو آپ ''لا'' یعنی نہیں کبھی نہ فرماتے تھے۔

(صحیح بخاری ) حضرت انس اور سہل بن سعدؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو بہت ہی سخاوت فرماتے تھے اور جب بھی جبریل علیہ السلام حاضر بارگاہ ہوتے تو آپ تیز ہوا سے زیادہ بھلائی میں سخاوت فرماتے۔

(صحیح بخاری )

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا تو آپ دو پہاڑوں کے درمیان کی برابر بکریاں عنایت فرما دیں۔ جب وہ اپنی قوم میں گیا۔ اس نے کہا: مسلمان ہوجاؤ بے شک محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ کبھی فاقے کا خوف رہتا ہی نہیں۔ (صحیح مسلم ) بہت لوگوں کو آپ ﷺ نے سو اونٹ تک دیے، صفوان کو آپؐ نے سو دیے پھر سو دیے۔ (صحیح مسلم ) یہ اخلاق تو آپؐ کی بعثت سے پہلے تھے، آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل نے کہا: آپ ﷺ سب دیتے ہیں اور معدوم یعنی اخروی بھلائی کماتے ہیں۔ (صحیح بخاری) آپ نے ہوازن کو ان کے قیدی لوٹا دیے، ان کی تعداد چھے ہزار تھی۔ (صحیح بخاری )

آپ ﷺ نے حضرت عباسؓ کو اتنا سونا دیا کہ وہ اس کو اُٹھانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری ) آپ کی خدمت میں نوّے ہزار درہم آئے، آپ اس کو بورے میں رکھ کر کھڑے ہوگئے اور تقسیم کرنا شروع کردیا، آپ ﷺ نے کسی سائل کونہ لوٹایا یہاں تک کہ سب میں تقسیم فرما دیے۔ (مناہل الصفاء للسیوطی )

اس وقت ایک سائل نے حاضر ہوکر سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا: اب میرے پاس کچھ نہیں، لیکن تم میرے نام پر خرید لو جب میرے پاس آجائیں گے میں ادا کردوں گا۔

انصار میں سے ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ ﷺ آپ خرچ کیجیے، عرش کے مالک اللہ تعالیٰ سے کمی کا خوف نہ کیجیے، حضور ﷺ مسکرا دیے اور خوشی کے آثار آپ ﷺ کے چہرہ انور پر نمودار ہوگئے اور فرمایا: مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے، اس کو ترمذی نے نقل کیا۔

معوذ بن عفراءؓ سے مروی ہے کہ میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں ایک طباق کھجور اور ککڑی لایا تو آپ نے لَپ بھر کے زیور اور سونا مرحمت فرمایا۔ (سنن ترمذی ) بعض کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کل کے لیے کبھی کوئی چیز جمع کرکے نہ رکھتے تھے۔ (سنن ترمذی ) غرض یہ کہ حضور ﷺ کے جُود و کرم کے واقعات بہ کثرت ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سوال کیا تو اس کو آپ نے نصف وسق یعنی تیس صاع عطا فرمائے، ایک اور شخص نے آکر تقاضا کیا، آپ نے اس کو ایک وسق یعنی ساٹھ صاع دیے اور فرمایا: نصف تیرے قرضے میں اور نصف تم کو بخشش میں۔

اللہتعالیٰ ہمیں اپنے نبی مکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں