آقا ﷺ کے حضور
آپؐ نے انوار الہٰی کی تجلیات کو جذب کرکے اپنے قلب اطہر سے نورِ ہدایت کی کرنیں بکھیریں۔
GILGIT/RAWALPINDI:
آئیے ! اس کے درِ اقدس کی چوکھٹ کے اپنی نگاہوں سے بوسے لیتے ہیں جس کی پُرتاثیر نگاہ نے انسانیت کے بگڑے مزاج کو بدلا، بُرے حالات سے نجات دی، خونیں واقعات کو لگام دی، گندے خیالات کے زاویے موڑ دیے، مُردہ قوموں نے جس کی پاکیزہ حیات کے طفیل حیاتِ جاودانی کے گوہر سمیٹے۔
گنبد خضریٰ کی آغوش نے اپنے اندر ایسے محسن اعظمؐ کو سُلایا ہوا ہے جس نے انسانیت کو میٹھی نیند سلایا۔ انوار الہٰی کی تجلیات کو جذب کرکے اپنے قلب اطہر سے نور ہدایت کی کرنیں بکھیریں، جس کی بہ دولت انسانیت نے کمال لازوال حاصل کیا۔
اس مینار نور سے پوری وادی میں علم و عمل، تہذیب و تمدن، عزت و شرافت، عظمت و وقار، غیرت و حمیت، سطوت و ہیبت، جاہ و حشمت، بصیرت و حکمت، عزیمت و فراست، شان و شوکت، صداقت و عدالت، سخاوت و شجاعت، خلافت و حکومت، سیاست و حاکمیت کے صافی چشمے پھوٹ رہے ہیں اور گلستاں میں امن و آشتی، آزادی، سکون و راحت اور قلبی طمانیت کے برگِ گل سے مشام جان کو معطر کیے ہوئے ہے۔
کائنات کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل، رنگ، قوم، قبیلہ، برادری، زبان، علاقے اور ذات پات کے تفاوت کی بنیاد پر باہمی برتری و کم تری کی کسوٹی کو یک سر مسترد کر کے معرفتِ خالق اور پرہیزگاری کی اکائی پر سب کو متحد کردیا۔ ایسا عظیم الشان دستور العمل پیش فرمایا جو صبح قیامت تک امنِ عالم کا بلاشرکت ِغیرے اکیلا ضامن ہے۔ کل بھی، آج بھی اور آئندہ بھی اسی دستور کو اپنانے میں فلاح و کام یابی کی ضمانت ہے۔ یہ جز وقتی، ہنگامی اور مخصوص اوقات کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا تھا کہ محض وقت گزرنے سے اپنی افادیت کھو بیٹھے۔ جیسا کہ چند نام نہاد مفکرین کی فکر و نظر کی کج روی اور شعور و دانش کی کم زوری نے اپنے ایسے فرسودہ خیالات کو عقل نارسا کی پاتال میں پناہ دے رکھی ہے۔
گوشت پوست کے اس مشت خاکی کو خواہشات، شہوات، کبر و غرور، تفاخر پسندی، نسل، زبان، علاقے، سیاسی و سماجی اقدار، معاشی و معاشرتی اقدار کی زنجیروں نے ہر طرف سے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ انسانیت اس کے پنجۂ استبداد میں سسکیاں لے رہی تھی۔ اگر رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست کرم سے اس کو آزاد نہ کراتے تو کبھی بھی اس کی فضیلت و برتری ظاہر نہ ہوتی۔
انسانیت کی ستم ظریفی دیکھیے آج اپنے اسی محسنؐ کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے جو آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سانحات و حوادثات کا بے رحم شکنجہ امت کو کَسے ہوئے ہے۔ اس کے لبوں پر امن و عافیت کی تمنا مقبول دعا کا روپ دھارنے کو ترس گئی ہے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین سے بغاوت کا اثر یہ ہے کہ زمینی و سماوی عذابوں نے ایسے چرکے لگائے ہیں کہ انسانیت ابھی تک کرب و الم سے کراہ رہی ہے، اور یہ اس وقت تک کراہتی ہی رہے گی تاوقتیکہ اس کو اسی در پر نہ لے جایا جائے، جہاں کے ذرے مہر و ماہ کو شرماتے اور دل و نگاہ کو چمکاتے ہیں۔
وہ دیکھیے سامنے روضۂ اقدس ﷺ ہے، محبت و الفت اور امن آشتی کے ٹھنڈے جھونکے قلب و جان کو فرحت بخش رہے ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے والا مدینہ (یثرب) اپنے اندر وہی سکون، وہی بہار رکھتا ہے۔ مکہ کے ریگ زاروں سے مدینہ تک، شعب ابی طالب سے طائف کی گلیوں تک، غار ثور سے لے کر غار حرا تک، حضور ﷺ کی عملی زندگی قرطاس کے چہروں کو منور کر رہی ہے۔ زبان مبارک سے ادا کیا ہوا ہر لفظ مبارک اعضاء سے وجود پانے والا ہر عمل آج بھی قابل عمل اور ذریعۂ نجات کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ نے فرمان الہی کو کتنی دیانت داری سے پہنچایا۔
ابولہب کا سگا چچا ہوکر پتھر اچھالنا، جسد اقدس پر اوجھڑی، معاشی بائیکاٹ، وہی طائف کے پتھر جن سے آپؐ کا مبارک جسم لہولہان ہوگیا، ان سنگ ریزوں اور پتھروں کو بوچھاڑ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپؐ ایک مرتبہ گرتے ہیں تو درندے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر پھر کھڑا کردیتے ہیں، پھر پتھروں کا مینہ برساتے ہیں، آپؐ پھر گرتے ہیں، نعلین مبارک لہو سے تر بہ تر ہوجاتے ہیں لیکن دین کی تبلیغ و اشاعت کا سفر پھر بھی جاری و ساری ہے۔
اپنا وطن، گھر بار، خاندان، رشتے دار، قوم، قبیلہ اور علاقہ ایک خدا کے لیے قربان کیا جارہا ہے، صرف اس کی خوش نودی کے لیے چٹانوں کے دامن میں بسیرا ہو رہا ہے، کبھی غاروں میں روپوش ہو رہے ہیں، بھوک اور بے سر و سامانی کے عالم میں بدر و احد کے معرکے لڑے جارہے ہیں، پیٹ پر دو پتھر باندھ کر خندق کھود رہے ہیں، اتنی عسرت اور تنگی کے عالم میں بھی خدائی احکام ادا کیے جارہے ہیں، امت کو آپس میں جاں نثاری کا درس دیا جا رہا ہے۔ رنگ، نسل، نسب کا فرق مٹ رہا ہے، کالے گورے کی تمیز ختم ہو رہی ہے، عجمی اور عربی میں تفریق اپنی موت آپ مر رہی ہے، خاندانی اور قبائلی تعصب حسد و کینہ سے پاک ہو رہے ہیں، مہاجرین و انصار ایک جسم و یک جاں بنے ہوئے ہیں، اوس و خزرج کی دشمنی باہمی مودت اور موانست میں ڈھل رہی ہے۔
پھر اس میں عورت کہاں پیچھے ہے ؟ صحابیاتؓ خصوصاً امہات المومنینؓ ان تمام مشکل اور کڑے اوقات میں دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکی ہیں۔ سب کی سوچ یہی ہے کہ باقی آنے والوں تک خدا کا یہ دستورِ حیات (قرآن کریم) پہنچ سکے، اس کے لیے زمانے کے سرد و گرم برداشت کر رہے ہیں، خوشی و تنگی کے نشیب و فراز طے کرکے دین اسلام کو ہم تک پہنچانے کی سعی کی جارہی ہے۔
لیکن! ہم نے اس دین کی کیا قدر کی ؟ اس کے احکامات کا مذاق اڑایا، آقا ﷺ کے مبارک فرامین سے رخ دوسری طرف پھیرا، اخلاقیات کا جنازہ نکالا، معاشرت کو غیروں کے طریقوں سے گزارنے کے لائحہ ہائے عمل بنائے اور میلے ٹھیلے، ناچ گانے اور موسیقی کو دین سمجھا۔ میں اسی طرح کی باتوں کو سوچ رہا تھا کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا یقین جانیے! آنکھیں نم تھیں، میں روضۂ رسول ﷺ کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔ کبھی دیدار کی کوشش کرتا پھر خود ہی نظریں نیچے جھکا دیتا اور اپنے آپ سے سوال کرتا کہ ان آنکھوں کو کیا حق ہے کہ رسول ہاشمی ﷺ کی زیارت کریں ؟
حالت عجیب ہو رہی تھی، اپنے اعمال اور امت مسلمہ کی زبوں حالی دونوں مجھے آقا ﷺ کے حضور میں شرمندہ کر رہی تھیں کہ ہمارے اعمال آپ ﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ہماری وجہ سے آقا ﷺ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟ دل مضطرب کو سوائے شفاعت کی کرن کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی تھی، تحفۂ درود و سلام پیش کرنے کے بعد بہ صد ادب و احترام میں واپس پلٹ آیا۔
اللہ ہم سب کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کی شفاعت خاصہ نصیب فرمائے۔ آمین
آئیے ! اس کے درِ اقدس کی چوکھٹ کے اپنی نگاہوں سے بوسے لیتے ہیں جس کی پُرتاثیر نگاہ نے انسانیت کے بگڑے مزاج کو بدلا، بُرے حالات سے نجات دی، خونیں واقعات کو لگام دی، گندے خیالات کے زاویے موڑ دیے، مُردہ قوموں نے جس کی پاکیزہ حیات کے طفیل حیاتِ جاودانی کے گوہر سمیٹے۔
گنبد خضریٰ کی آغوش نے اپنے اندر ایسے محسن اعظمؐ کو سُلایا ہوا ہے جس نے انسانیت کو میٹھی نیند سلایا۔ انوار الہٰی کی تجلیات کو جذب کرکے اپنے قلب اطہر سے نور ہدایت کی کرنیں بکھیریں، جس کی بہ دولت انسانیت نے کمال لازوال حاصل کیا۔
اس مینار نور سے پوری وادی میں علم و عمل، تہذیب و تمدن، عزت و شرافت، عظمت و وقار، غیرت و حمیت، سطوت و ہیبت، جاہ و حشمت، بصیرت و حکمت، عزیمت و فراست، شان و شوکت، صداقت و عدالت، سخاوت و شجاعت، خلافت و حکومت، سیاست و حاکمیت کے صافی چشمے پھوٹ رہے ہیں اور گلستاں میں امن و آشتی، آزادی، سکون و راحت اور قلبی طمانیت کے برگِ گل سے مشام جان کو معطر کیے ہوئے ہے۔
کائنات کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے نسل، رنگ، قوم، قبیلہ، برادری، زبان، علاقے اور ذات پات کے تفاوت کی بنیاد پر باہمی برتری و کم تری کی کسوٹی کو یک سر مسترد کر کے معرفتِ خالق اور پرہیزگاری کی اکائی پر سب کو متحد کردیا۔ ایسا عظیم الشان دستور العمل پیش فرمایا جو صبح قیامت تک امنِ عالم کا بلاشرکت ِغیرے اکیلا ضامن ہے۔ کل بھی، آج بھی اور آئندہ بھی اسی دستور کو اپنانے میں فلاح و کام یابی کی ضمانت ہے۔ یہ جز وقتی، ہنگامی اور مخصوص اوقات کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا تھا کہ محض وقت گزرنے سے اپنی افادیت کھو بیٹھے۔ جیسا کہ چند نام نہاد مفکرین کی فکر و نظر کی کج روی اور شعور و دانش کی کم زوری نے اپنے ایسے فرسودہ خیالات کو عقل نارسا کی پاتال میں پناہ دے رکھی ہے۔
گوشت پوست کے اس مشت خاکی کو خواہشات، شہوات، کبر و غرور، تفاخر پسندی، نسل، زبان، علاقے، سیاسی و سماجی اقدار، معاشی و معاشرتی اقدار کی زنجیروں نے ہر طرف سے لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ انسانیت اس کے پنجۂ استبداد میں سسکیاں لے رہی تھی۔ اگر رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست کرم سے اس کو آزاد نہ کراتے تو کبھی بھی اس کی فضیلت و برتری ظاہر نہ ہوتی۔
انسانیت کی ستم ظریفی دیکھیے آج اپنے اسی محسنؐ کی تعلیمات کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی ہے جو آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سانحات و حوادثات کا بے رحم شکنجہ امت کو کَسے ہوئے ہے۔ اس کے لبوں پر امن و عافیت کی تمنا مقبول دعا کا روپ دھارنے کو ترس گئی ہے۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین سے بغاوت کا اثر یہ ہے کہ زمینی و سماوی عذابوں نے ایسے چرکے لگائے ہیں کہ انسانیت ابھی تک کرب و الم سے کراہ رہی ہے، اور یہ اس وقت تک کراہتی ہی رہے گی تاوقتیکہ اس کو اسی در پر نہ لے جایا جائے، جہاں کے ذرے مہر و ماہ کو شرماتے اور دل و نگاہ کو چمکاتے ہیں۔
وہ دیکھیے سامنے روضۂ اقدس ﷺ ہے، محبت و الفت اور امن آشتی کے ٹھنڈے جھونکے قلب و جان کو فرحت بخش رہے ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے والا مدینہ (یثرب) اپنے اندر وہی سکون، وہی بہار رکھتا ہے۔ مکہ کے ریگ زاروں سے مدینہ تک، شعب ابی طالب سے طائف کی گلیوں تک، غار ثور سے لے کر غار حرا تک، حضور ﷺ کی عملی زندگی قرطاس کے چہروں کو منور کر رہی ہے۔ زبان مبارک سے ادا کیا ہوا ہر لفظ مبارک اعضاء سے وجود پانے والا ہر عمل آج بھی قابل عمل اور ذریعۂ نجات کی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات پر شاہد ہے کہ آپؐ نے فرمان الہی کو کتنی دیانت داری سے پہنچایا۔
ابولہب کا سگا چچا ہوکر پتھر اچھالنا، جسد اقدس پر اوجھڑی، معاشی بائیکاٹ، وہی طائف کے پتھر جن سے آپؐ کا مبارک جسم لہولہان ہوگیا، ان سنگ ریزوں اور پتھروں کو بوچھاڑ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپؐ ایک مرتبہ گرتے ہیں تو درندے بغلوں میں ہاتھ ڈال کر پھر کھڑا کردیتے ہیں، پھر پتھروں کا مینہ برساتے ہیں، آپؐ پھر گرتے ہیں، نعلین مبارک لہو سے تر بہ تر ہوجاتے ہیں لیکن دین کی تبلیغ و اشاعت کا سفر پھر بھی جاری و ساری ہے۔
اپنا وطن، گھر بار، خاندان، رشتے دار، قوم، قبیلہ اور علاقہ ایک خدا کے لیے قربان کیا جارہا ہے، صرف اس کی خوش نودی کے لیے چٹانوں کے دامن میں بسیرا ہو رہا ہے، کبھی غاروں میں روپوش ہو رہے ہیں، بھوک اور بے سر و سامانی کے عالم میں بدر و احد کے معرکے لڑے جارہے ہیں، پیٹ پر دو پتھر باندھ کر خندق کھود رہے ہیں، اتنی عسرت اور تنگی کے عالم میں بھی خدائی احکام ادا کیے جارہے ہیں، امت کو آپس میں جاں نثاری کا درس دیا جا رہا ہے۔ رنگ، نسل، نسب کا فرق مٹ رہا ہے، کالے گورے کی تمیز ختم ہو رہی ہے، عجمی اور عربی میں تفریق اپنی موت آپ مر رہی ہے، خاندانی اور قبائلی تعصب حسد و کینہ سے پاک ہو رہے ہیں، مہاجرین و انصار ایک جسم و یک جاں بنے ہوئے ہیں، اوس و خزرج کی دشمنی باہمی مودت اور موانست میں ڈھل رہی ہے۔
پھر اس میں عورت کہاں پیچھے ہے ؟ صحابیاتؓ خصوصاً امہات المومنینؓ ان تمام مشکل اور کڑے اوقات میں دین کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرچکی ہیں۔ سب کی سوچ یہی ہے کہ باقی آنے والوں تک خدا کا یہ دستورِ حیات (قرآن کریم) پہنچ سکے، اس کے لیے زمانے کے سرد و گرم برداشت کر رہے ہیں، خوشی و تنگی کے نشیب و فراز طے کرکے دین اسلام کو ہم تک پہنچانے کی سعی کی جارہی ہے۔
لیکن! ہم نے اس دین کی کیا قدر کی ؟ اس کے احکامات کا مذاق اڑایا، آقا ﷺ کے مبارک فرامین سے رخ دوسری طرف پھیرا، اخلاقیات کا جنازہ نکالا، معاشرت کو غیروں کے طریقوں سے گزارنے کے لائحہ ہائے عمل بنائے اور میلے ٹھیلے، ناچ گانے اور موسیقی کو دین سمجھا۔ میں اسی طرح کی باتوں کو سوچ رہا تھا کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوا یقین جانیے! آنکھیں نم تھیں، میں روضۂ رسول ﷺ کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔ کبھی دیدار کی کوشش کرتا پھر خود ہی نظریں نیچے جھکا دیتا اور اپنے آپ سے سوال کرتا کہ ان آنکھوں کو کیا حق ہے کہ رسول ہاشمی ﷺ کی زیارت کریں ؟
حالت عجیب ہو رہی تھی، اپنے اعمال اور امت مسلمہ کی زبوں حالی دونوں مجھے آقا ﷺ کے حضور میں شرمندہ کر رہی تھیں کہ ہمارے اعمال آپ ﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں اور ہم پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ہماری وجہ سے آقا ﷺ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی؟ دل مضطرب کو سوائے شفاعت کی کرن کے اور کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی تھی، تحفۂ درود و سلام پیش کرنے کے بعد بہ صد ادب و احترام میں واپس پلٹ آیا۔
اللہ ہم سب کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشے اور ان کی شفاعت خاصہ نصیب فرمائے۔ آمین