ڈالر سپلائی میں اضافہ ڈیمانڈ گرگئی روپے کی بحالی
وسط ایشیائی ممالک کوبرآمدپرآمدن بینکوں میں پیشگی جمع کرانے کی شرط کاخاتمہ بڑی وجہ
انتخابات میں حصہ لینے والے بعض سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی جانب اپنے انتخابی اخراجات کوپوراکرنے کے لیے ہولڈشدہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی فروخت اوراسٹیٹ بینک کی تجارتی بینکوں کوکوئٹہ کے راستے وسط ایشیا کے ممالک کے لیے برآمدات کے عوض نقد ڈالرکی وصولیاں روکنے کے احکام سے اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی یومیہ طلب 40 لاکھ ڈالر سے گھٹ کر10 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے روپے کی نسبت امریکی ڈالر کی قدر میں بتدریج کمی کا رحجان غالب ہے۔
منی مارکیٹ کے ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ بلوچستان کے راستے وسط ایشیا کے ممالک کو برآمدات کرنے والے ایکسپورٹرز برآمدی آمدن ایڈوانس زرمبادلہ کی شکل میں دینے کی شرط پوری کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدکر بینکوں میں جمع کراتے تھے جس کی وجہ سے اوپن ماکیٹ پردباؤ بڑھ گیا تھا لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے مذکورہ شرط ختم کرنے سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب گھٹ گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے سرپلس ڈالر تجارتی بینکوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں کیونکہ ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی ڈالر کے عمومی طلب گاروں کی جانب سے خریداری ختم ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بتدریج گھٹ کر123 روپے50 پیسے تا124 روپے کے درمیان دستیاب ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک محمدبوستان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈالر میں سرمایہ کاری کرکے منافع کمانے والے انویسٹرز گزشتہ 2ہفتوں سے اوپن کرنسی مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے ہیں نہ اپنے بینک کھاتوں میں جمع کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حج سیزن شروع ہونے اور ڈالر وریال کی ڈیمانڈ بڑھنے کے باوجود ڈالر کی قدر تنزلی کا شکار ہے۔
ملک بوستان نے بتایا کہ فاریکس ایسوسی ایشن کی اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرفان علی شاہ کے ساتھ حالیہ میٹنگ میں ہدایت کی گئی ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کی قدر کا فرق 2 روپے سے زائد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالرکی قدرمیں نمایاں فرق سے سمندرپار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زربری طرح متاثر ہوتی ہیں اور وہ قانونی چینلز کے بجائے ہنڈی یا حوالہ کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔
منی مارکیٹ کے ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا کہ بلوچستان کے راستے وسط ایشیا کے ممالک کو برآمدات کرنے والے ایکسپورٹرز برآمدی آمدن ایڈوانس زرمبادلہ کی شکل میں دینے کی شرط پوری کرنے کے لیے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خریدکر بینکوں میں جمع کراتے تھے جس کی وجہ سے اوپن ماکیٹ پردباؤ بڑھ گیا تھا لیکن اسٹیٹ بینک کی جانب سے مذکورہ شرط ختم کرنے سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب گھٹ گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے سرپلس ڈالر تجارتی بینکوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں کیونکہ ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی ڈالر کے عمومی طلب گاروں کی جانب سے خریداری ختم ہوگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بتدریج گھٹ کر123 روپے50 پیسے تا124 روپے کے درمیان دستیاب ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک محمدبوستان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ڈالر میں سرمایہ کاری کرکے منافع کمانے والے انویسٹرز گزشتہ 2ہفتوں سے اوپن کرنسی مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے ہیں نہ اپنے بینک کھاتوں میں جمع کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حج سیزن شروع ہونے اور ڈالر وریال کی ڈیمانڈ بڑھنے کے باوجود ڈالر کی قدر تنزلی کا شکار ہے۔
ملک بوستان نے بتایا کہ فاریکس ایسوسی ایشن کی اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرفان علی شاہ کے ساتھ حالیہ میٹنگ میں ہدایت کی گئی ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کی قدر کا فرق 2 روپے سے زائد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالرکی قدرمیں نمایاں فرق سے سمندرپار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زربری طرح متاثر ہوتی ہیں اور وہ قانونی چینلز کے بجائے ہنڈی یا حوالہ کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔