عام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے سکیورٹی خدشات
ملک کو عدم استحکام اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے ملک دشمن عناصر کی تمام تر کارروائیوں کے۔۔۔
ملک کو عدم استحکام اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لئے ملک دشمن عناصر کی تمام تر کارروائیوں کے باوجود عام انتخابات طے کردہ نظام الاوقات کے تحت اب سے دو دن بعد ہونے جا رہے ہیں۔
دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں گزشتہ کچھ دنوں سے مزید شدت آ گئی ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امن و امان کی گھمبیر صورتحال کے باعث عام انتخابات التواء کا شکار ہو سکتے ہیں، اب انتخابی دنگل کے انعقاد میں محض دو دن رہ گئے ہیں، انتخابی مہم نقطہ عروج پر ہے، ملک کے 3 صوبوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث بعض جماعتوں نے غیر اعلانیہ انتخابی سرگرمیاں روک رکھی ہیں اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتیں بڑے سیاسی جلسوں سے دانستہ اجتناب برت رہی ہیں۔
نگراں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لئے سکیورٹی پلان کی منظوری دے دی ہے، تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ملک دشمن عناصر تخریبی کارروائیوں کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے متحرک ہیں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض عالمی طاقتیں دانستہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے یہ کھیل کھیل رہی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر امن و امان کی صورتحال یہی رہی تو 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں گی۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یوم شہداء کے موقع پر ایک بڑی تقریب سے خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ کوئی شک میں نہ رہے، عام انتخابات 11 مئی کو ہوں گے، انتخابات کے التواء کی تمام تر قیاس آرائیاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی کے خطاب اور واضح موقف کے بعد بہت حد تک دم توڑ گئی ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے آرمی چیف کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بیان جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے خوش آئند ہے۔
بعض سیاستدانوں نے آرمی چیف کی طرف سے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں بیان کو ان کی جمہوریت پسندی سے تعبیر کیا ہے، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے بھی امن و امان کو عام انتخابات کے انعقاد کیلئے انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گے، وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمشنر کے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملک کے بعض حصوں میں تخریب کار عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشنز کی منظوری دے دی ہے اور حساس مقامات پر پاک فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 70 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو عام انتخابات کے دوران ملک بھر میں تعینات کیا جائے گا، دفاعی ذرائع کے مطابق صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
دیگر صوبوں میں سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کا عمل جاری ہے، بعض حلقوں نے نگراں حکومت کی طرف سے لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کے لئے فوج کی خدمات حاصل کرنے میں لیت و لعل برتنے پر تنقید بھی کی ہے اور کہا ہے کہ نگراں حکومت بدترین امن و امان کی صورتحال کے باوجود فوج کو براہ راست تعینات کرنے میں غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے قوم سے پہلے خطاب میں عام انتخابات 11 مئی کو آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدرانہ کرانے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے امن و امان کا قیام نگراں حکومت کی اہم ترجیح ہے کسی کو عوام کے جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، وزیر اعظم نے خطاب کے دوران ایک اہم بات کی ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔
اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے فوری حوالے کر کے نگراں حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے گی، بلاشبہ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سیاسی حلقے بہت پذیرائی دے رہے ہیں، بعض حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کی پیشکش کس نے کی ہے اور کیوں کی ہے؟ اگرچہ اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ یہ پیشکش کہاں سے کی گئی ہے، نگراں حکومت کے قیام سے بہت پہلے یہ قیاس آرائیاں زبان زد و عام تھیں کہ نگراں سیٹ اپ 2 سے 3 سال کے لئے وجود میں آئے گا اور ایک قومی حکومت بھی قائم کی جا سکتی ہے، تاہم ایسی قیاس آرائیاں عام انتخابات میں التواء کی طرح دم توڑ گئی ہیں۔
نگراں وزیر اعظم نے اگرچہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہ دینے اور سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے جتنے بھی دعوے اور اعلانات کئے ہیں وہ زمینی حقائق سے بالکل متصادم ہیں کیونکہ امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، نگراں حکومت امن و امان کے قیام میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، انتخابی مہم آئندہ چند روز تک ختم ہو جائے گی، بعض سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جاری اشتہاری مہم کے باعث شدید محاذ آرائی جاری ہے بالخصوص پیپلز پارٹی نے الیکشن کے دوران انتخابی مہم چلانے کے بجائے صرف اشتہارات پر توجہ دے رہی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ان اشتہارات کے ذریعے ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو انتخابی مہم مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے گرد گھوم رہی ہے، عمران خان اور میاں نواز شریف ایک نئے پاکستان کے سلوگن کے تحت انقلاب آفر میں اعلانات کر رہے ہیں، عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں جارحانہ انداز میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) اسلام آباد کے دونوں امیدواروں انجم عقیل خان اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اسلام آباد میں بھر پور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک بڑا جلسہ عام منعقد کرایا، میاں نواز شریف اس جلسہ سے خطاب کے دوران انتہائی پُرعزم نظر آ رہے تھے میاں نواز شریف نے عمران خان اور آصف زرداری کو اناڑی کھلاڑی اور شکاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ تبدیلی ہم لے کر آئیں گے، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں آئندہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، انتخابات کے بعد حکومت سازی ایک اہم مرحلہ ہو گا۔
دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں گزشتہ کچھ دنوں سے مزید شدت آ گئی ہے، یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ امن و امان کی گھمبیر صورتحال کے باعث عام انتخابات التواء کا شکار ہو سکتے ہیں، اب انتخابی دنگل کے انعقاد میں محض دو دن رہ گئے ہیں، انتخابی مہم نقطہ عروج پر ہے، ملک کے 3 صوبوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث بعض جماعتوں نے غیر اعلانیہ انتخابی سرگرمیاں روک رکھی ہیں اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتیں بڑے سیاسی جلسوں سے دانستہ اجتناب برت رہی ہیں۔
نگراں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لئے سکیورٹی پلان کی منظوری دے دی ہے، تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ملک دشمن عناصر تخریبی کارروائیوں کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے متحرک ہیں اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض عالمی طاقتیں دانستہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے یہ کھیل کھیل رہی ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر امن و امان کی صورتحال یہی رہی تو 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں گی۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے یوم شہداء کے موقع پر ایک بڑی تقریب سے خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ کوئی شک میں نہ رہے، عام انتخابات 11 مئی کو ہوں گے، انتخابات کے التواء کی تمام تر قیاس آرائیاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق کیانی کے خطاب اور واضح موقف کے بعد بہت حد تک دم توڑ گئی ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے آرمی چیف کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بیان جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے خوش آئند ہے۔
بعض سیاستدانوں نے آرمی چیف کی طرف سے عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں بیان کو ان کی جمہوریت پسندی سے تعبیر کیا ہے، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے بھی امن و امان کو عام انتخابات کے انعقاد کیلئے انتہائی اہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انتخابات طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گے، وزیر اعظم نے چیف الیکشن کمشنر کے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملک کے بعض حصوں میں تخریب کار عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشنز کی منظوری دے دی ہے اور حساس مقامات پر پاک فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 70 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو عام انتخابات کے دوران ملک بھر میں تعینات کیا جائے گا، دفاعی ذرائع کے مطابق صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
دیگر صوبوں میں سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے کا عمل جاری ہے، بعض حلقوں نے نگراں حکومت کی طرف سے لاء اینڈ آرڈر کو یقینی بنانے کے لئے فوج کی خدمات حاصل کرنے میں لیت و لعل برتنے پر تنقید بھی کی ہے اور کہا ہے کہ نگراں حکومت بدترین امن و امان کی صورتحال کے باوجود فوج کو براہ راست تعینات کرنے میں غیر ضروری تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو نے قوم سے پہلے خطاب میں عام انتخابات 11 مئی کو آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدرانہ کرانے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا ہے امن و امان کا قیام نگراں حکومت کی اہم ترجیح ہے کسی کو عوام کے جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، وزیر اعظم نے خطاب کے دوران ایک اہم بات کی ہے کہ نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔
اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے فوری حوالے کر کے نگراں حکومت اپنی آئینی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائے گی، بلاشبہ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سیاسی حلقے بہت پذیرائی دے رہے ہیں، بعض حلقے یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کو نگراں حکومت کی مدت میں توسیع کی پیشکش کس نے کی ہے اور کیوں کی ہے؟ اگرچہ اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ یہ پیشکش کہاں سے کی گئی ہے، نگراں حکومت کے قیام سے بہت پہلے یہ قیاس آرائیاں زبان زد و عام تھیں کہ نگراں سیٹ اپ 2 سے 3 سال کے لئے وجود میں آئے گا اور ایک قومی حکومت بھی قائم کی جا سکتی ہے، تاہم ایسی قیاس آرائیاں عام انتخابات میں التواء کی طرح دم توڑ گئی ہیں۔
نگراں وزیر اعظم نے اگرچہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہ دینے اور سکیورٹی کو فول پروف بنانے کے جتنے بھی دعوے اور اعلانات کئے ہیں وہ زمینی حقائق سے بالکل متصادم ہیں کیونکہ امن و امان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، نگراں حکومت امن و امان کے قیام میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، انتخابی مہم آئندہ چند روز تک ختم ہو جائے گی، بعض سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر جاری اشتہاری مہم کے باعث شدید محاذ آرائی جاری ہے بالخصوص پیپلز پارٹی نے الیکشن کے دوران انتخابی مہم چلانے کے بجائے صرف اشتہارات پر توجہ دے رہی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ان اشتہارات کے ذریعے ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو انتخابی مہم مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے گرد گھوم رہی ہے، عمران خان اور میاں نواز شریف ایک نئے پاکستان کے سلوگن کے تحت انقلاب آفر میں اعلانات کر رہے ہیں، عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں جارحانہ انداز میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) اسلام آباد کے دونوں امیدواروں انجم عقیل خان اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اسلام آباد میں بھر پور عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک بڑا جلسہ عام منعقد کرایا، میاں نواز شریف اس جلسہ سے خطاب کے دوران انتہائی پُرعزم نظر آ رہے تھے میاں نواز شریف نے عمران خان اور آصف زرداری کو اناڑی کھلاڑی اور شکاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ تبدیلی ہم لے کر آئیں گے، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں آئندہ ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی، انتخابات کے بعد حکومت سازی ایک اہم مرحلہ ہو گا۔