اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا
یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کی چھتری کے بغیر ملک پر غیر متنازعہ اور غیر جانبدار نگران حکومت، متفق علیہ آزاد و خودمختار۔۔۔
11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات مختلف حوالوں سے نئی تاریخ رقم کررہے ہیں ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کی چھتری کے بغیر ملک پر غیر متنازعہ اور غیر جانبدار نگران حکومت، متفق علیہ آزاد و خودمختار الیکشن کمشن کے زیر انتظام عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ، جن میں کم وبیش تمام قابل ذکر ( بڑی اور چھوٹی ) جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ، حتیٰ کہ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیوایم جیسی جماعتیں بھی جن کے امیدوار اور انتخابی جلسے دہشت گردی کا شکار ہوئے اور جنہیں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل اور مشکلات کاسامنا ہے، انتخابات کا حصہ ہیں۔
اس وقت جب کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں امیدواروں کی طرف سے چلائی جانے والی انتخابی مہم نکتہء عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساٹھ سالہ 'جواں سال ' چیئرمین ایک دن میں زیادہ سے زیادہ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کررہے ہیں ۔ وہ مختلف شہروں کے طوفانی دورے کرکے عوامی اجتماعات میں ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں تمام زورِخطابت صرف کررہے ہیں ۔ ان انتخابی جلسوں میں ان کا انداز پہلے کی نسبت زیادہ جارحانہ ہوگیاہے ۔
عمران خان کا اصل ہدف ( یا ہِٹ لِسٹ پر) مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کے قائدین ہیں وہ پوری قوت کے ساتھ انہیں للکار رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم سے انہوں نے شائد سیز فائر کررکھی ہے کہ ان کی تقاریر میں ان جماعتوں کے قائدین کا نام ِ نامی کم کم ہی آتاہے ۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائدین میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف بھی اپنی جماعت کی کامیابی اور اپنے نامزد امیدواروں کی سپورٹ میں جلسے کرنے میں مصروف ہیں ۔
عمران خان کے پاس حکومتی حوالے سے ابھی تک ایسی کوئی کارکردگی نہیں ہے کہ جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں ، البتہ شریف برادران گزشتہ دو اڑھائی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے چلے آ رہے ہیں ، اپنی کارکردگی ہی کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہے ہیں ۔
مسلم لیگ ن کو اس مرتبہ زیادہ مزاحمت کا سامنا یوں بھی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اسے صرف پیپلزپارٹی سے مقابلہ کے لیے خود کوتیار کرنا پڑتا تھا جبکہ اس مرتبہ شومئی قسمت کہ ان کا واسطہ عمران خان کی تحریک انصاف سے پڑا ہے جو انہیں ٹف ٹائم دے رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ن لیگ کے خلاف زبردست اشتہاری مہم چلائے ہوئے ہے، رہی سہی کسر جماعت اسلامی والے نکال رہے ہیں جو مسلم لیگ ن میں اپنی بساط کے مطابق ڈنٹ ڈالنے اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لینے کے لیے خم ٹھونک کرکھڑے ہیں ۔
اس منظر نامے میں پیپلزپارٹی ، جسے عوامی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے، اس کی حالت نسبتاً پتلی دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے قائدین سکیورٹی خدشات کے پیش نظر عوام کے سامنے جانے سے گریزاں ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کی گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی بھی خود ان کے ضمیر کا بوجھ بن چکی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے ان کی تمام خوبیوں اور کارناموں کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اپنی پارٹی کوسنبھالا دینے اور مسلم لیگ ن کی کمر میں چھرا گھونپنے کے لیے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں وہ گزشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت میں آئے جہاں انہوں نے پریس کانفرنس کرکے شریف برادارن کی طرف سے جعل سازی کے ذریعے 170 لاکھ ڈالرکی منی لانڈرنگ کرنے کا ''انکشاف'' کیا ۔
جس کی بازگشت ایک عرصہ سے عوام سنتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے اس عزم کااظہار بھی کیاکہ وہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمشن آف پاکستان سے رجوع کریں گے ۔ رحمان ملک نے اگرچہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے مسلم لیگ ن پر بظاہر بڑا کاری وار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان نے ایک ہی جملے میں اسے ڈی فیوز کردیا کہ '' مذکورہ منی لانڈرنگ کا انکشاف سابق وزیر داخلہ نے اپنے دور حکومت میں کیوں نہیں کیا اور یہ کیس اس وقت عدالتوں کو کیوں نہیں بھجوایا گیا ،اس کا صاف مطلب ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان مک مکا تھا جس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا ''۔
رحمان ملک کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے اور بھی بے شمار کیسز اورسکینڈلز ہیں جنہیں وہ منظرعام پر لاسکتے ہیں ۔ بہر حال اس تمام کدو کاوش کے باوجود مسلم لیگ ن کے قائدین کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پیپلزپارٹی کو اس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا کہ الیکشن میں اپنے لیے کوئی بڑا حصہ ٓحاصل کرنا اس کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ عمومی فضا ابھی تک پوری طرح اس کے حق میں نہیں جارہی اور ماضی کے مقابلے میں اسے بہرحال اپنی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامناہے ۔
کارنر میٹنگزاور سیاسی اجتماعات میں اس کے قائدین اور امیدوار عوام سے مخاطب ہونے میں خود کو ''اَن ایزی '' محسوس کررہے ہیں سوائے ان چند حلقوں میں کہ جہاں پر امیدوار کی جماعت سے ہٹ کر بھی اپنی پوزیشن بہتر اورذاتی یا برادری سطح پر ووٹ بنک موجود ہے ۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ کم ازکم شہری حلقوں میں اب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی زیادہ تر مقابلہ ہوگا ۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کاحامل ہے کہ الیکشن کے بعد اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا؟ کیونکہ ابھی تک سیاسی موسم ابر آلود ہے اور لوگ اس شک وشبہ میں مبتلا ہیں کہ گیارہ مئی کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی پنڈت جو ان مواقع پر دور کی کوڑی لایا کرتے تھے اب گنگ ہیں کہ نہ معلوم انتخابات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے ؟
بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اس مرتبہ ملک کی مذہبی جماعتیں بھی کسی اتحاد کے بغیر اپنے اپنے الگ انتخابی نشان کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہیں ۔کئی عشروں کے بعد یہ پہلاموقع ہے کہ جب اسلامی نظام کی داعی، نظام مصطفی کے قیام کی علمبردارا ور مذہب کے نام پر سیاسی بساط بچھانے والی یہ جماعتیں کسی مذہبی ہم آہنگی یا اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے باہم نبرد آزما ہیں ۔ان جماعتوں میں ایم ایم اے کی صورت میں کامیاب انتخابی تجربہ رکھنے والی جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث خاص طورپر قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ اہل تشیع کے نمائندہ جماعت مجلس وحدت المسلمین ، دیوبندی مسلک کی اہلسنت و الجماعت، اہلحدیث مسلک کی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، بریلوی مسلک کی سنی اتحاد کونسل ، پاکستان سنی تحریک بھی اپنے طورپر مقابلے میں ہیں ۔
متحدہ دینی محاذ کے نام سے ایک کمزور اور نحیف سا انتخابی اتحاد بھی اگرچہ موجود ہے لیکن درپیش حالات میں اس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے ۔بین الاقوامی شہرت یافتہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی زیر قیادت تحریک تحفظ پاکستان بھی امیدوار لے کرآئی ہے اسی طرح ایم کیو ایم بھی کہیں کہیں دکھائی پڑتی ہے لیکن ان کی پوزیشن بھی قابل رشک نہیں ہے ۔سو چند ایک کے سوا ان تمام مذہبی ، مسلکی یا لسانی بنیادوں پر قائم جماعتوں میں کوئی ایک بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پنجاب میں کوئی قابل ذکر تعداد میں نشستیں حاصل کرکے ایوان میں کوئی کرداراد ا کرسکے ۔
کیونکہ اتحاد سے باہر ان جماعتوں کا کردار منفی رہ جاتا ہے چنانچہ الیکشن میں یہ جماعتیں کہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک خراب کریں گی اور کہیں پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچائیں گی اس کے علاوہ یہ کوئی بڑا تیر نہیں مارسکیں گی 11مئی کو شام کے وقت ان میں سے بیشتر جماعتوں کے دفاتر شامِ غریباں کا منظر پیش کررہے ہوں گے ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کی چھتری کے بغیر ملک پر غیر متنازعہ اور غیر جانبدار نگران حکومت، متفق علیہ آزاد و خودمختار الیکشن کمشن کے زیر انتظام عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ، جن میں کم وبیش تمام قابل ذکر ( بڑی اور چھوٹی ) جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ، حتیٰ کہ عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیوایم جیسی جماعتیں بھی جن کے امیدوار اور انتخابی جلسے دہشت گردی کا شکار ہوئے اور جنہیں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل اور مشکلات کاسامنا ہے، انتخابات کا حصہ ہیں۔
اس وقت جب کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں امیدواروں کی طرف سے چلائی جانے والی انتخابی مہم نکتہء عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساٹھ سالہ 'جواں سال ' چیئرمین ایک دن میں زیادہ سے زیادہ انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے کا نیا ریکارڈ قائم کررہے ہیں ۔ وہ مختلف شہروں کے طوفانی دورے کرکے عوامی اجتماعات میں ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں تمام زورِخطابت صرف کررہے ہیں ۔ ان انتخابی جلسوں میں ان کا انداز پہلے کی نسبت زیادہ جارحانہ ہوگیاہے ۔
عمران خان کا اصل ہدف ( یا ہِٹ لِسٹ پر) مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کے قائدین ہیں وہ پوری قوت کے ساتھ انہیں للکار رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ق اور ایم کیوایم سے انہوں نے شائد سیز فائر کررکھی ہے کہ ان کی تقاریر میں ان جماعتوں کے قائدین کا نام ِ نامی کم کم ہی آتاہے ۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائدین میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف بھی اپنی جماعت کی کامیابی اور اپنے نامزد امیدواروں کی سپورٹ میں جلسے کرنے میں مصروف ہیں ۔
عمران خان کے پاس حکومتی حوالے سے ابھی تک ایسی کوئی کارکردگی نہیں ہے کہ جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرسکیں ، البتہ شریف برادران گزشتہ دو اڑھائی دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹتے چلے آ رہے ہیں ، اپنی کارکردگی ہی کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہے ہیں ۔
مسلم لیگ ن کو اس مرتبہ زیادہ مزاحمت کا سامنا یوں بھی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اسے صرف پیپلزپارٹی سے مقابلہ کے لیے خود کوتیار کرنا پڑتا تھا جبکہ اس مرتبہ شومئی قسمت کہ ان کا واسطہ عمران خان کی تحریک انصاف سے پڑا ہے جو انہیں ٹف ٹائم دے رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ن لیگ کے خلاف زبردست اشتہاری مہم چلائے ہوئے ہے، رہی سہی کسر جماعت اسلامی والے نکال رہے ہیں جو مسلم لیگ ن میں اپنی بساط کے مطابق ڈنٹ ڈالنے اور اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لینے کے لیے خم ٹھونک کرکھڑے ہیں ۔
اس منظر نامے میں پیپلزپارٹی ، جسے عوامی جماعت ہونے کا دعویٰ ہے، اس کی حالت نسبتاً پتلی دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے قائدین سکیورٹی خدشات کے پیش نظر عوام کے سامنے جانے سے گریزاں ہیں ۔ علاوہ ازیں ان کی گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی بھی خود ان کے ضمیر کا بوجھ بن چکی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے ان کی تمام خوبیوں اور کارناموں کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ اپنی پارٹی کوسنبھالا دینے اور مسلم لیگ ن کی کمر میں چھرا گھونپنے کے لیے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں وہ گزشتہ دنوں صوبائی دارالحکومت میں آئے جہاں انہوں نے پریس کانفرنس کرکے شریف برادارن کی طرف سے جعل سازی کے ذریعے 170 لاکھ ڈالرکی منی لانڈرنگ کرنے کا ''انکشاف'' کیا ۔
جس کی بازگشت ایک عرصہ سے عوام سنتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے اس عزم کااظہار بھی کیاکہ وہ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمشن آف پاکستان سے رجوع کریں گے ۔ رحمان ملک نے اگرچہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے مسلم لیگ ن پر بظاہر بڑا کاری وار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن عمران خان نے ایک ہی جملے میں اسے ڈی فیوز کردیا کہ '' مذکورہ منی لانڈرنگ کا انکشاف سابق وزیر داخلہ نے اپنے دور حکومت میں کیوں نہیں کیا اور یہ کیس اس وقت عدالتوں کو کیوں نہیں بھجوایا گیا ،اس کا صاف مطلب ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے درمیان مک مکا تھا جس کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا ''۔
رحمان ملک کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے اور بھی بے شمار کیسز اورسکینڈلز ہیں جنہیں وہ منظرعام پر لاسکتے ہیں ۔ بہر حال اس تمام کدو کاوش کے باوجود مسلم لیگ ن کے قائدین کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ پیپلزپارٹی کو اس کا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوگا کہ الیکشن میں اپنے لیے کوئی بڑا حصہ ٓحاصل کرنا اس کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ عمومی فضا ابھی تک پوری طرح اس کے حق میں نہیں جارہی اور ماضی کے مقابلے میں اسے بہرحال اپنی انتخابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامناہے ۔
کارنر میٹنگزاور سیاسی اجتماعات میں اس کے قائدین اور امیدوار عوام سے مخاطب ہونے میں خود کو ''اَن ایزی '' محسوس کررہے ہیں سوائے ان چند حلقوں میں کہ جہاں پر امیدوار کی جماعت سے ہٹ کر بھی اپنی پوزیشن بہتر اورذاتی یا برادری سطح پر ووٹ بنک موجود ہے ۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ کم ازکم شہری حلقوں میں اب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی زیادہ تر مقابلہ ہوگا ۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کاحامل ہے کہ الیکشن کے بعد اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا؟ کیونکہ ابھی تک سیاسی موسم ابر آلود ہے اور لوگ اس شک وشبہ میں مبتلا ہیں کہ گیارہ مئی کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ چنانچہ وہ سیاسی پنڈت جو ان مواقع پر دور کی کوڑی لایا کرتے تھے اب گنگ ہیں کہ نہ معلوم انتخابات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے ؟
بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اس مرتبہ ملک کی مذہبی جماعتیں بھی کسی اتحاد کے بغیر اپنے اپنے الگ انتخابی نشان کے ساتھ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی ہیں ۔کئی عشروں کے بعد یہ پہلاموقع ہے کہ جب اسلامی نظام کی داعی، نظام مصطفی کے قیام کی علمبردارا ور مذہب کے نام پر سیاسی بساط بچھانے والی یہ جماعتیں کسی مذہبی ہم آہنگی یا اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے باہم نبرد آزما ہیں ۔ان جماعتوں میں ایم ایم اے کی صورت میں کامیاب انتخابی تجربہ رکھنے والی جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث خاص طورپر قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ اہل تشیع کے نمائندہ جماعت مجلس وحدت المسلمین ، دیوبندی مسلک کی اہلسنت و الجماعت، اہلحدیث مسلک کی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، بریلوی مسلک کی سنی اتحاد کونسل ، پاکستان سنی تحریک بھی اپنے طورپر مقابلے میں ہیں ۔
متحدہ دینی محاذ کے نام سے ایک کمزور اور نحیف سا انتخابی اتحاد بھی اگرچہ موجود ہے لیکن درپیش حالات میں اس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے ۔بین الاقوامی شہرت یافتہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی زیر قیادت تحریک تحفظ پاکستان بھی امیدوار لے کرآئی ہے اسی طرح ایم کیو ایم بھی کہیں کہیں دکھائی پڑتی ہے لیکن ان کی پوزیشن بھی قابل رشک نہیں ہے ۔سو چند ایک کے سوا ان تمام مذہبی ، مسلکی یا لسانی بنیادوں پر قائم جماعتوں میں کوئی ایک بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پنجاب میں کوئی قابل ذکر تعداد میں نشستیں حاصل کرکے ایوان میں کوئی کرداراد ا کرسکے ۔
کیونکہ اتحاد سے باہر ان جماعتوں کا کردار منفی رہ جاتا ہے چنانچہ الیکشن میں یہ جماعتیں کہیں مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک خراب کریں گی اور کہیں پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچائیں گی اس کے علاوہ یہ کوئی بڑا تیر نہیں مارسکیں گی 11مئی کو شام کے وقت ان میں سے بیشتر جماعتوں کے دفاتر شامِ غریباں کا منظر پیش کررہے ہوں گے ۔