بعض پارٹیوں کو الیکشن مہم چلانے سے روکنے پر سندھی عوام کے تحفظات

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے گزشتہ 66 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال۔۔۔


G M Jamali May 07, 2013
11 مئی 2013ء کے دن کو پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

لاہور: 11 مئی 2013ء کے دن کو پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کے گزشتہ 66 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کئے ہیں اور دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا جارہا ہے لیکن یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ غیر جمہوری قوتوں نے جمہوری عمل کو یرغمال بنالیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور دیگر لبرل اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے نہیں دی گئی۔ اگرچہ جمعیت علماء اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور دائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتوں کی انتخابی ریلی پر حملے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے کھل کر اپنی انتخابی مہم چلائی ہے۔

یہ موقع بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کو نہیں مل سکا ہے۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف پہلی مرتبہ ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اور پنجاب میں اس نے اپنی سیاسی طاقت کے بڑے بڑے مظاہرے کئے ہیں۔ تحریک انصاف نے ان سیاسی جماعتوں کو بھی للکارا ہے جو نظریاتی طور پر اس کے قریب ہیں۔ اس وقت جو انتخابی ماحول بنایا گیا ہے، اس میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں میں آپس میں کھینچا تانی ہے۔

سندھ میں بھی پیپلز پارٹی اور دیگر لبرل جماعتیں کھل کر انتخابی مہم نہیں چلا سکی ہیں ، لیکن اس ماحول کے باوجود بھی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اس صوبے میں مقبولیت حاصل نہیں کرسکی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی مزاحمت اب بھی موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پیپلز پارٹی اس مزاحمت کو سیاسی طور پر استعمال نہیں کرسکی ہے یا وہ مصلحتاً اسے فی الوقت استعمال نہیں کرنا چاہتی ہے۔

سندھ میں اگلے چار روز کے بعد جو سیاسی منظر نامہ بننے والا ہے، اس کے بارے میں اب اندازے لگانا زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ یہ بہت مشکل نظر آرہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے سے روکا جاسکے۔ اگرچہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں تھوڑا بہت اپ سیٹ ہوسکتا ہے لیکن تمام تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہی بنے گی۔ اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی اتحاد انتخابات میں بھی نہیں ٹوٹ سکا ہے حالانکہ ان تینوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار بھی کھڑے کر رکھے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی قیادت غیر جمہوری قوتوں کے پیدا کردہ اس ماحول میں پاکستانی معاشرے کو تصادم کی طرف دھکیلنے سے گریز کررہی ہے کیونکہ اس نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ بعض قوتیں ہر حال میں تصادم چاہتی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بالکل یہ واضح کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پورے ملک میں اکثریت نہ ملے تاہم میاں رضا ربانی اس بات پر پرامید ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا تاریخی طور پر 38 فیصد ووٹ بینک رہا ہے اور کہیں کہیں اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو اسی تناسب سے 11 مئی کو ووٹ ملے اور دھاندلی نہ کی گئی تو حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں کیونکہ ووٹ بینک دائیں بازو کا تقسیم ہوا ہے۔

پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی نظریں اس وقت پنجاب پر ہیں۔ سندھ کے لوگ بھی پنجاب کے انتخابی نتائج کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں، کیونکہ انہیں بھی دیگر صوبوں کے عوام کی طرح بہت سے خدشات ہیں۔ پنجاب کے عوام کے مینڈیٹ کے نام پر جن سیاسی پارٹیوں کو پاکستان پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان پارٹیوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) بھی شامل ہیں۔ یہ جماعتیں چاہتی ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔

مذاکرات کی حامی تو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی ہیں، لیکن تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) اس بات کی وضاحت نہیں کررہی ہیں کہ کیا طالبان پاکستان کے آئین اور جمہوری عمل کو تسلیم کرلیں گی اور کیا مذاکرات طالبان کی شرائط پر ہوں گے یا پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق؟۔ سندھ کے عوام کو یہ خدشات ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو طالبان کی حمایت حاصل ہے۔ سندھ کے لوگوں کے لئے دوسری تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اپنے منشور میں پاکستان میں مزید کئی صوبے بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ سندھ کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

سندھ کے لوگ میاں شہباز شریف کا یہ بیان ہر گز نہیں بھول سکتے کہ اگر پنجاب تقسیم ہوسکتا ہے تو سندھ بھی تقسیم ہوسکتا ہے۔ سندھ کے لوگ اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے جو آئینی اصلاحات کی ہیں، یہ دونوں جماعتیں رول بیک نہ کردیں۔ پیپلز پارٹی نے 1973ء کا آئین بحال کیا اور صوبوں کو خود مختاری دی۔ پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست بنایا کیونکہ اسی صورت میں ہی پاکستان کا وفاق قائم رہ سکتا ہے۔

اگر یہ آئینی اصلاحات واپس لی گئیں یا صوبوں کی خود مختاری میں کمی کی گئی تو سینیٹر رضا ربانی نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود تبدیل ہوجائیں گی اور یہی خدشہ سندھ کے لوگوں کا بھی ہے۔ سندھ کے لوگوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جنرل (ر) پرویز مشرف والے شہری/ ضلعی حکومتوں والے نظام کو دوبارہ نافذ نہ کردیں کیونکہ ان دونوں کا پسندیدہ نظام ہے۔ سندھ کے لوگوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں یہ پارٹیاں گوادر پورٹ چین سے واپس لے کر امریکہ کے حوالے نہ کردیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ منسوخ نہ کردیں اور تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ایک بار پھر منسوخ نہ کردیں۔ سندھ کے عوام ان خدشات کے ساتھ الیکشن میں جارہے ہیں اور یہ خدشات سندھ کے عوام کی نئی سیاسی سمت کا تعین کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں