صوبے میں کوئی انتخابی اتحاد نہ ہو سکا
بلوچستان میں بم دھماکوں، انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے اور مختلف سیاسی وقبائلی شخصیات کے قافلوں پر حملوں کے بعد...
KARACHI:
بلوچستان میں بم دھماکوں، انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے اور مختلف سیاسی وقبائلی شخصیات کے قافلوں پر حملوں کے بعد انتخابی گہماگہمی ماند پڑگئی ہے۔
تاہم بعض علاقوں میں خصوصاً پشتون ایریاز میں انتخابی سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ جبکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے اورانتخابات میں کسی قسم کی گڑبڑ پر قابوپانے کے لئے مختلف علاقوں میں پاک فوج کوروانہ کردیاگیا ہے، بلوچستان کے سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں انتخابات کے حوالے سے حکومتی اقدامات کئے توجارہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام میں بم دھماکوں اور دستی بم حملوں کی دھمکیوں کے بعدسخت خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
ان حلقوں کے مطابق2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ ٹرن آئوٹ کم رہے گا اور جو امیدوار اپنے ووٹرز گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشن تک پہنچانے میں کامیاب ہوگا و ہی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ ان حلقوں کے مطابق بلوچستان میں11 مئی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کھچڑی پکتی نظر آرہی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی۔
دوسری جانب بلوچستان میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ کوئی بڑے انتخابی اتحاد یا الائنس قائم ہوں گے لیکن ایسا کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔خصوصاً یہ توقع کی جارہی تھی کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی(مینگل) ان انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے، ان دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے کافی دور ہوئے لیکن دونوں جماعتیں اس حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ پائیں اور نہ ہی ان دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکی ہے ۔
تاہم نیشنل پارٹی ، بی این پی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے اپنے طورپر اپنی ضلعی قیادت کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ جہاں وہ مناسب سمجھیں سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہیں یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی حلقہ این اے259 کوئٹہ سٹی سے نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے حق میں دستبردارکردیا۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف) اور بی این پی(مینگل) کے درمیان بھی بعض نشستوں پرسیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بات چیت جاری ہے۔
مسلم لیگ(ن) بعض سیٹوں پر پشتونخواملی عوامی پارٹی اوربی این پی مینگل کے امیدواروں کی حمایت تو کررہی ہے لیکن اندرونی طور پراسے بعض حلقوں میں اپنے ناراض ساتھیوں کی سخت مخالفت کا بھی سامنا ہے ، جنہیں پارٹی ٹکٹ نہیں مل پائے وہ پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرامیدواروں کے مخالف آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کے باعث کوئٹہ شہر سمیت بعض حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ تقسیم ہوتادکھائی دے رہاہے جس کا فائدہ یقیناً دوسری جماعتوں ہوگا۔ جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیدواروں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثر نشستوں پرجمعیت کا ووٹ تقسیم ہوچکا ہے جس کا فائدہ ان حلقوں میں تیسری جماعت کے امیدوار کو ہوگا۔
اسی طرح نصیرآباد اورجعفرآباد میں جمالی خاندان میں اختلافات کے باعث اس مرتبہ سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے خود قومی اسمبلی کی نششت پر سابق وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے مدمقابل ان کے کزن سابق وزیراعلیٰ تاج جمالی(مرحوم) کے بیٹے میر چنگیز جمالی مدمقابل ہیں جبکہ کھوسہ برادری نے سلیم کھوسہ کو نامزد کیا ہے اوران حالات میں سلیم کھوسہ کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔ شہیدنواب اکبرخان بگٹی کے پوتے نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے ڈیرہ بگٹی جانے کا فیصلہ کیاتھا لیکن ان کے قافلے کو سوئی کی چیک پوسٹ ڈولی پر روک لیاگیا اور انہیں واپس کشمور روانہ کردیاگیا۔
نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا کہناتھا کہ ان کے ہمراہ بگٹی مہاجرین کی ایک بڑی تعدادبھی تھی۔ڈولی کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے چیکنگ کے لئے روکا اورانہیں آگے جانے نہیں دیاگیا۔ جبکہ صوبائی حکومت کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیرہ بگٹی نہ جانے کا فیصلہ ان کی اپنی صوابدید ہے جس میں صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
صوبائی حکومت نے ان کے لئے موثر سکیورٹی فراہم کی اور ڈیرہ بگٹی آمد کے لئے تمام انتظامات کئے اورانہیں سکیورٹی میں روانہ کیاگیا۔ترجمان کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی کی حدود میں داخلے کے مقام پر ڈولی چیک پوسٹ کے مقام پر7چیک پوسٹیں قائم ہیں جہاں ڈیرہ بگٹی آنے والوں کی شناخت کی جاتی ہے اس حوالے سے انہیں پہلے آگاہ کردیاگیا تھا اوران سے اس بات کی ضمانت لی گئی تھی کہ ان کی گاڑی میں سوار دیگرمعززین کے علاوہ ان کے قافلے میں شامل تمام افراد کی شناخت کی جائے گی۔
حکومت اور نوابزادہ شاہ زین کے درمیان اس ضمن میں مکمل اتفاق رائے موجود تھا تاہم ان کے قافلے میں شامل افراد کو شناخت کرانے کے لئے کہاگیا تو نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے منع کردیا اور اس حوالے سے طے شدہ طریقہ کارسے یکسر لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے وہ واپس کشمور چلے گئے۔
جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو ڈیرہ بگٹی جانے سے روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھر جارہے تھے سپریم کورٹ کے واضح احکامات اورالیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود سکیورٹی فورسز نے شاہ زین بگٹی کو روک کر ثابت کردیا کہ بلوچستان میں اصل حکمرانی ان کی ہے اور یہ انسانی حقوق کی سراسرخلاف ورزی ہے۔ ان کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں انتخابات کے لئے حالات سازگار نہیں اس لئے ان کی جماعت عدالت عالیہ اور سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کرے گی۔
بلوچستان میں بم دھماکوں، انتخابی دفاتر کو نشانہ بنانے اور مختلف سیاسی وقبائلی شخصیات کے قافلوں پر حملوں کے بعد انتخابی گہماگہمی ماند پڑگئی ہے۔
تاہم بعض علاقوں میں خصوصاً پشتون ایریاز میں انتخابی سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ جبکہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے اورانتخابات میں کسی قسم کی گڑبڑ پر قابوپانے کے لئے مختلف علاقوں میں پاک فوج کوروانہ کردیاگیا ہے، بلوچستان کے سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں انتخابات کے حوالے سے حکومتی اقدامات کئے توجارہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام میں بم دھماکوں اور دستی بم حملوں کی دھمکیوں کے بعدسخت خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
ان حلقوں کے مطابق2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ یہ خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ ٹرن آئوٹ کم رہے گا اور جو امیدوار اپنے ووٹرز گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشن تک پہنچانے میں کامیاب ہوگا و ہی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ ان حلقوں کے مطابق بلوچستان میں11 مئی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کھچڑی پکتی نظر آرہی ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل کرتی نظر نہیں آرہی۔
دوسری جانب بلوچستان میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ کوئی بڑے انتخابی اتحاد یا الائنس قائم ہوں گے لیکن ایسا کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔خصوصاً یہ توقع کی جارہی تھی کہ نیشنل پارٹی اور بی این پی(مینگل) ان انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے، ان دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے کافی دور ہوئے لیکن دونوں جماعتیں اس حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ پائیں اور نہ ہی ان دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکی ہے ۔
تاہم نیشنل پارٹی ، بی این پی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے اپنے طورپر اپنی ضلعی قیادت کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ جہاں وہ مناسب سمجھیں سیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کرسکتی ہیں یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی حلقہ این اے259 کوئٹہ سٹی سے نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے حق میں دستبردارکردیا۔ جبکہ جمعیت علماء اسلام(ف) اور بی این پی(مینگل) کے درمیان بھی بعض نشستوں پرسیٹ ٹوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بات چیت جاری ہے۔
مسلم لیگ(ن) بعض سیٹوں پر پشتونخواملی عوامی پارٹی اوربی این پی مینگل کے امیدواروں کی حمایت تو کررہی ہے لیکن اندرونی طور پراسے بعض حلقوں میں اپنے ناراض ساتھیوں کی سخت مخالفت کا بھی سامنا ہے ، جنہیں پارٹی ٹکٹ نہیں مل پائے وہ پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرامیدواروں کے مخالف آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کے باعث کوئٹہ شہر سمیت بعض حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ تقسیم ہوتادکھائی دے رہاہے جس کا فائدہ یقیناً دوسری جماعتوں ہوگا۔ جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیدواروں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اکثر نشستوں پرجمعیت کا ووٹ تقسیم ہوچکا ہے جس کا فائدہ ان حلقوں میں تیسری جماعت کے امیدوار کو ہوگا۔
اسی طرح نصیرآباد اورجعفرآباد میں جمالی خاندان میں اختلافات کے باعث اس مرتبہ سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے خود قومی اسمبلی کی نششت پر سابق وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے مدمقابل ان کے کزن سابق وزیراعلیٰ تاج جمالی(مرحوم) کے بیٹے میر چنگیز جمالی مدمقابل ہیں جبکہ کھوسہ برادری نے سلیم کھوسہ کو نامزد کیا ہے اوران حالات میں سلیم کھوسہ کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔ شہیدنواب اکبرخان بگٹی کے پوتے نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے ڈیرہ بگٹی جانے کا فیصلہ کیاتھا لیکن ان کے قافلے کو سوئی کی چیک پوسٹ ڈولی پر روک لیاگیا اور انہیں واپس کشمور روانہ کردیاگیا۔
نوابزادہ شاہ زین بگٹی کا کہناتھا کہ ان کے ہمراہ بگٹی مہاجرین کی ایک بڑی تعدادبھی تھی۔ڈولی کے مقام پر سکیورٹی فورسز نے چیکنگ کے لئے روکا اورانہیں آگے جانے نہیں دیاگیا۔ جبکہ صوبائی حکومت کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ڈیرہ بگٹی نہ جانے کا فیصلہ ان کی اپنی صوابدید ہے جس میں صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
صوبائی حکومت نے ان کے لئے موثر سکیورٹی فراہم کی اور ڈیرہ بگٹی آمد کے لئے تمام انتظامات کئے اورانہیں سکیورٹی میں روانہ کیاگیا۔ترجمان کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی کی حدود میں داخلے کے مقام پر ڈولی چیک پوسٹ کے مقام پر7چیک پوسٹیں قائم ہیں جہاں ڈیرہ بگٹی آنے والوں کی شناخت کی جاتی ہے اس حوالے سے انہیں پہلے آگاہ کردیاگیا تھا اوران سے اس بات کی ضمانت لی گئی تھی کہ ان کی گاڑی میں سوار دیگرمعززین کے علاوہ ان کے قافلے میں شامل تمام افراد کی شناخت کی جائے گی۔
حکومت اور نوابزادہ شاہ زین کے درمیان اس ضمن میں مکمل اتفاق رائے موجود تھا تاہم ان کے قافلے میں شامل افراد کو شناخت کرانے کے لئے کہاگیا تو نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے منع کردیا اور اس حوالے سے طے شدہ طریقہ کارسے یکسر لاتعلقی کا اظہارکرتے ہوئے وہ واپس کشمور چلے گئے۔
جے ڈبلیو پی کے سربراہ نوابزادہ طلال اکبر بگٹی نے نوابزادہ شاہ زین بگٹی کو ڈیرہ بگٹی جانے سے روکنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گھر جارہے تھے سپریم کورٹ کے واضح احکامات اورالیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود سکیورٹی فورسز نے شاہ زین بگٹی کو روک کر ثابت کردیا کہ بلوچستان میں اصل حکمرانی ان کی ہے اور یہ انسانی حقوق کی سراسرخلاف ورزی ہے۔ ان کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں انتخابات کے لئے حالات سازگار نہیں اس لئے ان کی جماعت عدالت عالیہ اور سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کرے گی۔