خوف و ہراس کے باوجودانتخابی سرگرمیوں میں تیزی
ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی یہی بات زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کی ’’ہوا‘‘چل رہی ہے...
KARACHI:
اب عام انتخابات میں صرف دو دن رہ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس جاری آخری ہفتے کے دوران سیاسی پارٹیوں کی ٹاپ قیادت نے خیبرپختونخوا کو فوکس کرتے ہوئے یہاں بڑے پروگرام کیے ہیں۔
کیونکہ مختلف حلقوں کی جانب سے یہی اعتراض کیاجارہا تھا کہ جن پارٹیوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں وہ تو بوجہ بڑے جلسہ یا ریلیاں نہیں کرپارہیں تاہم وہ جماعتیں جنھیں کسی قسم کے خطرات درپیش نہیں ہیں ان کی اہم قیادت پشاور سمیت خیبرپختونخوا کا رخ کیوں نہیں کررہی ؟۔ اس صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے ہی گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع کو ایک ہی روز نمٹاتے ہوئے جلسے کیے۔ رواں ہفتے کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ،مسلم لیگ(ن)کے میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کے سید منور حسن نے پشاور کو فوکس کرتے ہوئے یہاں پر جلسے کیے جس سے یقینی طور پر انتخابی سرگرمیوں میں تیز ی آئی ہے۔
اب تک جس انداز اور طریقہ سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں انتخابی مہم جاری ہے اس کی بنیاد پر اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں کہ کون سی پارٹی کس ڈویژن یا ضلع میں سبقت رکھتی ہے۔ تاہم وہ بات جو کافی پہلے سے کہی جارہی تھی کہ کسی ایک یا دو پارٹیوں کو خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی نشستوں پر اتنی اکثریت نہیں ملے گی کہ وہ اپنے طور پر یا مل کر حکومت بناپائیں وہی بات اب بھی کہی جارہی ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک انتہائی ملے جلے نتائج آنے کی توقع ہے۔
خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی 124 میں سے سادہ اکثریت کے لیے 63 نشستوں کی ضرورت ہوگی اور جو اندازے لگائے جارہے ہیں ان کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دو پارٹیوں کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ اپنے طور پر یہ تعداد پوری کرسکیں، اس لیے تین یا ممکنہ طور پر چار پارٹیاں یکجا ہوں گی تب ان کی حکومت بنے گی ، تاہم حکومت سازی کے موقع پر ایک جانب آزاد ارکان اہم کردار ادا کریں گے تو دوسری جانب وہ پارٹیاں جو اس وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں وہ بڑی سہولت یا تھوڑی دقت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گی کیونکہ پری الیکشن اور پوسٹ الیکشن کا ماحول ایسا ہی ہوتا ہے ۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی یہی بات زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کی ''ہوا''چل رہی ہے اور تحریک انصاف سویپ کرے گی ، تاہم اگر زمینی حقائق کو مد نظر رکھاجائے تو ایسا کہنا مشکل ہے کیونکہ صوبہ کے ساتوں ڈویژنز اور پچیس اضلاع کے حالات مختلف ہیں اور ہر جگہ مختلف پارٹیاں اور امیدوار اپنے طور پر اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ ووٹروں سے ووٹ بھی لیتے ہیں ، اس لیے یہ کہنا کہ تحریک انصاف صوبہ میں سویپ کرے گی قبل ازوقت ہوگی۔
تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر پولنگ ڈے پر امن وامان کی صورت حال نارمل رہتی ہے تو اس صورت میں تحریک انصاف کو قدرے فائدہ ضرور ملے گا کیونکہ اس صورت میں خواتین کی بھی بڑی تعداد پولنگ سٹیشنوں کا رخ کرے گی اور یوتھ بھی ووٹ ڈالنے جائے گی اور یہی وہ دو گروپ ہیں جن کی جانب سے تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ ملنے کی امید ہے، تاہم اگر پولنگ ڈے پر امن وامان کے حالات خراب ہوتے ہیں تواس کا نقصان تحریک انصاف کو پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ خراب امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے خواتین گھروں سے کم ہی نکلیں گی ۔
جبکہ یوتھ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوگا کیونکہ ان میں سے اکثریت پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنوں کا رخ کریں گے اور یہ معاملہ اچھے حالات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ پولنگ کے حوالے سے یہ تجزیہ بھی کیاجا رہا ہے کہ ہر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پر بڑی تعداد میں امیدواروں کی موجودگی اور سیاسی پارٹیوں میں کوئی اتحاد نہ ہونے کا فائدہ ان پارٹیوں کو ملے گا جن کا ووٹ بنک گزشتہ انتخابات میں دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ رہا ہے اور اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے بعض پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی یہی تشکیل دی ہے کہ ''فلوٹنگ''ووٹ پر توجہ دینے کی بجائے اپنی پارٹی کے کنفرم ووٹوں کی اسی سے سو فیصد پولنگ کو یقینی بنایاجائے جس کا انھیں فائدہ ہوگا۔
جہاں سیاسی پارٹیاں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی کے عمل کو سہل بنایاجائے وہیں پر قومی اسمبلی کے حلقوں میں بھی بعض جگہوں پر انتہائی دلچسپ مقابلے متوقع ہیں جن میں خصوصی طور پر پشاور سے حلقہ این اے ون پر سب کی نظریں مرکوز ہیں کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان الیکشن کررہے ہیں جہاں ان کے مقابلے میں دیگر کے علاوہ اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور بھی مقابلہ کے لیے موجود ہیں جنہوں نے 1990 ء میں پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو شکست دی تھی۔
تاہم تب اور اب کے حالات میں بہت فرق ہے البتہ پھر بھی اس حلقہ پر جاندار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے، این اے تین اور پانچ اس لیے نظروں میں ہیں کہ ان دونوں حلقوں سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹریز الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ این اے سات اور آٹھ اسفندیارولی خان اور آفتاب شیر پاؤ کی وجہ سے سب کی نظروں میں ہیں این اے نو جہاں سے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں دیگر ہیوی ویٹ امیدواروں سے بھرا ہے ، جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان کے دونوں اور لکی مروت کا حلقہ مولانا فضل الرحمٰن کی وجہ سے انتہائی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمٰن کو وقار احمد خان اور فیصل کریم کنڈی کے گٹھ جوڑ کا سامنا ہے تو دوسری جانب لکی مروت میں وہ سیف اللہ خاندان کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔
جہاں ان کے مقابلے میں سلیم سیف اللہ میدان میں ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے ہیں ،کچھ ایسی ہی صورت حال این اے 26 بنوں پر بھی ہے جہاں سے انور سیف اللہ اور پروفیسر محمد ابراہیم دونوں نے اکرم خان درانی کا مقابلہ کرنا تھا تاہم انور سیف اللہ جے یو آئی ہی کے ناراض نسیم علی شاہ کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں جس سے یقینی طور پر مقابلہ مزید سنسنی خیز ہوگیا ہے کیونکہ نسیم علی شاہ کو صرف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ اے این پی کی بھی حمایت حاصل ہے۔
11مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں کچھ برج الٹیں گے ، کچھ پرانے چہرے آؤٹ ہوجائیں گے اور کچھ نئے چہرے اقتدار کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں ان ہوجائیں گے تاہم انتخابی عمل اپنے پورے جوبن کے ساتھ تب ہی ہو پائے گا کہ اس روز حالات پرامن ہوں ،اس ضمن میں یقینی طور پر فوج ،کوئیک رسپانس فورس کی شکل میں پولنگ سٹیشنوں پر موجود ہوگی اور پولیس اور ایف سی سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی پولنگ سٹیشنوں اور ان کے اردگرد رہیں گے۔
تاہم اس کے باوجود دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں اور یہ خطرات خصوصی طور پر پولنگ سٹیشنوں کے حوالے سے مزید بڑھ جائیں گے جس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوگا کہ ٹرن آؤٹ کم ہوجائے گا۔ اندازہ لگایاجارہا ہے کہ کروڑوں نئے ووٹوں کے اندراج سے ٹرن آؤٹ زیادہ رہے گا تاہم خیبرپختونخوا اور پھر خصوصی طور پر وہ اضلاع جہاں دہشت گردی کے خطرات زیادہ ہیں وہاں اس سارے عمل کا دارومدار امن وامان کی صورت حال پر ہے، اگر امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی اور کچھ مقامات پر دہشت گردی کے واقعات ہوگئے تو اس کے اثرات تمام اضلاع اور پولنگ سٹیشنوں تک جائیں گے اور ٹرن آؤٹ بھی کم ہوجائے گا۔
اب عام انتخابات میں صرف دو دن رہ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس جاری آخری ہفتے کے دوران سیاسی پارٹیوں کی ٹاپ قیادت نے خیبرپختونخوا کو فوکس کرتے ہوئے یہاں بڑے پروگرام کیے ہیں۔
کیونکہ مختلف حلقوں کی جانب سے یہی اعتراض کیاجارہا تھا کہ جن پارٹیوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں وہ تو بوجہ بڑے جلسہ یا ریلیاں نہیں کرپارہیں تاہم وہ جماعتیں جنھیں کسی قسم کے خطرات درپیش نہیں ہیں ان کی اہم قیادت پشاور سمیت خیبرپختونخوا کا رخ کیوں نہیں کررہی ؟۔ اس صورت حال کا اندازہ کرتے ہوئے ہی گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع کو ایک ہی روز نمٹاتے ہوئے جلسے کیے۔ رواں ہفتے کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ،مسلم لیگ(ن)کے میاں نواز شریف اور جماعت اسلامی کے سید منور حسن نے پشاور کو فوکس کرتے ہوئے یہاں پر جلسے کیے جس سے یقینی طور پر انتخابی سرگرمیوں میں تیز ی آئی ہے۔
اب تک جس انداز اور طریقہ سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں انتخابی مہم جاری ہے اس کی بنیاد پر اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں کہ کون سی پارٹی کس ڈویژن یا ضلع میں سبقت رکھتی ہے۔ تاہم وہ بات جو کافی پہلے سے کہی جارہی تھی کہ کسی ایک یا دو پارٹیوں کو خیبرپختونخوا کی اسمبلی کی نشستوں پر اتنی اکثریت نہیں ملے گی کہ وہ اپنے طور پر یا مل کر حکومت بناپائیں وہی بات اب بھی کہی جارہی ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک انتہائی ملے جلے نتائج آنے کی توقع ہے۔
خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی 124 میں سے سادہ اکثریت کے لیے 63 نشستوں کی ضرورت ہوگی اور جو اندازے لگائے جارہے ہیں ان کی بنیاد پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دو پارٹیوں کے لیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ اپنے طور پر یہ تعداد پوری کرسکیں، اس لیے تین یا ممکنہ طور پر چار پارٹیاں یکجا ہوں گی تب ان کی حکومت بنے گی ، تاہم حکومت سازی کے موقع پر ایک جانب آزاد ارکان اہم کردار ادا کریں گے تو دوسری جانب وہ پارٹیاں جو اس وقت ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں وہ بڑی سہولت یا تھوڑی دقت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گی کیونکہ پری الیکشن اور پوسٹ الیکشن کا ماحول ایسا ہی ہوتا ہے ۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی یہی بات زبان زد عام ہے کہ تحریک انصاف کی ''ہوا''چل رہی ہے اور تحریک انصاف سویپ کرے گی ، تاہم اگر زمینی حقائق کو مد نظر رکھاجائے تو ایسا کہنا مشکل ہے کیونکہ صوبہ کے ساتوں ڈویژنز اور پچیس اضلاع کے حالات مختلف ہیں اور ہر جگہ مختلف پارٹیاں اور امیدوار اپنے طور پر اثرورسوخ رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ ووٹروں سے ووٹ بھی لیتے ہیں ، اس لیے یہ کہنا کہ تحریک انصاف صوبہ میں سویپ کرے گی قبل ازوقت ہوگی۔
تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر پولنگ ڈے پر امن وامان کی صورت حال نارمل رہتی ہے تو اس صورت میں تحریک انصاف کو قدرے فائدہ ضرور ملے گا کیونکہ اس صورت میں خواتین کی بھی بڑی تعداد پولنگ سٹیشنوں کا رخ کرے گی اور یوتھ بھی ووٹ ڈالنے جائے گی اور یہی وہ دو گروپ ہیں جن کی جانب سے تحریک انصاف کو زیادہ ووٹ ملنے کی امید ہے، تاہم اگر پولنگ ڈے پر امن وامان کے حالات خراب ہوتے ہیں تواس کا نقصان تحریک انصاف کو پہنچنے کا امکان ہے کیونکہ خراب امن وامان کی صورت حال کی وجہ سے خواتین گھروں سے کم ہی نکلیں گی ۔
جبکہ یوتھ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوگا کیونکہ ان میں سے اکثریت پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنوں کا رخ کریں گے اور یہ معاملہ اچھے حالات کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ پولنگ کے حوالے سے یہ تجزیہ بھی کیاجا رہا ہے کہ ہر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پر بڑی تعداد میں امیدواروں کی موجودگی اور سیاسی پارٹیوں میں کوئی اتحاد نہ ہونے کا فائدہ ان پارٹیوں کو ملے گا جن کا ووٹ بنک گزشتہ انتخابات میں دیگر پارٹیوں کی نسبت زیادہ رہا ہے اور اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے بعض پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی یہی تشکیل دی ہے کہ ''فلوٹنگ''ووٹ پر توجہ دینے کی بجائے اپنی پارٹی کے کنفرم ووٹوں کی اسی سے سو فیصد پولنگ کو یقینی بنایاجائے جس کا انھیں فائدہ ہوگا۔
جہاں سیاسی پارٹیاں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے حکومت سازی کے عمل کو سہل بنایاجائے وہیں پر قومی اسمبلی کے حلقوں میں بھی بعض جگہوں پر انتہائی دلچسپ مقابلے متوقع ہیں جن میں خصوصی طور پر پشاور سے حلقہ این اے ون پر سب کی نظریں مرکوز ہیں کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان الیکشن کررہے ہیں جہاں ان کے مقابلے میں دیگر کے علاوہ اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور بھی مقابلہ کے لیے موجود ہیں جنہوں نے 1990 ء میں پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کو شکست دی تھی۔
تاہم تب اور اب کے حالات میں بہت فرق ہے البتہ پھر بھی اس حلقہ پر جاندار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے، این اے تین اور پانچ اس لیے نظروں میں ہیں کہ ان دونوں حلقوں سے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹریز الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ این اے سات اور آٹھ اسفندیارولی خان اور آفتاب شیر پاؤ کی وجہ سے سب کی نظروں میں ہیں این اے نو جہاں سے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں دیگر ہیوی ویٹ امیدواروں سے بھرا ہے ، جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان کے دونوں اور لکی مروت کا حلقہ مولانا فضل الرحمٰن کی وجہ سے انتہائی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمٰن کو وقار احمد خان اور فیصل کریم کنڈی کے گٹھ جوڑ کا سامنا ہے تو دوسری جانب لکی مروت میں وہ سیف اللہ خاندان کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔
جہاں ان کے مقابلے میں سلیم سیف اللہ میدان میں ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں اترے ہیں ،کچھ ایسی ہی صورت حال این اے 26 بنوں پر بھی ہے جہاں سے انور سیف اللہ اور پروفیسر محمد ابراہیم دونوں نے اکرم خان درانی کا مقابلہ کرنا تھا تاہم انور سیف اللہ جے یو آئی ہی کے ناراض نسیم علی شاہ کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں جس سے یقینی طور پر مقابلہ مزید سنسنی خیز ہوگیا ہے کیونکہ نسیم علی شاہ کو صرف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ اے این پی کی بھی حمایت حاصل ہے۔
11مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں کچھ برج الٹیں گے ، کچھ پرانے چہرے آؤٹ ہوجائیں گے اور کچھ نئے چہرے اقتدار کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں ان ہوجائیں گے تاہم انتخابی عمل اپنے پورے جوبن کے ساتھ تب ہی ہو پائے گا کہ اس روز حالات پرامن ہوں ،اس ضمن میں یقینی طور پر فوج ،کوئیک رسپانس فورس کی شکل میں پولنگ سٹیشنوں پر موجود ہوگی اور پولیس اور ایف سی سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی پولنگ سٹیشنوں اور ان کے اردگرد رہیں گے۔
تاہم اس کے باوجود دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں اور یہ خطرات خصوصی طور پر پولنگ سٹیشنوں کے حوالے سے مزید بڑھ جائیں گے جس کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوگا کہ ٹرن آؤٹ کم ہوجائے گا۔ اندازہ لگایاجارہا ہے کہ کروڑوں نئے ووٹوں کے اندراج سے ٹرن آؤٹ زیادہ رہے گا تاہم خیبرپختونخوا اور پھر خصوصی طور پر وہ اضلاع جہاں دہشت گردی کے خطرات زیادہ ہیں وہاں اس سارے عمل کا دارومدار امن وامان کی صورت حال پر ہے، اگر امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی اور کچھ مقامات پر دہشت گردی کے واقعات ہوگئے تو اس کے اثرات تمام اضلاع اور پولنگ سٹیشنوں تک جائیں گے اور ٹرن آؤٹ بھی کم ہوجائے گا۔