گجراتNA106 امیدواروں نے تمام سیٹوں پرنئے آلائنس بنالیے

ضلع گجرات میں قومی اسمبلی کا تیسرے بڑا حلقہ این اے 106 سٹی لالہ موسیٰ ، نصف کھاریاں ، ڈنگہ و گردونواح کی ۔۔۔


فوٹو : فائل

ضلع گجرات میں قومی اسمبلی کا تیسرے بڑا حلقہ این اے 106 سٹی لالہ موسیٰ ، نصف کھاریاں ، ڈنگہ و گردونواح کی یونین کونسلز اور دو صوبائی حلقوں پی پی 112، پی پی 113 پر محیط ہے۔

جہاں کائرہ ، سادات خاندان گزشتہ کئی سالوں سے برسر اقتدار آتے رہے ہیں جبکہ مرالہ اور کولیاں خاندان کا اثر و رسوخ کافی حد تک زائل ہو چکا ہے۔ یہاں گجر برادری کی اکثریت ہے مگر سید، اہل تشیع اور دیگر برادریاں بھی کافی تعدادمیں مقیم ہیں۔ اسی وجہ سے اس نشست پر پاکستان پیپلزپارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی نے تمام سیٹوں پر گجر برادری کے امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں۔اس حلقہ میںکل ووٹروں کی تعداد 4لاکھ 4ہزار 923ہے ۔

2008ء کے انتخابات میں اس حلقے سے پیپلزپارٹی کے چودھری قمر زمان کائرہ 89ہزار 555ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے،ان کے مقابلے میں (ق) لیگ کے سید نور الحسن شاہ نے 71ہزار 16ووٹ لیے تھے ۔2002ء میں بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پرقمر زمان کائرہ نے 83ہزار 438ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مد مقابل میاں افضل حیات نے 69ہزار 826ووٹ لیے تھے۔اب پاکستان پیپلزپارٹی نے ایک مرتبہ پھرقمرزمان کائرہ کوہی ٹکٹ دیاہے جو 1985میں ایم پی اے اور دو مرتبہ 1988,93میں ایم این اے رہنے والے حاجی اصغر کائرہ مرحوم کے بھتیجے ہیں۔

گیارہ مئی کے انتخابات کیلئے اس حلقے میں اب تمام سیٹوں پر پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ جبکہ جماعت اسلامی اور(ن) لیگ کے آزاد امیدواروں کے ساتھ الائنس ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے بڑ ے بڑے مارجن سے ماضی میں جیت کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے کائرہ ، سادات خاندان کیلئے اب الیکشن جیتنا آسان نہیں رہ گیا ۔ 2008ء میں قمر زمان کائرہ نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ شہید ہونیوالے اپنے عزیزاور صدر مملکت آصف علی زرداری کے گہرے دوست توقیر کائرہ کی قربانی کی ہمدردیاں جتاکرنہ صرف حلقہ کے لوگوں سے ووٹ لیے تھے بلکہ صدرآصف زرداری سے بھی قربت پیداکرلی۔

جس پرانہیں گلگت بلتستان کے پہلے آئینی گورنر ، وزرات پورٹ اینڈ شیپنگ ، وزرات آئی ٹی ، وزارت اطلاعات و نشریا ت کے قلمدان اور پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کا عہد ہ بھی دیاگیا لیکن انہوں نے بجلی ، گیس ، صاف پانی کی فراہمی ، سیوریج جیسے دیرینہ مسائل حل کر کے علاقے کی حالت بدلنا گوارہ نہ کیا، جس پرووٹرز اور انکے کئی ساتھی آج ایک طرف نالاں ہیں۔پاکستان مسلم لیگ ن نے قمرزمان کائرہ کے مقابلے میں انکے عزیز چوہدری جعفر اقبال فتہ بھنڈ کوٹکٹ دیاہے جبکہ تحریک انصاف کی طرف سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب میاں افضل حیات امیدوارہیں۔


قمرزمان کائرہ کے ہی ساتھی چوہدری نصر اقبال اب ان کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔قمرزمان کائرہ کو (ق) لیگ کا اتحادی ہونے کے باعث بھی دشواری کا سامنا ہے۔معتبر ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست پر اندرون خانہ کائرہ خاندان کے اندر بھی اختلافات جاری ہیں۔دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اوورسیز پاکستانیوں کے اصرار پر چوہدری جعفر اقبال فتہ بھنڈ ٹکٹ جاری دیاہے جو 2008ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 113پر ہار چکے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ ڈنگہ اور اسکی ٹاؤن کمیٹیوں سے بھاری ووٹ تو سمیٹ لیں گے مگر لالہ موسیٰ ، کھاریاں او ر اس کے ملحقہ علاقوں میں مناسب جان پہچان نہ ہونیکی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں ۔دوسری طرف (ن) لیگ کا ٹکٹ نہ ملنے پر سید نور الحسن شاہ ان کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے ہیں۔

سید نور الحسن نے جہاںجماعت اسلامی کے عرفان صفی کوقومی اسمبلی کی نشست سے دستبردار کروا کرسیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے وہیں (ق) لیگ اور قمر زمان کائرہ کے رویہ سے نالاں پیپلزپارٹی کے ساتھی سید نور الحسن شاہ کیلئے ووٹ مانگ رہے ہیں،ر بالخصوص (ق) لیگ سے فاروڈ بلاک اور پھر (ن) لیگ میں جانیوالے سابق ایم پی اے میاں طارق بھی اپنی پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار چوہدری جعفر اقبال کو سپورٹ کرنے کے بجائے سید نور الحسن شاہ کی حمایت کررہے ہیں۔

صوبائی حلقہ پی پی 112 جہاں2002 اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے تنویر اشرف کائرہ نے کامیابی حاصل کی تھی اور (ن) لیگ کے سیف الرحمن بھٹی ، (ق) لیگ کے چوہدری لیاقت بھدر ہار گئے تھے۔ اب اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے تنویر اشرف کائر کے مقابلے میں مسلم لیگ ن نے حال ہی میں دشمنی کی آگ سے نکلنے والے چوہدری اشرف دیونہ کوچوہدری جعفر کی سفار ش پرمحض گجر ہونے کی وجہ سے ٹکٹ دیاہے۔جماعت اسلامی کے ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ ، پی ٹی آئی کے چوہدری زاہد اکرم ایڈووکیٹ اورآزادحیثیت میں نواز ش علی شیخ ایڈووکیٹ بھی الیکشن لڑرہے ہیں۔

دو متحارب گروپوں چوہدری اشرف دیونہ اور چوہدری افضال دیونہ کے اکٹھے ہو نے پر گجر برادری کی جانب سے انہیں ویر ختم کرنے پرتحفے میں ووٹ ملنے کے بھی امکانات ہیں ۔دوسری طرف چوہدری تنویر اشرف کائرہ پانچ سال برسر اقتدار رہنے اور صوبائی وزیر خزانہ کا منصب ملنے کے باوجود عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے اور اپنے بیور و کریٹس سٹائل کی وجہ سے اب ووٹرز سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔

جس کا بلاشبہ نقصان انہیں الیکشن میں برداشت کرنا پڑیگا اس حلقے میں سادات خاندان کیساتھ اتحاد ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی کی جانب سے ضلعی امیر ڈاکٹر احسان اللہ شاہ کو جہاں جماعت کے کارکن اپنی کٹمنٹ پر 99%ووٹ دینگے وہیں ماضی کی نسبت اب مظلوم بنے سید نور الحسن شاہ کے عقیدت مند بھی ڈاکٹراحسان کوووٹو ں سے نوازیں گے۔ یہاں پی ٹی آئی کے چوہدری اعجاز بھی اپنا بہت بڑا ووٹ بینک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے کھڑے ہیں۔

 



صوبائی حلقہ پی پی 113میں 2لاکھ 5ہزار 532ووٹرز ہیں۔2008ء کے الیکشن میں (ق) لیگ کے میاں طارق محمود نے جیت حاصل کی اور (ن) لیگ کے چوہدری جعفر اقبال ، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے میاں خالد رفیق ہار گئے اب یہاں سے (ق) لیگ اور پیپلزپارٹی کے چوہدری اعجاز رنیاں،(ن) لیگ کے میاں طارق محمود،جماعت اسلامی کے چوہدری عبدالستار امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے ماضی میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پرکئی مرتبہ کامیاب ہونیوالے اور جعلی ڈگری سکینڈل کی زد میں آنیوالے میاں طارق محمود کا مقابلہ اب (ق) لیگ کے امیدوار چوہدری اعجاز رنیاں کے ساتھ ہے۔

جنہیں اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی سپورٹ حاصل ہے تاہم چوہدری اعجاز رنیاں کے ووٹرز سپورٹرز اپنی قیادت کی ہدایت پر پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائر ہ کو ووٹ تو ڈال دیں گے مگر جیالوں سے (ق) لیگ کو ووٹ ڈالوانا شاید چوہدری قمر زمان کے بس کی بات نہیں ہوگی۔اس حوالے سے نہ تو انہوں نے اپنے اتحادیوں کے علاقے میں کوئی بڑا جلسہ کیاہے اور نہ ہی کوئی کارنر میٹنگ کروا سکے ہیں۔ حالانکہ چوہدری برادران کی جانب سے نت ہاؤ س میں کرائے گئے گرینڈ اکٹھ میں قمر زمان کائرہ کو سپورٹ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔

میاں طارق کو علاقے میں بے شمار ترقیاتی منصوبے مکمل کروانے کی وجہ سے بہت بڑی برتری حاصل ہے تو دوسری جانب انہیں (ن) لیگ کی کامیابی کی لہر کی وجہ سے بھی کامیابیاں مل رہی ہیں۔اس حلقے میں جماعت اسلامی نے عبدالستارپیر جنڈ کو ٹکٹ دے رکھا ہے جو جماعتی سٹائل سے مہم جار ی رکھے ہوئے ہے۔حالیہ صورتحال میں تو (ن) لیگ کے تین امیدواروں کے کھڑا ہو جانے سے فائدہ پیپلزپارٹی کے امیدوار کو پہنچ سکتا ہے مگر اتحاد کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ کا ووٹر بھی کنفیوژن کا شکار ہے تاہم 11مئی کے نتائج بتادینگے کہ اس حلقے کے باسیو ں نے پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ کے قومی سطح پر جبکہ جماعت اسلامی اور سادات خاندان کے مقامی سطح پر ہونیوالے اتحاد میں سے کس کو اپنے اعتماد کے قابل سمجھا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں