ہم پاکستان بدل سکتے ہیں
اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے۔
پاکستان میں عام انتخابات میں چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ الیکشن کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے، سیاسی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک بھر میں جلسے کیے جارہے ہیں، جن میں تمام سیاسی جماعتیں عوام کو سبز باغ دکھا کر رام کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی کو جڑ سے ختم کرنے، بجلی، پانی، گیس گھر گھر تک پہنچانے، علاج اور تعلیم مفت فراہم کرنے کے سہانے خواب دکھانے میں مصروف ہیں۔ ہر جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم بھی اپنے لیڈر کو فرشتہ اور مخالف جماعت کے لیڈر کو انتہائی غلط انسان ثابت کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔
ہر حلقے میں سیاسی نمایندے کچھ دنوں سے خود کو شریف اور نیک ثابت کرنے کے لیے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت بھی کرنے لگے ہیں۔ نمازوں کے اوقات میں مسجد میں نمازیوںسے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ جنازوں میں بھی شریک ہورہے ہیں۔ علاقے میں مریضوں کی عیادت بھی کر رہے ہیں۔ کمزوروں، محتاجوں اور ضعیفوں کے کام بھی آرہے ہیں اور ہر وہ کام کر رہے ہیں، جس سے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرکے ووٹ لیا جاسکے۔
یہ سلسلہ الیکشن کے دن تک یونہی چلتا رہے گا۔ ہر سیاسی جماعت کے نمایندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ اسے ہی دیا جائے، کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لے گا۔ تمام تر کوششوں، دعوؤں اور وعدوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عوام اِن کے بہکاوے میں آجائیں اور اِنہیں ووٹ دے کر اقتدار کی خوبصورت چڑیا اِن کی مٹھی میں قید کردیں، پھر یہ جو چاہے کریں۔
ان حالات میں ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں کہ ووٹ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں؟ اور اگر کسی کو دیں تو کیوں دیں؟ اور کسی کو نہ دیں تو کیوں نہ دیں؟ ہمارے یہاں انتخابات معاملہ بھی عجیب ہے۔ ووٹ لینے والے سیاستدان اپنے پرکشش نعروں، بلند بانگ دعوؤں، خواب ناک انتخابی منشور اور ہیجان انگیز انتخابی مہم کی دھماچوکڑی کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ عوام ہوش میں اس وقت آتے ہیں، جب مہنگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے دورانیے مزید بے وقت اور طویل ہوجاتے ہیں۔ پانی کی بندش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ غریب دن بدن مزید غریب اور امیر دن بدن امیر ہوتا جاتا ہے۔ شہروں اور دیہات میں ترقیاتی کاموں کے لیے ملنے والا فنڈ سیاسی نمایندے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ حکمران ملک و قوم کی دولت لوٹ کر بیرون ملک اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے منتقل کر دیتے ہیں۔ جب عوام ہوش میں آتے ہیں تو پھر ان سیاسی نمایندوں کو برا بھلا بولتے ہیں، لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، کیونکہ پانچ سال تک اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
ان حالات کے ذمے دار ہم خود ہوتے ہیں، کیونکہ ہم خود ہی ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، جن کے نزدیک صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر یہ لوگ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ اگر عوام سمجھداری کا دامن تھامتے ہوئے ووٹ ملک سے مخلص افراد کو دیں تو بہت سے مسائل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ووٹ کی صورت میں ہر شہری کے پاس طاقتور اختیار ہے جس کے ذریعے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے انتقام لیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی بھی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے، ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی۔ لوگوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ الیکشن کا چاند بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اور یومِ انتخاب پر عید کا چاند بن کر آنے والے نام نہاد نمایندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔ عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دباؤ، رنگ نسل، برادری کی بنیاد کے بجائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمایندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو لانا ہو گا جو عوام الناس کی حقیقی نمایندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابلِ عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔
تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں حکومتوں کی کارکردگی دیکھیں تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض گزشتہ پانچ برس میں لیا گیا۔ صحت، تعلیم، روزگار جیسی سہولیات میں ہمارا ملک سب سے پیچھے اور بدعنوانی میں آگے آتا جا رہا ہے۔ دنیا کے کرپٹ ترین سیاستدانوں کی فہرست میں پاکستانی سیاستدان کا پہلا نمبر ہے۔
غربت، قحط، ماحولیاتی آلودگی، ناخواندگی اور پانی کی کمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حالات کو سامنے رکھیں اور آیندہ انتخابات کے بارے میں سوچیں۔ ہمارے پاس پاکستان کی قسمت بدلنے کا سنہری موقع ہے۔ ہمارے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے جس کے ذریعے ہم ایسے حکمرانوں کا انتخاب کر سکتے ہیں جو دولت کے پجاری نہ ہوں، بلکہ ملک و قوم کے بارے میں سوچیں، جو عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جن کے بیرون ملک اثاثے نہ ہوں اور جن کا جینا مرنا اپنے ملک و قوم کے ساتھ ہو۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ذات، برادری، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر نظریے کو ووٹ دیں۔ کبھی بھی کسی کی باتوں میں آ کر ووٹ نہ دیں، بلکہ اپنے دل و دماغ کو استعمال کر کے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔ کبھی چند پیسوں یا الیکشن کے دن ایک وقت کے کھانے کی خاطر اپنا ضمیر نہ بیچیں۔ ووٹ ڈالنے کا عمل صرف پانچ سیکنڈ کا ہے، لیکن اس کے نتائج پانچ سال برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اگر ووٹ سوچ سمجھ کر اچھے اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص نمایندے کو دیا تو پانچ سال اس کے مثبت اثرات سے مستفید ہوسکیں گے اور اگر یہ ووٹ ڈالنے کا فیصلہ غلط کیا تو پورے پانچ سال ملک وقوم کو اس کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔
اگر ہم سب مل کر اپنے ضمیر کی آواز سن کر ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب امیر اور غریب کا ایک پاکستان ہو گا۔ ہم جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعی طور پر ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اس ذمے داری کا اہل اور دیگر امید واروں سے بہتر ہے، اس طرح ہر ووٹر اپنے ووٹ کی گواہی کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہ جواب دہ ہے۔ ہمارا ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس امانت کو ہمیں اسی شخص کے سپرد کرنا ہے جو اس کا اہل ہو۔
ہر حلقے میں سیاسی نمایندے کچھ دنوں سے خود کو شریف اور نیک ثابت کرنے کے لیے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت بھی کرنے لگے ہیں۔ نمازوں کے اوقات میں مسجد میں نمازیوںسے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ جنازوں میں بھی شریک ہورہے ہیں۔ علاقے میں مریضوں کی عیادت بھی کر رہے ہیں۔ کمزوروں، محتاجوں اور ضعیفوں کے کام بھی آرہے ہیں اور ہر وہ کام کر رہے ہیں، جس سے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرکے ووٹ لیا جاسکے۔
یہ سلسلہ الیکشن کے دن تک یونہی چلتا رہے گا۔ ہر سیاسی جماعت کے نمایندے کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل ہے، لہٰذا ووٹ اسے ہی دیا جائے، کیونکہ وہ منتخب ہوکر چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل کا فوری حل نکال لے گا۔ تمام تر کوششوں، دعوؤں اور وعدوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ عوام اِن کے بہکاوے میں آجائیں اور اِنہیں ووٹ دے کر اقتدار کی خوبصورت چڑیا اِن کی مٹھی میں قید کردیں، پھر یہ جو چاہے کریں۔
ان حالات میں ووٹرز تذبذب کا شکار ہیں کہ ووٹ کس کو دیں اور کس کو نہ دیں؟ اور اگر کسی کو دیں تو کیوں دیں؟ اور کسی کو نہ دیں تو کیوں نہ دیں؟ ہمارے یہاں انتخابات معاملہ بھی عجیب ہے۔ ووٹ لینے والے سیاستدان اپنے پرکشش نعروں، بلند بانگ دعوؤں، خواب ناک انتخابی منشور اور ہیجان انگیز انتخابی مہم کی دھماچوکڑی کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ عوام ہوش میں اس وقت آتے ہیں، جب مہنگائی کا جن بے قابو ہوجاتا ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے دورانیے مزید بے وقت اور طویل ہوجاتے ہیں۔ پانی کی بندش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ غریب دن بدن مزید غریب اور امیر دن بدن امیر ہوتا جاتا ہے۔ شہروں اور دیہات میں ترقیاتی کاموں کے لیے ملنے والا فنڈ سیاسی نمایندے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ حکمران ملک و قوم کی دولت لوٹ کر بیرون ملک اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے منتقل کر دیتے ہیں۔ جب عوام ہوش میں آتے ہیں تو پھر ان سیاسی نمایندوں کو برا بھلا بولتے ہیں، لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، کیونکہ پانچ سال تک اب کچھ نہیں ہوسکتا۔
ان حالات کے ذمے دار ہم خود ہوتے ہیں، کیونکہ ہم خود ہی ایسے لوگوں کو منتخب کرتے ہیں، جن کے نزدیک صرف اور صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر یہ لوگ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ اگر عوام سمجھداری کا دامن تھامتے ہوئے ووٹ ملک سے مخلص افراد کو دیں تو بہت سے مسائل سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ ووٹ کی صورت میں ہر شہری کے پاس طاقتور اختیار ہے جس کے ذریعے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں سے انتقام لیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ملک اور اپنی قوم کی بھی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
اب عوام کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔ انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہونا چاہیے، ان کے ووٹ کے ذریعے بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ عوام کو اپنے ووٹ کی عزت خود کروانا ہوگی۔ لوگوں کو اب سمجھنا ہوگا کہ الیکشن کا چاند بن کر آپ کے علاقے یا محلے میں نظر آنے والے امیدوار سے بھرپور انتقام لینے کا وقت آگیا ہے۔ اپنی محرومیوں کا جائزہ لیں، درپیش مشکلات اور پریشانیوں پر ایک نگاہ ڈالیں اور یومِ انتخاب پر عید کا چاند بن کر آنے والے نام نہاد نمایندوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے یکسر مسترد کردیں۔ عوام کو رائے دہی کے وقت کسی دباؤ، رنگ نسل، برادری کی بنیاد کے بجائے قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نمایندے چننا ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو لانا ہو گا جو عوام الناس کی حقیقی نمایندگی کرسکیں، جن کے پاس عوامی مسائل کا ٹھوس حل موجود ہو، جن کا منشور الفاظ کے گورکھ دھندوں کے بجائے قابلِ عمل حکمت عملی کا غماز ہو۔
تعلیم یافتہ معاشروں میں عوام کو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ ملک کے لیے کتنا اہم ہے، ان کی ذرا سی غفلت کتنے بھیانک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں حکومتوں کی کارکردگی دیکھیں تو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرض گزشتہ پانچ برس میں لیا گیا۔ صحت، تعلیم، روزگار جیسی سہولیات میں ہمارا ملک سب سے پیچھے اور بدعنوانی میں آگے آتا جا رہا ہے۔ دنیا کے کرپٹ ترین سیاستدانوں کی فہرست میں پاکستانی سیاستدان کا پہلا نمبر ہے۔
غربت، قحط، ماحولیاتی آلودگی، ناخواندگی اور پانی کی کمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حالات کو سامنے رکھیں اور آیندہ انتخابات کے بارے میں سوچیں۔ ہمارے پاس پاکستان کی قسمت بدلنے کا سنہری موقع ہے۔ ہمارے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے جس کے ذریعے ہم ایسے حکمرانوں کا انتخاب کر سکتے ہیں جو دولت کے پجاری نہ ہوں، بلکہ ملک و قوم کے بارے میں سوچیں، جو عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جن کے بیرون ملک اثاثے نہ ہوں اور جن کا جینا مرنا اپنے ملک و قوم کے ساتھ ہو۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ذات، برادری، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر نظریے کو ووٹ دیں۔ کبھی بھی کسی کی باتوں میں آ کر ووٹ نہ دیں، بلکہ اپنے دل و دماغ کو استعمال کر کے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں۔ کبھی چند پیسوں یا الیکشن کے دن ایک وقت کے کھانے کی خاطر اپنا ضمیر نہ بیچیں۔ ووٹ ڈالنے کا عمل صرف پانچ سیکنڈ کا ہے، لیکن اس کے نتائج پانچ سال برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ اگر ووٹ سوچ سمجھ کر اچھے اور ملک و قوم کے ساتھ مخلص نمایندے کو دیا تو پانچ سال اس کے مثبت اثرات سے مستفید ہوسکیں گے اور اگر یہ ووٹ ڈالنے کا فیصلہ غلط کیا تو پورے پانچ سال ملک وقوم کو اس کے منفی اثرات بھگتنا پڑیں گے۔
اگر ہم سب مل کر اپنے ضمیر کی آواز سن کر ووٹ کا صحیح استعمال کریں گے تو وہ دن دور نہیں کہ جب امیر اور غریب کا ایک پاکستان ہو گا۔ ہم جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعی طور پر ہم اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اس ذمے داری کا اہل اور دیگر امید واروں سے بہتر ہے، اس طرح ہر ووٹر اپنے ووٹ کی گواہی کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہ جواب دہ ہے۔ ہمارا ووٹ قوم کی امانت ہے اور اس امانت کو ہمیں اسی شخص کے سپرد کرنا ہے جو اس کا اہل ہو۔