انتخابی گہما گہمی کا شور قیامت

انتخابی گہماگہمی کے اس شور قیامت کو جب میرے گھر کے بند دروازے اور کھڑکیاں بھی نہ روک سکے۔

شور! ایک ایسا لفظ جس پر میں آج کل جتنا سوچ رہی ہوں اس سے پیشتر شاید کبھی نہیں سوچا۔ کہیں شور اس بحث کا ہے کہ پچیس جولائی کو کس کا ووٹ کس کے کھاتے میں جائے گا۔ کہیں شور ہے پرانے چہروں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کا، تو کہیں شور ہے ذہن سازی کے لیے ہونے والی لفظی معرکہ آرائیوں کا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور شور بھی ہے، جس نے مجھے ان تمام سائنسی تحقیقات کے دروازوں کے اندر دھکیل دیا جو شور کی آلودگی کے متعلق تھیں۔

اس سے قبل یہ تحقیقات کبھی میری توجہ کا مرکز نہ تھیں۔ اب بھی نہ ہوتیں اگر میرے گھر کے آس پاس لگنے والے انتخابی کیمپ قوم کو جگانے کی آڑ میں اہل علاقہ کا سکون برباد نہ کرتے۔ میں آج کل سر پکڑے انگلیوں پر بس دن ہی شمار کر رہی ہوں کہ جانے کب پچیس جولائی کا سورج طلوع ہوکر غروب ہوگا، اور وہی سکون ہمارا مقدر بنے گا جس کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات چین سے نمٹائے جارہے تھے۔

کچھ دن پہلے تک ہر ایک کی طرح مجھے بھی یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ حکومت بنانے کے لیے کون کون سرگرم ہے؟ میں جاننا چاہتی تھی کہ انتخابات میں کس پارٹی نے کیا منشور پیش کیا ہے؟ عوامی خدمت کے محاذ پر کون کسے مات دینے کو کمربستہ ہے۔ امیدواروں کی سیاسی بصیرت اور قابلیت کس درجے کی ہے؟ حکومت بنانے کے بعد عوام کے بنیادی مسائل سے سر پھوڑنے کے لیے کس کس نے کیا کیا تدابیر اختیار کرنے کا پروگرام دیا ہے؟ لیکن افسوس خبروں سے لے کر تقریروں تک مجھے اپنے مطلب کا مواد کہیں مل ہی نہ سکا۔ دل کو یہ سوچ سوچ کے تسلی دی کہ بھلا پہلے کبھی انتخابات میں ان سوالات کے شافی جوابات مل سکے ہیں جو، اب ملیں گے؟ لیکن پھر بھی تجسس سر اٹھاتا رہا۔

دماغ میں کلبلانے والے سوالات بھی بڑھتے جارہے تھے اور مایوسی بھی کہ اچانک ایک امید کی کرن جھلکی۔ پتہ چلا کہ ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے جگہ جگہ لگنے والے انتخابی کیمپ میرے گھر سے بھی ذرا فاصلے پر لگائے جا رہے ہیں۔ دل کو خوشی بھی ہوئی اور ذرا اطمینان بھی کہ یہاں سے اپنی مطلوبہ معلومات ضرور میسر آ جائیں گی اور ٹی وی پر شور مچاتے اینکر اور ان کے سامنے بیٹھے مہمانوں کی آپس کی کج بحثی سے بھی نجات مل جائے گی۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ یہی انتخابی کیمپ میرے سر پکڑ کر بیٹھنے کی وجہ بن جائیں گے۔

کیمپ لگے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے ہیں کہ میرے سارے سوالات کان پھاڑنے والی موسیقی کی تیز لہروں میں بہہ چکے ہیں۔ کارکنان کی ہتھیلیوں کے درمیان بجنے والی تالیوں میں انتخابات سے وابستہ بچی کھچی کچھ امیدیں بھی بری طرح پس گئی ہیں۔ انتخابی منشور اور امیدواروں کی قابلیت کے بارے میں تو کیا خاک جان پاتی، مجھے تو وہ سارے پارٹی نغمے رٹ چکے ہیں جو مشہور گانوں کی طرز پر بنائے گئے ہیں۔ جدید ساؤنڈ سسٹم سے آراستہ و پیراستہ کیمپ علاقے میں سیاسی شعور اجاگر کرنے کے بجائے شور کی آلودگی بڑھا رہے ہیں۔ ایک طرف سے شور تھمتا ہے تو دوسری جانب سے اٹھتا ہے۔ ہاہاکار مچی ہے۔ وہ ادھم ہے کہ الامان الحفیظ۔ روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئی ہے، بجاں تیر بجاں، کمال ہے کمال ہے، اور نہ جانے کون کون سے نغمے تیز آواز میں بجا کر قوم کو جگایا جا رہا ہے۔ مانا کہ یہ قوم برسوں سے سو رہی ہے لیکن اس کو جگانے کا یہ طریقہ سمجھ سے بالاتر ہے۔


انتخابی گہماگہمی کے اس شور قیامت کو جب میرے گھر کے بند دروازے اور کھڑکیاں بھی نہ روک سکے، گھر کے افراد کا ایک دوسرے سے بات کرنا محال ہوگیا، یہاں تک کہ بچے سامان باندھ کر اپنی نانی کے گھر روانہ ہوگئے، تو میری رہی سہی برداشت بھی ختم ہوگئی۔ میں اور کچھ تو نہ کرسکی البتہ انٹرنیٹ پر شور کی آلودگی کے متعلق تحقیقات کھنگالنے بیٹھ گئی۔ اور حیرت پہاڑ بن کر مجھ پر ٹوٹ پڑی۔ شور کی آلودگی اس وقت دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب اس کا شکار ہونے کے باوجود یکسر غافل ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے انسانی صحت کے عالمی ادارے اس بارے میں وارننگ دے رہے ہیں لیکن قیامت سر پر آجانے تک کسی وارننگ پر کان دھر لینا شاید انسانی سرشت میں ہی نہیں۔

سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی کان ایک خاص حد سے زیادہ تیز آواز برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ شور کے باعث انسان بہت سے جسمانی اور ذہنی عوارض کا شکار ہوجاتا ہے، جن میں سرفہرست دائمی بہرا پن، ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور ذہنی تناؤ شامل ہیں۔ شور کی وجہ سے شہروں میں بسنے والے لوگوں کی قوت سماعت ناقابل یقین حد تک کم ہوتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ انسانی کان میں باریک باریک بال ہوتے ہیں جن کا کام آواز کی لہریں دماغ تک پہنچانا ہے۔ جب کان کے پردے پر دباؤ بڑھتا ہے تو یہ بال ٹوٹنے اور جھڑنے لگتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ انسانی سر کے بال بھی نمایاں حد تک کم ہونے لگتے ہیں۔ شور کے باعث لوگ نیند میں کمی کی وجہ سے روزمرہ کام بھی درست طریقے سے انجام نہیں دے پاتے اور بچوں کے اسکول کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔

دنیا میں بہت سارے ممالک ایسے ہیں جہاں شور کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جرمنی میں اتوار کو گھاس کاٹنے والی مشین کا استعمال ممنوع ہے، تاکہ چھٹی والے دن لوگوں کا سکون غارت نہ ہو۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں گھریلو استعمال کی بہت سی مشینوں سے نکلنے والی آوازوں کی ایک خاص حد مقرر ہے۔ صنعتوں کو زیادہ آواز والی مشینیں تیار کرنے کی اجازت نہیں۔ انڈیا میں بھی شور کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹو اسٹروک انجن پر پابندی عائدکردی گئی ہے۔ برطانوی اخبار دی گارجین میں یورپی ماحولیاتی ایجنسی کی شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق شور کی وجہ سے ہائپر ٹینشن کے مرض میں مبتلا ہو کر ہر سال دس ہزار لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تینتالیس ہزار اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

اس مطالعے کے دوران بھی کان پھاڑنے والے شور کی لہریں انتخابی کیمپوں سے بلند ہوکر دماغ کی چولیں ہلا رہی ہیں۔ اور میں سر پکڑے بس یہی سوچ رہی ہوں کہ آنے سے پہلے ہی عوام کا سکھ چین برباد کرنے والوں کے وعدوں پر اعتبار کیا بھی جائے تو بھلا کیسے؟ انتخابات سے قبل شور کی آلودگی اپنے عروج پر پہنچادی گئی ہے۔ انتخابی گہماگہمی تو ہر ملک میں ہوتی ہے لیکن انتخابی ہنگامے بس ہمارے وطن کے ماتھے کا ہی جھومر ہیں۔ ان ہنگاموں کا ایک ہی مقصد ہے۔ عوام میں رہی سہی سوچنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی جائے۔ ان کے سیاسی شعور کو ناچ گانوں اور ہنگاموں کی نذر کردیا جائے۔ اور عوام کی آواز کو لاؤڈ اسپیکر کے شور میں دبا دیا جائے۔

افسوس ہم اپنے بنیادی حقوق سے بے بہرہ ایک بدنصیب قوم ہیں۔ پاکستان کے1973ء کے آئین میں جن بنیادی حقوق کا تذکرہ ہے ان میں اسپیکر ایکٹ بھی شامل ہے۔ گویا آئین کی رو سے ایسا شور جس سے فرد واحد کے معمولات زندگی متاثر ہوں، اس کی قطعاً اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی بنا پر 2009ء میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک رہائشی نے سندھ ہائی کورٹ میں گھر کے نزدیک واقع ایک ریسٹورنٹ کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی جہاں سے بلند ہونے والی موسیقی کی تیز آوازیں اہلِ علاقہ کا جینا حرام کر رہی تھیں۔

پاکستان انتخابات کے سنجیدہ اور نازک عمل سے گزر رہا ہے۔ لیکن انتخابی ہنگامے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے انتخابات نہیں بلکہ کسی قریبی عزیز کے اکلوتے بیٹے کی شادی سر پر ہے۔ عوام کے پیسے کو یوں بے دریغ پھنکتا دیکھ کر دل بھی دکھ رہا ہے اور تیز ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے سر بھی۔ میں اسی لیے کئی دنوں سے بس سر پکڑے بیٹھی ہوں۔ اور انگلیوں پر دن شمار کر رہی ہوں، کب پچیس جولائی کا سورج طلوع ہوگا؟ کب یہ شور تھمے گا؟
Load Next Story