اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
فلم کا روایتی انداز تھا مگر اس کے گیتوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اور ایک گیت تو پسندیدگی کی سند بن گیا تھا۔
بمبئی فلم انڈسٹری میں شاعر شیون رضوی نے بے انتہا عروج دیکھا تھا، پھر وہ تقسیم ہندوستان کے بعد بڑے زوال سے بھی گزرے اور جب وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو یہاں ان کے لیے سب کچھ بدلا ہوا منظر تھا، نہ وہ شہرت، نہ وہ دلداری، نہ وہ قدر و منزلت کا احساس۔
بڑی خاموشی کے ساتھ ان کے دن گزر رہے تھے، پھر رفتہ رفتہ وقت بدلا اور ماحول بھی کچھ خوشگوار ہوا۔ کراچی کی فلم انڈسٹری میں کچھ چہل پہل شروع ہوچکی تھی۔ میری شیون رضوی سے پہلی ملاقات ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہی ہوئی تھی، میں ان دنوں فلمی صحافی تھا اور نگار ویکلی میں شناسا کے نام سے کراچی کے فلمی لیل و نہار لکھتا تھا۔
شیون رضوی خالص لکھنوی تھے، انداز گفتگو میں دھیما دھیما پن، مزاج میں نرمی اور نزاکت نظر آتی تھی، وہ اب بھی اپنی کرسی کسی دوسرے کو دینے میں پہل کرتے تھے، ہدایت کار قمر زیدی کے پروڈکشن آفس میں شیون رضوی سے یہ ایک بڑی خوشگوار ملاقات تھی۔ ان دنوں شیون رضوی ہدایت کار قمر زیدی کی فلم ''سالگرہ'' کے گیت لکھ رہے تھے، فلم کی شوٹنگ بھی وقفے وقفے سے چل رہی تھی اور گیتوں کی ریکارڈنگ بھی اب اپنے اختتام پر تھی۔ ویسے تو اس فلم کا ہر گیت ہی بڑا جاندار تھا مگر اس فلم کے ایک گیت نے تو بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس گیت میں ہندوستان کی فلم انڈسٹری کی یادوں کا کچھ فسوں بھی شامل تھا، اس گیت کو میڈم نورجہاں نے بھی بڑے سوز و گداز کے ساتھ خوب ڈوب کر گایا تھا گیت کے بول تھے:
لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
اس گیت کی موسیقی کو موسیقار ناشاد نے بھی بڑی محنت سے ترتیب دیا تھا اور خوبصورت سروں سے سنوارا تھا۔ اداکارہ شمیم آرا نے بھی اپنی جاندار اداکاری سے اس گیت کے حسن میں مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ اس گیت میں ایک ایسی مقناطیسی کشش تھی جو فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ فلم ''سالگرہ'' کی کامیابی نے ہی شیون رضوی کے حوصلوں کو بڑی تقویت دی تھی اور پھر ان کی شہرت کے ڈنکے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بھی بجنے لگے تھے۔ فلم ''سالگرہ'' کے دیگر گیت بھی مقبولیت کے اعتبار سے آگے آگے تھے جو میڈم نور جہاں اور مہدی حسن نے گائے تھے۔ میڈم نور جہاں کا گایا ہوا ایک اور گیت پسندیدگی کی سند بنا تھا جس کے بول تھے:
میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ
میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ
اسی زمانے میں کراچی میں ایک فلم ''چاند سورج'' بھی بنائی گئی تھی، جو میگا کاسٹ کی فلم تھی۔ اس میں اداکار ندیم، محمد علی، وحید مراد، زیبا اور مشرقی پاکستان کی فلم ''چکوری'' کی شہرت یافتہ ہیروئن شبانہ نے بھی کام کیا تھا۔ اور رحمان کی فلم ''کنگن'' میں ہیروئن آنے کے بعد اداکارہ سنگیتا کو بھی مذکورہ فلم میں بطور مہمان اداکارہ کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت شیون رضوی کا لکھا ہوا بھی مشہور ہوا تھا جو فلم شبانہ پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
آ بھی جا او ساجنا ارمانوں کے گلزاروں میں
ڈھونڈ رہی ہوں کب سے تجھ کو ساون کی بوچھاروں میں
شیون رضوی کی شاعری کے رنگ اب کراچی کی فلم انڈسٹری پر چڑھتے جا رہے تھے، اسی دور کی دو اور فلموں میں بھی شیون رضوی نے گیت لکھے تھے جو فلم ''رم جھم'' اور فلم ''پالکی'' کے خوبصورت گیت تھے۔ یہ دونوں فلمیں بطور ہدایت کار قمر زیدی نے بنائی تھیں۔ ان دونوں فلموں کے موسیقار بھی ناشاد تھے۔ پالکی پرانی تہذیب پر مبنی ایک سوشل فلم تھی۔ اس فلم میں اداکار محمد علی پر عکس بند کیا گیا، مہدی حسن کا گایا ایک گیت ان دنوں فلم بینوں میں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
یہ جھکی جھکی نگاہیں انھیں میں سلام کرلوں
یہیں اپنی صبح کر لوں یہیں اپنی شام کرلوں
یہ بڑی مرصع غزل تھی، اس کا ایک ایک شعر دل میں اتر جانے والا تھا۔ فلم ''پالکی'' جتنے دن بھی چلی وہ صرف اپنے گیتوں ہی کی وجہ سے چلی تھی۔ ہدایت کار قمر زیدی کی خوش قسمتی ان دنوں بڑا رنگ دکھا رہی تھی، انھیں کئی فلمیں کراچی میں مل گئی تھیں، ان میں ایک فلم ''رم جھم'' بھی تھی جس میں زمرد اور روزینہ کا جوڑ تھا۔ اور ایک المیہ گیت پہلی بار چنچل اداکارہ روزینہ پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
میں نے اک آشیاں بنایا تھا
اب بھی شاید وہ جل رہا ہوگا
تنکے سب خاک ہوچکے ہوں گے
اک دھواں سا نکل رہا ہوگا
جہاں نورجہاں کی درد بھری آواز کے سروں نے ایک سماں باندھا تھا وہاں اداکارہ روزینہ کی اداکاری بھی کمال کی تھی اور اس نے بھی فلم بینوں کے دلوں کو چھو لیا تھا۔ کئی فلموں میں سپرہٹ گیت دینے کے بعد شیون رضوی کو اب لاہور کی فلم کی انڈسٹری سے بھی بلاوا آگیا تھا۔ فلم کا نام تھا ''بہارو پھول برساؤ'' یہ فلم 1971ء میں بنائی گئی تھی۔ اس میں شیون رضوی کے لکھے ہوئے اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ جو اداکارہ رانی پر عکس بند کیا گیا تھا اور وحید مراد فلم کے ہیرو تھے۔ اس گیت کے بول تھے:
یہ گھر میرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ
اللہ نگہباں ہے نشیمن کا خدا حافظ
رانی کی اداکاری بھی بڑی جاندار تھی اور شاعری خوشبو کی طرح دل کو مہکاتی تھی۔ شیون رضوی کی یہ خوش بختی تھی کہ انھیں لاہور میں اچھے سرمایہ دار پروڈیوسر میسر آگئے تھے اور انھوں نے لاہور میں کئی فلمیں بھی بنائی تھیں۔ ان میں سے ایک فلم تھی ''میری زندگی ہے نغمہ'' فلم کا یہ نام ان کی فلم ''سالگرہ'' میں لکھے ہوئے ایک گیت کا مکھڑا تھا، یہ ان کا گیت بڑا مقبول ہوا تھا۔ اس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ فلم کی ہیروئن سنگیتا تھی اور ہیرو اداکار رنگیلا تھا یہ ایک محبت بھری کہانی پر مبنی فلم تھی۔ فلم کا روایتی انداز تھا مگر اس کے گیتوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اور ایک گیت تو پسندیدگی کی سند بن گیا تھا۔ اور اس گیت کو مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے امر گیت کا درجہ دے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا گیت تھا جس کی شاعری اور موسیقی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھی، گیت ایک نظم کی صورت میں تھی۔ اس کے بول تھے:
اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
صرف ایک اسی گیت کی وجہ سے یہ فلم، فلم بینوں کی توجہ کا مرکز بنی تھی اور یہ گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ شیون رضوی نے اس فلم کے ساتھ ایک دوسری فلم بھی بنائی تھی جسکا نام تھا ''بات پہنچی تری جوانی تک'' مگر یہ فلم کامیابی کی دہلیز تک نہ پہنچ سکی تھی اور پہلے ہی ہفتے میں بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، اسی دوران شیون رضوی نے ایک فلم ''نغمات کی رات'' کے نام سے شروع کی ہوئی تھی۔ مگر وہ ناسازگار حالات اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے تکمیل کے مراحل تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈبوں میں بند ہوچکی تھی اور اس طرح لاہور میں شیون رضوی نے جو کچھ کمایا تھا وہ اپنی جیبیں جھاڑ کر کھڑے ہوگئے تھے اور اتنے دل برداشتہ ہوئے تھے کہ لاہور کا فلمی ماحول اب انھیں اپنا دشمن لگنے لگا تھا۔ انھیں فلم آرٹسٹوں کی خودغرضی اور بے حسی کا بھی بڑا ملال تھا جو فلمی دنیا کا دستور رہا ہے۔ جہاں سب چڑھتے سورج ہی کی پوجا کرتے ہیں، کسی گرتے ہوئے کو کوئی نہیں سنبھالا دیتا۔
شیون رضوی اپنے حالات سے پریشان ہوکر لاہور سے اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد چلے گئے تھے، وہاں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا پھر وہ اس حملے سے جانبر نہ ہوسکے تھے اور یکم جون 1987ء کو اسلام آباد ہی میں انتقال کرگئے اور اس طرح ہماری بے حس فلم انڈسٹری بے مثال گیتوں کے خالق شیون رضوی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی تھی مگر ان کے لازوال گیتوں کی گونج فلم انڈسٹری میں برسوں سنائی دیتی رہے گی۔
بڑی خاموشی کے ساتھ ان کے دن گزر رہے تھے، پھر رفتہ رفتہ وقت بدلا اور ماحول بھی کچھ خوشگوار ہوا۔ کراچی کی فلم انڈسٹری میں کچھ چہل پہل شروع ہوچکی تھی۔ میری شیون رضوی سے پہلی ملاقات ایسٹرن اسٹوڈیو میں ہی ہوئی تھی، میں ان دنوں فلمی صحافی تھا اور نگار ویکلی میں شناسا کے نام سے کراچی کے فلمی لیل و نہار لکھتا تھا۔
شیون رضوی خالص لکھنوی تھے، انداز گفتگو میں دھیما دھیما پن، مزاج میں نرمی اور نزاکت نظر آتی تھی، وہ اب بھی اپنی کرسی کسی دوسرے کو دینے میں پہل کرتے تھے، ہدایت کار قمر زیدی کے پروڈکشن آفس میں شیون رضوی سے یہ ایک بڑی خوشگوار ملاقات تھی۔ ان دنوں شیون رضوی ہدایت کار قمر زیدی کی فلم ''سالگرہ'' کے گیت لکھ رہے تھے، فلم کی شوٹنگ بھی وقفے وقفے سے چل رہی تھی اور گیتوں کی ریکارڈنگ بھی اب اپنے اختتام پر تھی۔ ویسے تو اس فلم کا ہر گیت ہی بڑا جاندار تھا مگر اس فلم کے ایک گیت نے تو بڑی تباہی مچائی تھی۔ اس گیت میں ہندوستان کی فلم انڈسٹری کی یادوں کا کچھ فسوں بھی شامل تھا، اس گیت کو میڈم نورجہاں نے بھی بڑے سوز و گداز کے ساتھ خوب ڈوب کر گایا تھا گیت کے بول تھے:
لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
اس گیت کی موسیقی کو موسیقار ناشاد نے بھی بڑی محنت سے ترتیب دیا تھا اور خوبصورت سروں سے سنوارا تھا۔ اداکارہ شمیم آرا نے بھی اپنی جاندار اداکاری سے اس گیت کے حسن میں مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ اس گیت میں ایک ایسی مقناطیسی کشش تھی جو فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ فلم ''سالگرہ'' کی کامیابی نے ہی شیون رضوی کے حوصلوں کو بڑی تقویت دی تھی اور پھر ان کی شہرت کے ڈنکے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں بھی بجنے لگے تھے۔ فلم ''سالگرہ'' کے دیگر گیت بھی مقبولیت کے اعتبار سے آگے آگے تھے جو میڈم نور جہاں اور مہدی حسن نے گائے تھے۔ میڈم نور جہاں کا گایا ہوا ایک اور گیت پسندیدگی کی سند بنا تھا جس کے بول تھے:
میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ
میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ
اسی زمانے میں کراچی میں ایک فلم ''چاند سورج'' بھی بنائی گئی تھی، جو میگا کاسٹ کی فلم تھی۔ اس میں اداکار ندیم، محمد علی، وحید مراد، زیبا اور مشرقی پاکستان کی فلم ''چکوری'' کی شہرت یافتہ ہیروئن شبانہ نے بھی کام کیا تھا۔ اور رحمان کی فلم ''کنگن'' میں ہیروئن آنے کے بعد اداکارہ سنگیتا کو بھی مذکورہ فلم میں بطور مہمان اداکارہ کاسٹ کیا گیا تھا۔ اس فلم کا ایک گیت شیون رضوی کا لکھا ہوا بھی مشہور ہوا تھا جو فلم شبانہ پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
آ بھی جا او ساجنا ارمانوں کے گلزاروں میں
ڈھونڈ رہی ہوں کب سے تجھ کو ساون کی بوچھاروں میں
شیون رضوی کی شاعری کے رنگ اب کراچی کی فلم انڈسٹری پر چڑھتے جا رہے تھے، اسی دور کی دو اور فلموں میں بھی شیون رضوی نے گیت لکھے تھے جو فلم ''رم جھم'' اور فلم ''پالکی'' کے خوبصورت گیت تھے۔ یہ دونوں فلمیں بطور ہدایت کار قمر زیدی نے بنائی تھیں۔ ان دونوں فلموں کے موسیقار بھی ناشاد تھے۔ پالکی پرانی تہذیب پر مبنی ایک سوشل فلم تھی۔ اس فلم میں اداکار محمد علی پر عکس بند کیا گیا، مہدی حسن کا گایا ایک گیت ان دنوں فلم بینوں میں بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:
یہ جھکی جھکی نگاہیں انھیں میں سلام کرلوں
یہیں اپنی صبح کر لوں یہیں اپنی شام کرلوں
یہ بڑی مرصع غزل تھی، اس کا ایک ایک شعر دل میں اتر جانے والا تھا۔ فلم ''پالکی'' جتنے دن بھی چلی وہ صرف اپنے گیتوں ہی کی وجہ سے چلی تھی۔ ہدایت کار قمر زیدی کی خوش قسمتی ان دنوں بڑا رنگ دکھا رہی تھی، انھیں کئی فلمیں کراچی میں مل گئی تھیں، ان میں ایک فلم ''رم جھم'' بھی تھی جس میں زمرد اور روزینہ کا جوڑ تھا۔ اور ایک المیہ گیت پہلی بار چنچل اداکارہ روزینہ پر فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
میں نے اک آشیاں بنایا تھا
اب بھی شاید وہ جل رہا ہوگا
تنکے سب خاک ہوچکے ہوں گے
اک دھواں سا نکل رہا ہوگا
جہاں نورجہاں کی درد بھری آواز کے سروں نے ایک سماں باندھا تھا وہاں اداکارہ روزینہ کی اداکاری بھی کمال کی تھی اور اس نے بھی فلم بینوں کے دلوں کو چھو لیا تھا۔ کئی فلموں میں سپرہٹ گیت دینے کے بعد شیون رضوی کو اب لاہور کی فلم کی انڈسٹری سے بھی بلاوا آگیا تھا۔ فلم کا نام تھا ''بہارو پھول برساؤ'' یہ فلم 1971ء میں بنائی گئی تھی۔ اس میں شیون رضوی کے لکھے ہوئے اور ملکہ ترنم نور جہاں کے گائے ہوئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی۔ جو اداکارہ رانی پر عکس بند کیا گیا تھا اور وحید مراد فلم کے ہیرو تھے۔ اس گیت کے بول تھے:
یہ گھر میرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ
اللہ نگہباں ہے نشیمن کا خدا حافظ
رانی کی اداکاری بھی بڑی جاندار تھی اور شاعری خوشبو کی طرح دل کو مہکاتی تھی۔ شیون رضوی کی یہ خوش بختی تھی کہ انھیں لاہور میں اچھے سرمایہ دار پروڈیوسر میسر آگئے تھے اور انھوں نے لاہور میں کئی فلمیں بھی بنائی تھیں۔ ان میں سے ایک فلم تھی ''میری زندگی ہے نغمہ'' فلم کا یہ نام ان کی فلم ''سالگرہ'' میں لکھے ہوئے ایک گیت کا مکھڑا تھا، یہ ان کا گیت بڑا مقبول ہوا تھا۔ اس فلم کے موسیقار نثار بزمی تھے۔ فلم کی ہیروئن سنگیتا تھی اور ہیرو اداکار رنگیلا تھا یہ ایک محبت بھری کہانی پر مبنی فلم تھی۔ فلم کا روایتی انداز تھا مگر اس کے گیتوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اور ایک گیت تو پسندیدگی کی سند بن گیا تھا۔ اور اس گیت کو مہدی حسن کی جادو بھری آواز نے امر گیت کا درجہ دے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا گیت تھا جس کی شاعری اور موسیقی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھی، گیت ایک نظم کی صورت میں تھی۔ اس کے بول تھے:
اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
صرف ایک اسی گیت کی وجہ سے یہ فلم، فلم بینوں کی توجہ کا مرکز بنی تھی اور یہ گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ شیون رضوی نے اس فلم کے ساتھ ایک دوسری فلم بھی بنائی تھی جسکا نام تھا ''بات پہنچی تری جوانی تک'' مگر یہ فلم کامیابی کی دہلیز تک نہ پہنچ سکی تھی اور پہلے ہی ہفتے میں بری طرح فلاپ ہوگئی تھی، اسی دوران شیون رضوی نے ایک فلم ''نغمات کی رات'' کے نام سے شروع کی ہوئی تھی۔ مگر وہ ناسازگار حالات اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے تکمیل کے مراحل تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈبوں میں بند ہوچکی تھی اور اس طرح لاہور میں شیون رضوی نے جو کچھ کمایا تھا وہ اپنی جیبیں جھاڑ کر کھڑے ہوگئے تھے اور اتنے دل برداشتہ ہوئے تھے کہ لاہور کا فلمی ماحول اب انھیں اپنا دشمن لگنے لگا تھا۔ انھیں فلم آرٹسٹوں کی خودغرضی اور بے حسی کا بھی بڑا ملال تھا جو فلمی دنیا کا دستور رہا ہے۔ جہاں سب چڑھتے سورج ہی کی پوجا کرتے ہیں، کسی گرتے ہوئے کو کوئی نہیں سنبھالا دیتا۔
شیون رضوی اپنے حالات سے پریشان ہوکر لاہور سے اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد چلے گئے تھے، وہاں ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا پھر وہ اس حملے سے جانبر نہ ہوسکے تھے اور یکم جون 1987ء کو اسلام آباد ہی میں انتقال کرگئے اور اس طرح ہماری بے حس فلم انڈسٹری بے مثال گیتوں کے خالق شیون رضوی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی تھی مگر ان کے لازوال گیتوں کی گونج فلم انڈسٹری میں برسوں سنائی دیتی رہے گی۔