دمے کے مریض توجہ کے مستحق

پاکستان میں صحت کے شعبے کو حکومتی سطح پر سب سے زیادہ نظراندازکیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شہریوں کو سرکاری ...

پاکستان میں صحت کے شعبے کو حکومتی سطح پر سب سے زیادہ نظراندازکیا گیا ہے. فوٹو: فائل

پاکستان میں صحت کے شعبے کو حکومتی سطح پر سب سے زیادہ نظراندازکیا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شہریوں کو سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مریض کی لمبی قطاریں نظر آئیں گی ۔

بے شمار مصائب وآلام اور امراض کا شکار قوم کے افراد سے صحت مند رویوں کی توقع کرنا بھی عبث ہے۔ اہل پاکستان کی بدنصیبی اور بدقسمتی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ پاکستان میں دمے کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ۔دنیا تو اس مرض کے عالمی دن کے موقعے پر ''آپ دمہ پر قابو پا سکتے ہیں''کے عنوان سے اپنی کوششیں تیزکررہی ہے،جب کہ ہم ابھی تک دمے دم کے ساتھ والی کہاوت پر عمل پیرا ہیں ۔یہ دنیا میں رہنے والے تقریباً 300 ملین افراد کا مسئلہ ہے، وطن عزیز میں 14ملین افراد دمے میں مبتلاہیں جن میں سے 51 فیصد بالغ اور 32 فیصد نابالغ افراد شامل ہیں۔

ماحولیاتی آلودگی دمے کے مرض میں اضافے کا سبب ہے ، دمے کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے منی پاکستان کراچی کا پہلا اور ملتان کے دوسرا نمبر ہے ، یہ پھیپھڑوں کی ایک عام دائمی بیماری ہے، متاثرہ مریضوں کوکھانسی، پسلیاں چلنے اور سانس لینے میں دشواری یا سانس رکنے کے شدید دورے بھی پڑتے ہیں، لیکن پاکستان میں ادویہ سازکمپنیاں منافعے کی ہوس میں مبتلا ہوکر سردیوں کے موسم میں انہیلر اور افاقہ دینے والی ادویات کو پہلے تو مارکیٹ سے غائب کردیتی ہیں، مریض کے عزیز واقارب ادویات کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن انھیں دوائیں کہیں نہیں ملتیں۔


آخر کار پندرہ بیس دن گذرنے کے بعد یہ ادارے ان ادویات کو منہ مانگے داموں فروخت کے لیے بازار میں لے آتے ہیں ، انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ادویات کی عدم دستیابی کے باعث ہرسال سیکڑوں مریض سسک سسک کر مر جاتے ہیں ۔ ان مقامی اور ملٹی نیشنل ادویہ ساز کمپنیوں کوکوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔طبی سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب ہزاروں انسانی جانوں کو باسانی جدید طریقہ علاج سے بچالیا جاتا ہے۔

کیونکہ یہ شعبہ انسانی خدمت کے زمرے میں آتا ہے ، ایک طرف تو ہمارے ملک کے ڈاکٹروں کی زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس ہی ختم نہیں ہوپاتی تو دوسری جانب 90 فیصد ڈاکٹر ایسے ہیں جودمہ کاعلاج تجویز ہی نہیں کرسکتے،سرکاری اسپتالوں کا منہ تو خدا کسی دشمن کو بھی نہ دیکھائے لیکن نجی اسپتالوں کا حال بھی کچھ بہتر نہیں ، صرف پیسہ بٹورنے کی فکر ہوتی ہے ، دمے کے دورے میں فوری طور پر آکسیجن سیلنڈرکی ضرورت بھی ہوتی ہے تاکہ مریض کو سانس لینے کے عمل میں کچھ مدد ہوجائے لیکن اکثر اسپتالوں میں یہ بنیادی سہولت بھی میسر نہیں ہے، پھر اس مرض کی درست تشخیص کرنے والے ڈاکٹرزکا ناپید ہونا بھی صورتحال کو مزید گھمبیر بناتا ہے بسا اوقات تو ایک مریض ایک سے دو ہفتے تک اسپتال میں زیر علاج رہتا ہے ۔

ڈاکٹرز اس کو ڈسچارج کردیتے ہیں اور چند دن وہ دوبارہ مجبورا ایڈمٹ ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے کیونکہ نوے فیصد ڈاکٹرز درست علاج اور ادویات تجویز ہی نہیں کرپاتے ۔ اس صورتحال پر جتنا ماتم کیا جائے وہ کم ہے ۔ دمہ ناقابل علاج مرض نہیں ہے بلکہ قابل علاج مرض ہے ۔اس کی درست تشخیص اور درست ادویات کی فراہمی مریض کے علاج میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے ۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی ادویات جعلی ہونے کے سبب بہت کم ریلیف مریض کو مہیا کرتی ہیں جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات انتہائی مہنگی ہونے کے باعث عوام کی قوت خرید سے باہر ہے ۔دمے کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں ماحولیاتی آلودگی کے باعث بھی ہورہا ہے کراچی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یہ خطرے کی حدوں تک پار کرچکی ہے ۔ نئی آنے والی حکومت کو چاہیے کہ صحت کے شعبے پر بھرپور توجہ دے اورایسے مثبت اقدامات اٹھائے جس سے اس مرض کے پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔
Load Next Story