تاجدار صحافت چلا گیا

سایہ رہ گیا‘ شاہ جی چلے گئے، فانی جسم اپنے سایے سے جدا ہو گیا۔ یہ کالم نگار‘ حالات کی کڑی دھوپ میں یک و تنہا‘...

budha.goraya@yahoo.com

لاہور:
سایہ رہ گیا' شاہ جی چلے گئے، فانی جسم اپنے سایے سے جدا ہو گیا۔ یہ کالم نگار' حالات کی کڑی دھوپ میں یک و تنہا' لاوارث کھڑا رہ گیا۔ سید والاتبار داغ جدائی دے کر رخصت ہوئے' منو بھائی اور شاہین قریشی پوچھ رہے تھے ''بے وفا کون ہے''؟ افق کے اس پار چلے جانے والے شاہ جی یا ہم جو ان کا ساتھ نہ نبھا سکے۔ شاہ جی کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا' بہت کچھ لکھا جائے گا، قصے کہانیاں اور افسانے کہ انھوں نے پاکستان کی سیاست اور صحافت پر انمٹ اور درخشاں نقوش چھوڑے، وہ دبستان صحافت کا انوکھا اور منفرد باب تھے' اپنے دھڑے کی سرپرستی کرنے والے' بھٹو خاندان کے غیر مشروط جیالے'

اکل کھرے دانشور' جن کی لغت میں غیر جانبداری حرف غلط تھی لیکن نیوز روم جو ان کی اصل جولان گاہ تھا دھرم ترازو لے کر بیٹھتے اور خبروں کے بناؤ بگاڑ اور شاعرانہ سرخیاں تخلیق کرتے ہوئے کسی تعلق' واسطے' رشتے ناتے کو خاطر میں نہ لاتے۔ یہ کالم نگار تو ان کا سایہ تھا۔ میرے لیے وہ سب کچھ تھے' تمام دنیاوی رشتوں سے بالاتر' بے تکلف دوست اور پہاڑ ایسے سرپرست کہ بارہا میرے کیے دھرے کی وجہ سے بہت سارے دکھ اور زخم اپنے سینے پر برداشت کیے، کبھی شکوہ کیا نہ شکایت۔ صرف مسکراتے اور کام میں مصروف ہو جاتے۔ 60 کی دہائی کا بے مثل شاعر جب نیوز روم میں نمودار ہوتا ہے۔ اردو اخبارات کی روکھی سوکھی سنجیدہ سرخیاں نئی آب و تاب' شاعرانہ غنایت اور ترنم سے آراستہ ہوتی ہیں۔ ''ادھر ہم ادھر تم'' تو ہماری سیاسی تاریخ میں ایک نعرہ' ایک طعنہ بن کر مدتوں بعد بھی گونج رہی ہے۔

شاہ جی عمل کی دنیا کے آدمی تھے۔ ایسے حقیقت پسند کہ جذبات اور جذباتیت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے لیکن اپنے نظریات اور وابستگیوں کی وجہ سے بے پناہ ریاستی تشدد برداشت کیا' فوجی عدالتوں میں کھڑے ہو کر باوردی ججوں کا مذاق اڑاتے رہے، جب یہ لامتناہی سلسلہ ختم ہونے کو نہ آیا تو جلا وطن ہوکر دربدر کی ٹھوکریں کھائیں۔ ایک دھائی تک نیو یارک میں رہے' امریکی شہریت لینے سے انکار کر دیا اور گرین کارڈ پر بھی صرف ایک بار امریکا گئے کہ بڑے صاحبزادے طارق عباس شاہ ٹریفک حادثے کے بعد ذہنی طور پر مفلوج ہو گئے۔

انھیں تاجپورہ لاہور کی گلیوں میں واپس لائے اور اپنے بے پناہ صبر اور استقامت سے اس کی یادداشت واپس لانے میں کامیاب و کامران رہے اور پھر امریکا کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ گرین کارڈ کھو گیا تو پے در پے اصرار کے باوجود نیا کارڈ بنوانے میں کوئی دلچسپی نہ لی' وہ ایسے پنجابی تھے جنھیں اپنی زبان اور ثقافت پر فخر تھا لیکن اسے انھوں نے کبھی دکھاوے کے لیے اس کا ذکر تک نہ کیا۔ وہ بے مثل شاعر تھے لیکن اپنا کلام سنانے کے بجائے چھپاتے رہے۔ وہ شاعری کو داخلی تسکین کا حوالہ سمجھتے تھے' کبھی مشاعروں میں گئے نہ داد کے طالب ہوئے' ان کی شہ سرخیوں میں ان کا شاعرانہ ترنم جھلکتا ہے لیکن کبھی اپنے فن کی خود نمائی کا روگ نہ پالا شہرت سے گریز آخری سانس تک ان کا شیوہ رہا۔

کھڑکی کھول کے بال بنانا شیوہ اس گل فام کا تھا
اور محلے کے گھر گھر میں چرچا میرے نام کا تھا


کینسر جیسے موذی مرض کا جس بہادری اور دلیری سے شاہ جی نے مقابلہ کیا یہ صرف انھی کو زیبا تھا۔ علاج کے لیے ہم دو بار سنگا پور گئے۔ مشرق بعید کے بچوں جیسے چینی نقوش والے زرد رو ڈاکٹر انھیں کارٹون فلموں کا کردار لگتے تھے۔ تشخیص کے دوران پنجابی میں ایسے چٹکلے چھوڑتے کہ میرے پیٹ میں بل پڑ جاتے اور ہمارے انسان دوست معالج ہنسی کے ان اچانک دوروں پر سٹپٹا جاتے، تکلیف دہ اور اذیت ناک علاج کو بھی شاہ جی نے ہنسی مذاق میں اڑا دیا تھا۔ سنگا پور میں سگریٹ نوشی غیر مہذب عمل ہے۔

شاہ جی کو بار بار سگریٹ کو طلب ہوئی تو معاملہ گفتگو اور مکالمے سے تلخ اور تکلیف دہ محاذ آرائی تک جا پہنچتا لیکن خاکسار نے انھیں سگریٹ سے کوسوں دور رکھا، گالیاں کھائیں لیکن بدمزہ نہ ہوا۔ سنگا پور میں راجپوت ٹھاکر شیام بہادر سنگھ کی بیٹی پارو کے گھر پر دعوتیں' سنگا پور کے سب سے بڑے مال ''مصطفے'' کے مالکان کی پذیرائی اور برادرم خالد قیوم (بلوم برگ نیوز ایجنسی) کی اہلیہ کے بنائے ہوئے چٹ پٹے مصالحے دار پراٹھے کھاتے ہوئے شاہ جی کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ ہم بے فکرے سیاحوں کی طرح باہم الجھتے، گوشے گوشے کو فتح کرتے پھرے ،کیموتھراپی' مریض کے لیے بڑا اذیت ناک اور اعصاب شکن علاج ہوتا ہے لیکن قبلہ سید والاتبار نے، اپنی آہنی قوت ارادی سے اسے بھی ہنسی مذاق بنا کر رکھ دیا تھا۔

شاہ جی نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی تھی لیکن آخری سالوں میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے سگریٹ کے دھوئیں میں دھیرے دھیرے تحلیل ہوتے گئے۔ جب مرض نے دوبارہ زور پکڑا تو ہم ایک سے دوسرے ماہر معالج کے پاس حاضر ہوتے رہے، علاج کے لیے شرط اول ''ترک تمباکو نوشی'' پر آمادہ نہ ہوئے مانچسٹر' برطانیہ کے کرسٹی اسپتال میں 3 ماہ تک دوبارہ علاج کے دوران سگریٹ نوشی جاری رکھی' بڑے بھائی فضل شاہ بلا ناغہ قبلہ شاہ کے ''دل شکن'' رویوں کا ذکر کرتے لیکن شاہ صاحب اپنے آپ کو دھوئیں میں تحلیل کرنے پر تلے ہوئے تھے اور کون تھا جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنتا' واپس آئے تو شدید اصرار کے باوجود آرام پر آمادہ نہ ہوئے، پھر دفتر لگا کر بیٹھ گئے۔ آخر کب تک قوت ارادی کے بل بوتے پر داغ داغ پھیپھڑوں کے سہارے جان لیوا بیماری کا مقابلہ کرتے۔

شاہ جی روایتی نظریاتی تقسیم کا ہمیشہ مذاق اڑاتے رہے چونکہ ذاتی طور پر لاہور کا رسوائے زمانہ شاہی قلعہ اور اس کی اذیتیں برداشت کر چکے تھے۔ جیل کی دنیا سے بھی گہری شناسائی رکھتے تھے، اس لیے بے کس' بے بس اور بے نوا انسانوں کے دکھ درد ختم کرنے کے لیے خاموشی سے بروئے کار رہے' اپنی زمین سے عشق کی انتہا تھی کہ جس تاجپورہ میں پروان چڑھے' جئیے' اس کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

مرحوم بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کے عاشق زار تھے۔ ان کے لیے گیت لکھے' لازوال گیت بھٹو کی بیٹی آئی ہے موجودہ انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کا سب سے موثر اور کارگر ہتھیار ہے۔ یہ کالم نگار جب 1977کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو سمیت 24 رہنماؤں کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کا سوال کرتا تو ٹھنڈے مزاج کے حامل شاہ جی مشتعل ہو جاتے تھے۔

وہ 1977 میں عام انتخابات سے پہلے ہونے والی اس ظاہر و باہر دھاندلی کا ذکر سننا پسند نہ کرتے تھے کہ وہ بھٹو صاحب اور ان کے خاندان کے عاشق زار تھے جنھیں تاریخی حقائق سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ شاہ جی عہد قدیم کے طرح دار شاھسوار کی طرح زندہ رہے، ان کی شہ سرخیاں آنے والے زمانوں میں قلم و کتاب کے وابستگان کی راہوں میں اجالا کرتی رہیں گی۔ ان کے گیت تاریک راہوں کے مسافروں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے رہیں گے۔ لیکن یہ کالم نگار' اس کے لہجے کا بانکپن ' وہ شوریدہ سری اور خود اعتمادی سب کچھ سید والاتبار کے ساتھ دفن ہو گیا۔

اب تو کوئی آسرا' سہارا نہیں رہا' خود سے اپنے بھروسے پر خارزار راہوں پر چلنا ہو گا، پھونک پھونک کر آگے بڑھنا ہو گا۔
Load Next Story