کس قیادت کو منتخب کیا جائے

آج سے تین دن بعد روزمرہ مسائل سے بے حال اورخوفناک دہشت گردی سے نڈھال پاکستانیوں کی اکثریت قطار میں لگی ہوئی اگلے...


Zahida Hina May 07, 2013
[email protected]

آج سے تین دن بعد روزمرہ مسائل سے بے حال اورخوفناک دہشت گردی سے نڈھال پاکستانیوں کی اکثریت قطار میں لگی ہوئی اگلے پانچ برسوں کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرے گی۔ یہ ایک ایسا نازک اور اہم لمحہ ہوگا جب ہم سب بہتر قیادت اور موثر نظم حکمرانی نافذ کرنے والوں کو اقتدار منتقل کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے اپنا جمہوری حق استعمال کریں گے۔

دعائیں دیجیے عسکری قیادت اور الیکشن کمیشن کو کہ چند دنوں پہلے جب اس نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کردیا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر ہوگی، تب انتخابی عمل نے زور پکڑا اور اب ہر طرف کارنر میٹنگوں، جلسوں اور جلوسوں کی بہاریں ہیں۔ اخباری صفحات رنگین اشتہاروں سے بھرے ہوئے ہیں جن میں بعض جماعتیں اپنے منشور پراصرار کرنے کے بجائے صرف ایک جماعت اور شخصیت کے بارے میں منفی، گمراہ کن اور سیاق و سباق کا حوالہ دیے بغیر الزامات عائد کررہی ہیں۔

ٹیلی وژن اشتہار ہیں تو وہ بھی عوامی مسائل اور ان کے حل کے بجائے دشنام طرازیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ بعض رہنماؤں کی تقریریں سنیے تو محسوس ہوتا ہے جیسے ساس بہوکے جھگڑے کا کوئی مردانہ ورژن چل رہا ہے۔ چرچ کے بنائے ہوئے اعلیٰ اسکول میں پڑھنا اور انگلستان کی مشہور ترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونا مہذب ہونے کی علامت نہیں۔ ان لوگوں سے موچی اور بھاٹی دروازے کے لوگ کہیں زیادہ مہذب زبان استعمال کرتے ہیں۔ایسے میں وہ لوگ یاد آتے ہیں ۔

جنہوں نے سرکاری کالجوں میں پڑھا، جنھیں ولایت کے تعلیمی اداروں کی ہوا بھی نہیں لگی اس کے باوجود ان کی نہ زبان بگڑی اور نہ دہن۔دنیا کے تمام عظیم رہنماؤں اور مدبروں نے تحریر و تقریر میں شائستگی کی مثالیں قائم کیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح نے کبھی ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالی۔ کانگریس کے ابوالکلام آزاد اور مسلم لیگ کے رہنما ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرتے نہیں سنائی دیے۔ افسوس کہ آج بد زبانی اور بد کلامی وہ رہنما کررہے ہیں جو ابھی منتخب بھی نہیں ہوئے ہیں لیکن اپنے انتخابی نشان کے ذریعے مخالفین کو مارنے، پھینٹی لگانے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے اعلانات بھرے مجمع میں کررہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کو بے رحم اور سفاک بننے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اس پس منظر میں اگر ہم اس بات کا جائزہ لینا چاہیں کہ آج پاکستان جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس میں ہماری آیندہ قیادت کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے تو چند نکات سامنے آتے ہیں۔

٭قیادت کو مہذب ہونا چاہیے۔ آج کی دنیا میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملکی رہنماؤں کا مہذب ہونا ایک بنیادی شرط ہے۔ وہ زمانے گئے جب سابق سوویت یونین کے رہنما خرو شیف غصے میں آتے تو اقوام متحدہ میں اپنا جوتا اتار کر اس سے ڈیسک بجاتے تھے اور اسے ان کی شان تصور کیا جاتا تھا۔ یا معمر قذافی اور بعض دوسرے رہنما گرم گفتاری اور دشنام طرازی کی انتہا کردیتے تھے جس کے نتیجے میں دنیا کئی مرتبہ جنگ کی دہلیز پر جاکر پلٹی۔ ایک مہذب قیادت ہی ملک کے اندرونی معاملات بھی تہذیب اور بردباری سے طے کرسکتی ہے۔ جس ملک کا حکمران رہنما مہذب ہوگا وہ ملک بھی مہذب سمجھا جائے گا۔

٭ قیادت کو قانون کا پابند ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر رہنما اور قائدین ہی قانون کی پاسداری نہیں کریں گے تو پھر وہ عوام سے یہ اُمید کیسے رکھ سکتے ہیں کہ وہ قانون کو توڑتے ہوئے ڈریں گے۔ برطانیہ میں جب ولی عہد شہزادہ چارلس یا ان کے بیٹے تیز رفتارگاڑی چلانے یا شراب پی کر ڈرائیونگ کرنے پر پکڑے جاتے ہیں تو ان کا چالان ہوتا ہے اور انھیں عام برطانوی شہری سے زیادہ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ تب ہی ایک عام برطانوی بھی اپنے ملکی قوانین کا احترام کرتا ہے ۔

٭ قیادت کو نفرت اور انتقام کی بنیاد پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ نفرت مزید نفرت اور غصے کو جنم دیتی ہے۔ اگر ملکی قیادت دوسرے سیاسی گروہ یا مسلک کے خلاف نفرت بھڑکائے گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مختلف سیاسی گروہوں اور مسلک کے ماننے والوں کے درمیان تصادم نہ ہو۔ اس نوعیت کے تصادم اور جھگڑے ملک میں امن قائم نہیں ہونے دیتے اور نہ قانون کی پاسداری ممکن ہوتی ہے۔

٭ قیادت میں جنون نہیں بلکہ ہوش مندی اور تحمل کے اوصاف ہونے چاہئیں۔ اب سے کئی دہائیاں پہلے ہماری سیاسی قیادت کشمیر کو فتح کرنے اور ہندوستان کو کچل دینے کے نعرے لگاتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ان نعروں سے ہمیں نہ کشمیر ملا اور نہ ہندوستان کچلا گیا۔ لیکن ان نعروں کا سراسر نقصان ہم ہی کو ہوا۔ ہندوستان آج تیزی سے ترقی کررہا ہے اور ہم قرضوں کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ صرف ووٹ لینے کے لیے آج دلوں کو گرماتے ہوئے نعروں میں ڈرون مارگرانے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ گویا یہ کہا جاتا ہے کہ ہم امریکا سے جنگ شروع کردیں گے۔ ہماری فوج کا90 فیصد ساز و سامان امریکی ہے۔ تربیت کے لیے ہمارے فوجی مسلسل امریکا جاتے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کے جذباتی نعرے صرف وہی لگا سکتے ہیں جو سیاسی اور سفارت کاری کے ہنر سے واقف نہیں ہیں اور اپنے محدود سیاسی مفادات کے لیے پاکستان کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

٭ قیادت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مزاج میں انتہا پسند نہ ہو۔ ہر نوعیت کی انتہا پسندی اندرون خانہ مزید انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے جس انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا، آج بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ اور خودکش بمباروں کی شکل میں ہم اس انتہا پسندی کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ ہماری آنے والی قیادت کا مزاج اگر انتہا پسندانہ ہوگا تو ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے مزید برے دنوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

٭ وہ قیادت آئے جو قوم کو فریبِ نفس میں مبتلا نہ کرے اور اس سے جھوٹے وعدے نہ کرے۔ یہ دعوے نہ کرے کہ ہم دنیا کی ایک عظیم طاقت ہیں۔ ہم اس وقت جن بھیانک بحرانوں میں گرفتار ہیں، اس نے ہمیں 'عظیم' کے بجائے ایک شکست خوردہ قوم بنا دیا ہے۔ ہمارے خوشحال اور خوش دل سماج کی بنت ادھڑ چکی ہے۔ ہم مسلک اور زبان کی بنیاد پر دست و گریباں ہیں۔ کوئی ہمارے نوجوانوں کو 72 حوروں کا خواب دکھا کر انھیں خودکش بمبار بنا رہا ہے اور کوئی 90 دن میں 10 لاکھ بیروزگار نوجوانوں کو روزگار دلانے کے سہانے خواب دکھا رہا ہے۔ کیا کسی نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اگر اقتدار میں آجانے والے اپنے یہ وعدے پورے نہ کرسکے تو کیا ہوگا؟ پاکستان کے لوگوں کو حقیقت بتائی جائے محض ووٹوں کی خاطر ان کے جذبات سے نہ کھیلا جائے۔

٭ قیادت کو اداروں کے استحکام پر یقین رکھنا چاہیے اور خود کو مسیحا، ہر مرض کی دوا اور ہر مسئلے کے حل کے طور پر نہیں پیش کرنا چاہیے۔ کیونکہ فرد نہیں بلکہ مستحکم جمہوری اور ریاستی ادارے ہی ایک اچھی جمہوریت اور مضبوط معیشت کو جنم دیتے ہیں جس کا ثمر عوام کے حصے میں آتاہے۔

٭ قیادت ایسی آئے جو نیکی کا سیاسی اجر نہ مانگتی ہو۔ اس نے اگر دوسروں کے عطیات سے کچھ فلاحی ادارے قائم کیے ہیں تو ووٹ لینے کے زمانے میں اس کا ذکر کچھ اچھا نہیں لگتا۔ بل گیٹس نے پاکستان اور بطور خاص سندھ کی حاملہ عورتوں اور شیرخوار بچوں کے لیے جس طرح کروڑوں ڈالر کے عطیات دیے ہیں، بل گیٹس اور ان کے ادارے نے کاروباری فائدے کے لیے کبھی اپنے ان فلاحی کاموں کا ذکر تک نہیں کیا۔ جب کہ ہمارے یہاں بچوں کی شرحِ اموات میں کمی کا ایک بڑا سبب بل گیٹس کے عطیات ہیں۔

٭ ایسی قیادت آئے جو نوجوانوں کی رہنمائی کرے، تعمیر وطن کے لیے ان سے تعاون کی طلبگار ہو لیکن اس کے ساتھ ہی تجربے کی عزت اور بزرگوں کا احترام بھی کرتی ہو۔ امریکا میں یہ احترام و عزت اس انتہا کو پہنچا ہوا ہے کہ وہاں فیڈرل گورنمنٹ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ اگر وہ ذہنی طور پرمستعد ہوں اور فیصلے کی ان کی صلاحیت روزِ اول کی طرح ہو تو کوئی ان کو ریٹائر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا خواہ ان کی عمر 90 برس سے کیوں نہ تجاوز کرگئی ہو، ہمارے یہاں جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی بزرگی کا جس توہین آمیز انداز میں بعض رہنماؤں نے بار بار ذکر کیا، وہ شرمناک ہے۔ایسا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بزرگ دانشوروں اور سائنس دانوں کو کان پکڑ کر اگر ان کے عہدوں سے فارغ کردیں تو اس پر تعجب نہ کیجیے گا۔

٭ قیادت کو نرم گفتار اور خوش اطوار ہونا چاہیے۔ ایک دشنام طراز اور کف در دہن قیادت کبھی عوامی مسائل حل نہیں کرسکتی اور نہ اپنے مخالفین سے مکالمے کے ذریعے کوئی گمبھیر معاملہ سلجھا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر ہم افسوس ناک تنہائی کاشکار ہیں۔ سوچیے تو سہی کہ ہمہ وقت دوسروں سے برسر پیکار قیادت کیا ہمیں اس عالمی تنہائی سے نجات دلاسکتی ہے؟

یہ وہ اہم اوصاف ہیں جن کا آنے والی سیاسی قیادت میں موجود ہونا، وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ آپ غور کیجیے اور اگر کسی سیاستدان میں آپ کو ان میں سے چند خوبیاں بھی نظرآئیں تو اسے اپنا ووٹ دیجیے کہ یہی آپ کی جمہوری ذمے داری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں