عالمی ماحولیاتی نظام کی بقا کے ضامن جان دار
ان میں سے کئی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں
کرۂ ارض پر متعدد ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں۔ ماحولیاتی نظام سے مراد ایسی جگہ یا مسکن ہے جہاں موجود تمام جان دار ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے اپنا وجود برقرار رکھتے ہیں۔
ہر ماحولیاتی نظام دوسرے سے جُڑا ہوتا ہے اور ایک نظام میں رونما ہونے والی تبدیلی سے دوسرے نظام براہ راست یا بالواسطہ طور پر متأثر ہوتے ہیں۔ ہر ماحولیاتی نظام میں یوں تو تمام جان دار انواع اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں مگر کچھ انواع کی اہمیت کلیدی ہوتی ہے۔ اگر ان انواع کو ماحولیاتی نظام سے خارج کردیا جائے تو پھر کرۂ ارض پر زندگی کی بقا مشکل ہوجائے گی۔ ذیل کی سطور میں کچھ ایسی ہی جان دار انواع کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی بقا سے کرۂ ارض پر زندگی کی بقا جُڑی ہے:
1۔ شہد کی مکھیاں:
سائنسی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض پر شہد کی مکھیاں دس کروڑ سال سے موجود ہیں۔ اس طویل مدت کے دوران شہد کی مکھیوں کی جسمانی ساخت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اپنی تخلیق کے بعد ہی سے شہد کی مکھیاں عالمی ماحولیاتی نظام کا بے حد اہم جزو بن گئی ہیں جن کے بغیر اس کی بقا ممکن نہیں۔
آخر شہد کی مکھیاں کیوں اتنی اہمیت کی حامل ہیں؟ اس کی وجہ بہ طور زیرگی کنندہ ان کا کردار ہے۔ شہد کی مکھیاں پُھولوں کا رس چُوس کر شہد بناتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ اپنے چھتے سے کئی میل دور تک کا سفر کرتی ہیں اور راہ میں آنے پھولوں کا رس چُوستی رہتی ہیں۔ شہد کی مکھی جب ایک پُھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے زیرہ دان سے زردانے یا زرگل مکھی کی روئیں دار ٹانگوں پر چپک جاتے ہیں۔ جب مکھی دوسرے پُھول پر جاکر بیٹھتی ہے تو یہ زردانے اس کی ٹانگوں سے علیٰحدہ ہوکر اس پُھول کے اسٹگما پرمنتقل ہوجاتے ہیں، یوں زیرگی کا عمل واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پھل بنتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 70 فی صد خوردنی فصلوں میں زیرگی کا عمل شہد کی مکھیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ فصلوں پرچھڑکے جانے والے حشرات اور نباتات کش زہر ہیں۔ فصلوں کو خود رَو پودوں اور حشرات سے بچانے کے لے یہ کیمیکلز شہد کی مکھیوں کے لے زہرہلاہل ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ان مفید ترین حشرات کی آبادی تیزی سے محدود ہوتی جارہی ہے۔ اگر خدانخواستہ سطح ارض سے شہد کی مکھیوں کا وجود ختم ہوجاتا ہے تو پھر عالمی غذائی زنجیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور انسان کی بقا خطرے میں پڑجائے گی۔
2۔ فائٹو پلانکٹن۔ زمین کے پھیپھڑے
عام طور پر جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے مگر حقیقت ہے یہ زمین پر موجود آکسیجن کی زیادہ مقدار سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے یہ خردبینی پودے مہیا کرتے ہیں جنھیں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے۔ بحروں اور بحیروں کے علاوہ یہ پودے دریائی ڈیلٹاؤں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ ایک ہی جگہ پر لامحدود تعداد میں جمع ہوجائیں تو پھر وہاں سبزے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔
یہ خردبینی پودے سورج کی روشنی اور پانی کی موجودگی میں اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں، اور اس عمل کے دوران آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔ کرۂ ارض میں پائی جانے والی آکسیجن کی کُل مقدار کا دو تہائی ان سے حاصل ہوتا ہے۔ آکسیجن کی پیداوار کا اہم ترین ذریعہ ہونے کی حیثیت سے یہ خردبینی جان دار عالمی غذائی زنجیر کا بے حد اہم حصہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق ابھی تک فائٹوپلانکٹن کی اہمیت کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ بہرحال ان کی قدر سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اگر یہ نہ ہوں تو پھر کرۂ ارض میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہوجائے گی اور جان داروں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔
حالیہ برسوں میں کی گئی کچھ تحقیق ظاہر کرتی ہیں کہ فائٹوپلانکٹن کی آبادی زوال پذیر ہورہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب میں بڑھتی ہوئی آبی آلودگی اور سمندروں کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔
3۔ فنجائی ( کھمبی )
فنجائی کی متعدد اقسام ہیں۔ اسی لحاظ سے ان کی ہیئت اور جسامت بھی مختلف ہوتی ہے۔ فنجائی کی کچھ اقسام ہماری غذاؤں کو گلا سڑا دیتی ہیں، کچھ ہمیں پنسلین مہیا کرتی ہیں جب کہ کچھ ہماری خوراک بنتی ہیں۔
سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ فنجائی کی متعدد اقسام کے بغیر سطح ارض پر زندگی سنگین مشکلات سے دوچار ہوجاتی۔ جب پودے اور جانور مرجاتے ہیں تو انھیں گلانے سڑانے یعنی تحلیل کرنے کا کام یہی جان دار انجام دیتے ہیں۔ اجزائے ترکیبی میں تحلیل کی وجہ سے زمین کو نمکیات حاصل ہوتے ہیں جو بعدازاں غذائیہ زنجیر میں شامل ہوجاتے ہیں۔
درحقیقت فنجائی ری سائیکلرز کا کام انجام دیتے ہیں۔ تاہم اس انتہائی مفید جان دار کو آلودگی اور بڑھتی ہوئی زرعی سرگرمیوں کی وجہ سے معدومیت کا خطرہ درپیش ہوچکا ہے۔
4۔کھاد مچھلی ( Menhaden)۔ آبی غذائی زنجیر کی اہم ترین کڑی
بہ ظاہر یہ عام سی مچھلی دکھائی دیتی ہے مگر متعدد جانوروں کی خوراک ہونے کی وجہ سے غذائی زنجیر کی بہت اہم کڑی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے خود ان مچھلیوں کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ الجی یعنی سمندری کائی سے شکم سیری کرتی ہیں۔ ان مچھلیوں کی صورت میں قدرت نے سمندری کائی کے پھیلاؤ یا ان خردبینی پودوں کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام کردیا ہے جو غذائی زنجیر کے تمام حلقوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
تاہم انسان اس مچھلی کا حد سے زیادہ شکار کررہا ہے، جس کے نتیجے میں غذائی زنجیر متأثر ہوسکتی ہے۔
5۔ چمگادڑ۔ خوردنی فصلوں کی محافظ
چمگادڑ کی ہمیں بہ ظاہرکوئی افادیت نظر نہیں آتی لیکن قدرت کے اس کارخانے میں کوئی چیر بے کار اور بے مصرف نہیں ہے۔ چمگادڑیں ماحولیاتی نظام میں حشرات کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی ' خدمت' انجام دیتی ہیں۔ یہ ان حشرات کو خوراک بناتی ہیں جو کیلے، آم ، کھجور اور کئی دوسری فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اگر چمگادڑیں نہ ہوتیں تو دنیا بھر میں کیلے، آم، کھجور اور دوسری فصلوں کو بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر حشرات کش کیمیکلز کا استعمال ناگزیر ہوتا جس پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے۔ چمگادڑوں کی موجودگی ماحولیاتی نظام کے ' صحت مند' ہونے کا اشارہ بھی دیتی ہے۔ چمگادڑ کی کچھ اقسام بعض پودوں میں عمل زیرگی کا ذریعہ بنتی ہیں جس کے نتیجے میں ان پر پھل آتے ہیں۔
عالمی غذائی زنجیر کی دوسری کڑیوں کی طرح چمگادڑوں کی بعض اقسام کو بھی معدومیت کا خطرہ درپیش ہوگیا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے نتیجے میں مساکن کی تباہی، ہوا سے بجلی بنانے کے لیے ایستادہ کیے گئے ونڈ ٹربائن کے علاوہ دوسری کئی انسانی سرگرمیاں چمگادڑوں کی آبادی پر دباؤ بڑھا رہی ہیں۔
6۔ کیچوے
کیچوے کرہ حیات ( کرۂ ارض کا سطح پر پایا جانے والا حصہ جس میں مٹی کی تہیں بھی ہیں اور پانی اور ہوا بھی۔ اس میں جان دار اجسام پائے جاتے ہیں ) میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی مٹی کھاتے اور اسے فضلے کی صورت میں خارج کرتے گزرتی ہے، لیکن ان کے فضلے میں وہ نمکیات اور نامیاتی مادّے بھی شامل ہوتے ہیں جو زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
درحقیقت یہ بے مصرف نظر آنے والے کیچوے، جنھیں گاؤں دیہات میں لوگ نہروں اور جوہڑوں سے مچھلی پکڑنے کے لیے چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، بے نامی ہیرو ہیں جو زمین کو زرخیز بنا کر شان دار فصل کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔ تاہم کیمیائی کھادوں کا حد سے زیادہ استعمال ان کی آبادی پر بھی اثرانداز ہورہا ہے۔ کیمیائی کھادوں کی وجہ سے زمین میں تیزابی عنصر بڑھ رہا ہے جو اس بے ضرر جان دار کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہورہا ہے۔
7۔ سیانوبیکٹیریا
دوسرے خردبینی جان داروں کے مانند سیانوبیکٹیریا بھی ہر ماحولیاتی نظام میں پائے جاتے ہیں۔ ایک ماحولیاتی نظام میں رہتے ہوئے یہ آکسیجن خارج کرنے والے ضیائی تالیف کے عمل سے لے کر نائٹروجن کی زیادتی کو کنٹرول کرنے تک مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ ان کچھ اقسام فائٹوپلانکٹن کے ساتھ رہتے ہوئے ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دوسرے جان داروں کو بیرونی عوامل سے خطرات لاحق ہوتے ہیں لیکن سیانوبیکٹیریا کو خود انھی سے بچائے جانے کی ضرورت ہے۔ دراصل کھیتوں سے نہروں اور پھر دریاؤں میں پہنچنے والی کیمیائی کھاد کے اجزا کی وجہ سے ان بیکٹیریا کی افزائش تیزی سے ہورہی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی نظاموں میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
8۔ مونگے کی چٹانیں
مونگے کی چٹانیں سحرانگیز خوب صورتی کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی ماحولیاتی نظاموں کے لیے بے حد اہمیت بھی رکھتی ہیں۔ یہ ان گنت حیوانات اور نباتات کے لیے مسکن مہیا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں پیچیدہ غذائی جال کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ سطح سمندر اور درجۂ حرارت میں تبدیلی دنیا بھر میں مونگے کی چٹانوں کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
9۔ شارک
ہلاکت خیز شارک مچھلیاں سمندری ماحولیاتی نظاموں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ حملہ آور مچھلیاں دوسری مچھلیوں کو شکار بناتی ہیں اور یوں ان کی آبادی ایک حد میں رہتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، چناں چہ قدرت نے ہر جان دار کی آبادی کو قابو میں رکھنے کا انتظام کررکھا ہے لیکن انسان اس قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کئی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں، بالخصوص حد سے زیادہ شکار کی وجہ سے سمندروں میں شارک مچھلیوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
10۔ اسپرنگ ٹیل
اسپرنگ ٹیل ان حشرات کو کہتے ہیں جن کی دُم یعنی عقبی حصے میں پیٹ کے ساتھ اسپرنگ نما عضو ہوتا ہے جو انھیں اچھلنے میں مدد دیتا ہے۔ فنجائی کا تعلق بھی حشرات کی اسی قبیل سے ہے۔ یہ حشرات تحلیل کنندہ کے طور پر کرتے ہوئے سوکھے ہوئے پتوں کو گلنے سڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں پتوں سے نمکیات اور غذائی اجزا زمین میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر دوسرے پودوں کی خوراک بنتے ہیں۔ پتوں اور دوسرے نباتاتی کچرے کی تحلیل کے کئی اور عامل بھی ہوتے ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق نباتات کے گلنے سڑنے کے عمل میں 20 فی صد حصہ اسپرنگ ٹیل کا ہوتا ہے۔
بڑھتا ہوا عالمی درجۂ حرارت ان جان داروں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اسپرنگ ٹیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔
11۔ چیونٹیاں
شہر ہو یا دیہی علاقے، صحرا ہو یاجنگل چیونٹیاں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ منظم کالونیاں بنا کر زندگی بسرکرنے والے یہ حشرات کیچووں کی طرح ماحولیاتی نظام میں ری سائیکلنگ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے حولیاتی نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چیونٹیوں سے متأثر ہوکر ہی روبوٹوں میں انسانوں جیسی ذہانت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) ٹیکنالوجی ڈیولپ کی گئی۔ دوسرے جان داروں کے مانند گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ چیونٹیوں کی آبادی پر بھی اثرانداز ہورہا ہے۔
ہر ماحولیاتی نظام دوسرے سے جُڑا ہوتا ہے اور ایک نظام میں رونما ہونے والی تبدیلی سے دوسرے نظام براہ راست یا بالواسطہ طور پر متأثر ہوتے ہیں۔ ہر ماحولیاتی نظام میں یوں تو تمام جان دار انواع اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں مگر کچھ انواع کی اہمیت کلیدی ہوتی ہے۔ اگر ان انواع کو ماحولیاتی نظام سے خارج کردیا جائے تو پھر کرۂ ارض پر زندگی کی بقا مشکل ہوجائے گی۔ ذیل کی سطور میں کچھ ایسی ہی جان دار انواع کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی بقا سے کرۂ ارض پر زندگی کی بقا جُڑی ہے:
1۔ شہد کی مکھیاں:
سائنسی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض پر شہد کی مکھیاں دس کروڑ سال سے موجود ہیں۔ اس طویل مدت کے دوران شہد کی مکھیوں کی جسمانی ساخت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اپنی تخلیق کے بعد ہی سے شہد کی مکھیاں عالمی ماحولیاتی نظام کا بے حد اہم جزو بن گئی ہیں جن کے بغیر اس کی بقا ممکن نہیں۔
آخر شہد کی مکھیاں کیوں اتنی اہمیت کی حامل ہیں؟ اس کی وجہ بہ طور زیرگی کنندہ ان کا کردار ہے۔ شہد کی مکھیاں پُھولوں کا رس چُوس کر شہد بناتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ اپنے چھتے سے کئی میل دور تک کا سفر کرتی ہیں اور راہ میں آنے پھولوں کا رس چُوستی رہتی ہیں۔ شہد کی مکھی جب ایک پُھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے زیرہ دان سے زردانے یا زرگل مکھی کی روئیں دار ٹانگوں پر چپک جاتے ہیں۔ جب مکھی دوسرے پُھول پر جاکر بیٹھتی ہے تو یہ زردانے اس کی ٹانگوں سے علیٰحدہ ہوکر اس پُھول کے اسٹگما پرمنتقل ہوجاتے ہیں، یوں زیرگی کا عمل واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پھل بنتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 70 فی صد خوردنی فصلوں میں زیرگی کا عمل شہد کی مکھیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ فصلوں پرچھڑکے جانے والے حشرات اور نباتات کش زہر ہیں۔ فصلوں کو خود رَو پودوں اور حشرات سے بچانے کے لے یہ کیمیکلز شہد کی مکھیوں کے لے زہرہلاہل ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ان مفید ترین حشرات کی آبادی تیزی سے محدود ہوتی جارہی ہے۔ اگر خدانخواستہ سطح ارض سے شہد کی مکھیوں کا وجود ختم ہوجاتا ہے تو پھر عالمی غذائی زنجیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور انسان کی بقا خطرے میں پڑجائے گی۔
2۔ فائٹو پلانکٹن۔ زمین کے پھیپھڑے
عام طور پر جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے مگر حقیقت ہے یہ زمین پر موجود آکسیجن کی زیادہ مقدار سمندروں کی گہرائیوں میں پائے جانے والے یہ خردبینی پودے مہیا کرتے ہیں جنھیں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے۔ بحروں اور بحیروں کے علاوہ یہ پودے دریائی ڈیلٹاؤں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ ایک ہی جگہ پر لامحدود تعداد میں جمع ہوجائیں تو پھر وہاں سبزے کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔
یہ خردبینی پودے سورج کی روشنی اور پانی کی موجودگی میں اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں، اور اس عمل کے دوران آکسیجن گیس خارج کرتے ہیں۔ کرۂ ارض میں پائی جانے والی آکسیجن کی کُل مقدار کا دو تہائی ان سے حاصل ہوتا ہے۔ آکسیجن کی پیداوار کا اہم ترین ذریعہ ہونے کی حیثیت سے یہ خردبینی جان دار عالمی غذائی زنجیر کا بے حد اہم حصہ ہیں۔
ماہرین کے مطابق ابھی تک فائٹوپلانکٹن کی اہمیت کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ بہرحال ان کی قدر سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اگر یہ نہ ہوں تو پھر کرۂ ارض میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہوجائے گی اور جان داروں کے لیے زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔
حالیہ برسوں میں کی گئی کچھ تحقیق ظاہر کرتی ہیں کہ فائٹوپلانکٹن کی آبادی زوال پذیر ہورہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب میں بڑھتی ہوئی آبی آلودگی اور سمندروں کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔
3۔ فنجائی ( کھمبی )
فنجائی کی متعدد اقسام ہیں۔ اسی لحاظ سے ان کی ہیئت اور جسامت بھی مختلف ہوتی ہے۔ فنجائی کی کچھ اقسام ہماری غذاؤں کو گلا سڑا دیتی ہیں، کچھ ہمیں پنسلین مہیا کرتی ہیں جب کہ کچھ ہماری خوراک بنتی ہیں۔
سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ فنجائی کی متعدد اقسام کے بغیر سطح ارض پر زندگی سنگین مشکلات سے دوچار ہوجاتی۔ جب پودے اور جانور مرجاتے ہیں تو انھیں گلانے سڑانے یعنی تحلیل کرنے کا کام یہی جان دار انجام دیتے ہیں۔ اجزائے ترکیبی میں تحلیل کی وجہ سے زمین کو نمکیات حاصل ہوتے ہیں جو بعدازاں غذائیہ زنجیر میں شامل ہوجاتے ہیں۔
درحقیقت فنجائی ری سائیکلرز کا کام انجام دیتے ہیں۔ تاہم اس انتہائی مفید جان دار کو آلودگی اور بڑھتی ہوئی زرعی سرگرمیوں کی وجہ سے معدومیت کا خطرہ درپیش ہوچکا ہے۔
4۔کھاد مچھلی ( Menhaden)۔ آبی غذائی زنجیر کی اہم ترین کڑی
بہ ظاہر یہ عام سی مچھلی دکھائی دیتی ہے مگر متعدد جانوروں کی خوراک ہونے کی وجہ سے غذائی زنجیر کی بہت اہم کڑی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے خود ان مچھلیوں کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ الجی یعنی سمندری کائی سے شکم سیری کرتی ہیں۔ ان مچھلیوں کی صورت میں قدرت نے سمندری کائی کے پھیلاؤ یا ان خردبینی پودوں کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام کردیا ہے جو غذائی زنجیر کے تمام حلقوں کے مابین توازن برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
تاہم انسان اس مچھلی کا حد سے زیادہ شکار کررہا ہے، جس کے نتیجے میں غذائی زنجیر متأثر ہوسکتی ہے۔
5۔ چمگادڑ۔ خوردنی فصلوں کی محافظ
چمگادڑ کی ہمیں بہ ظاہرکوئی افادیت نظر نہیں آتی لیکن قدرت کے اس کارخانے میں کوئی چیر بے کار اور بے مصرف نہیں ہے۔ چمگادڑیں ماحولیاتی نظام میں حشرات کی آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی ' خدمت' انجام دیتی ہیں۔ یہ ان حشرات کو خوراک بناتی ہیں جو کیلے، آم ، کھجور اور کئی دوسری فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اگر چمگادڑیں نہ ہوتیں تو دنیا بھر میں کیلے، آم، کھجور اور دوسری فصلوں کو بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر حشرات کش کیمیکلز کا استعمال ناگزیر ہوتا جس پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے۔ چمگادڑوں کی موجودگی ماحولیاتی نظام کے ' صحت مند' ہونے کا اشارہ بھی دیتی ہے۔ چمگادڑ کی کچھ اقسام بعض پودوں میں عمل زیرگی کا ذریعہ بنتی ہیں جس کے نتیجے میں ان پر پھل آتے ہیں۔
عالمی غذائی زنجیر کی دوسری کڑیوں کی طرح چمگادڑوں کی بعض اقسام کو بھی معدومیت کا خطرہ درپیش ہوگیا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے نتیجے میں مساکن کی تباہی، ہوا سے بجلی بنانے کے لیے ایستادہ کیے گئے ونڈ ٹربائن کے علاوہ دوسری کئی انسانی سرگرمیاں چمگادڑوں کی آبادی پر دباؤ بڑھا رہی ہیں۔
6۔ کیچوے
کیچوے کرہ حیات ( کرۂ ارض کا سطح پر پایا جانے والا حصہ جس میں مٹی کی تہیں بھی ہیں اور پانی اور ہوا بھی۔ اس میں جان دار اجسام پائے جاتے ہیں ) میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی مٹی کھاتے اور اسے فضلے کی صورت میں خارج کرتے گزرتی ہے، لیکن ان کے فضلے میں وہ نمکیات اور نامیاتی مادّے بھی شامل ہوتے ہیں جو زمین کو زرخیز بناتے ہیں۔
درحقیقت یہ بے مصرف نظر آنے والے کیچوے، جنھیں گاؤں دیہات میں لوگ نہروں اور جوہڑوں سے مچھلی پکڑنے کے لیے چارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، بے نامی ہیرو ہیں جو زمین کو زرخیز بنا کر شان دار فصل کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔ تاہم کیمیائی کھادوں کا حد سے زیادہ استعمال ان کی آبادی پر بھی اثرانداز ہورہا ہے۔ کیمیائی کھادوں کی وجہ سے زمین میں تیزابی عنصر بڑھ رہا ہے جو اس بے ضرر جان دار کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہورہا ہے۔
7۔ سیانوبیکٹیریا
دوسرے خردبینی جان داروں کے مانند سیانوبیکٹیریا بھی ہر ماحولیاتی نظام میں پائے جاتے ہیں۔ ایک ماحولیاتی نظام میں رہتے ہوئے یہ آکسیجن خارج کرنے والے ضیائی تالیف کے عمل سے لے کر نائٹروجن کی زیادتی کو کنٹرول کرنے تک مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ ان کچھ اقسام فائٹوپلانکٹن کے ساتھ رہتے ہوئے ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دوسرے جان داروں کو بیرونی عوامل سے خطرات لاحق ہوتے ہیں لیکن سیانوبیکٹیریا کو خود انھی سے بچائے جانے کی ضرورت ہے۔ دراصل کھیتوں سے نہروں اور پھر دریاؤں میں پہنچنے والی کیمیائی کھاد کے اجزا کی وجہ سے ان بیکٹیریا کی افزائش تیزی سے ہورہی ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی نظاموں میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
8۔ مونگے کی چٹانیں
مونگے کی چٹانیں سحرانگیز خوب صورتی کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی ماحولیاتی نظاموں کے لیے بے حد اہمیت بھی رکھتی ہیں۔ یہ ان گنت حیوانات اور نباتات کے لیے مسکن مہیا کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں پیچیدہ غذائی جال کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ سطح سمندر اور درجۂ حرارت میں تبدیلی دنیا بھر میں مونگے کی چٹانوں کے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
9۔ شارک
ہلاکت خیز شارک مچھلیاں سمندری ماحولیاتی نظاموں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ حملہ آور مچھلیاں دوسری مچھلیوں کو شکار بناتی ہیں اور یوں ان کی آبادی ایک حد میں رہتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے، چناں چہ قدرت نے ہر جان دار کی آبادی کو قابو میں رکھنے کا انتظام کررکھا ہے لیکن انسان اس قدرتی نظام میں بگاڑ پیدا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ کئی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں، بالخصوص حد سے زیادہ شکار کی وجہ سے سمندروں میں شارک مچھلیوں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔
10۔ اسپرنگ ٹیل
اسپرنگ ٹیل ان حشرات کو کہتے ہیں جن کی دُم یعنی عقبی حصے میں پیٹ کے ساتھ اسپرنگ نما عضو ہوتا ہے جو انھیں اچھلنے میں مدد دیتا ہے۔ فنجائی کا تعلق بھی حشرات کی اسی قبیل سے ہے۔ یہ حشرات تحلیل کنندہ کے طور پر کرتے ہوئے سوکھے ہوئے پتوں کو گلنے سڑنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں پتوں سے نمکیات اور غذائی اجزا زمین میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر دوسرے پودوں کی خوراک بنتے ہیں۔ پتوں اور دوسرے نباتاتی کچرے کی تحلیل کے کئی اور عامل بھی ہوتے ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق نباتات کے گلنے سڑنے کے عمل میں 20 فی صد حصہ اسپرنگ ٹیل کا ہوتا ہے۔
بڑھتا ہوا عالمی درجۂ حرارت ان جان داروں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر اسپرنگ ٹیل صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں گے۔
11۔ چیونٹیاں
شہر ہو یا دیہی علاقے، صحرا ہو یاجنگل چیونٹیاں ہر جگہ پائی جاتی ہیں۔ منظم کالونیاں بنا کر زندگی بسرکرنے والے یہ حشرات کیچووں کی طرح ماحولیاتی نظام میں ری سائیکلنگ کی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے حولیاتی نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ چیونٹیوں سے متأثر ہوکر ہی روبوٹوں میں انسانوں جیسی ذہانت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت ( آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) ٹیکنالوجی ڈیولپ کی گئی۔ دوسرے جان داروں کے مانند گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ چیونٹیوں کی آبادی پر بھی اثرانداز ہورہا ہے۔