وہ جو صحافی عباس اطہر تھا

ہمارے ساتھی سید عباس اطہر عرف شاہ جی کافی دنوں سے بستر مرگ پر تھے۔ انھیں جب اطلاع ملی کہ وہ کینسر کی...

Abdulqhasan@hotmail.com

ہمارے ساتھی سید عباس اطہر عرف شاہ جی کافی دنوں سے بستر مرگ پر تھے۔ انھیں جب اطلاع ملی کہ وہ کینسر کی زد میں آ چکے ہیں تو انھوں نے طے کر لیا کہ اب زندگی کے آخری دن آ گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہم بیماری کو ختم نہیں کر سکتے، صرف اس کی تکلیف کو ممکن حد تک دور کر سکتے ہیں۔ وہ اس نامراد بیماری میں آخری سانس تک گھلتے گئے۔

ایک باغ و بہار آدمی، لطیفہ گو اور لطیفہ نویس تحریر و گفتگو میں پڑھنے سنے والوں کو خوش کر دینے والا بہر حال اپنے مقرر وقت پر غائب ہو گیا۔ مجھے تو یاد نہیں کہ ان سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی لیکن وہ بتاتے تھے کہ میں ہفت روزہ لیل و نہار میں اپنے مضمون لے کر جاتا تھا تو وہاں ملاقات ہوا کرتی تھی۔ بہر کیف بعد کی پوری زندگی میں کہیں نہ کہیں ٹاکرا ہوتا رہا۔ میں نے ایک ہفت روزہ نکالنے کا پروگرام بنایا اور اس کے اشتہار کی عبارت طے ہو رہی تھی تو اتفاق سے شاہ صاحب آ گئے، یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوا تو انھوں نے کہا ''اس میں لیکن کا لفظ نہیں ہوگا''۔

یعنی چونکہ چنانچہ نہیں کھل کر واضح بات ہو گی چنانچہ اس ہفت روزے کا اشتہار اسی عبارت کے ساتھ چلتا رہا جو شاہ صاحب نے عطا کی تھی۔ میں نے کہا ہم لوگ سیدوں سے کچھ لیتے نہیں نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے کمال بے تکلفی سے کہا، پھر آج شام ملیں گے۔ مجھے اس شام سے پہلے انتہائی بادل نخواستہ گائوں جانا پڑ گیا۔ واپسی ہوئی اور شاہ صاحب سے فوراً رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ یہ شام منعقد ہوئی تھی اور تمہارے نام پر۔ گائوں کا ذکر آیا تو بتا دوں کہ شاہ صاحب میرے اس وقت کے ضلعی صدر مقام شاہ پور کے رہنے والے تھے۔

وہ لاہور کی مضافاتی آبادی تاجپورہ میں اپنی والدہ ماجدہ کے گھر میں مقیم رہے اور ان کے وارث بن گئے۔ اور یہی ان کا گھر ٹھہرا، وہ شاہ پوری نہیں لاہوری ہو گئے۔ عباس اطہر کو لاہور شہر نے سید عباس اطہر شاہ بنایا جو قلم کے دھنی ثابت ہوئے اور شاعر بھی لیکن اپنے ترقی پسندانہ نظریات کی وجہ سے ایک شعبدہ باز ترقی پسند جماعت سے ایسے وابستہ ہوئے کہ اس میں شاعر و صحافی عباس اطہر گم ہو گیا۔ کوئی صحافی جب سیاسی طور پر جانبدار ہو جاتا ہے،کسی لیڈر یا جماعت کو اپنی شناخت بنا لیتا ہے تو وہ محدود ہو جاتا ہے۔ اخباری زبان میں کہتے ہیں فلاں پر فلاں کی چھاپ لگ گئی ہے۔


بدقسمت ہیں وہ صحافی جو کسی چھاپ کی زد میں آ جاتے ہیں اور اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں۔ پھر چھاپ کسی سیاست دان کی جن کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ سید عباس اطہرکی جن سیاستدانوں کے ساتھ وابستگی رہی، وہ ارب پتی نہیں ارب ہا پتی ہیں لیکن ان کی جماعت نے اپنے ایک ساتھی پر توجہ نہ دی، اب تعزیتی بیانات کی بھرمار کر رہے ہیں مگر ان کا دوست اپنی جیسی تیسی زندگی گزار کر اور ان کے لیڈروں کے بین لکھ کر جا چکا ہے۔ یہ تو ذاتی باتیں ہیں۔

عباس اطہر ایک بہت اچھے صحافی تھے ، قدرت نے ان کے اندر صحافت کی صلاحیتیں رکھ دی تھیں۔ خوبصورت تحریر طنز سے آراستہ و پیراستہ۔ میں نے ان کے ایسے کالم بھی پڑھے ہیں جن پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ایک بڑے ایڈیٹر نے جب یہ کہا تھا کہ میں تو بس عباس اطہر کے کالم چھاپتا ہوں تو بالکل درست کہا تھا۔ ایک بہت بڑے ایڈیٹر کی طرف سے یہ اعتراف تکلفاً نہیں تھا بالکل درست تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ میرے سینئر حمید اختر کا کالم بھی آپ چھاپتے ہیں، اس لیے مہربانی کر کے ان کا کالم میرے کالم کے اوپر چھاپا کریں۔

لیکن جب انھوں نے عملاً میری بات نہ مانی اور میں نے یاد دہانی کرائی تو کہنے لگے کہ میں یہاں بزرگی پالنے اور حفظ مراتب کے لیے نہیں ایڈیٹری کے لیے بیٹھا ہوں۔ شاہ صاحب کی کوئی نیکی ان کے ضرور کام آگئی ہے کہ وہ ایک ایسی پارٹی کی متوقع سیاسی نتیجہ دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہیں جس کے لیے انھوں نے اپنی عمر لگا دی لیکن ان کے ساتھ ان کی زندگی کے انتہائی مشکل وقت میں پارٹی نے جو کیا وہ اسے دیکھنے سے بھی بچ گئے۔ یہ تو سیاستدانوں کے بارے میں بزرگوں کا جو کہا طے ہے لیکن ان کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی اس کا بھرپور اظہار اب ہوا ہے۔

ان کے جنازے میں پیپلز پارٹی کا ایک لیڈر موجود تھا اور دو چار اس کے ساتھ جانے والے اور بس جب کہ انھی دنوں میں ان کے انتخابی اشتہاروں میں عباس اطہر کا گیت چل رہا ہے 'بھٹو کی بیٹی آئی تھی' صحافیوں اور سیاستدانوں کا ساتھ بہت پرانا ہے صحافی تو سیاستدانوں کے بغیر گزر بسر کر لیتے ہیں لیکن سیاستدان تو میڈیا کے بغیر کچھ بھی نہیں نہ ہونے کے برابر۔ عباس اطہر جاتے جاتے ہمیں بتا گیا کہ سیاستدان کیا ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ صحافت اور رپورٹنگ کے آغاز پر ایک سینئر نے سیاستدانوں کا ذکر کرتے ہوئے سامنے رکھے ایک پنکھے کی طرف اشارہ کیا جو ایک گھومنے والا پنکھا تھا اور کہا کہ یہ کسی جلے ہوئے مکینک نے سیاستدان کے عملی تعارف کے لیے بنایا تھا۔ اب تم بھی جب کسی سیاستدان کا ذکر کرنے لگو تو اس پنکھے کو مت بھولو۔ یہ تمہارا رہنمائے صحافت ہے۔

ہمارا ساتھی ایک طویل زندگی بسر کر گیا۔ 'ٹُہر' کا پنجابی لفظ اس کا پسندیدہ تھا، وہ کچھ بن کر رہتا تھا پھنے خان۔ اور اس میں کامیاب بھی تھا لیکن اپنی شہہ پوری پس منظر کو یاد رکھتا تھا۔ ادب لحاظ اور شائستگی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ مجھے اس کے معصوم بچے اور اس کی بیوہ ماں کی فکر ہے جو میرے خیال میں اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کا مسبب الاسباب ہے۔ شاہ صاحب ایک اچھے کامیاب صحافی کے طور پر زندہ رہیں گے۔ ہم سب کی طرف سے دعا اور تعزیت۔ اس کے پسماندگان میں کوئی ایسا نہیں جس کے لیے کوئی کچھ زحمت کرے گا۔ سوائے اس کے ایکسپریس کے ساتھیوں کے۔
Load Next Story