دلفگار نغمے لکھنے والا صحافی
عباس اطہر صاحب سے براہِ راست ملنے سے کئی برس پہلے میں ان کی ’’نیک دل لڑکیوں‘‘ والی نظم کا دیوانہ ہو چکا تھا۔
انھیں مرحوم لکھوں تو اپنی یتیمی کا احساس شدید تر ہوجائے گا۔ اسی لیے کالم کا آغاز اس اعتراف سے کرتا ہوں کہ میں شاید ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جنھیں آج سے تقریباََ ڈیڑھ سال پہلے ہمارے شاہ جی نے خود ٹیلی فون کرکے اپنی مہلک بیماری کا بتایا تھا۔
ان کا فون نمبر اپنے موبائل کی اسکرین پر دیکھتا تو پوری کوشش کرتا تھا تیسری گھنٹی بجنے سے پہلے اُٹھا لوں۔ حسبِ معمول اٹھاتے ہی انھیں السلام و علیکم شاہ جی کہا۔ وہ مگر بالکل مختلف رویہ رکھے ہوئے تھے۔ ''کیہ حال اے سوہنیو'' کے بجائے انھوں نے بڑے غیر جذباتی انداز میں حکم دیا کہ میں اپنے دل کو سفاک بنا لوں۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ انھیں پھیپھڑوں کا سرطان ہو گیا ہے۔ انگلینڈ جا رہے ہیں۔ مجھے ان کی بیماری کا کسی اور سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کبھی یہ کوشش کہ ان کے علاج کی بابت پوچھتا رہوں۔
یہ حکم دینے کے بعد انھوں نے فون ایاز خان کو تھما دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ ''برملا'' باقاعدگی سے ان تک پہنچایا جاتا رہے۔ شاہ جی کا ہر لفظ میرے لیے حکم ہوا کرتا تھا۔ میں نے ان سے رابطہ خوف کے مارے کبھی نہ کیا۔ مگر رپورٹروں والی لگن کے ساتھ برمنگھم میں مقیم معالجین میں سے ایک کا پتہ لگا کر اس سے رابطہ کرتا رہا۔ وہ معالج مجھے یقین دلاتا رہا کہ دوائیاں اپنا اثردکھا رہی ہیں۔ اللہ خیر کرے گا۔ پھر وہ لاہور آ گئے۔ میں نے فون کیا تو وہی شفقت اور محبت۔ لیکن جب میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ لاہور آ کر انھیں بھلاچنگا دیکھنا چاہتا ہوں تو فوراََ جلال میں آ گئے۔
پنجابی میں بڑے ظالمانہ انداز میں استفسار کیا کہ انھیں بستر مرگ پر پڑا دیکھ کر میں کیا ''لذت'' حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں سہم کر خاموش ہو گیا تو اطلاع دی کہ میرے عمران خان کے بارے میں لکھے کالموںنے بڑی ''رونق'' لگا رکھی ہے۔ ایک بار پھر یہ حکم دے کر کہ کالموں کا ناغہ نہیں ہونا چاہیے فون بند کر دیا۔
عباس اطہر صاحب سے براہِ راست ملنے سے کئی برس پہلے میں ان کی ''نیک دل لڑکیوں'' والی نظم کا دیوانہ ہو چکا تھا۔ میرے گورنمنٹ کالج کے دوست سمجھتے کہ یہ نظم صرف میرے پڑھنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ بالآخر جب ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بے اعتنائی سے مجھ سے وہ نظم سنی اور گلہ کیا کہ میں اُردو کے بجائے انگریزی صحافت میں کیوں چلا گیا۔ صحافت ان کا جنون تھا۔ وہ اس میں ہر وقت کوئی نئی بات کرنا اور اپنے جونیئرز سے کرانا چاہتے تھے۔ 1986 میں، میں جس انگریزی اخبار کا اسلام آباد میں بیورو چیف بنا، اس کے مالکان اُردو کا ایک معروف اخبار بھی نکالتے تھے۔
میری تمام خبریں ترجمہ ہو کر اس میں بھی چھپتیں اور پتہ نہیں کیوں مجھے محسوس ہوتا کہ میری خبر ان کی زیر نگرانی ترجمہ ہو کر اس اخبار میں جس کے وہ نیوز ایڈیٹر تھے زیادہ دھانسو قسم کی بن جاتی تھی۔ ایک دن فون کر کے شکوہ کر دیا کہ خبریں کم دیا کروں۔ انھیں ترجمہ کرانا پڑتا ہے اور جب آپ کی خبر میرے اخبار میں چھپتی ہے تو لوگوں کو ''زیادہ تکلیف'' ہوتی ہے۔ میں نے احتیاط کا وعدہ کیا تو اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے کہ وہ تو مذاق کر رہے تھے۔ مجھے ''بکری'' بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پھر میں ٹیلی وژن کی نذر ہو گیا تو ''ایکسپریس ٹربیون'' کے ضیاء الدین صاحب نے مجھے سختی سے یاد دلانا شروع کر دیا کہ میرا اصل کام تو قومی اسمبلی کی کارروائی پر کالم لکھنا ہے۔ وہ کالم ان کے لیے لکھنا شروع کر دیا تو کچھ ماہ بعد شاہ جی کا فون آیا اور بڑی درشتی سے پوچھا کہ کیا ضیاء صاحب مجھے ان سے زیادہ عزیز ہیں۔ میں ہکلانے لگا تو کہا کہ اگر ایسا نہیں تو ان کے لیے بھی اُردو کا کالم لکھوں۔ میں نے اُردو اخبار کے لیے کبھی کالم نہیں لکھا تھا۔ گھبرا گیا۔ انھوں نے حوصلہ دیا۔ میں باور کر بیٹھا کہ جلد بھول جائیں گے۔ مگر اس کے بعد تواتر سے فون کر کے پوچھتے رہے کہ پہلا کالم کب آئے گا۔ میں نے ٹالنا چاہا تو فوراََ اعلان کر دیا کہ صرف ایک روز اور انتظار کریں گے۔ میرا کالم نہ آیا تو ادارتی صفحے پر ایک خالی چوکھٹے میں لکھ دیں گے کہ یہ جگہ نصرت جاوید کا کالم نہ آنے کی وجہ سے خالی رہ گئی ہے اور اس خالی جگہ پر میری کوئی ایسی تصویر لگائی جائے گی جس میں میں اشتہاری مجرموں جیسا نظر آؤ ں گا۔
عباس اطہر کی موت ایک شخص کی نہیں ایک روایت کی موت ہے۔ اس روایت کی خوبی یہ تھی کہ آپ کے صحافتی دُنیا میں بہت بڑے ناموں والے کچھ شفیق بزرگ کسی نوجوان کی تحریر میں چھپے امکانات کو دریافت کر کے اس نوجوان کو اپنی چھتری تلے لے کر اس پیشے میں آگے بڑھنے کے لیے پیار بھرے چھانٹے لگاکر رواں کر دیا کرتے تھے۔ میں اپنے آج کے نوجوان صحافی دوستوں کو اس ضمن میں بڑا بدنصیب سمجھتا ہوں۔ میرے جیسے لوگ خوش نصیب تھے کہ عباس اطہر جیسے بزرگوں کی چھائے تلے جوان ہوئے۔
اسی لیے تو ان کی موت کی خبر سننے کے بعد سے خود کو دوبارہ یتیم محسوس کر رہا ہوں اور بار بار ان جیسے تین چار مزید افراد کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ رہے ہیں۔ ان کی صحت اور درازی عمر کی دُعائیں مانگ رہا ہوں۔ موت مگر برحق ہے۔ یہ عباس اطہر جیسے خود دار اور ضدی شخص کو بھی بستر پر ڈال دیتی ہے۔ وہ شخص جو اپنے کسی دوست کے غم میں اس سے بھی کہیں زیادہ پریشان ہو جایا کرتا تھا کئی ماہ تک بستر پر پڑا رہا۔ پیپلز پارٹی سے اس شخص کو عجیب سا عشق تھا۔
وہ بستر مرگ پر تھا تو کئی ایسے لوگ بھی اس کا پوچھنے آئے جن کے خلاف وہ اپنے حیرت ناک انداز تک منفرد جملوں کے ساتھ لکھا کرتے تھے۔ اسے پوچھنے اگر کوئی نہیں گیا تو وہ ''یاروں کا یار'' ہونے کی شہرت رکھنے والا آصف علی زرداری تھا۔ ''بھٹو دی بیٹی آئی سی'' آج بھی آصف علی زرداری کی جماعت 2013 کے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے بے دردی سے استعمال کر رہی ہے۔ مگر اس دل فگار نغمے کو لکھنے والا اپنے بسترمرگ پر اکیلا ہی پڑا رہا۔ مجھے تو انھوں نے حکم دیا تھا۔ آصف علی زرداری کو تو ایسا ہرگز نہیں کہا ہو گا۔