کوئٹہ کا نوحہ

وہ جو پابلو نرودا نے چلی سے متعلق کہا تھا کہ اِس کے میدانوں، جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور کوہستانوں میں ...


عابد میر May 07, 2013
[email protected]

وہ جو پابلو نرودا نے چلی سے متعلق کہا تھا کہ اِس کے میدانوں، جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور کوہستانوں میں وقت بِتائے بِنا چلی کو جانا نہیں جا سکتا، بعینہ یہی معاملہ عمومی طو ر پر پورے بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ کے ساتھ ہے۔ کسی محبوبہ جیسا حسیں مگر ستم گر یہ شہر بھی وفاداری بشرطِ استواری کا تقاضا کرتا ہے۔

پروین شاکر نے حُسن کے سمجھنے کو اک عمر کا جو تقاضا کہا تھا، کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا، اُس کے بقول جیسے 'دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں' ویسے ہی یہ شہر بھی لمحوں، دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں نہیں کھلتا۔ یہ خود میں رچ بس جانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ وجود کی وحدت کا تقاضا کرتا ہے اور جب شاہد و مشہود ایک ہو جائیں تو پھر شہر خود کو منکشف کرنا شروع کرتا ہے، اپنے اَسرار کھولنا شروع کرتا ہے۔ اپنے چاہنے والوں کو پہچان عطا کرتا ہے۔

پیار کا نام یا انگریزی میں جسے 'نِک نیم' کہتے ہیں، ہمارے ہاں اکثر نام کے بگاڑ کی صورت میں ہوتا ہے لیکن ایک بار کسی پر ایسا کوئی نام پڑ جائے تو پھر عمر بھر اس کی شخصیت کا 'ٹیگ' بن جاتا ہے۔ کسی پہلوان جیسے دِکھنے والے ہمارے ایک دوست کا بچپن میں پیار کا نام چُوچا ( مرغی کا چھوٹا بچہ) پڑ گیا تھا، اب باہر اپنے معزز نام سے پہچانے جانے کے باوجود گھر بار اور دوست عزیزوں میں وہ اسی نام سے معروف ہے۔ کوئٹہ کی ملکیت کے سیاسی جھمیلوں سے قطع نظر، اس کے سبھی قدیم باسی آج بھی اسے اس کے قدیم نام 'شال' سے ہی یاد کرتے ہیں۔

یہ 'شال' (چادر) کس نے کسے پیش کی، کیسے کی اور کیوں کی... ان تاریخی واقعات سے آگاہی شاید اتنی ضروری نہیں جتنا کہ اِس کے اِس خوبصورت نام کی لاج رکھنے کا سوال۔ قبائلی سماج میں 'چادر' عزت کی علامت سمجھی جاتی ہے، یہ سر سے ڈھلک جائے تو بے حیائی اور اگر کھینچ لی جائے تو بے عزتی شمار کی جاتی ہے۔ آج کوئٹہ کی ٹکڑے ٹکڑے ہوتی 'شال' اپنے عشاق کے چہروں کو بے ننگ و شرمندہ کیے دیتی ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو اس کی عاشقی کے نام پہ کاروبار سجائے بیٹھتے ہیں، سیاسی دکانیں چمکائے جائے جاتے ہیں، دوسرے بس اپنی بے بسی اور بے کسی کے نوحے پڑھنے پہ قانع ہیں۔

یہ درست کہ تبدیلی کائنات کے اٹل قانون کی حیثیت میں انسانوں کی طرح شہروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن عمومی طور پر تبدیلی مثبت ہوتی ہے اور یہ چیزوں کو آگے کی طرف دھکیلتی ہے۔ اِس شہرِ خرابات کے معاملے میں فطرت کا یہ قانون معکوس رہا ہے۔ یہاں ہر تبدیلی اسے مزید زوال کی جانب دھکیل رہی ہے۔ یہ دنیا کے اُن چند عجیب شہروں میں سے ہے، جو بِنا کسی ترغیب و بِنا کسی منصوبہ بندی کے بس گئے اور پھر بستے چلے گئے۔

انگریزوں کی جانب سے فوجیوں کے لیے بنائی گئی چھاؤنی نے کب بستی اور پھر بستے بستے، بستی سے شہر کا روپ دھارنا شروع کیا، نہ بسانے والوں کو اس کا اندازہ ہوا، نہ بسنے والوں کو۔1938 سے قائم شدہ یہاں کے قدیم ترین اور اولین اعلیٰ تعلیمی ادارہ گورنمنٹ سائنس کالج کے ایک پروفیسر کے بقول، 'یہ دنیا کا عجوبہ شہر ہے جو پانی جیسی بنیادی ضرورت سے عاری ہے، اور ہم اسے میٹرو پولیٹن بنانے کے خواب دیکھتے ہیں۔' یادش بخیر ... بارِ خدا زباں پہ سائنس کالج کا نام آیا، تو کیا کیا نام یاد آتے چلے گئے۔

یاد آیا ہندوستان سے آئے معروف ترقی پسند دانشور اور استاد پروفیسر کرار حسین ہی تو اس کی بنیادیں مستحکم کرنے والوں میں سے تھے۔ پروفیسر خلیل صدیقی سے سعید احمد رفیق تک، کیا قافلہ تھا، کیا قافلے والے تھے ... ذرا آج بھی اس کی زیر زمین واقع لائبریری میں تشریف لے جائیں اور چالیس سے سن سَتر تک کی دہائی کے اساتذہ اور طالب علموں کی یادگاری تصاویر دیکھیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، سر فخر سے اونچا ہوتا ہے۔ پھر جوں جوں آگے بڑھتے جائیے، یہی سر شرم سے جھکنے لگتا ہے، نم پلکوں پہ ندامت کا احساس بھاری پڑنے لگتا ہے۔

کیا لوگ تھے، کہاں کے لوگ تھے... کیا بنیادیں دے گئے، اور ہم جو اس مٹی کے لوگ ہیں، کیسے اپنی ہی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں جُتے ہیں۔ اسی شہر کے کانسی قبرستان میں واقع، اس خطے کو سیاسی تنظیم کاری سے آشنا کروانے والے یوسف عزیز کی بے نام قبر پہ کسی زمانے میں اپنے حبیب جالب تشریف لے گئے۔ راوی بتاتے ہیں کہ قبر کے اطراف کتوں کے پیشاب کی بدبو کے بھبوکوں میں جہاں ہمارا کھڑا ہونا محال تھا، چھ فٹ کا ہٹا کٹا حبیب جالب قبر کے سرہانے جا بیٹھا اور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا؛ ''اس خطے کے سیاسی پیش رو کی قبر کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والوں کو مار پڑنی چاہیے، تم لوگ اسی مار کے حقدار ہو۔'' جالب صاحب سن لیں، ہم آج تک وہی مار کھا رہے ہیں۔ ہم نے ایک مقدس قبر کی حفاظت نہ کی، اب اس شہر میں اس قدر لاشیں اٹھی ہیں کہ قبرستانوں میں رونق لگ گئی ہے۔

یہ وہ شہر ہے جہاں کبھی غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل، عبدالصمد اچکزئی، اکبر بگٹی لبِ سڑک واقع کیفِ صادق کے باہر دَری بچھا کر بلوچستان کے سیاسی مستقبل پہ گفتگو کیا کرتے تھے۔ جہاں کیفِ بلدیہ کے لان میں نیپ کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلا عوامی جلسہ منعقد ہوا۔ ڈان ہوٹل میں بابو عبدالکریم شورش جب اپنے ہاتھ سے لکھے پوسٹ کارڈ دوستوں کو بیچا کرتا تھا (کہ ریاست نے اس کے عوامی رسالے پر پابندی عائد کر دی تھی اور پھر مالی مشکلات کے باعث وہ اسے مزید چھاپنے کے قابل نہ رہا)، اُس زمانے کے سیاسی ہوٹلوں کا حال جاننا ہو تو شاہ محمد مری کی بابو شورش کی سوانح حیات کے پہلے باب میں پڑھیئے۔ اور پھر وہ زمانہ آیا کہ ہوٹلوں میں 'سیاسی گفتگو منع ہے' کے بورڈ چسپاں ہونا شروع ہوئے۔

اکیسویں صدی والے ہمارے عہد تک آتے آتے تو ہوٹل بس محض وقت گزاری کا ذریعہ ہی رہ گئے۔ ہاں بلوچستان یونیورسٹی کے عین مقابل واقع 'یونیورسٹی کینٹین' والا ہوٹل رہ گیا تھا، جس کے عقب میں شام ڈھلے نوجوانوں کی ٹولیاں جمع ہوتیں تو کچھ سیاسی گفتگو بھی ہو جاتی۔ اسی کینٹین میں ہمیشہ سن ساٹھ اور سَتر کی دَہائی کا میوزک سنتے سنتے ایک روز کسی دوست نے کاؤنٹر پہ بیٹھے پیر سن بزرگ سے جب کوئی نیا گیت لگانے کو کہا تو اُس نے کس حسرت سے ہم جوانوں کی اَور دیکھتے ہوئے نصیحت بھرے انداز میں کہا تھا، ''میوزک تو اَسی کے بعد مر گیا بیٹا!'' تب تک لیکن اَسی کے میوزک سے لطف اندوز ہونے والی نئی نسل ابھی باقی تھی۔ اسی یونیورسٹی میں جوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سریاب سے جناح روڈ تک بے خوف و خطر پیدل چل کر نایاب گیتوں کی کلیکشن ڈھونڈنے گلستان میوزک سینٹر تک آیا کرتے تھے، اور پھر کبھی اس کے مشرقی عقب میں واقع فلورا کی آئس کریم سے لطف اندوز ہوتے یا پھر اس کے مغربی عقب میں واقع سوزا کی چائے اور کافی کے بہانے جوانی کے انمول لمحوں کا لطف لیتے۔

اب جب یہ نسل گلستان میوزک سینٹر کی جگہ کمرشل پلازہ تعمیر ہوتے دیکھتی ہے تو اُسے لگتا ہے کہ اس کے خوابوں کے ملبے پہ کوئی پلازہ تعمیر ہو رہا ہے۔ سوزا تو ایک عرصہ ہوا کہ خواب ہوا، لے دے کے ایک فلورا پہ بھی کئی فلور تو بن گئے، لیکن آئس کریم کے وہ فلیور نہ رہے، جو کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھانے سے ملتے تھے۔ سنتے ہیں ہنہ کی وہ جھیل بھی اب بچھڑے ہوئے عشاق کی آنکھوں کی طرح سوکھ کر خشک ہو چکی جو پیار کرنے والے پنچھیوں کے سستانے کا واحد ٹھکانہ ہوا کرتی تھی۔

شال کی ماہ رخ وادی میں برف اب بھی پڑتی ہے مگر نہ تو کسی شاخِ برہنہ پہ برف کی کلیاں سجتی ہیں، نہ خنک نظر اور دل الاؤ رکھنے والے دیوانے کہیں دِکھتے ہیں۔ شہر ہے کہ پھیلتا چلا جاتا ہے، خواب ہیں کہ سکڑتے چلے جاتے ہیں۔ وہ شہر کہ جہاں ابھی ایک دَہائی پہلے تک چاہنے والے پیار کے نغمے گایا کرتے تھے ، اب وہاں نوحے ہیں، فریادیں ہیں۔

جہاں پیار کرنے والے ملن کے خواب دیکھا کرتے تھے، وہاں اب بچے خوابوں میں بھی سہمے سہمے رہتے ہیں۔ یونیورسٹی کے وہ ہاسٹل جہاں کونجیں گایا کرتی تھیں، اب اس کے دروازوں پہ لشکری ایستادہ ہیں، جو جوانوں کی یوں جامہ تلاشی لیتے ہیں کہ کوئی جوان خواب بھی اندر نہ جانے پائے۔ سیاست نے اس کی فضاؤں میں وہ زہر گھولا کہ محبتوں کی چاشنی بھرے لہجے تلخ ہو ئے۔ گولیوں کی وہ بوچھاڑ چلی کہ ایک سے ایک حسیں چہرے مسخ ہوئے۔ شہر اپنی قسمت پہ ماتم کناں اور اس کے چاہنے والے اپنی بے بسی اور بے کسی پہ نوحہ خواں!...

پہ عشاق خدا جانے کب جانیں گے کہ محض نوحوں، آہوں اور فریادوں سے شہروں کی تقدیر نہیں بدلا کرتی۔ نفرت کے بیج بونے والوں کے خلاف جب عشاق کا وسیع اتحاد بنے گا اور نفرت کے اس تناور بنتے شجر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا، تب ہی گلستان پھر آباد ہو گا، سوزا پھر تازہ ہو گا، ہنہ کی خشک سالی مٹے گی، شاخِ برہنہ پہ پھر سے برف کی کلیاں سجیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں