میرے چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء کے انتخابات میں کراچی میں سیاسی رجحان تبدیل ہوگا اور اگر ہوگا تو کس سمت میں؟

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کراچی کا مقدمہ ناانصافی، امتیازی سلوک اور تعصب سے عبارت ہے۔ حیرانی ہے کہ ایک قوم اپنے ہی اقتصادی اور تجارتی مرکز کو تباہ و برباد کرکے کس طرح ترقی کرسکتی ہے؟ بد سے بدترین حالات میں بھی کراچی نے ملک کو 70 فیصد ریونیو دیا لیکن جواب میں اسے محض چند ٹکوں پر ٹرخا دیا گیا۔

ہماری دانست میں کراچی کو درپیش تمام مسائل کی بنیادی وجہ اس شہر کی ملکیت کا نہ ہونا ہے، اسے منظم طریقے سے تباہ و برباد کیا گیا۔ کراچی آپریشن کے نتیجے میں گو امن بڑی حد تک بحال ہوا لیکن اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تقریباً تین کروڑ کی آبادی والے اس شہر کو عملی طور پر مافیاز کو ہر دور میں کرائے پر دیا جاتا رہا ہے۔

ان میں سرفہرست کردار لینڈ مافیا کا ہے جس کا سیاستدانوں اور بیورو کریسی سے گٹھ جوڑ ہے اور کراچی آپریشن بھی اس تعلق کو توڑ نہیں سکا، کیونکہ اس کے لیے بڑے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے لیکن یہاں جو عملدرآمد کرانے والے ہیں وہ خود عدم عمل درآمد کے ذمے دار ہیں اور وہ مسائل حل کرنے کے بجائے الٹا انھی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جرائم، دہشتگردی، سیاسی ناانصافی کے باعث اس شہر ناپرساں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

گزشتہ دس سال میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اپنی ''باریاں'' پوری کیں لیکن ذمے داریاں کسی طور پوری نہیں کیں۔ گیس، بجلی، پانی کی قلت، پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان، انڈسٹریز کی تباہی اور سب سے بڑھ کر ماضی کے عروس البلاد شہر کو گندگی اور کچرے کا ڈھیر بنادیا گیا۔ تقریباً تین کروڑ نفوس کی آبادی سے تجاوز کرتے اس شہر میں یومیہ تقریباً 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اس کچرے کو اٹھانے اور اسے ری سائیکل کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ماحول کی آلودگی میں اضافہ خطرے کے نشان کو چھونے لگا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران زمینوں پر قبضے، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار نے شہر کا بیڑا غرق کردیا، اس وقت سندھ حکومت کا بجٹ 10 کھرب روپے ہے لیکن پھر بھی کراچی بنیادی سہولتوں سے محروم چلا آرہا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود نہ کبھی اس کی صحیح معنوں میں لیڈرشپ رہی ہے اور نہ ہی انفرااسٹرکچر۔ صوبائی، وفاقی حکومتیں کراچی کے مسائل سے چشم پوشی یا صرف نظر کرتی رہی ہیں۔

کراچی میں ملک بھر سے لوگ امڈے چلے آرہے ہیں اور یہاں روزگار و رہائش اختیار کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے رہائش اور سہولتوں کی کمی سمیت امن و امان کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ کریمنل جسٹس سسٹم برسوں سے اصلاحات کا متقاضی ہے۔ اس شہر کو برسوں سے ایک بااختیار شہری حکومت کی ضرورت ہے، کراچی کا ماسٹر پلان موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ۔

بانی پاکستان قائداعظم کا شہر کراچی کروڑوں عوام سے بھرا ہوا یہ شہر بے لگام چلا آرہا ہے اور کوئی بھی ''ذمے داری'' لینے کے لیے تیار نہیں، لیکن اپنا ''حصہ'' ہر کوئی لینا چاہتا ہے اور بڑی حد تک لے بھی رہا ہے ۔ شاید اسی شہر کے لیے فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا کہ:

میرے چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا


ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

کراچی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے، اس کے بعد صفائی ستھرائی جس میں سیوریج کا نظام سرفہرست ہے۔ شہر کی اکثر گلیاں اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پچھلے دس برسوں سے اس جانب کسی حکومت نے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی حالت بھی یہاں دگر گوں ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کا کوئی احسن بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے اسے براہ راست سمندر میں ڈالا جا رہا ہے، جس سے پورا سمندر آلودہ ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے پوری آب و ہوا خراب ہوگئی ہے۔ اسپتالوں کی حالت شہر کی حالت جیسی ہی خراب ہے۔ گزشتہ 30 سال سے کراچی کا الحاق ایک ہی پارٹی سے رہنے کے باوجود اس شہر کی بدحالی دیدنی ہے۔

تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ کراچی والوں کی تباہی صرف اس لیے شروع ہوئی کہ انھوں نے ایک محب وطن ڈکٹیٹر کے بجائے بانی پاکستان کی بہن کا ساتھ دیا تھا جسے غدار کہا گیا؟ دکھ، صدمہ افسوس اسے جو بھی نام دیا جائے بات یہ ہے کہ ہم نے بطور قوم اس شہر کے ساتھ اچھا نہیں کیا، یہ شہر ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے باعث سیاست اور حکومت میں منفی رجحانات پیدا ہوئے۔ نتیجے میں آج یہ شہر بے قابو ہوچکا ہے اور اگر ہم نے مسائل حل نہ کیے تو جلد ہی یہ حکومت کے بھی قابل نہیں رہے گا۔

کچھ ناگوار باتیں برسوں دل اور روح میں ٹیس کی صورت چبھتی رہتی ہیں۔ انسان لاکھ کوشش کرے انھیں بھلانے میں ناکام رہتا ہے۔ اگر یہ رویہ دوستوں، عزیزوں یا محبت کرنے والوں کی طرف سے ہو تو بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر یہ ملک یا شہر چلانے والوں کی طرف سے ہو تو یہ ملک، شہر، معاشرے اور اس میں رہنے والے لوگوں کے لیے تہمت بن جاتا ہے۔ اور اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کسی رشتے کے بغیر تو زندگی گزاری جاسکتی ہے لیکن کسی ''تہمت'' کے ساتھ زندگی بسر کرنا بہت تکلیف دہ ہونے کے ساتھ بہت مشکل بھی ہوتا ہے۔ ہم کراچی والے برسہا برس سے اسی تہمت کے ساتھ سانس لے رہے ہیں۔

ہمارا تعلق کراچی سے ہے اس ناطے ہمیں خود پر اور اہل کراچی پر پیار بھی آتا ہے اور ترس بھی۔ الیکشن 2018ء کے نام پر اس شہر معصوم و لاچار کے لوگوں کو پھر سے سہانے سپنے دکھائے جا رہے ہیں۔ اس بار عام انتخابات میں ملک کی تین بڑی جماعتوں کے قائدین کراچی سے امیدوار بن چکے ہیں اور کراچی کی تباہی کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں اور خود کو کراچی کا نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔

عمران خان، بلاول زرداری اور شہباز شریف کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کاش اس بار، اس الیکشن میں لڑنے اور جیتنے والے کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھیں، ان کے درد کا درماں کریں، ان کے ساتھ مذاق نہ کریں اور انتخابی سرگرمیوں میں جو وعدے وہ کراچی کے حوالے سے کر رہے ہیں انھیں پورا کریں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سیاست میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جب کہ دیر سے مانگی گئی معافی صرف تاریخ بن جاتی ہے اور کچھ نہیں۔ ویسے بھی کچھ کاموں اور باتوں کا وقت مقرر ہوتا ہے اور انھیں وقت پر کیا یا کہا جائے تو اچھا ہوتا ہے وگرنہ وہ بات یا کام اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔

سچ پوچھیں تو ہمارے حکمرانوں کا کراچی اور کراچی کے لوگوں سے کوئی قلبی تعلق کبھی رہا ہی نہیں اور جس تعلق کی کوئی شکل نہ بنے وہ زخم بن جاتا ہے، منہ چھپائے پھرتا ہے۔ کراچی کے مسائل اور اس حوالے سے ملنے والے کرب پر جس قدر آنسو بہائے جائیں وہ کم ہی ہوں گے، اس لیے کہ آنسوؤں سے آج تک کسی کی تقدیر نہیں مٹی اس کا لکھا اچھا یا برا جھیلنا ہی پڑتا ہے۔

کراچی کو مسائل سے نجات دلانے کا کام ہمارے حکمران کرنا نہیں چاہتے لیکن اسے کرنا آج کی سب سے بڑی ضروری ہے۔ کراچی کے مسائل سے صرف نظر کرکے ہمارے سیاستدان یا ارباب اختیار اپنے سیاسی کریئر کی بدترین غلطی کر رہے ہیں اور اپنی غلطیوں کو طوالت دینا یا انھیں دہراتے چلے جانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔

وقت کا آج سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا 2018ء کے انتخابات میں کراچی میں سیاسی رجحان تبدیل ہوگا اور اگر ہوگا تو کس سمت میں؟ اور کیا یہ سمت درست ہوگی؟ دیکھنا ہوگا کہ 2.5 ملین سے زائد کا یہ شہر کس طرف جاتا ہے؟ اور کیا یہ شہر قیادت اور رجحانات دونوں حوالوں سے تبدیلی کی طرف جاتا ہے یا نہیں؟ ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں بلکہ سبھی کو بہت جلد مل جائے گا۔
Load Next Story