بقا کی جنگ
اب بغاوت کا یہ حال ہے کہ وہ رہنما جنھیں بڑے پیار سے ٹکٹ دیے گئے تھے وہ بھی اپنے ٹکٹ واپس کر رہے ہیں
نواز شریف کے بقول خلائی مخلوق نے سارا کام خراب کردیا ہے اور اس دفعہ الیکشن کے بجائے سلیکشن کا مرحلہ درپیش ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ سلیکشن تو ہوچکا ہے اب صرف رسمی طور پر 25جولائی کو ووٹنگ کا پروسیس مکمل ہونا ہے مگر یہ بات بعض لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ الیکشن تو الیکشن ہی ہوتا ہے اور اگر میاں صاحب کی بات اتنی ہی مصدقہ ہوتی تو ملک میں الیکشن کا شور شرابہ نہ ہوتا، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے الیکشن کے کاموں میں سرگرم نہ ہوتے، پھر ملک بھر کی سیاسی پارٹیاں انتخابات میں دلچسپی کا اظہار نہ کرتیں، ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنوں کو ناراض کرتیں اور نہ الیکشن پر بے دریغ اپنا سرمایہ خرچ کرنے پر تیار ہوتیں۔
دراصل سلیکشن کا تاثر اس لیے ابھر رہا ہے کہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک کی صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کو ہر طرح سے نوازا جا رہا ہے۔ اسے پاناما سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ اس کی ہر فرمائش کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اس کی فرمائش پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے تقرر سے لے کر ووٹنگ کا ٹائم تک5 سے 6 بجے کردیا گیا ہے۔ اس کے مقدمات میں ڈھیل دی گئی ہے جب کہ دوسری طرف اب سخت سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ایک مخصوص پارٹی کو جتانے کے لیے ہو رہا ہے؟
بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے مگر زمینی حقائق کا جہاں تک تعلق ہے، حالات یہ بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے پیروں تلے زمین کھسک چکی ہے۔ پارٹی میں ہیجانی کیفیت کے بعد اب بغاوت بھی پھوٹ پڑی ہے۔ پرانے اور خدمت گزار رہنماؤں کو ٹکٹ سے محروم کرکے بااثر مگر لوٹوں کو ٹکٹ دے دیے گئے ہیں۔ اس کی مثال زعیم قادری اور چوہدری عبدالغفور سے بھی دی جاسکتی ہے۔ خواتین رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
اب بغاوت کا یہ حال ہے کہ وہ رہنما جنھیں بڑے پیار سے ٹکٹ دیے گئے تھے وہ بھی اپنے ٹکٹ واپس کر رہے ہیں اور جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جو پہلے بھی بے وفائی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ جنوبی پنجاب میں پہلے سے ہی حالات خراب ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ کی آڑ میں کئی لوگ تحریک انصاف سے اپنا رشتہ جوڑ چکے ہیں۔ ادھر اب شمالی پنجاب میں بھی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم میں ناانصافی کے لیے حمزہ شہباز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی من مانی کرتے ہوئے پرانے ممبران کو نظرانداز کیا اور اپنی پسند کے لوگوں کو ٹکٹ دلوائے ہیں جن میں کئی لوٹے اور باغی بھی شامل ہیں۔ شمالی پنجاب میں حالات خراب ہونے کی اہم وجہ چوہدری نثار ہیں، جنھیں ٹکٹ سے محروم کرکے بہت بڑی غلطی کی گئی ہے۔ ان کے ٹکٹ کے سلسلے میں میاں صاحب نے حکمت کے بجائے جذبات سے کام لیا اور سیاست میں جذبات نہیں حکمت عملی چلتی ہے، جس سے سنگین سے سنگین حالات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چوہدری نثار نے میاں صاحب کے برے وقت میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی بیماری کو بھی مدنظر نہیں رکھا۔ عین اس وقت جب ان پر مختلف مقدمات کی بھرمار ہو رہی تھی اور نااہلی کا غم اپنی جگہ تھا پھر ایک حریف پارٹی کی جانب سے طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے تھے اور صرف میاں صاحب ہی نہیں ان کا پورا خاندان سخت اذیت میں تھا، چوہدری نثار ان پر تنقید کے تیر پر تیر برسا رہے تھے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کی بھلائی کے لیے تنقید کر رہے تھے جس کا مقصد فوج اور عدلیہ سے مخاصمت مول لینے سے انھیں بچانا تھا۔
بہرحال اس وقت چوہدری نثار اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے حلقے میں روز ہی جلسے منعقد کرکے (ن) لیگ سے اپنی وفاداری سے عوام کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ادھر (ن) لیگ کی جانب سے ان کے مقابلے میں امیدوار اتارے جانے کے بعد اب ان کے جیتنے کے چانس ففٹی ففٹی بتائے جاتے ہیں۔ اگر (ن) لیگ وہاں سے ہار گئی تو اس ہار کا (ن) لیگ پر گہرا منفی اثر پڑے گا، جس سے تحریک انصاف کا ان علاقوں میں اثر و رسوخ مزید بڑھے گا اور اس سے نمٹنا (ن) لیگ کے لیے آیندہ بہت مشکل ہوگا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے اگر چوہدری نثار کا شروع میں ہی کہنا مان لیا ہوتا اور فوج و عدلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہ کیے ہوتے تو ان کے لیے آج جیسے مشکل حالات پیدا نہ ہوتے، ساتھ ہی انھیں تحریک انصاف کے مقابلے میں امتیازی سلوک کی شکایت کا شکوہ بھی نہ ہوتا۔ دراصل میاں صاحب کے کچھ ساتھیوں نے انھیں چوہدری نثار کے معاملے میں صحیح فیصلے تک نہ پہنچنے دیا اور انھیں یہاں تک چڑھا دیا کہ وہ ملکی اہم اداروں کے ساتھ باقاعدہ جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی ہر تقریر میں انھیں چیلنج کرنے لگے۔
ملک میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ملک کے اہم اداروں کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا تھا حالانکہ شکایات تو ہوتی تھیں مگر کوئی ان کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی جسارت نہیں کرتا تھا۔ اب میاں صاحب نے اپنے حالات کو اتنا خراب کرلیا ہے کہ اول تو اب ان کا الیکشن میں کامیاب ہونا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے اور اگر وہ کسی طرح سرخ رو ہو بھی گئے تو ان کی حکومت کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی حکومت کو فوراً ہی استعفیٰ دے کر اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے۔
شہباز شریف کا پارٹی کی قیادت کو سنبھالنا اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ وہ میاں صاحب کے مقابلے میں مصالحت آمیز اور کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ انھوں نے میاں صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات کی نفی کی ہے اور سب کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کی ہے مگر اول تو انھیں کنگ پارٹی سے مقابلہ درپیش ہے، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی پر اب بھی نواز شریف کا ہولڈ ہے اور پارٹی میں وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ پارٹی کی قیادت شہباز شریف کے پاس آجانے سے اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ کے ٹکراؤ کا کوئی خطرہ نہیں رہا ہے تو ایسا نہیں ہے میاں صاحب کے بعض متنازعہ بیانات کی وجہ سے خدشہ تو بہرحال آیندہ بھی رہے گا۔
اس طرح کیا شہباز شریف کے صلح پسند بیانیے پر اعتبار کیا جاسکے گا؟ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو اعتبار کر سکتی ہے کیونکہ وہ یقیناً میاں صاحب سے مختلف ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی شکایت نہیں رہی ہے۔ انھوں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر ایک طویل عرصے تک بحیثیت وزیراعلیٰ حکمرانی کی تاہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برابر مفاہمت جاری رکھی اور کبھی بھی کسی ایشو پر تنازعے کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخر کب تک ملک اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چلتا رہے گا اور سیاست دانوں کو کب کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا؟ اب نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری سے نیب اور (ن) لیگ میں مزید تلخی بڑھے گی۔ ماہرین قانون کے مطابق احتساب عدالت کے فیصلے میں کافی سقم موجود ہے چنانچہ اب اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کی گئی ہے تاکہ میاں صاحب، ان کی بیٹی اور داماد کو ریلیف مل سکے اور ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان سے گلو خلاصی مل سکے ویسے بھی نیب کے فیصلے میں میاں صاحب پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ وہ ثابت نہیں ہوسکا چنانچہ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب کو بریت مل سکے گی؟ بہرحال اس وقت (ن) لیگ کے اندرونی اور بیرونی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کا عام انتخابات میں جیتنا آسان نہیں ہے اور اگر کسی طرح جیت بھی گئی تو کیا وہ مسند اقتدار تک پہنچ سکے گی؟ بعض تجزیہ کاروں کی یہ بات درست ہی لگتی ہے کہ (ن) لیگ اس وقت الیکشن کی جنگ نہیں بلکہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ سلیکشن تو ہوچکا ہے اب صرف رسمی طور پر 25جولائی کو ووٹنگ کا پروسیس مکمل ہونا ہے مگر یہ بات بعض لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ الیکشن تو الیکشن ہی ہوتا ہے اور اگر میاں صاحب کی بات اتنی ہی مصدقہ ہوتی تو ملک میں الیکشن کا شور شرابہ نہ ہوتا، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے الیکشن کے کاموں میں سرگرم نہ ہوتے، پھر ملک بھر کی سیاسی پارٹیاں انتخابات میں دلچسپی کا اظہار نہ کرتیں، ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنوں کو ناراض کرتیں اور نہ الیکشن پر بے دریغ اپنا سرمایہ خرچ کرنے پر تیار ہوتیں۔
دراصل سلیکشن کا تاثر اس لیے ابھر رہا ہے کہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ملک کی صرف ایک ہی سیاسی پارٹی کو ہر طرح سے نوازا جا رہا ہے۔ اسے پاناما سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے تک سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ اس کی ہر فرمائش کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اس کی فرمائش پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کے تقرر سے لے کر ووٹنگ کا ٹائم تک5 سے 6 بجے کردیا گیا ہے۔ اس کے مقدمات میں ڈھیل دی گئی ہے جب کہ دوسری طرف اب سخت سزائیں سنائی جاچکی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ ایک مخصوص پارٹی کو جتانے کے لیے ہو رہا ہے؟
بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے مگر زمینی حقائق کا جہاں تک تعلق ہے، حالات یہ بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے پیروں تلے زمین کھسک چکی ہے۔ پارٹی میں ہیجانی کیفیت کے بعد اب بغاوت بھی پھوٹ پڑی ہے۔ پرانے اور خدمت گزار رہنماؤں کو ٹکٹ سے محروم کرکے بااثر مگر لوٹوں کو ٹکٹ دے دیے گئے ہیں۔ اس کی مثال زعیم قادری اور چوہدری عبدالغفور سے بھی دی جاسکتی ہے۔ خواتین رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
اب بغاوت کا یہ حال ہے کہ وہ رہنما جنھیں بڑے پیار سے ٹکٹ دیے گئے تھے وہ بھی اپنے ٹکٹ واپس کر رہے ہیں اور جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ دراصل وہ لوگ ہیں جو پہلے بھی بے وفائی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ جنوبی پنجاب میں پہلے سے ہی حالات خراب ہیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ کی آڑ میں کئی لوگ تحریک انصاف سے اپنا رشتہ جوڑ چکے ہیں۔ ادھر اب شمالی پنجاب میں بھی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم میں ناانصافی کے لیے حمزہ شہباز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی من مانی کرتے ہوئے پرانے ممبران کو نظرانداز کیا اور اپنی پسند کے لوگوں کو ٹکٹ دلوائے ہیں جن میں کئی لوٹے اور باغی بھی شامل ہیں۔ شمالی پنجاب میں حالات خراب ہونے کی اہم وجہ چوہدری نثار ہیں، جنھیں ٹکٹ سے محروم کرکے بہت بڑی غلطی کی گئی ہے۔ ان کے ٹکٹ کے سلسلے میں میاں صاحب نے حکمت کے بجائے جذبات سے کام لیا اور سیاست میں جذبات نہیں حکمت عملی چلتی ہے، جس سے سنگین سے سنگین حالات پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ چوہدری نثار نے میاں صاحب کے برے وقت میں ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی بیماری کو بھی مدنظر نہیں رکھا۔ عین اس وقت جب ان پر مختلف مقدمات کی بھرمار ہو رہی تھی اور نااہلی کا غم اپنی جگہ تھا پھر ایک حریف پارٹی کی جانب سے طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے تھے اور صرف میاں صاحب ہی نہیں ان کا پورا خاندان سخت اذیت میں تھا، چوہدری نثار ان پر تنقید کے تیر پر تیر برسا رہے تھے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کی بھلائی کے لیے تنقید کر رہے تھے جس کا مقصد فوج اور عدلیہ سے مخاصمت مول لینے سے انھیں بچانا تھا۔
بہرحال اس وقت چوہدری نثار اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنے حلقے میں روز ہی جلسے منعقد کرکے (ن) لیگ سے اپنی وفاداری سے عوام کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ادھر (ن) لیگ کی جانب سے ان کے مقابلے میں امیدوار اتارے جانے کے بعد اب ان کے جیتنے کے چانس ففٹی ففٹی بتائے جاتے ہیں۔ اگر (ن) لیگ وہاں سے ہار گئی تو اس ہار کا (ن) لیگ پر گہرا منفی اثر پڑے گا، جس سے تحریک انصاف کا ان علاقوں میں اثر و رسوخ مزید بڑھے گا اور اس سے نمٹنا (ن) لیگ کے لیے آیندہ بہت مشکل ہوگا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے اگر چوہدری نثار کا شروع میں ہی کہنا مان لیا ہوتا اور فوج و عدلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہ کیے ہوتے تو ان کے لیے آج جیسے مشکل حالات پیدا نہ ہوتے، ساتھ ہی انھیں تحریک انصاف کے مقابلے میں امتیازی سلوک کی شکایت کا شکوہ بھی نہ ہوتا۔ دراصل میاں صاحب کے کچھ ساتھیوں نے انھیں چوہدری نثار کے معاملے میں صحیح فیصلے تک نہ پہنچنے دیا اور انھیں یہاں تک چڑھا دیا کہ وہ ملکی اہم اداروں کے ساتھ باقاعدہ جنگ کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنی ہر تقریر میں انھیں چیلنج کرنے لگے۔
ملک میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ملک کے اہم اداروں کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا تھا حالانکہ شکایات تو ہوتی تھیں مگر کوئی ان کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی جسارت نہیں کرتا تھا۔ اب میاں صاحب نے اپنے حالات کو اتنا خراب کرلیا ہے کہ اول تو اب ان کا الیکشن میں کامیاب ہونا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے اور اگر وہ کسی طرح سرخ رو ہو بھی گئے تو ان کی حکومت کو پہلے سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان کی حکومت کو فوراً ہی استعفیٰ دے کر اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے۔
شہباز شریف کا پارٹی کی قیادت کو سنبھالنا اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ وہ میاں صاحب کے مقابلے میں مصالحت آمیز اور کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ انھوں نے میاں صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانات کی نفی کی ہے اور سب کے ساتھ مل کر چلنے کی بات کی ہے مگر اول تو انھیں کنگ پارٹی سے مقابلہ درپیش ہے، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی پر اب بھی نواز شریف کا ہولڈ ہے اور پارٹی میں وہی ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ پارٹی کی قیادت شہباز شریف کے پاس آجانے سے اسٹیبلشمنٹ اور (ن) لیگ کے ٹکراؤ کا کوئی خطرہ نہیں رہا ہے تو ایسا نہیں ہے میاں صاحب کے بعض متنازعہ بیانات کی وجہ سے خدشہ تو بہرحال آیندہ بھی رہے گا۔
اس طرح کیا شہباز شریف کے صلح پسند بیانیے پر اعتبار کیا جاسکے گا؟ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو اعتبار کر سکتی ہے کیونکہ وہ یقیناً میاں صاحب سے مختلف ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے خلاف پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کو کوئی شکایت نہیں رہی ہے۔ انھوں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر ایک طویل عرصے تک بحیثیت وزیراعلیٰ حکمرانی کی تاہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برابر مفاہمت جاری رکھی اور کبھی بھی کسی ایشو پر تنازعے کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آخر کب تک ملک اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چلتا رہے گا اور سیاست دانوں کو کب کھل کر کام کرنے کا موقع ملے گا؟ اب نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری سے نیب اور (ن) لیگ میں مزید تلخی بڑھے گی۔ ماہرین قانون کے مطابق احتساب عدالت کے فیصلے میں کافی سقم موجود ہے چنانچہ اب اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کی گئی ہے تاکہ میاں صاحب، ان کی بیٹی اور داماد کو ریلیف مل سکے اور ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان سے گلو خلاصی مل سکے ویسے بھی نیب کے فیصلے میں میاں صاحب پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ وہ ثابت نہیں ہوسکا چنانچہ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب کو بریت مل سکے گی؟ بہرحال اس وقت (ن) لیگ کے اندرونی اور بیرونی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کا عام انتخابات میں جیتنا آسان نہیں ہے اور اگر کسی طرح جیت بھی گئی تو کیا وہ مسند اقتدار تک پہنچ سکے گی؟ بعض تجزیہ کاروں کی یہ بات درست ہی لگتی ہے کہ (ن) لیگ اس وقت الیکشن کی جنگ نہیں بلکہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔