انتخابات اور دہشت گردی

ملکی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ ایسی ہی لبرل و سوشلسٹ جماعتیں ہی دہشتگردوں کے نشانے پر رہی ہیں۔



ملک میں انتخابات کا ماحول اس بارسابقہ روایت کے برعکس جوش و خروش اور گہما گہمی سے عاری نظر آرہا ہے۔ حالانکہ الیکشن میں صرف 10دن رہ گئے ہیں لیکن سوائے چند حلقوں کے ملک میں نہ امیدواران صحیح معنوں میں متحرک نظر آتے ہیں اور نہ ہی سپورٹرز سرگرم ہیں ۔

25 جولائی 2018ء کو طے شدہ صاف و شفاف انتخابات کے ہونے کے بارے میں حالانکہ الیکشن کمیشن کے علاوہ عدلیہ و عسکری ادارے بھی بارہا یقین دہانی کرا چکے ہیں لیکن روز نئی کروٹ لیتے حالات کی بدولت عوام میں صاف و شفاف انتخابات سے متعلق اب بھی بدگمانیاں عروج پر ہیں ۔ پھر ایسے میں مستونگ، پشاور ، بنو ں ، کوٹ لکھپت اور دیگر علاقوں میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں پر ہونے والے خود کش وبم حملوں اور فائرنگ کے واقعات نے تو ان بدگمانیوں کو جیسے پہیے لگادیے ہیں۔

خصوصا ً مستونگ اور پشاور میںہونے والے خود کش حملے میں 133افراد لقمہ اجل بننے کے ساتھ ساتھ کئیوں کے زخمی ہونے نے تو 2013ء کے الیکشن میں تواتر کے ساتھ ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو ملک بھر میں خدشات شروع ہوجاتے ہیں اور دعائیں مانگی جاتی ہیں کہ خدا کرے کہ الیکشن خیرو خیریت اور امن سے گزر جائے، لیکن یہ دعائیں ابھی تک پوری نہیں ہوئیں۔

اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں انتخابات جمہوری یا سیاسی نہیں ہوتے بلکہ صرف اور صرف خونی ہوتے ہیں۔ 70سال کی عمر کے حامل اس ملک، اس کے قانون اور اس کے عوام ابھی تک سیاسی، جمہوری اور انتظامی حوالے سے یتیمی اور بے بسی و بے اختیاری کے عالم میں ہے ۔ خدا کے نام پر بننے والے اس ملک میں کہیں دور دور تک بھی خدا ترسی نظر نہیں آتی ۔

موجودہ ملکی ماحول توریاست کے نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کے بالکل برعکس ہے۔ نہ یہاں اسلامی رواداری، اُخوت و سلامتی اور اُصول نظر آتے ہیں اور نہ ہی جمہوری روایات و اقدار۔ تحمل و اختلاف ِ رائے کو برداشت کرنے جیسی اقدار تو یہاں ناپید ہوگئی ہیں ۔ سب سے پہلے 1977ء کے انتخابات خونی انتخابات ثابت ہوئے۔ جس میں کئی افراد کے جاں بحق ہونے سے لے کر کتنے ہی افراد کے زخمی ہونے کی داستانیں رقم ہوئیں ۔ تب سے انتخابات پر ہمیشہ تشدد اور دہشتگردی کے سائے لہراتے رہے ہیں۔

جس کے پیچھے جو وجوہات کارفرما ہیں ان میں ملکی اداروں کے درمیان رسہ کشی اور عالمی طاقتوں کی در اندازی سر فہرست ہے۔جس کے تحت خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے پاکستان کی جغرافیائی انفرادیت کی وجہ سے یہاں کے اقتدار پر کسی بھی طرح گرفت حاصل کرنے کی خواہش نے یہاں انتہا پسندی کو فروغ دیااور یہاں خوف و دہشت اور تشدد کے حامل عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جس کی باعث یہ حالات پید ا ہوئے ہیں۔

لیکن روس افغان جنگ کے دوران اور جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے طالبان و دیگر جنگی ٹولے اس قدر طاقتور بن کر اُبھرے یا پھر اُبھارے گئے کہ اس خطے میں سیاسی حالات اور امن وامان کی صورتحال ان ہی کی نقل و حرکت سے مشروط ہوکر رہ گئی ۔ پھر 9/11 کے بعد دہشتگردی نے عمومی طور پر دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لیکن اس کا سارا نزلہ خصوصی طور پر پاک افغان پٹی پر گرا یا گیا۔ جس کی باعث یہ خطہ عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں سب اپنا زور آزما رہے ہیں۔

اس صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کی نااندیشی نے اس ملک کو سلگتے انگاروں کا مرکز بنادیا ہے۔ 21کروڑ عوام کی بدقسمتی کہیے یا بد اعمالی کہ ان 20برسوں میں یکے بعد دیگرے اُنہیں ایسے حکمراں ملے جو اس ملک و ملت کو اس دلدل سے نکالنے کے بجائے مزید دھنسانے کے چکر میں سرگرداں رہے ۔جب کہ اسٹبلشمنٹ اور دیگر اداروں کی جانب سے ملکی اُمور کوبراہ ِ راست اپنے کنٹرول میں رکھنے کی روش نے ملکی مسند کے حصول کے اہم و جمہوری ذریعے انتخابات کو میوزیکل چیئر گیم بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ جس میں ہر کھلاڑی کرسی پر قبضہ کی کوشش میں ہر ممکن و غیر ممکن عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اب تو یہ کوششیں جنگی جنون بن گئی ہیں اور انتخابات جنگی محاذ بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے تحت پیدا کیے گئے ظاہری مُہروں کے ذریعے تو فقط لفظی جنگ نظر آتی ہے لیکن پس پردہ پالے گئے مُہروں کے ذریعے تو کھلی جنگ و دہشت کا ماحول برپا کیا جاتا ہے۔ اگرماضی کے انتخابات کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو 2007ء میں پی پی پی ہدف تھی اور اس کی قائد بینظیر بھٹو جیسی عالمی حیثیت کی حامل رہنما سمیت سیکڑوں افراد دہشتگردی کا شکار ہوئے اور 2013ء کے انتخابات سے قبل کے ایام تو جیسے قیامت صغریٰ کے مناظر کی سیریل تھی۔

آئے دن خود کش و بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں کئی کئی بے گناہ لوگ اپنی جان سے جاتے اور کئی اپنے اعضاء سے محروم ہوجاتے تھے۔ جب کہ ان ہی دنوں اے این پی کے مرکزی رہنما بشیر احمد بلور بھی ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے جو کہ گزشتہ ہفتے پشاور میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں جاں بحق ہونے والے ہارون بلور کے والد تھے یعنی ایک الیکشن میں باپ شہید ہوا تو دوسری میں بیٹا۔ ان کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہوگی یہ اس طرح کی دہشتگردی کے واقعات میں بلاوجہ مارے گئے ہزاروں افراد خصوصا ً شکارپور بم دھماکے میں شہید ہونے والے 70سے زائد افراد کے لواحقین سمجھ سکتے ہیں یا بلوچستان میں متعدد بار خود کش دھماکوں اور فائرنگ کی لپیٹ میں آکر ہزارہ برادری کے شہید ہونیوالوں کے لواحقین یاپھر اے پی ایس پشاور سانحہ میں شہید ہونے والے ننھے و معصوم بچوں کے لواحقین اس درد کی پیڑاہ کو سمجھ سکتے ہیں ۔ اور 1970ء کے انتخابات جہاں لاکھوں لوگوں کے جاں بحق ہونے کا باعث بنے وہیں ملک کے دو لخت ہونے کی بھی وجہ ثابت ہوئے ۔

یہ بات تو عالم آشکار ہے کہ ملک میں جاری دہشتگردی اور اس کے خاتمے کے لیے لڑی جانیوالی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں خیبر پختون خوا کے شہریوں کی ہیں۔ چونکہ اے این پی، کے پی کے کی نمائندہ و لبرل جماعت ہے، اس لیے ہمیشہ دہشتگردوں و انتہا پسندوں کے نشانے پر رہی ہے۔ مگر اُس کے باوجود اُن کے حوصلے بلند ہیں۔ اُن کی قیادت نے ہر صورت میں انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے جوکہ غیر جمہوری قوتوں کی ایک نئی شکست ہے۔

دیکھا جائے تو ملکی انتخابی تاریخ میں ہمیشہ ایسی ہی لبرل و سوشلسٹ جماعتیں ہی دہشتگردوں کے نشانے پر رہی ہیں۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی و ملکی سطح کے سامراجی ایجنڈوں کی راہ میں رکاوٹ لبرل و سوشلسٹ سوچ اور اس کی نمائندہ جماعتیں ہیں جوکہ انتہا پسند عناصر کے خلاف برسرپیکار رہ کر ملکی سلامتی کی راہ ہموار رکھے ہوئی ہیں ورنہ تو افغانستان کی طرح پاکستان کو بھی انتہاپسند و دہشتگرد ملک قرار دیکر عالمی محاذ آرائی کی حتی الامکان کوششیں تو اب بھی جاری و ساری ہیں۔

اس لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں کو مخصوص جماعتوں کی انتخابی مہم پر ہونے والے حملوں کا سختی سے نوٹس لینے کے ساتھ دہشتگردوں کی جانب سے انتہا پسندی کی حمایتی تمام جماعتوں کو چھوڑ کر صرف لبرل اور سوشلسٹ و جمہوری جماعتوں کو نشانہ بنانے کے اس فرق کی وجوہات کو بھی دیکھنا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔