میرے ہمدم میرے دوست

شاعر صدیقی بھی مشرقی پاکستان میں ہونے والی خون ریزی کے چشم دید گواہ ہیں۔


Naseem Anjum July 15, 2018
[email protected]

''میرے ہمدم، میرے دوست'' مضامین کا انتخاب ہے اور مصنف شاعر صدیقی ہیں، دوسری کتاب ''خواب اور طرح کے'' افسانوں کا مجموعہ ہے، افسانہ نگار ڈاکٹر شکیل احمد خان ہیں۔

شاعر و ادیب شاعر صدیقی نے اپنی تقریباً عمر ادب کے گلستان کو اپنی تخلیق کے تناور اور خوش رنگ درختوں اور پھولوں سے مہکایا ہے اور ان کے شعر و سخن کی خوشبو دور تک گئی ہے۔ انھیں نثر نگاری پر بھی اتنا ہی عبور ہے جتنا کہ اصناف شاعری پر۔

مذکورہ کتاب میں 16 مضامین شامل ہیں اور جن حضرات کی علمیت، قابلیت، تخلیقی صلاحیتوں پر شاعر صدیقی نے قلم اٹھایا ہے، ان کا شمار اپنے عہد کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے اور کئی قلم کار ایسے ہیں جنھوں نے قلمی لحاظ سے اعلیٰ سطح پر ادبی و تخلیقی امور انجام دیے ہیں اور اپنے اخلاق و کردار کے حوالے سے یہ ہستیاں آج بھی قدر دانوں کے دلوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔ انھی میں معروف شاعر اختر لکھنوی کا بھی شمار ہوتا ہے۔

اتفاق سے اختر لکھنوی مرحوم سے میں بھی بارہا ملاقات کا شرف حاصل کرچکی ہوں اور انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی میں میرے کئی افسانے ریکارڈ کیے اور وہ باقاعدگی سے نشر ہوتے رہے، حالانکہ وہ میرے لکھنے کا ابتدائی زمانہ تھا اور میں بحیثیت طالبعلم ریڈیو پاکستان جایا کرتی تھی، وہ بے حد شفقت سے پیش آتے اور مزید افسانے ریکارڈ کرنے کا اصرار کرتے۔ ایسے اعلیٰ ظرف بزرگ شاعر و ادیب اب کہاں؟ ''سانحہ مشرقی پاکستان مرحوم کا نوحہ گر'' اس عنوان سے مصنف نے اختر لکھنوی مرحوم پر بہت جامع اور مدلل مضمون رقم طراز کیا ہے۔

انھوں نے اپنی دوستی اور اختر لکھنوی کی ادبی خدمات کا ذکر خلوص نیت اور خلوص دل کے ساتھ اس طرح کیا ہے کہ قاری زندگی کی کٹھنائیوں سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا ہے کہ زندگی اکثر اوقات ایسا زہر بن کر سامنے آتی ہے جس کا کوئی تریاق نہیں۔ بقول مصنف اختر لکھنوی مرحوم نے مشرقی پاکستان کا قتل عام اور مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی درندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

شاعر صدیقی بھی مشرقی پاکستان میں ہونے والی خون ریزی کے چشم دید گواہ ہیں۔ شاعر صدیقی لکھتے ہیں کہ اختر لکھنوی کا شعری مجموعہ ''دیدۂ تر'' غزل کے پردے میں جو واردات قلبی، محسوسات اور مشاہدات کا مجموعہ ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے اسے حساس دل کی آنکھ سے ٹپکا ہوا وہ آنسو لکھا ہے، جسے مرحوم مشرقی پاکستان کے رخسار پر بہتے ہوئے سب ہی نے دیکھا، لیکن اختر لکھنوی نے اسے تاریخ کا حصہ بنادیا ہے۔

اسی کتاب میں حبیب احسن (مرحوم) ''کم گو سخن ور'' کے عنوان سے مضمون شامل ہے۔ ان کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ حبیب احسن کے یہاں میرؔ کا سوز بھی جھلکتا ہے اور درد کا گداز پن بھی، غالب کی فکر انگیزی اور حالی کی سادگی بھی۔ حبیب احسن نے جہاں کلاسیکی شاعری کے حسن و جمال، سوز و گداز، متانت اور سنجیدگی سے اپنی غزلوں کو رنگ عطا کیا ہے، وہاں آس پاس رونما ہونے والے واقعات کو بھی شدت سے محسوس کرکے اپنے عصری تقاضوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔اپنی پیرانہ سالی کے باعث وہ زیادہ تر بیمار رہتے تھے۔ اس کتاب کے ذریعے پتہ چلا کہ وہ رحلت فرما گئے ہیں، تو بہت دکھ ہوا، اﷲ غریق رحمت کرے۔

''ڈاکٹر ظفر محمد خان ظفر'' پر لکھا گیا مضمون بھی ڈاکٹر ظفر کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ سائنس دان ہیں، شاعر ہیں اور بہت اچھے انسان ہیں، انکساری اور عاجزی ان کی شخصیت کا حصہ ہے اسی لیے وہ قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر ظفر محمد خان ظفر جب وہ خود کو سائنس دان نہیں جانتے تھے، اس وقت بھی وہ اپنے آپ کو شاعر پہچانتے تھے۔ ان کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں نیویارک اکیڈمی آف سائنسز کے بورڈ آف گورنر نے جنوری 1997ء میں ظفر محمد خان کو نیویارک آف اکیڈمی آف سائنسز کی سرگرم رکنیت سے نوازا تھا۔

ڈاکٹر ظفر اپنی علمی قابلیت کی بدولت سپارکو میں کئی مقتدر عہدوں پر فائز رہے اور تقریباً 12 ڈائریکٹر لونوس فیرک کے عہدے اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیتے رہے اور 2002ء میں جنرل منیجر کی حیثیت سے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوئے۔ ظفر محمد خان ظفر کی شعر و سخن سے وابستگی چالیس برسوں پر محیط ہے، وہ قادرالکلام شاعر ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں زمانے کے نشیب و فراز کی عکاسی دردمندی کے ساتھ کی ہے۔ انھیں اپنی قوم کی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہے۔ اسی حوالے سے یہ اشعار:

اک وہ جنھوں نے فاصلہ صدیوں کا طے کیا

ایک ہم غبارِ گردِ سفر دیکھتے رہے

اک وہ کہ توڑ لائے ستارے کمال کے

ایک ہم کہ آنسوؤں کے گہر دیکھتے رہے

اک وہ جنھوں نے دھوپ کا صحرا کیا عبور

ایک ہم کہ سایہ دار شجر دیکھتے رہے

''مرے ہمدم مرے دوست'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں شخصیات کا تعارف اور بہت اہم معلومات کے در وا ہوتے ہیں۔ شاعر صدیقی شعر و نغمہ اور فلمی گیتوں کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے، ان کے لکھے ہوئے مشہور گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ وہ 6 اہم کتابوں کے خالق ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان کے افسانوں پر ڈاکٹر حسن منظر، سلطان جمیل نسیم، ڈاکٹر مرحب قاسمی کی آرا شامل ہیں۔

ڈاکٹر حسن منظر جیسے بڑے ادیب نے لکھا ہے کہ ''ان کے تمام افسانے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں، شکیل کے افسانوں میں میرے لیے ہمیشہ کشش رہی ہے اور ان کی Themes میں بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کا کوئی افسانہ چاہے میں نے ان کے منہ سے کسی ادبی نشست میں سنا ہو یا کہیں پڑھا ہو، برسوں بعد بھی وہ مع واقعات کی ترتیب کے میرے ذہن میں محفوظ رہتا ہے۔''

اس سے بڑھ کر اور تعریف کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹر شکیل کے افسانوں کی دلکشی قاری کو تادیر مسحور رکھتی ہے۔ سلطان جمیل نسیم جن کا اردو ادب میں اہم مقام ہے، وہ لکھتے ہیں شکیل احمد خان کے افسانے بھی اپنے باطنی ہم آہنگ کے سبب بہت سے پڑھنے والوں کے دل کی آواز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مذکورہ کتاب سے میں نے کئی افسانے پڑھے، انھی میں ''شہادت''، ''وکی لیکس'' اور ''نصیب جلی'' شامل ہیں۔ تینوں ہی افسانے معاشرتی گھٹن، تلخ حقائق اور کمزور معاشرتی ڈھانچے کی عکاسی متاثر کن انداز میں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

''نصیب جلی'' میں گاؤں، گوٹھ کے ان پڑھ لوگوں کے المیے کو اجاگر کیا ہے، وڈیروں کی خودغرضی اور دین سے دوری کے نتیجے میں گناہ و ثواب، حرام و حلال کی اہمیت و افادیت کا خاتمہ اور کئی گھرانوں میں بیوی، بیٹی اور بہو کی تفریق ختم ہوچکی ہے اور بے چارے غریب اور بے بس لوگ ان کے ظلم و ستم کا شکار بنتے ہیں۔ افسانے میں ایسے ہی مظلوم کردار خصوصاً خواتین سانس لینے پر مجبور ہیں۔ بدبودار سماج کو ڈاکٹر شکیل نے لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔ افسانہ ''شہادت'' بھی خودکش حملوں اور تخریب کاروں کی ملک دشمنی اور مسلمانوں کی علمی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل احمد افسانے لکھنے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔