میرا باس
گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوچلا نہ معلوم کس کردہ یا نہ کردہ جرم یا گناہ کی پکڑ میں ہیں۔
پاکستان کا پہلا جنرل الیکشن جس میں نہ ہونے کے برابر دھاندلی ہوئی جنرل یحییٰ خان کے دور اقتدار میں ہوا جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریتی ووٹ حاصل کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نے اپنا پہلا جلسہ راولپنڈی کی ریس کورس گراؤنڈ میں منعقد کیا۔ اس جلسہ میں ہجوم عاشقاں دیکھنے کے قابل تھا۔
میری ملازمت بحیثیت مجسٹریٹ شروع ہوئے دو سال ہوئے تھے۔ لہٰذا میں بھی اس عظیم جلسہ میں ڈیوٹی پر تھا۔ یہ ڈیوٹی میرے باس ڈپٹی کمشنر نے لگائی تھی۔ جلسہ رات دیر تک جاری رہا اور اسے پاکستان کا کامیاب ترین جلسۂ عام کہا جاسکتا ہے۔
ایک عرصہ کے بعد میرے باس نے اپنے تمام ماتحتوں کو جلسے کی کامیابی پر مبارکباد دی اور شکریہ ادا کیا۔ وہ خط میرے پاس آج تک محفوظ ہے۔ میرا باس ایک کامیاب ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر تھا اس کی دی ہوئی سالانہ رپورٹ بھی میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس کے بعد ان کا بھی تبادلہ ہوتا رہا اور میرا بھی۔ میری دوسری ملاقات ان سے اس وقت ہوئی جب وہ حکومت پنجاب کے سیکریٹری گورنمنٹ تھے اور میں اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال تھا۔
میرے باس کا یہ معمول کا دورہ تھا جس میں پرانے تعلق کی بناء پر انھوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ شہر کے دورے کے دوران ان کی نظر ایک بہت بڑی فرنیچر فیکٹری پر پڑی۔ ہم نے رانا صاحب کی اس فیکٹری کا مفصل دورہ کیا اور میرے باس اس کے فرنیچر کی کوالٹی سے متاثر ہوئے۔ دورے کے بعد لاہور سے مجھے ٹیلی فون کیا اور پوچھا کہ کیا اس فرنیچر فیکٹری سے ایک اعلیٰ قسم کا ڈائننگ سیٹ منگوایا جاسکتا ہے۔ میں نے خاص توجہ سے ایک بہترین ڈائننگ سیٹ جس میں آٹھ کرسیاں اور ٹیبل تھا بنوایا اور باس کو لاہور بھجوا دیا۔
قیمت پوچھنے پر فیکٹری مالک نے کہا کہ وہ اس دوران دوبار لاہور جاکر میرے باس سے ملا ہے اور باس نے انھیں بہت قابل اور اچھا انسان پایا ہے۔ کاروبار تو ہوتا رہے گا میرا دل نہیں چاہتا کہ میں آپ کے باس سے ڈائننگ ٹیبل کی قیمت وصول کروں۔ پوچھنے پر میرے باس نے اختلاف کیا اور کہا کہ وہ اس کی قیمت ہر صورت ادا کریں گے۔ لیکن فیکٹری کے مالک جو میری ساہیوال تعیناتی کے دوران قریبی دوست بن گئے تھے انھوں نے ڈائننگ ٹیبل کی قیمت وصول کرنے سے صاف انکار کردیا۔
میرے باس پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے اور ایک بار ان کی تعیناتی بطور چیف سیکریٹری سندھ حکومت رہی وہ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رہے تھے اور بھٹو صاحب کے پہلے جلسۂ عام میں جو ریس کورس راولپنڈی میں ہوا اس کے انچارج بھی رہے تھے اس لیے بھٹو صاحب ان پر خاص شفقت کرتے تھے۔
میرے ساتھ بھی باس کے تعلقات ہمیشہ بہت اچھے رہے۔ وقت بدلتا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کا سانحہ بھی ہوگیا۔ بھٹو صاحب کی نعش کو ان کے آبائی گاؤں ہوائی جہاز پر لے جانے کے لیے بھی اتفاق سے میرا قریبی دوست گروپ کیپٹن طاہر تعینات ہوا۔ میرا باس گولف کے کھیل کا شوقین تھا جب کہ میں بھی باقاعدہ گولف پلیئر ہوں۔
ایک روز جب کہ میں گولف کھیلنے کے لیے پہنچا تو میرا باس جو اعلیٰ ترین عہدوں پر رہ چکا تھا نہایت غصے میں تھا کہ اس سے اگلے گولف فلائیٹ والوں نے، جب کہ باس اکیلا کھیلنا چاہ رہا تھا، مڑ کر اس پر آوازے کسے تھے، باس نے مجھے روکا اور کہا کہ وہ آگے جانے والے پلیئرز کی واپسی کا انتظار کریں گے اور ان کی اچھی طرح خبرلیں گے۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ میچ پر چائے پینے کے لیے روک لیا میں نے باس کو بتایا کہ اگر آگے جانے والے گولف پلیئرز چار ہوں تو ان کے پیچھے اکیلا پلیئر اصولاً نہیں جاسکتا، اس لیے وہ غصہ تھوک دیں۔ لیکن ایک سے ایک بڑے مرتبے پر تعینات رہنے والا باس ان پلیئرز کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو میرا باس ان کا پرنسپل سیکریٹری تعینات ہوگیا۔ اس عہدے پر رہنے والا افسر ملک کا سب سے بڑا بیوروکریٹ ہوتا ہے۔ اس حیثیت میں کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے باس کے سامنے اونچی آواز سے بھی بول سکتا، اختلاف کرنا تو دور کی بات ہے۔ میرے باس کی بیٹی کی شادی کی تقریب تھی، میں اور میری بیگم بھی مدعو تھے۔ باس کے گھر کے صحن میں صرف ایک تین سیٹ والا صوفہ تھا درمیان میں بینظیر بھٹو اور ان کے دائیں بائیں دولہا، دلہن بیٹھے تھے۔
دیگر معزز مہمان صوفے کے پیچھے کھڑے ہوکر تصاویر بنوا رہے تھے۔ ایک گروپ تصویر بنوا چکتا تو دوسرا گروپ ان کی جگہ لے لیتا۔ اس رات ہمیں رات کا کھانا اپنے دوست پرویز بھنڈارا کے گھر کھانا تھا لہٰذا میری کوشش تھی کہ میں باس سے سلام کرنے کے بعد لفافہ ان کو تھماؤں اور بیگم کے ساتھ وہاں سے نکل جاؤں۔ بینظیر کی وجہ سے باس کے پاس کسی سے بات کرنے کی ایک سیکنڈ کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ میں نے لفافہ پکڑانے کے ساتھ بات کرنا چاہی تو باس نے انگریزی میں کہا I will talk to you tomorrow۔
بینظیر کے قتل کے بعد حکومت ہوتی ہواتی شریف برادران کے قبضہ میں آگئی اس کے ساتھ ہی میرے باس کا زوال شروع ہوگیا اور مختلف ایجنسیز ان کو گرفت میں لینے کی کوشش کرنے لگیں۔ ان پر متعدد مقدمات بنائے گئے۔ پھر وہ وقت آگیا کہ میرا باس کل وقتی اپنے بچاؤ کی تدبیروں میں الجھ گیا۔ میرے باس کو ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے دوسری دہائی شروع ہوچکی ہے، وہ بیمار ہوگیا، مفلوج ہوگیا، چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا، یادداشت کھو بیٹھا اور ایک چلتی پھرتی ویل چیئر پر رکھی لاش بن گیا۔ ابھی چند روز پہلے اسے ایک عدالت میں اس کا بیٹا ویل چیئر پر پیش کرنے کے لیے لایا تو اس کی حالت دیکھ کر جج بھی پریشان ہوگیا۔
باس کے ساتھ میری آخری ملاقات شاید اس وقت ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ گلبرگ کی جس کوٹھی میں سابق مرحوم گورنر سلمان تاثیر کا دفتر ہے وہ میرے باس کی ملکیت ہے۔گلبرگ لاہور میں پہلا شاندار ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھلا۔ معلوم ہوا کہ عمران خان نے اس کے شیئر خریدے ہیں۔ دیکھا دیکھی میں نے بھی اس میں معمولی رقم کے شیئر لے لیے۔ کئی سال گزرگئے کوئی منافع نہ ملا تو میں نے باس کو شیئرز کے کاغذات دے کر کہا کہ اس اسٹور کے موجودہ مالک سے میرے شیئرز کی رقم واپس دلوا دیں۔ چند روز بعد باس میرے گھر تشریف لائے اور کہا سلمان تاثیر نے انکار کردیا ہے۔
میرے یہ باس ڈپٹی کمشنر، کمشنر، سیکریٹری، چیف سیکریٹری، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری رہے۔ اب گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوچلا نہ معلوم کس کردہ یا نہ کردہ جرم یا گناہ کی پکڑ میں ہیں۔ اگلے دن وہیل چیئر پر ایک عدالت میں لائے دیکھے گئے۔ انھیں دیکھا تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے شیروں کی طرح دھاڑتے بے شمار انسان یاد آئے اور پھر باس کی یاد آئی تو مجھے دو دن تک نیند نہ آئی۔
میری ملازمت بحیثیت مجسٹریٹ شروع ہوئے دو سال ہوئے تھے۔ لہٰذا میں بھی اس عظیم جلسہ میں ڈیوٹی پر تھا۔ یہ ڈیوٹی میرے باس ڈپٹی کمشنر نے لگائی تھی۔ جلسہ رات دیر تک جاری رہا اور اسے پاکستان کا کامیاب ترین جلسۂ عام کہا جاسکتا ہے۔
ایک عرصہ کے بعد میرے باس نے اپنے تمام ماتحتوں کو جلسے کی کامیابی پر مبارکباد دی اور شکریہ ادا کیا۔ وہ خط میرے پاس آج تک محفوظ ہے۔ میرا باس ایک کامیاب ڈپٹی کمشنر اور ایڈمنسٹریٹر تھا اس کی دی ہوئی سالانہ رپورٹ بھی میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس کے بعد ان کا بھی تبادلہ ہوتا رہا اور میرا بھی۔ میری دوسری ملاقات ان سے اس وقت ہوئی جب وہ حکومت پنجاب کے سیکریٹری گورنمنٹ تھے اور میں اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال تھا۔
میرے باس کا یہ معمول کا دورہ تھا جس میں پرانے تعلق کی بناء پر انھوں نے مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ شہر کے دورے کے دوران ان کی نظر ایک بہت بڑی فرنیچر فیکٹری پر پڑی۔ ہم نے رانا صاحب کی اس فیکٹری کا مفصل دورہ کیا اور میرے باس اس کے فرنیچر کی کوالٹی سے متاثر ہوئے۔ دورے کے بعد لاہور سے مجھے ٹیلی فون کیا اور پوچھا کہ کیا اس فرنیچر فیکٹری سے ایک اعلیٰ قسم کا ڈائننگ سیٹ منگوایا جاسکتا ہے۔ میں نے خاص توجہ سے ایک بہترین ڈائننگ سیٹ جس میں آٹھ کرسیاں اور ٹیبل تھا بنوایا اور باس کو لاہور بھجوا دیا۔
قیمت پوچھنے پر فیکٹری مالک نے کہا کہ وہ اس دوران دوبار لاہور جاکر میرے باس سے ملا ہے اور باس نے انھیں بہت قابل اور اچھا انسان پایا ہے۔ کاروبار تو ہوتا رہے گا میرا دل نہیں چاہتا کہ میں آپ کے باس سے ڈائننگ ٹیبل کی قیمت وصول کروں۔ پوچھنے پر میرے باس نے اختلاف کیا اور کہا کہ وہ اس کی قیمت ہر صورت ادا کریں گے۔ لیکن فیکٹری کے مالک جو میری ساہیوال تعیناتی کے دوران قریبی دوست بن گئے تھے انھوں نے ڈائننگ ٹیبل کی قیمت وصول کرنے سے صاف انکار کردیا۔
میرے باس پنجاب میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے اور ایک بار ان کی تعیناتی بطور چیف سیکریٹری سندھ حکومت رہی وہ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی رہے تھے اور بھٹو صاحب کے پہلے جلسۂ عام میں جو ریس کورس راولپنڈی میں ہوا اس کے انچارج بھی رہے تھے اس لیے بھٹو صاحب ان پر خاص شفقت کرتے تھے۔
میرے ساتھ بھی باس کے تعلقات ہمیشہ بہت اچھے رہے۔ وقت بدلتا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کا سانحہ بھی ہوگیا۔ بھٹو صاحب کی نعش کو ان کے آبائی گاؤں ہوائی جہاز پر لے جانے کے لیے بھی اتفاق سے میرا قریبی دوست گروپ کیپٹن طاہر تعینات ہوا۔ میرا باس گولف کے کھیل کا شوقین تھا جب کہ میں بھی باقاعدہ گولف پلیئر ہوں۔
ایک روز جب کہ میں گولف کھیلنے کے لیے پہنچا تو میرا باس جو اعلیٰ ترین عہدوں پر رہ چکا تھا نہایت غصے میں تھا کہ اس سے اگلے گولف فلائیٹ والوں نے، جب کہ باس اکیلا کھیلنا چاہ رہا تھا، مڑ کر اس پر آوازے کسے تھے، باس نے مجھے روکا اور کہا کہ وہ آگے جانے والے پلیئرز کی واپسی کا انتظار کریں گے اور ان کی اچھی طرح خبرلیں گے۔ انھوں نے مجھے اپنے ساتھ میچ پر چائے پینے کے لیے روک لیا میں نے باس کو بتایا کہ اگر آگے جانے والے گولف پلیئرز چار ہوں تو ان کے پیچھے اکیلا پلیئر اصولاً نہیں جاسکتا، اس لیے وہ غصہ تھوک دیں۔ لیکن ایک سے ایک بڑے مرتبے پر تعینات رہنے والا باس ان پلیئرز کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جب بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو میرا باس ان کا پرنسپل سیکریٹری تعینات ہوگیا۔ اس عہدے پر رہنے والا افسر ملک کا سب سے بڑا بیوروکریٹ ہوتا ہے۔ اس حیثیت میں کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے باس کے سامنے اونچی آواز سے بھی بول سکتا، اختلاف کرنا تو دور کی بات ہے۔ میرے باس کی بیٹی کی شادی کی تقریب تھی، میں اور میری بیگم بھی مدعو تھے۔ باس کے گھر کے صحن میں صرف ایک تین سیٹ والا صوفہ تھا درمیان میں بینظیر بھٹو اور ان کے دائیں بائیں دولہا، دلہن بیٹھے تھے۔
دیگر معزز مہمان صوفے کے پیچھے کھڑے ہوکر تصاویر بنوا رہے تھے۔ ایک گروپ تصویر بنوا چکتا تو دوسرا گروپ ان کی جگہ لے لیتا۔ اس رات ہمیں رات کا کھانا اپنے دوست پرویز بھنڈارا کے گھر کھانا تھا لہٰذا میری کوشش تھی کہ میں باس سے سلام کرنے کے بعد لفافہ ان کو تھماؤں اور بیگم کے ساتھ وہاں سے نکل جاؤں۔ بینظیر کی وجہ سے باس کے پاس کسی سے بات کرنے کی ایک سیکنڈ کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ میں نے لفافہ پکڑانے کے ساتھ بات کرنا چاہی تو باس نے انگریزی میں کہا I will talk to you tomorrow۔
بینظیر کے قتل کے بعد حکومت ہوتی ہواتی شریف برادران کے قبضہ میں آگئی اس کے ساتھ ہی میرے باس کا زوال شروع ہوگیا اور مختلف ایجنسیز ان کو گرفت میں لینے کی کوشش کرنے لگیں۔ ان پر متعدد مقدمات بنائے گئے۔ پھر وہ وقت آگیا کہ میرا باس کل وقتی اپنے بچاؤ کی تدبیروں میں الجھ گیا۔ میرے باس کو ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے دوسری دہائی شروع ہوچکی ہے، وہ بیمار ہوگیا، مفلوج ہوگیا، چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا، یادداشت کھو بیٹھا اور ایک چلتی پھرتی ویل چیئر پر رکھی لاش بن گیا۔ ابھی چند روز پہلے اسے ایک عدالت میں اس کا بیٹا ویل چیئر پر پیش کرنے کے لیے لایا تو اس کی حالت دیکھ کر جج بھی پریشان ہوگیا۔
باس کے ساتھ میری آخری ملاقات شاید اس وقت ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ گلبرگ کی جس کوٹھی میں سابق مرحوم گورنر سلمان تاثیر کا دفتر ہے وہ میرے باس کی ملکیت ہے۔گلبرگ لاہور میں پہلا شاندار ڈیپارٹمنٹل اسٹور کھلا۔ معلوم ہوا کہ عمران خان نے اس کے شیئر خریدے ہیں۔ دیکھا دیکھی میں نے بھی اس میں معمولی رقم کے شیئر لے لیے۔ کئی سال گزرگئے کوئی منافع نہ ملا تو میں نے باس کو شیئرز کے کاغذات دے کر کہا کہ اس اسٹور کے موجودہ مالک سے میرے شیئرز کی رقم واپس دلوا دیں۔ چند روز بعد باس میرے گھر تشریف لائے اور کہا سلمان تاثیر نے انکار کردیا ہے۔
میرے یہ باس ڈپٹی کمشنر، کمشنر، سیکریٹری، چیف سیکریٹری، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری رہے۔ اب گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوچلا نہ معلوم کس کردہ یا نہ کردہ جرم یا گناہ کی پکڑ میں ہیں۔ اگلے دن وہیل چیئر پر ایک عدالت میں لائے دیکھے گئے۔ انھیں دیکھا تو زمین آسمان کے قلابے ملاتے شیروں کی طرح دھاڑتے بے شمار انسان یاد آئے اور پھر باس کی یاد آئی تو مجھے دو دن تک نیند نہ آئی۔