مقدس گائے وہ بھی نوکدار سینگوں والی
ہم شرط لگا کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بہتر بھان متی کا کنبہ آپ بالکل بھی نہیں بنا سکتے۔
ہمارا ایک دوست ہے یہ اس کا کہنا ہے ورنہ ہمیں بالکل بھی پتہ نہیں کہ وہ سنگل یعنی صرف دوست ہے یا ٹو ان ون یعنی دوست کے اندر دشمن اور دشمن کے گرد دوست ہے۔ یہ پتہ ہمیں آج تک نہیں تھا لیکن آج ہو گیا ہے اسی کے ایک مشورے نے ہی اس کے سارے دوستی کے پتے جھڑ دیے اور اندر سے صاف اور شفاف دشمن نکل آیا ۔
وہ اکثر ٹیلیفون پر ہمارے اوپر احسان لادتا ہے اور اس کے مطابق صرف ہمارا کالم پڑھنے کے لیے وہ اخبار خریدتا ہے ورنہ پڑھنے پڑھانے بلکہ ہر سفید کاغذ کے اوپر سے سیاہ حروف سے اسے دشمنی ہے ۔ لیکن صرف ہمارا کالم پڑھنے کے لیے ان پڑھ سے پڑھا ہو گیا ہے۔ اس احسان عظیم کو ہمارے اوپر لاد کر اور پھر اس کے اوپر بیٹھ کر اپنے مشوروں کی گٹھٹری کھول دیتا ہے اور ہمیں مفت اور رہنمایانہ مشورے رسید کرنا شروع کر دیتا ہے۔
آج تک تو وہ یونہی عام سے مشورے دیا کرتا تھا جن پر ہم آدھا ادھورا عمل بھی کر ڈالتے تھے لیکن آج اس نے جو مشورہ دیا اس سے صاف بھی صاف ہو گیا ہے کہ وہ '' ٹو ان ون '' بلکہ '' ون ان ٹو '' ہے اور ہم مرشد کو پکارنے لگے کہ ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن سیاستدان کیوں ہو ؟ ۔بے شک ہم '' ہیں '' لیکن اتنے بھی نہیں ہیں کہ کلہاڑی پر اپنا سر دے ماریں یا زنبوروں کے چھتے کو پتھر ماریں یا کسی بچھو کی دم پر ہاتھ رکھ دیں ۔ کسی گھوڑے کے پیچھے گزریں یا زور آور کے آگے راستہ کراس کریں۔
اس نے ہمیں ایک ایسی مقدس گائے کو چھیڑنے کا مشورہ دیا ہے جس کا آج کل بول بھی بالا ہے، بڑے نوکدار سینگ بھی ہیں اس کے اور اپنی دو پچھلی ٹانگوں کا بے تحاشا استعمال بھی کرتی ہے اور اپنی توہین کے بارے میں تو اتنی حساس ہے کہ کہیں بھی کسی کو چھپنے نہ دے جب تک اس نے اپنے دونوں بلکہ چاروں آلات ضرر کا استعمال نہ کیا ہو ۔
اس نے جال تو بڑا رنگین اور ہمرنگ زمین بچھایا تھا اور ہمیں اس '' دانے '' کا لالچ دیا تھا کہ باقی کے سارے کالم نگار دانا انشور بن کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور تم وہی دیسی اور لوکل راگ گا رہے ہو ۔ اس گائے کو ذرا چھیڑو تو تمہارا شمار بھی ان میں ہو جائے گا اتنے مشہور ہو جاؤ گے کہ ۔ پھر اس نے ہمیں سعودی عرب میں ہونے والا ایک واقعہ بتایا جس میں کچھ لال ٹوپی اور کمر پر لال لال لکیروں کا بھی ذکر تھا ۔
لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری '' بزدلی '' نے ہمیں بچا لیا ورنہ وہ تو ہماری درگت بنوانے کا پورا پورا بندوبست کیے ہوئے تھا
چلو اچھا ہوا کام آگئی یہ بزدلی اپنی
وگر نہ ہم کمر اپنی کو سینکوانے کہاں جاتے
ہم ابھی سوچ رہے ہیں کہ اس گندم نما جو فروش یا دوست نما دشمن فروش کے ساتھ کیا کریں گے، شاید وہی کریں جو ہم نے ایسے بہت ساروں کے ساتھ کیا ہے یعنی اس کے نام کو زمین پر لکھ کر سو جو تے ماریں گے، البتہ ہم نے فوری طور پر شکرانے کا ایک کالم لکھنے کا فیصلہ کر لیا کہ رسیدہ بود بلائے بلکہ '' گائے '' ولے بخیر گذشت ورنہ آج آپ ہمارے اس کالم کی جگہ ہماری خبر یا تصویر پڑھ رہے ہوتے اور تصویر میں ہمارے دائیں بائیں کچھ ناپسندیدہ عناصر ہوتے ۔
شکرانے کے کالم کے لیے موضوع ہم نے یہ چنا ہے کہ آئندہ ہفتے میں ایک دوبار کسی نہ کسی کہاوت یا محاورے کا وہی حشر کریں گے جو اگر ہم اس گائے کو چھیڑتے تو ہمارا بھی ہوتا ۔
آج جس کہاوت کی باری ہے اس کا استعمال تو اخبارات وغیرہ میں بیانیہ اور جنسی ہراسگی سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن اصل معانی و مفاہم بہ تکم لوگ جانتے ہوں گے اور اگر ہوں گے تو غلط جانتے ہوں گے یہ کہاوت کسی '' بھان متی '' نام کے شخص سے متعلق ہے جس نے کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑہ لے کر '' کنبہ '' جوڑا تھا، اپنے خیال کو روکیے کہیں منہ اٹھا کر بنی گالہ کی طرف نہ چل پڑے ۔ جو آج کل مرجع خلائی '' ہے ۔ بلکہ مرجع '' لوٹائق '' و گھوڑائق '' ہے ۔
پہلے تو ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ مسمی '' بھان متی'' تھا کون ؟ کیا بیچتا تھا کیا خریدتا تھا اور کیا چراتا تھا ۔ اورآخر اسے پڑی کیا تھی کس بھینسے نے اس کے پاؤں پر پاؤں رکھا تھا کہ کنبے جوڑتا تھا کیونکہ ہم نے تو جہاں تک سنا ہے کنبے جوڑے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں ۔
کیا وہ کوئی ٹھیکیدار +لیڈر تھا کہ کنبے جوڑ جوڑ کر اپنا ووٹ بینک بنا رہا تھا ہم نے بہت کوشش کی، اپنے ٹٹوئے تحقیق کو سانس سانس کر دیا لیکن کچھ پتہ نہیں کہ یہ مسٹر بھان متی کون تھا، کیا تھا اور کیوں تھا ؟ یہاں تک کہ ووٹرز لسٹوں میں بھی ہم نے یہ نام تلاش کروایا اور یہ بڑا آسان تھا ۔ ہم نے صرف چند پارٹیوں کے ممتاز لیڈروں کو یہ نام دیا کہ اس شخص کو تلاش کرو جو کم از کم پندرہ ووٹرز کنبے کا سربراہ ہے۔ سب نے اپنے منشی لگا دیے لیکن کسی بھی لسٹ میں اس کم بخت بلکہ بے ووٹ بھان متی کا اندراج نہیں تھا۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم ایک جانے مانے پہچانے دانا دانشور سے رجوع کریں جو نہ صرف بہت ہی سرد و گرم کشیدہ ہے بلکہ نہایت پوشیدہ اور پیچیدہ بھی ہے لیکن اس بات پر رنجیدہ ہے کہ سارے حکمرانان وقت نے اس کی دانائی سے فائدہ تو اٹھایا ہے لیکن پھر اسے انگوٹھا دکھایا ہے۔ اس کے پاس باقاعدہ گواہ موجود ہیں کہ ایوب خان کو بنیادی جمہوریت، بھٹو کو خانہ زاری و زرداری جمہوریت کے آئیڈیاز اس نے دیے تھے ،جس کی شہادت اُس کا ملازم خاص دیتا ہے جس کے سارے پرزے سوائے '' ہارن '' کے جام ہو چکے ہیں ۔
لیکن یہاں بھی ہماری دال نہیں گلی بلکہ اس نے پرانے ' 'پکاؤ '' نے بھی وہی راستہ سجھایا جو پہلے والے '' ٹو ان ون '' نے بتایا تھا یعنی ہم مرے گائے سے اور یہاں پھر وہی گائے ۔ بولا ، اس '' بھان متی '' کے نام ہی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی بچھڑا یا بیل تھا کیوں کہ اس کے نام میں '' بھاں '' ہے جسے تکرار کے ذریعے باقاعدہ گائے کی آواز میں بدلا جا سکتا ہے اور '' متی '' تو ہوتی ہی مونث ہے جیسے بھاگ متی روپ متی دھوپ متی وغیرہ ۔ اس لحاظ سے یہ بھان متی بھی شاید '' بھان متی '' یعنی گائے ہے اورجب کہاوت میں آئی ہے اور پورا کنبہ بھی اس کے ساتھ ہے تو یقیناً مقدس ، پوتر اور پوجئے بھی ہوگی ۔ مطلب یہ کہ وہ کنبہ جو اینٹ روڑے سے جوڑا ہوا ہے وہ کنبہ بھی مقدس ہوا ہے۔ ان تمام شواہد و دلائل اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تم بھاں بلکہ بھاں متی کو مقدس گائے متعین کردو ۔
گویا جو '' دال '' کے ہاتھوں تھانے پہنچا اسے وہاں بھی دال ہی ملی چنانچہ ہم نے اس دانا دانشور کی رائے کو بھی گھر کے باہر کوڑے دان میں رسید کیا ۔ اور خود ہی بھان متی کا کنبہ ڈھونڈنے میں لگ گئے اور بزرگوں کی بات سچ ہوئی جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو پاتا ہے وہ کھاتا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک ایسا گھر یا کنبہ ہے جہاں کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا اور دوسروں کے کام میں دن بھر لگا رہتا ہے اور اس کا کوئی وقت یا ٹائم ٹیبل بھی نہیں ہے مثلاً باورچی، باورچی نے ہنڈیا چڑھائی ہوئی ہے اچانک وہ ڈوئی پھینک کر باہر جاتا ہے اور مالی کے ہاتھ سے کھرپی لے کر پودوں کی گوڈی کرنے لگتا ہے۔ مالی کچھ کہے بغیر کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھان متی کے کنبے کا دستور ہے وہ جاکر گاڑی میں بیٹھے ہوئے ڈرائیور سے ٹوپی وردی اور چابی لے کر گاڑی چلانے لگتا ہے۔
ڈرائیور خاموشی سے جاکر دروازے پر کھڑے ہوئے دربان سے اس کی بندوق اور وردی لے کر پہرہ دینے لگتا ہے۔ دربان یا چوکیدار جاکر گھر کے مالک کے کپڑے پہنتا ہے اور صوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگتا ہے۔ مالک اخبار اور صوفہ چھوڑ کر باورچی خانے میں جاتا ہے اور ہانڈی میں چمچہ ہلانے لگتا ہے۔ گھر کی ملازمہ یہ دیکھ کر فوراً آتی ہے اور مالک کے ہاتھ سے چمچہ لے کر بوٹیاں نکالتی ہے پلیٹ میں ڈال کر کھاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہانڈی میں نمک مرچ وغیرہ بھی ڈالتی جاتی ہے۔ مالک کچھ کہے سنے بغیر جاکر گھر کی صفائی کرنے میں لگ جاتا ہے، گھر کا سپر وائزر اسے ایک کاغذ دے کر دوڑاتا ہے کہ جلدی سے یہ سامان لے کر آؤ، یہ سپر وائزر بھی اصل میں وہ باورچی ہے جس نے مالی سے کھرپا لے کر گوڈی شروع کی تھی ۔
ہم شرط لگا کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بہتر بھان متی کا کنبہ آپ بالکل بھی نہیں بنا سکتے۔ کیا ؟ پھر سے کہئے کیا ؟ آپ نے پہلے ہی سے ایسا کنبہ جوڑ رکھا ہے جو ستر سال سے اپنے اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام میں لگا ہوا ہے، کمال ہے ہمارا آئیڈیا ستر سال پہلے چوری ہو گیا تھا ۔
وہ اکثر ٹیلیفون پر ہمارے اوپر احسان لادتا ہے اور اس کے مطابق صرف ہمارا کالم پڑھنے کے لیے وہ اخبار خریدتا ہے ورنہ پڑھنے پڑھانے بلکہ ہر سفید کاغذ کے اوپر سے سیاہ حروف سے اسے دشمنی ہے ۔ لیکن صرف ہمارا کالم پڑھنے کے لیے ان پڑھ سے پڑھا ہو گیا ہے۔ اس احسان عظیم کو ہمارے اوپر لاد کر اور پھر اس کے اوپر بیٹھ کر اپنے مشوروں کی گٹھٹری کھول دیتا ہے اور ہمیں مفت اور رہنمایانہ مشورے رسید کرنا شروع کر دیتا ہے۔
آج تک تو وہ یونہی عام سے مشورے دیا کرتا تھا جن پر ہم آدھا ادھورا عمل بھی کر ڈالتے تھے لیکن آج اس نے جو مشورہ دیا اس سے صاف بھی صاف ہو گیا ہے کہ وہ '' ٹو ان ون '' بلکہ '' ون ان ٹو '' ہے اور ہم مرشد کو پکارنے لگے کہ ہوئے تم دوست جس کے اس کا دشمن سیاستدان کیوں ہو ؟ ۔بے شک ہم '' ہیں '' لیکن اتنے بھی نہیں ہیں کہ کلہاڑی پر اپنا سر دے ماریں یا زنبوروں کے چھتے کو پتھر ماریں یا کسی بچھو کی دم پر ہاتھ رکھ دیں ۔ کسی گھوڑے کے پیچھے گزریں یا زور آور کے آگے راستہ کراس کریں۔
اس نے ہمیں ایک ایسی مقدس گائے کو چھیڑنے کا مشورہ دیا ہے جس کا آج کل بول بھی بالا ہے، بڑے نوکدار سینگ بھی ہیں اس کے اور اپنی دو پچھلی ٹانگوں کا بے تحاشا استعمال بھی کرتی ہے اور اپنی توہین کے بارے میں تو اتنی حساس ہے کہ کہیں بھی کسی کو چھپنے نہ دے جب تک اس نے اپنے دونوں بلکہ چاروں آلات ضرر کا استعمال نہ کیا ہو ۔
اس نے جال تو بڑا رنگین اور ہمرنگ زمین بچھایا تھا اور ہمیں اس '' دانے '' کا لالچ دیا تھا کہ باقی کے سارے کالم نگار دانا انشور بن کر کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور تم وہی دیسی اور لوکل راگ گا رہے ہو ۔ اس گائے کو ذرا چھیڑو تو تمہارا شمار بھی ان میں ہو جائے گا اتنے مشہور ہو جاؤ گے کہ ۔ پھر اس نے ہمیں سعودی عرب میں ہونے والا ایک واقعہ بتایا جس میں کچھ لال ٹوپی اور کمر پر لال لال لکیروں کا بھی ذکر تھا ۔
لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری '' بزدلی '' نے ہمیں بچا لیا ورنہ وہ تو ہماری درگت بنوانے کا پورا پورا بندوبست کیے ہوئے تھا
چلو اچھا ہوا کام آگئی یہ بزدلی اپنی
وگر نہ ہم کمر اپنی کو سینکوانے کہاں جاتے
ہم ابھی سوچ رہے ہیں کہ اس گندم نما جو فروش یا دوست نما دشمن فروش کے ساتھ کیا کریں گے، شاید وہی کریں جو ہم نے ایسے بہت ساروں کے ساتھ کیا ہے یعنی اس کے نام کو زمین پر لکھ کر سو جو تے ماریں گے، البتہ ہم نے فوری طور پر شکرانے کا ایک کالم لکھنے کا فیصلہ کر لیا کہ رسیدہ بود بلائے بلکہ '' گائے '' ولے بخیر گذشت ورنہ آج آپ ہمارے اس کالم کی جگہ ہماری خبر یا تصویر پڑھ رہے ہوتے اور تصویر میں ہمارے دائیں بائیں کچھ ناپسندیدہ عناصر ہوتے ۔
شکرانے کے کالم کے لیے موضوع ہم نے یہ چنا ہے کہ آئندہ ہفتے میں ایک دوبار کسی نہ کسی کہاوت یا محاورے کا وہی حشر کریں گے جو اگر ہم اس گائے کو چھیڑتے تو ہمارا بھی ہوتا ۔
آج جس کہاوت کی باری ہے اس کا استعمال تو اخبارات وغیرہ میں بیانیہ اور جنسی ہراسگی سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن اصل معانی و مفاہم بہ تکم لوگ جانتے ہوں گے اور اگر ہوں گے تو غلط جانتے ہوں گے یہ کہاوت کسی '' بھان متی '' نام کے شخص سے متعلق ہے جس نے کہیں سے اینٹ اور کہیں سے روڑہ لے کر '' کنبہ '' جوڑا تھا، اپنے خیال کو روکیے کہیں منہ اٹھا کر بنی گالہ کی طرف نہ چل پڑے ۔ جو آج کل مرجع خلائی '' ہے ۔ بلکہ مرجع '' لوٹائق '' و گھوڑائق '' ہے ۔
پہلے تو ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ مسمی '' بھان متی'' تھا کون ؟ کیا بیچتا تھا کیا خریدتا تھا اور کیا چراتا تھا ۔ اورآخر اسے پڑی کیا تھی کس بھینسے نے اس کے پاؤں پر پاؤں رکھا تھا کہ کنبے جوڑتا تھا کیونکہ ہم نے تو جہاں تک سنا ہے کنبے جوڑے نہیں جاتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں ۔
کیا وہ کوئی ٹھیکیدار +لیڈر تھا کہ کنبے جوڑ جوڑ کر اپنا ووٹ بینک بنا رہا تھا ہم نے بہت کوشش کی، اپنے ٹٹوئے تحقیق کو سانس سانس کر دیا لیکن کچھ پتہ نہیں کہ یہ مسٹر بھان متی کون تھا، کیا تھا اور کیوں تھا ؟ یہاں تک کہ ووٹرز لسٹوں میں بھی ہم نے یہ نام تلاش کروایا اور یہ بڑا آسان تھا ۔ ہم نے صرف چند پارٹیوں کے ممتاز لیڈروں کو یہ نام دیا کہ اس شخص کو تلاش کرو جو کم از کم پندرہ ووٹرز کنبے کا سربراہ ہے۔ سب نے اپنے منشی لگا دیے لیکن کسی بھی لسٹ میں اس کم بخت بلکہ بے ووٹ بھان متی کا اندراج نہیں تھا۔
اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ہم ایک جانے مانے پہچانے دانا دانشور سے رجوع کریں جو نہ صرف بہت ہی سرد و گرم کشیدہ ہے بلکہ نہایت پوشیدہ اور پیچیدہ بھی ہے لیکن اس بات پر رنجیدہ ہے کہ سارے حکمرانان وقت نے اس کی دانائی سے فائدہ تو اٹھایا ہے لیکن پھر اسے انگوٹھا دکھایا ہے۔ اس کے پاس باقاعدہ گواہ موجود ہیں کہ ایوب خان کو بنیادی جمہوریت، بھٹو کو خانہ زاری و زرداری جمہوریت کے آئیڈیاز اس نے دیے تھے ،جس کی شہادت اُس کا ملازم خاص دیتا ہے جس کے سارے پرزے سوائے '' ہارن '' کے جام ہو چکے ہیں ۔
لیکن یہاں بھی ہماری دال نہیں گلی بلکہ اس نے پرانے ' 'پکاؤ '' نے بھی وہی راستہ سجھایا جو پہلے والے '' ٹو ان ون '' نے بتایا تھا یعنی ہم مرے گائے سے اور یہاں پھر وہی گائے ۔ بولا ، اس '' بھان متی '' کے نام ہی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی بچھڑا یا بیل تھا کیوں کہ اس کے نام میں '' بھاں '' ہے جسے تکرار کے ذریعے باقاعدہ گائے کی آواز میں بدلا جا سکتا ہے اور '' متی '' تو ہوتی ہی مونث ہے جیسے بھاگ متی روپ متی دھوپ متی وغیرہ ۔ اس لحاظ سے یہ بھان متی بھی شاید '' بھان متی '' یعنی گائے ہے اورجب کہاوت میں آئی ہے اور پورا کنبہ بھی اس کے ساتھ ہے تو یقیناً مقدس ، پوتر اور پوجئے بھی ہوگی ۔ مطلب یہ کہ وہ کنبہ جو اینٹ روڑے سے جوڑا ہوا ہے وہ کنبہ بھی مقدس ہوا ہے۔ ان تمام شواہد و دلائل اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تم بھاں بلکہ بھاں متی کو مقدس گائے متعین کردو ۔
گویا جو '' دال '' کے ہاتھوں تھانے پہنچا اسے وہاں بھی دال ہی ملی چنانچہ ہم نے اس دانا دانشور کی رائے کو بھی گھر کے باہر کوڑے دان میں رسید کیا ۔ اور خود ہی بھان متی کا کنبہ ڈھونڈنے میں لگ گئے اور بزرگوں کی بات سچ ہوئی جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو پاتا ہے وہ کھاتا ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ ایک ایسا گھر یا کنبہ ہے جہاں کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا اور دوسروں کے کام میں دن بھر لگا رہتا ہے اور اس کا کوئی وقت یا ٹائم ٹیبل بھی نہیں ہے مثلاً باورچی، باورچی نے ہنڈیا چڑھائی ہوئی ہے اچانک وہ ڈوئی پھینک کر باہر جاتا ہے اور مالی کے ہاتھ سے کھرپی لے کر پودوں کی گوڈی کرنے لگتا ہے۔ مالی کچھ کہے بغیر کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھان متی کے کنبے کا دستور ہے وہ جاکر گاڑی میں بیٹھے ہوئے ڈرائیور سے ٹوپی وردی اور چابی لے کر گاڑی چلانے لگتا ہے۔
ڈرائیور خاموشی سے جاکر دروازے پر کھڑے ہوئے دربان سے اس کی بندوق اور وردی لے کر پہرہ دینے لگتا ہے۔ دربان یا چوکیدار جاکر گھر کے مالک کے کپڑے پہنتا ہے اور صوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگتا ہے۔ مالک اخبار اور صوفہ چھوڑ کر باورچی خانے میں جاتا ہے اور ہانڈی میں چمچہ ہلانے لگتا ہے۔ گھر کی ملازمہ یہ دیکھ کر فوراً آتی ہے اور مالک کے ہاتھ سے چمچہ لے کر بوٹیاں نکالتی ہے پلیٹ میں ڈال کر کھاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہانڈی میں نمک مرچ وغیرہ بھی ڈالتی جاتی ہے۔ مالک کچھ کہے سنے بغیر جاکر گھر کی صفائی کرنے میں لگ جاتا ہے، گھر کا سپر وائزر اسے ایک کاغذ دے کر دوڑاتا ہے کہ جلدی سے یہ سامان لے کر آؤ، یہ سپر وائزر بھی اصل میں وہ باورچی ہے جس نے مالی سے کھرپا لے کر گوڈی شروع کی تھی ۔
ہم شرط لگا کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بہتر بھان متی کا کنبہ آپ بالکل بھی نہیں بنا سکتے۔ کیا ؟ پھر سے کہئے کیا ؟ آپ نے پہلے ہی سے ایسا کنبہ جوڑ رکھا ہے جو ستر سال سے اپنے اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام میں لگا ہوا ہے، کمال ہے ہمارا آئیڈیا ستر سال پہلے چوری ہو گیا تھا ۔