کوئی کسی کو یہ کیسے بتائے
ہمارے حاکموں کو آزادی کے حوالے سے یہ نظم اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے فیضؔ صاحب کو نظر میں رکھ لیا۔
پاکستان وجود میں آیا اور اس کے ساتھ ہی ہمارے حاکموں نے احکامات جاری کرنے شروع کردیے۔ یہ حکم نامے جمہوریت کے تحفظ اور عوام کے حقوق کی سربلندی کے لیے نہیں تھے۔ یہ حکم نامے نوآبادیاتی حکومت کے احکامات کا تسلسل تھے۔ ملک کا نام نیا تھا، یونین جیک کے بجائے پاکستانی پرچم لہراتا تھا، 1935ء کے ایکٹ کے تحت پاکستانیوں کی زندگیوں کا حساب کتاب ہوتا تھا۔
یہ ملک جسے جمہور کے ووٹوں سے جمہوری خطوط پر ترقی اور خوش حالی کے سفر کی خاطر بنایا گیا تھا، افسوس کہ اس کی نیو کی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی۔ میرا اشارہ جناح صاحب کی تقریر کو حذف کرنے یا مکمل طور پر سنسر کرنے کی کوششوں کی طرف ہے۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور صرف 7 دن بعد صوبہ سرحد (آج کے خیبرپختونخوا) کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔
ڈاکٹر خان صاحب کانگریسی رہنما تھے، وہ ریفرنڈم میں جیت کر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بنے تھے لیکن ان کی کانگریسی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے خان عبدالقیوم خان کو صوبہ سرحد کا نیا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا، یوں پاکستان نے الٹے قدموں جمہوریت سے دوری کا سفر اختیار کیا۔
یہ بات بھی بار بار کہی گئی تھی کہ پاکستان میں آزادیٔ تحریر و تقریر کی حفاظت کی جائے گی۔ تاہم نومبر 1947ء میں لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ سفیر کو اپنے اجرا کے بعد اپنی جرأت اظہار کی بناء پر بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی بندش کا حکم نامہ اس وقت جاری کیا گیا جب ابھی پاکستان کے قیام کو 6 مہینے بھی نہیں گزرے تھے۔
ہمارے مقتدرین کو ادب کی سربلندی اور آزادیٔ تحریر کے نام سے چھینک آتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی جریدے 'سویرا' کی اشاعت پر قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک حکم نامے کے ذریعے پابندی عائد کی گئی جس کا خاتمہ پانچ مہینوں بعد دسمبر 1947ء میں ہوا۔ 'سویرا' کی خطا یہ تھی کہ اس نے آزادی کے حوالے سے فیضؔ صاحب کی نظم ''سحر'' شائع کردی تھی۔ اس نظم میں فیض احمد فیضؔ نے اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا تھا کہ: یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سَحر/ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں اور اس نظم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ: نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی/ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔
ہمارے حاکموں کو آزادی کے حوالے سے یہ نظم اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے فیضؔ صاحب کو نظر میں رکھ لیا اور جیسے ہی موقع ملا ان لوگوں نے فیضؔ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو 'غدار' قرار دے کر پنڈی سازش کیس میں دھر لیا۔ برسوں قید و بند کی مشکلات کاٹنے کے بعد فیضؔ صاحب اور دوسرے ادیب اور شاعر رہا کیے گئے تو نہ انھیں 'غدار' ثابت کیا جاسکا اور نہ ان پر کسی 'سازش' کا شائبہ بھی مل سکا۔
ہمارے مقتدر طبقات نے نہ پاکستان کے آئین کی تیاری میں کوئی دلچسپی لی، نہ انھیں اس سے کوئی غرض تھی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلے کس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جس سے پریشان ہوکر بیگم شائستہ اکرام اﷲ نے احتجاج کے طور پر آئین ساز اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا اور پھر کبھی پلٹ کر سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا۔ یہ ہمارے بالادست افراد اور ادارے تھے جنھوں نے جنرل ایوب خان کے اقتدار کی راہیں ہموار کیں۔
ایک مجہول اور نااہل گورنر جنرل غلام محمد کو قابل اور اہل سیاستدانوں پر ایک عذاب کی طرح مسلط رکھا۔ یہ بھی ان ہی کے احکام اور فرامین تھے جن کی چھترچھایا میں جنرل ایوب قدم بہ قدم اقتدار پر ناجائز قبضے کی راہ پر آگے بڑھے اور انھوں نے اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں آمریت اور مطلق العنانیت کی اس اندھی گلی کی طرف لے گئی جس سے شدید خواہش اور کوششوں کے باوجود آج تک ہم نجات حاصل نہ کرسکے ہیں۔ ہمارے مختار مطلق ان حکم ناموں کے پلندوں کو وقت کی دیمک چاٹ رہی ہے لیکن جن کی اثرپذیری میں آج بھی کمی نہ آئی۔ آج ایک برطرف شدہ وزیراعظم کو وطن واپسی سے باز رکھنے کے لیے وہ تمام تدابیر ہورہی ہیں جیسے غیر ملکی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے۔
ہمارے مقتدرین نے روزانہ وہ حکم نامے جاری کیے، ان فرامین کا اجرا ہوا جو پاکستان کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے۔ آئین، قانون سب ہی ان مقتدرین کے لیے پرکاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ملک دو ٹکڑے ہوا، اس کے بعد بھی مطلق العنانیت کا پرچم بلند رکھنے والوں کو چین نہیں آیا۔ ایک کے بعد ایک آمر آتا رہا اور عوامی آرزوؤں اور امنگوں کو روندتا رہا۔ 2008ء سے لوگوں کو امید ہوچلی تھی کہ جمہوریت کا سفر اب نہیں رکے گا، لیکن ہمارے نصیب ایسے کہاں۔ اس موقع پر دو شاعر یاد آتے ہیں جن میں سے ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی ہے۔ یہ احمدفرازؔ تھے جن کے قلم سے 'محاصرہ' ایسی معرکہ آرا نظم نکلی:
''مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا/ جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے/ مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا/ جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے/ مرا قلم نہیں اس نقب زن کا دستِ ہوس/ جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے/ مرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق/ جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے/ مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی/ جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے/ مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا/ جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے/ مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے/ اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاںسے لکھا/ جبھی تو لوچ کماںکا، زبان تیر کی ہے/ میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے/ کہ سیہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا/ تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم/ مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا''
دوسری نظم سرحد پار سے آئی ہے۔ وہاں بھی لکھنے والے اور حساس دل رکھنے والے مقتدرین کے حکم ناموں کو پڑھ کر برانگیختہ ہیں اور 'نیا حکم نامہ' کو رد کرتے ہوئے شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر دو ٹوک یہ کہتے ہیں:
''کسی کا حکم ہے /ساری ہوائیں/ ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں/ کہ ان کی سمت کیا ہے/ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا/ چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی/ کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے/ ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں/ حفاظت کرنا ان کی ہے ضروری/ اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن/ کسی کا حکم ہے/ دریا کی لہریں/ ذرا یہ سرکشی کم کرلیں/ اپنی حد میں ٹھہریں/ ابھرنا اور بکھرنا/ غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا/ یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت/ بغاوت کی علامت/ بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی/ یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی/ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا/ تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا/ کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں/ بس اب اک رنگ کے ہی/ پھول ہوں گے/ کچھ افسر ہوں گے/ گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا/ یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے/ مگر یہ رنگ ہوگا/ کتنا گہرا، کتنا ہلکا/ یہ افسر طے کریں گے/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے/ پھول یک رنگی نہیں ہوتے/ کبھی ہو ہی نہیں سکتے/ کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر/ بہت سے رنگ رہتے ہیں، جنھوں نے باغ/ یک رنگی بنانا چاہے تھے/ ان کو ذرا دیکھو/ کب جب اک رنگ میں/ سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو/ وہ اب کتنے پریشاں ہیں/ وہ کتنے تنگ رہتے ہیں/ ہوائیں اور لہریں/ کب کسی کا حکم سنتی ہیں/ ہوائیں/ حاکموں کی مٹھیوں میں/ ہتھکڑی میں قید خانوں میں/ نہیں رکتیں/ یہ لہریں/ روکی جاتی ہیں/ تو دریا کتنا بھی ہو پرسکوں/ بیتاب ہوتا ہے/ اور اس بیتابی کا اگلا قدم/ سیلاب ہوتا ہے/ کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے؟''
حدت بھرے یہ مصرعے اس بات کا اشارہ ہیں کہ نئے حکم نامے اور نئے فرامین برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ کچھ مقتدر عناصر اگر پشاور اور دوسرے شہروں، قصبوں کو ایک بار پھر خون سے نہلا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنا جمہوری اور آئینی حق طلب کرنے والوں کے قدم روک دیے جائیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں ہے کہ جب عوام کا غصہ ان کے وجود سے چھلک کر باہر آتا ہے تو وہ تمام رکاوٹوں اور تمام حکم ناموں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ یہ سطریں جب لکھی جا رہی ہیں، اس وقت تک میاں محمد نوازشریف کا طیارہ لاہور ائیر پورٹ پراتر گیا تھا۔
اب میاں صاحب اور مریم نواز پہ کیا گزرے گی یہ پتہ نہیں، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اگر اپنے رہنماؤں کے لیے لوگوں کے دلوں کے دروازے کھل جائیں تو وہ کسی بندی خانے میں نہیں 'ہر دل' ہر گھر میں رہتے ہیں۔ ہم نے محترمہ بینظیر کی آمد کی مناظر دیکھے ہیں، وہ قتل کردی گئیں، لیکن آج بھی وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں رہتی ہیں۔ ہم سب کو تاریخ کا یہ سبق فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وقت کے دھارے کا راستہ کسی حکم نامے یا فرمان سے روکا نہیں جاسکتا۔
یہ ملک جسے جمہور کے ووٹوں سے جمہوری خطوط پر ترقی اور خوش حالی کے سفر کی خاطر بنایا گیا تھا، افسوس کہ اس کی نیو کی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی۔ میرا اشارہ جناح صاحب کی تقریر کو حذف کرنے یا مکمل طور پر سنسر کرنے کی کوششوں کی طرف ہے۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور صرف 7 دن بعد صوبہ سرحد (آج کے خیبرپختونخوا) کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا۔
ڈاکٹر خان صاحب کانگریسی رہنما تھے، وہ ریفرنڈم میں جیت کر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بنے تھے لیکن ان کی کانگریسی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے خان عبدالقیوم خان کو صوبہ سرحد کا نیا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا، یوں پاکستان نے الٹے قدموں جمہوریت سے دوری کا سفر اختیار کیا۔
یہ بات بھی بار بار کہی گئی تھی کہ پاکستان میں آزادیٔ تحریر و تقریر کی حفاظت کی جائے گی۔ تاہم نومبر 1947ء میں لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ سفیر کو اپنے اجرا کے بعد اپنی جرأت اظہار کی بناء پر بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی بندش کا حکم نامہ اس وقت جاری کیا گیا جب ابھی پاکستان کے قیام کو 6 مہینے بھی نہیں گزرے تھے۔
ہمارے مقتدرین کو ادب کی سربلندی اور آزادیٔ تحریر کے نام سے چھینک آتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی جریدے 'سویرا' کی اشاعت پر قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک حکم نامے کے ذریعے پابندی عائد کی گئی جس کا خاتمہ پانچ مہینوں بعد دسمبر 1947ء میں ہوا۔ 'سویرا' کی خطا یہ تھی کہ اس نے آزادی کے حوالے سے فیضؔ صاحب کی نظم ''سحر'' شائع کردی تھی۔ اس نظم میں فیض احمد فیضؔ نے اپنی بات کا آغاز اس طرح کیا تھا کہ: یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سَحر/ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں اور اس نظم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ: نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی/ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔
ہمارے حاکموں کو آزادی کے حوالے سے یہ نظم اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے فیضؔ صاحب کو نظر میں رکھ لیا اور جیسے ہی موقع ملا ان لوگوں نے فیضؔ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو 'غدار' قرار دے کر پنڈی سازش کیس میں دھر لیا۔ برسوں قید و بند کی مشکلات کاٹنے کے بعد فیضؔ صاحب اور دوسرے ادیب اور شاعر رہا کیے گئے تو نہ انھیں 'غدار' ثابت کیا جاسکا اور نہ ان پر کسی 'سازش' کا شائبہ بھی مل سکا۔
ہمارے مقتدر طبقات نے نہ پاکستان کے آئین کی تیاری میں کوئی دلچسپی لی، نہ انھیں اس سے کوئی غرض تھی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلے کس تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جس سے پریشان ہوکر بیگم شائستہ اکرام اﷲ نے احتجاج کے طور پر آئین ساز اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا اور پھر کبھی پلٹ کر سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا۔ یہ ہمارے بالادست افراد اور ادارے تھے جنھوں نے جنرل ایوب خان کے اقتدار کی راہیں ہموار کیں۔
ایک مجہول اور نااہل گورنر جنرل غلام محمد کو قابل اور اہل سیاستدانوں پر ایک عذاب کی طرح مسلط رکھا۔ یہ بھی ان ہی کے احکام اور فرامین تھے جن کی چھترچھایا میں جنرل ایوب قدم بہ قدم اقتدار پر ناجائز قبضے کی راہ پر آگے بڑھے اور انھوں نے اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ یہی وہ راہ ہے جو ہمیں آمریت اور مطلق العنانیت کی اس اندھی گلی کی طرف لے گئی جس سے شدید خواہش اور کوششوں کے باوجود آج تک ہم نجات حاصل نہ کرسکے ہیں۔ ہمارے مختار مطلق ان حکم ناموں کے پلندوں کو وقت کی دیمک چاٹ رہی ہے لیکن جن کی اثرپذیری میں آج بھی کمی نہ آئی۔ آج ایک برطرف شدہ وزیراعظم کو وطن واپسی سے باز رکھنے کے لیے وہ تمام تدابیر ہورہی ہیں جیسے غیر ملکی فوجوں نے حملہ کر دیا ہے۔
ہمارے مقتدرین نے روزانہ وہ حکم نامے جاری کیے، ان فرامین کا اجرا ہوا جو پاکستان کی ترقی کی راہوں میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے۔ آئین، قانون سب ہی ان مقتدرین کے لیے پرکاہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ملک دو ٹکڑے ہوا، اس کے بعد بھی مطلق العنانیت کا پرچم بلند رکھنے والوں کو چین نہیں آیا۔ ایک کے بعد ایک آمر آتا رہا اور عوامی آرزوؤں اور امنگوں کو روندتا رہا۔ 2008ء سے لوگوں کو امید ہوچلی تھی کہ جمہوریت کا سفر اب نہیں رکے گا، لیکن ہمارے نصیب ایسے کہاں۔ اس موقع پر دو شاعر یاد آتے ہیں جن میں سے ایک پاکستانی اور ایک ہندوستانی ہے۔ یہ احمدفرازؔ تھے جن کے قلم سے 'محاصرہ' ایسی معرکہ آرا نظم نکلی:
''مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا/ جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے/ مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا/ جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے/ مرا قلم نہیں اس نقب زن کا دستِ ہوس/ جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے/ مرا قلم نہیں اس دُزدِ نیم شب کا رفیق/ جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے/ مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی/ جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے/ مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا/ جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے/ مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی/ مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے/ اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاںسے لکھا/ جبھی تو لوچ کماںکا، زبان تیر کی ہے/ میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے/ کہ سیہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا/ تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم/ مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا''
دوسری نظم سرحد پار سے آئی ہے۔ وہاں بھی لکھنے والے اور حساس دل رکھنے والے مقتدرین کے حکم ناموں کو پڑھ کر برانگیختہ ہیں اور 'نیا حکم نامہ' کو رد کرتے ہوئے شاعر اور نغمہ نگار جاوید اختر دو ٹوک یہ کہتے ہیں:
''کسی کا حکم ہے /ساری ہوائیں/ ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں/ کہ ان کی سمت کیا ہے/ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا/ چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی/ کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے/ ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں/ حفاظت کرنا ان کی ہے ضروری/ اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن/ کسی کا حکم ہے/ دریا کی لہریں/ ذرا یہ سرکشی کم کرلیں/ اپنی حد میں ٹھہریں/ ابھرنا اور بکھرنا/ غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا/ یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت/ بغاوت کی علامت/ بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی/ یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی/ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا/ تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا/ کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں/ بس اب اک رنگ کے ہی/ پھول ہوں گے/ کچھ افسر ہوں گے/ گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا/ یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے/ مگر یہ رنگ ہوگا/ کتنا گہرا، کتنا ہلکا/ یہ افسر طے کریں گے/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے/ پھول یک رنگی نہیں ہوتے/ کبھی ہو ہی نہیں سکتے/ کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر/ بہت سے رنگ رہتے ہیں، جنھوں نے باغ/ یک رنگی بنانا چاہے تھے/ ان کو ذرا دیکھو/ کب جب اک رنگ میں/ سو رنگ ظاہر ہوگئے ہیں تو/ وہ اب کتنے پریشاں ہیں/ وہ کتنے تنگ رہتے ہیں/ ہوائیں اور لہریں/ کب کسی کا حکم سنتی ہیں/ ہوائیں/ حاکموں کی مٹھیوں میں/ ہتھکڑی میں قید خانوں میں/ نہیں رکتیں/ یہ لہریں/ روکی جاتی ہیں/ تو دریا کتنا بھی ہو پرسکوں/ بیتاب ہوتا ہے/ اور اس بیتابی کا اگلا قدم/ سیلاب ہوتا ہے/ کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے؟''
حدت بھرے یہ مصرعے اس بات کا اشارہ ہیں کہ نئے حکم نامے اور نئے فرامین برداشت نہیں کیے جائیں گے۔ کچھ مقتدر عناصر اگر پشاور اور دوسرے شہروں، قصبوں کو ایک بار پھر خون سے نہلا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنا جمہوری اور آئینی حق طلب کرنے والوں کے قدم روک دیے جائیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ انھیں اندازہ نہیں ہے کہ جب عوام کا غصہ ان کے وجود سے چھلک کر باہر آتا ہے تو وہ تمام رکاوٹوں اور تمام حکم ناموں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ یہ سطریں جب لکھی جا رہی ہیں، اس وقت تک میاں محمد نوازشریف کا طیارہ لاہور ائیر پورٹ پراتر گیا تھا۔
اب میاں صاحب اور مریم نواز پہ کیا گزرے گی یہ پتہ نہیں، لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اگر اپنے رہنماؤں کے لیے لوگوں کے دلوں کے دروازے کھل جائیں تو وہ کسی بندی خانے میں نہیں 'ہر دل' ہر گھر میں رہتے ہیں۔ ہم نے محترمہ بینظیر کی آمد کی مناظر دیکھے ہیں، وہ قتل کردی گئیں، لیکن آج بھی وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں رہتی ہیں۔ ہم سب کو تاریخ کا یہ سبق فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ وقت کے دھارے کا راستہ کسی حکم نامے یا فرمان سے روکا نہیں جاسکتا۔