گروپ ایڈیٹر ایکسپریس عباس اطہر کے ایصال ثواب کیلیے قل خوانی
ملک ایک نابغہ روزگار سے محروم ہو گیا، ایسے صحافی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، صدارتی ترجمان.
ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر، معروف صحافی، مقبول کالم نگار، اردو اور پنجابی کے منفرد شاعر عباس اطہر مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کیلیے قل خوانی گزشتہ روز بعد نماز عصر انکی رہائش گاہ کے سامنے عباس اطہر پارک میں ہوئی۔
جس میں ترجمان ایوان صدر فرحت اﷲ بابر، نگراں وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی، ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اعجاز الحق، ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس لاہور ایاز خان، ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری، چیف رپورٹر خالد قیوم، بیورو چیف ایکسپریس نیوز محمد الیاس، حسین نقی، آئی اے رحمٰن، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، چیئرمین ثانوی تعلیمی بورڈ لاہور نصراللہ ورک، منیر احمد خان، عزیزالرحمٰن چن، عبداﷲ ملک، دیوان غلام محی الدین، ڈاکٹر فخرالدین، میاں مصباح الرحمٰن، امجد اسلام امجد، منو بھائی، تنویر بٹ، منور انجم، زمرد نقوی، منصور سہیل، عاشق چودھری، اسلم خان، خواجہ نذیر، ڈاکٹر احسن اختر ناز سمیت تمام مکاتب فکر سے متعلقہ شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے عباس اطہر مرحوم کے بھائیوں ظفر شاہ، فضل شاہ اور صاحبزادے طارق شاہ سے اظہار تعزیت کیا۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایوان صدر کے ترجمان فرحت اﷲ بابر نے کہا ہے کہ عباس اطہر نہ صرف بلند پایہ صحافی تھے بلکہ جمہوریت اور انسانی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ انھوں نے جب بھی اپنی رائے کا اظہار کیا بلاخوف وخطر اور ڈنکے کی چوٹ پرکیا۔ انکی طرح کے صحافی اور انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، پاکستان ایک نابغۂ روزگار سے محروم ہوگیا ہے، اﷲ انکی مغفرت کرے۔ صدر آصف زرداری کو انکی وفات پر بڑا دکھ ہوا اور انہوں نے کئی افراد کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ عباس اطہر کے گھر جا کر ان کی طرف سے اظہار تعزیت کریں۔ فرحت اﷲ بابر نے کہاکہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت ترقی پسند اور لبرل عناصر کیلئے جگہ سکڑتی جا رہی ہے عباس اطہر اس جگہ کو واپس لینے کیلیے جدوجہد کر رہے تھے بلکہ اس ہراول دستے میں شامل تھے جو لبرل اور پروگریسو عناصر کی سکڑتی جگہ کو واپس انکا مقام دلانا چاہتا ہے۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عارف نظامی نے کہاکہ میرا عباس اطہر سے صحافت کے حوالے سے ذاتی تعلق تھا، ہم نے ایک عرصہ نوائے وقت میں اکٹھے گزارا، وہ کہنۂ مشق صحافی تھے، خبروں کو ڈسپلے کرنے اور سرخیاں نکالنے کے ماہر تھے، انکی ایک سرخی ''ادھرتم ادھر ہم'' تاریخ کا حصہ بن گئی۔ کالموں میں انکا نقطہء نظر لبرل ہوتا تھا جس میں تجزیہ ہوتا تھا، وہ دوستوں کے دوست اور دھڑے باز تھے، انکا سب سے بڑا اعزاز انکا کام ہے۔ سابق سیکرٹری اطلاعات منصور سہیل نے کہاکہ عباس اطہر کی وفات بڑا المیہ ہے، وہ بہت بڑی اور عہد ساز شخصیت تھے، انکے پائے کے صحافی بہت کم ملتے ہیں، سب سے بڑا پیار کرتے تھے، انکے پاس سرخیاں اور خبر نکالنے کا فن قدرتی تھا، انکی یاد کے ساتھ صحافت کے کئی باب زندہ رہیں گے۔ آئی اے رحمٰن نے کہاکہ عباس اطہر ہمارے گہرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے قابل اور اچھے آدمی تھے، وہ اصولوں پر لڑنے والے اور دھڑے باز آدمی تھے۔
جس میں ترجمان ایوان صدر فرحت اﷲ بابر، نگراں وفاقی وزیر اطلاعات عارف نظامی، ایکسپریس میڈیا گروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اعجاز الحق، ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس لاہور ایاز خان، ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری، چیف رپورٹر خالد قیوم، بیورو چیف ایکسپریس نیوز محمد الیاس، حسین نقی، آئی اے رحمٰن، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، چیئرمین ثانوی تعلیمی بورڈ لاہور نصراللہ ورک، منیر احمد خان، عزیزالرحمٰن چن، عبداﷲ ملک، دیوان غلام محی الدین، ڈاکٹر فخرالدین، میاں مصباح الرحمٰن، امجد اسلام امجد، منو بھائی، تنویر بٹ، منور انجم، زمرد نقوی، منصور سہیل، عاشق چودھری، اسلم خان، خواجہ نذیر، ڈاکٹر احسن اختر ناز سمیت تمام مکاتب فکر سے متعلقہ شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے عباس اطہر مرحوم کے بھائیوں ظفر شاہ، فضل شاہ اور صاحبزادے طارق شاہ سے اظہار تعزیت کیا۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایوان صدر کے ترجمان فرحت اﷲ بابر نے کہا ہے کہ عباس اطہر نہ صرف بلند پایہ صحافی تھے بلکہ جمہوریت اور انسانی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ انھوں نے جب بھی اپنی رائے کا اظہار کیا بلاخوف وخطر اور ڈنکے کی چوٹ پرکیا۔ انکی طرح کے صحافی اور انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں، پاکستان ایک نابغۂ روزگار سے محروم ہوگیا ہے، اﷲ انکی مغفرت کرے۔ صدر آصف زرداری کو انکی وفات پر بڑا دکھ ہوا اور انہوں نے کئی افراد کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ عباس اطہر کے گھر جا کر ان کی طرف سے اظہار تعزیت کریں۔ فرحت اﷲ بابر نے کہاکہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس وقت ترقی پسند اور لبرل عناصر کیلئے جگہ سکڑتی جا رہی ہے عباس اطہر اس جگہ کو واپس لینے کیلیے جدوجہد کر رہے تھے بلکہ اس ہراول دستے میں شامل تھے جو لبرل اور پروگریسو عناصر کی سکڑتی جگہ کو واپس انکا مقام دلانا چاہتا ہے۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عارف نظامی نے کہاکہ میرا عباس اطہر سے صحافت کے حوالے سے ذاتی تعلق تھا، ہم نے ایک عرصہ نوائے وقت میں اکٹھے گزارا، وہ کہنۂ مشق صحافی تھے، خبروں کو ڈسپلے کرنے اور سرخیاں نکالنے کے ماہر تھے، انکی ایک سرخی ''ادھرتم ادھر ہم'' تاریخ کا حصہ بن گئی۔ کالموں میں انکا نقطہء نظر لبرل ہوتا تھا جس میں تجزیہ ہوتا تھا، وہ دوستوں کے دوست اور دھڑے باز تھے، انکا سب سے بڑا اعزاز انکا کام ہے۔ سابق سیکرٹری اطلاعات منصور سہیل نے کہاکہ عباس اطہر کی وفات بڑا المیہ ہے، وہ بہت بڑی اور عہد ساز شخصیت تھے، انکے پائے کے صحافی بہت کم ملتے ہیں، سب سے بڑا پیار کرتے تھے، انکے پاس سرخیاں اور خبر نکالنے کا فن قدرتی تھا، انکی یاد کے ساتھ صحافت کے کئی باب زندہ رہیں گے۔ آئی اے رحمٰن نے کہاکہ عباس اطہر ہمارے گہرے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے قابل اور اچھے آدمی تھے، وہ اصولوں پر لڑنے والے اور دھڑے باز آدمی تھے۔