بلور جیسے چمکنے والے
وہی انقلاب جس کی دستک ہم سن رہے ہیں۔ عوام جاگیرداروں، وڈیروں کے سامنے بول رہے ہیں۔
یہ لوگ باچا خان کے پیروکار ہیں۔ باچا خان عدم تشدد کا پرچارک، ہتھیاروں کا مخالف، پیار، محبت، امن کا ''سانو'' یعنی ماننے والا، یکجہتی کا حامی، تقسیم کا مخالف، خدائی خدمت گار، رنگ، نسل، زبان، علاقہ، مذہب چھوڑ کر سارے جہان کے انسانوں سے پیار کرنے والا خان عبدالغفار خان۔
اسی غفار خان کے فلسفے کو ماننے والوں نے 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی بنائی، جس میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، خان عبدالولی خان، میر غوث بخشش بزنجو، محمود الحق عثمانی، میاں محمود علی قصوری، خیربخش مری، عبدالحمید جتوئی، اکبر خان بگٹی، پروفیسر مظفر احمد، ارباب سکندر خلیل، گل خان نصیر، عطا اللہ مینگل، عابد زبیری، قصور گردیزی، حبیب جالب ودیگر شامل تھے۔ یہ لوگ نیشنل عوامی پارٹی کے بانی ارکان تھے۔ ان کے ہم خیال اور حامیوں میں بھی بڑے بڑے معتبر لوگوں کے نام تھے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ جانوں کا نذرانہ اسی نیشنل عوامی پارٹی نے دیا ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور حکومت میں جب بلوچستان کے جمہوریت پسند، حکومت کے خلاف پہاڑوں پر تھے تو ایوبی حکومت نے حلف لے کر پہاڑوں پر موجود لوگوں کو پہاڑوں سے اترنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ ہم بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں گے اور جب ملک نوروز خان اور ساتھی پہاڑوں سے نیچے اتر آئے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور سکھر جیل میں انھیں پھانسی دے دی گئی۔
میں کراچی نیپ کی اس نشست میں شامل تھا جو میر غوث بخش بزنجو کے اعزاز میں دی گئی تھی۔ اس نشست میں میر غوث بخش بزنجو نے کہا تھا کہ اپنے آٹھ ساتھیوں کو ایک ایک کرکے پھانسی کے تختے کی طرف روانہ کیا، اور پھر ان کی لاشیں وصول کیں۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ابھی چند سال پہلے اکبر خان بگٹی کو پرویز مشرف نے کہا تھا ''تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ حملہ کدھر سے ہوا'' اور ایسا ہی ہوا۔ 84 سال کا اکبر خان بگٹی مار دیا گیا۔
بلور خاندان، بلور جیسا شفاف ہے۔ ان کا ظاہر باطن ایک ہے۔ یہ بلور کی طرح چمکتے دمکتے لوگ ہیں۔ ان کے آرپار دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ خاندان بھی باچا خان کا پیروکار ہے۔ بشیر بلور اسی خاندان کا بیٹا تھا۔ ایسا بہادر، نڈر، بے خوف کہ دہشت گرد جہاں حملہ کرتے یہ وہاں سب سے پہلے پہنچ جاتا۔ دوست احباب سمجھاتے تھے کہ ''ذرا احتیاط کرو'' مگر بشیر بلور کا عزم تھا کہ دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے اور بشیر بلور جیت گیا، اس نے اپنی جان دے کر دہشت گردوں کو شکست دے دی۔
ہارون بلور اسی بہادر بشیر بلور کا بیٹا تھا، انگلینڈ سے بیرسٹری پڑھ کر آیا، مگر راستہ باپ کا اپنایا، کیونکہ اس کی زمین پر ابھی دہشت گرد موجود تھے، خوف کے سائے تھے اور اپنے باپ کی قربانی کا ہارون بلور کو بڑا پاس تھا اور ابھی چند روز پہلے 4 جولائی 2018 کو ہارون بلور بھی اپنے باپ بشیر بلور کی جنگ جیت گیا۔ ہارون بلور کے ساتھ اس کے 22 ساتھی بھی شہید ہوئے۔ ابھی یہ زخم ہرے تھے کہ بنوں کے علاقے میں اکرم خان درانی کی ریلی پر دہشت گرد حملہ ہوگیا۔ یہ 13 جولائی 2018 کا دن تھا۔ اس حملے میں 5 انسان دہشت گردی کا شکار ہوگئے اور متعدد زخمی اسپتال میں پڑے ہیں۔
بنوں والا واقعہ صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوا تھا اور اس روز شام 4 بجے بلوچستان کے علاقے مستونگ میں اتنا بڑا دہشت گردی کا واقعہ ہوا کہ جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 130 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ اس علاقے سے بلوچستان اسمبلی کے لیے انتخابات 2018 کے لیے امیدوار سراج خان رئیسانی بھی شہادت کے درجے کو پاگئے۔ سراج خان رئیسانی کی تصاویر اخبارات میں شایع ہوئی ہیں۔ میں کل سے ہی اس کی تصاویر ٹیلی ویژن اور اخبارات میں دیکھ رہا ہوں۔ آنکھیں سب کچھ بتا دیتی ہیں، سارے راز کھول دیتی ہیں۔ سارے بھید کھل جاتے ہیں۔ میرے منہ سے نکلا ''یہ ایک خوبصورت نوجوان تھا''۔ بس میں تصاویر کی حد تک اسے جان سکا تھا، مگر آج کے اخبار میں اس خوبصورت نوجوان کے بارے میں لکھا ہے ''وہ امن کے داعی تھے اور دہشت گردی سے نفرت کرتے تھے، قبائلی فیصلے اور غریبوں کی مدد ان کا مشن تھا''۔
سراج رئیسانی نے دہشت گردی کا شکار ہونے سے پہلے ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ''ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے''۔ سراج رئیسانی پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے، جذباتی حد تک محبت۔ ان کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ اخبار میں یہ بھی لکھا ہے کہ سراج رئیسانی اسلام سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، وہ ہر روز صبح قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔
یہ جو اپنی جانیں آزادی حاصل کرنے کی راہ میں وار رہے ہیں یہ جو عام لوگ ہیں جو نہ اسمبلی کا ممبر بننا چاہتے ہیں نہ دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کا مقصد ایک ہی ہے غریبوں کی عزت اور انصاف کی بحالی۔ اس کے لیے جو عام لوگوں نے پشاور، بنوں اور مستونگ میں جانیں قربان کی ہیں، الیکشن 25 جولائی 2018 کے دن ضرور ہوں، کیونکہ عدل و انصاف اور عوامی انقلاب کی منزل اسی رستے سے آگے ہے۔
وہی انقلاب جس کی دستک ہم سن رہے ہیں۔ عوام جاگیرداروں، وڈیروں کے سامنے بول رہے ہیں۔ ان سے حساب مانگ رہے ہیں۔ چاروں صوبوں سے انقلاب کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ جالب کا شعر اور اجازت، بہت پہلے اس نے کہہ دیا تھا:
میں تو مایوس نہیں اہل وطن سے یارو
کوئی ڈرتا نہیں، اب دار و رسن سے یارو