بت سرنگوں ہوں گے
مستونگ کا دھماکا الگ کہانی سنارہا ہے۔ اللہ خیر کرے دشمن کی چال بڑی خطرناک ہے۔
صدر ممنون حسین صاحب نے پاناما لیکس پر ارشاد کیا تھا کہ اس میں بڑے بڑے نام آئیںگے اور کیسے کیسے بت سرنگوں ہوںگے اور آج یہ ایک حقیقت بن گئی ہے۔ نواز شریف نے پے در پے اس طرح سے بیانات دیے کہ لگتا تھا کہ شاید صاف بچ نکلیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا، اسی لیے نواز شریف خود اس راستے پر چل پڑے تھے کہ دام میں صیاد خود ہی آگیا، ان کی منزل یہی تھی اڈیالہ جیل، مگر وہ آج بھی جب کہ جیلمیں ہیں،کسی طور سجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔
یہ اس میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ انھوں نے اپنی نااہلی کو پاکستان کی سالمیت سے منسلک کردیا ہے۔ آنے سے پہلے جو کانفرنس انھوں نے کی، وہ اداروں پر حملہ کر رہے تھ۔ ان کی آمد پر جس طرح سے ن لیگ کے حمایتیوں نیکھیل کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہو گئے، شہباز شریف کا ریلی ختم کرنے کا اعلان اور یہ کہنا کہ ووٹ سے ہم شکست دیں گے، الگ کہانی سنا رہا ہے۔ وہ درپردہ کس کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ ایئرپورٹ پر ان کا نہ پہنچنا بھی اپنے اندر کئی رازوں کو لیے ہوئے ہے۔
مستونگ کا دھماکا الگ کہانی سنارہا ہے۔ اللہ خیر کرے دشمن کی چال بڑی خطرناک ہے۔ اتنے لوگوں کو خودکش حملے میں شہید کرنا اور سیکڑوں کو زخمی، جن میں کتنے لوگوں کی حالت نازک ہے۔ پاک فوج اور آرمی کے جوانوں کے لیے یہ الگ امتحان ہے کہ وہ دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کریں۔ سرحدوں کی حفاظت کریں یا پھر الیکشن کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ جن لوگوں کو الیکشن میں ان کی آمد بری لگ رہی تھی اور وہ برملا اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ الیکشن کمیشن فوج کی نگرانی میں الیکشن نہ کروائے، وہ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کریںگے کہ فوج دوسری جگہوں پر مصروف ہوجائے تاکہ اس کی نگرانی میں الیکشن ہونے نہ پائیں۔
نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں بی کلاس دی گئی ہے وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے، کیونکہ وہ کسی سیاسی مقدمے میں ملوث نہیں، نہ ہی انھیں سیاسی قید کیا گیا ہے، وہ ایک ایسے مقدمے میں سزا پارہے ہیں جس میں قوم کا پیسہ لوٹنے کا الزام ہے، منی لانڈرنگ ، غیر قانونی طور پر پاکستانی پیسے کو بیرون ملک پہنچانے کا الزام ہے، پھر انھیں قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، جو بی کلاس میں ممکن نہیں کہ اخبار بھی پڑھتے رہو، ٹی وی دیکھو، موبائل پر بات کرو۔ یہ قید کیا ہوئی؟ خیر جو بھی ہو اڈیالہ جیل ان کا مقدر ہے، کیونکہ نااہل ہونے کے بعد جس طرح سے انھوں نے اپنا بیانیہ دینا شروع کیا تھا اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے مشورے دینے والے ہی ان کو پھنسوا دیں گے۔ اور آخر وہی ہوا۔
جب وہ آنے کا ارادہ باندھ رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ کوئی فاتح کسی ملک کو فتح کرکے آرہا ہے لیکن ان کی یہ بات خام خیالی ہی رہی کہ ان کا استقبال بے نظیر بھٹو کی طرح ہوگا۔ چند ہزار لوگوں کی موجودگی جم غفیر نہیں کہلائے گی، جگہ جگہ سے اکٹھے ہونے والے لوگ بھی کسی جلوس کا تاثر دینے سے ناکام ہوگئے۔ اب الیکشن ساتھ خیریت کے ہوجائیں تو پتا چلے گا کہ ووٹ بینک پر کتنا اثر پڑا۔ ویسے تو نظر آرہا ہے کہ پنجاب میں ان کی گرفت کمزور ہوگئی ہے، بھلے ان کے ساتھی کچھ کہتے رہیں، رانا ثنا اﷲ نے تو نواز شریف کی آمد پر ان کے استقبال کو حج سے بڑی عبادت قرار دے دیا۔ ان لوگوں کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے ۔ اپنے لیڈر کی توقیر کریں، مگر اسلامی شعائر کا مذاق نہ بنائیں۔
اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ خدمت جوکہ حقیقی معنوں میں ہو اس کو اپنا شعار بنائیں۔ آج یہ حال ہے کہ عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، بھوک اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ غربت ختم کرنا، قیمتوں پر کنٹرول رکھنا، حکومت کی ذمے داری ہے، مگر انھوں نے قرضے لے کر اپنی ذاتی کمپنیاں اور بینک اکاؤنٹ بھر لیے، مگر کسی طرح کا فائدہ عوام تک نہ پہنچا۔ حالیہ انتخابات کی اسی لیے بھی اہمیت بڑھ چکی ہے کہ ایک طرف ن لیگ کمزور، تو دوسری طرف پیپلزپارٹی صرف سندھ میں ہی کچھ مضبوط نظر آتی ہے، مگر اندرون سندھ بھی اس میں دراڑ پڑتی نظر آرہی ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی اندرونی چپقلش، مختلف دھڑوں میں تقسیم سے شاید پیپلزپارٹی کو نہیں تحریک انصاف کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔ اس وقت پاکستان کے عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایسی حکومت آئے جو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دے۔ عوام کو ریلیف ملے، اس لیے اس وقت ان کی نظر میں عمران خان ہیں کہ دو پارٹیاں کچھ نہ کرسکیں شاید یہ کچھ کر جائیں۔ مگر ہمیں نہیں لگتا کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوگی جو یک دم سب ٹھیک کرلے۔
یہ اس میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ انھوں نے اپنی نااہلی کو پاکستان کی سالمیت سے منسلک کردیا ہے۔ آنے سے پہلے جو کانفرنس انھوں نے کی، وہ اداروں پر حملہ کر رہے تھ۔ ان کی آمد پر جس طرح سے ن لیگ کے حمایتیوں نیکھیل کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہو گئے، شہباز شریف کا ریلی ختم کرنے کا اعلان اور یہ کہنا کہ ووٹ سے ہم شکست دیں گے، الگ کہانی سنا رہا ہے۔ وہ درپردہ کس کو پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ نوازشریف کے ساتھ ایئرپورٹ پر ان کا نہ پہنچنا بھی اپنے اندر کئی رازوں کو لیے ہوئے ہے۔
مستونگ کا دھماکا الگ کہانی سنارہا ہے۔ اللہ خیر کرے دشمن کی چال بڑی خطرناک ہے۔ اتنے لوگوں کو خودکش حملے میں شہید کرنا اور سیکڑوں کو زخمی، جن میں کتنے لوگوں کی حالت نازک ہے۔ پاک فوج اور آرمی کے جوانوں کے لیے یہ الگ امتحان ہے کہ وہ دہشت گردی کی نئی لہر کا مقابلہ کریں۔ سرحدوں کی حفاظت کریں یا پھر الیکشن کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ جن لوگوں کو الیکشن میں ان کی آمد بری لگ رہی تھی اور وہ برملا اس بات کا اظہار کررہے تھے کہ الیکشن کمیشن فوج کی نگرانی میں الیکشن نہ کروائے، وہ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کریںگے کہ فوج دوسری جگہوں پر مصروف ہوجائے تاکہ اس کی نگرانی میں الیکشن ہونے نہ پائیں۔
نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں بی کلاس دی گئی ہے وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے، کیونکہ وہ کسی سیاسی مقدمے میں ملوث نہیں، نہ ہی انھیں سیاسی قید کیا گیا ہے، وہ ایک ایسے مقدمے میں سزا پارہے ہیں جس میں قوم کا پیسہ لوٹنے کا الزام ہے، منی لانڈرنگ ، غیر قانونی طور پر پاکستانی پیسے کو بیرون ملک پہنچانے کا الزام ہے، پھر انھیں قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے، جو بی کلاس میں ممکن نہیں کہ اخبار بھی پڑھتے رہو، ٹی وی دیکھو، موبائل پر بات کرو۔ یہ قید کیا ہوئی؟ خیر جو بھی ہو اڈیالہ جیل ان کا مقدر ہے، کیونکہ نااہل ہونے کے بعد جس طرح سے انھوں نے اپنا بیانیہ دینا شروع کیا تھا اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ ان کے مشورے دینے والے ہی ان کو پھنسوا دیں گے۔ اور آخر وہی ہوا۔
جب وہ آنے کا ارادہ باندھ رہے تھے تو لگ رہا تھا کہ کوئی فاتح کسی ملک کو فتح کرکے آرہا ہے لیکن ان کی یہ بات خام خیالی ہی رہی کہ ان کا استقبال بے نظیر بھٹو کی طرح ہوگا۔ چند ہزار لوگوں کی موجودگی جم غفیر نہیں کہلائے گی، جگہ جگہ سے اکٹھے ہونے والے لوگ بھی کسی جلوس کا تاثر دینے سے ناکام ہوگئے۔ اب الیکشن ساتھ خیریت کے ہوجائیں تو پتا چلے گا کہ ووٹ بینک پر کتنا اثر پڑا۔ ویسے تو نظر آرہا ہے کہ پنجاب میں ان کی گرفت کمزور ہوگئی ہے، بھلے ان کے ساتھی کچھ کہتے رہیں، رانا ثنا اﷲ نے تو نواز شریف کی آمد پر ان کے استقبال کو حج سے بڑی عبادت قرار دے دیا۔ ان لوگوں کی سوچ پر افسوس ہوتا ہے ۔ اپنے لیڈر کی توقیر کریں، مگر اسلامی شعائر کا مذاق نہ بنائیں۔
اب بھی وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ خدمت جوکہ حقیقی معنوں میں ہو اس کو اپنا شعار بنائیں۔ آج یہ حال ہے کہ عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، بھوک اور افلاس کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ غربت ختم کرنا، قیمتوں پر کنٹرول رکھنا، حکومت کی ذمے داری ہے، مگر انھوں نے قرضے لے کر اپنی ذاتی کمپنیاں اور بینک اکاؤنٹ بھر لیے، مگر کسی طرح کا فائدہ عوام تک نہ پہنچا۔ حالیہ انتخابات کی اسی لیے بھی اہمیت بڑھ چکی ہے کہ ایک طرف ن لیگ کمزور، تو دوسری طرف پیپلزپارٹی صرف سندھ میں ہی کچھ مضبوط نظر آتی ہے، مگر اندرون سندھ بھی اس میں دراڑ پڑتی نظر آرہی ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی اندرونی چپقلش، مختلف دھڑوں میں تقسیم سے شاید پیپلزپارٹی کو نہیں تحریک انصاف کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔ اس وقت پاکستان کے عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایسی حکومت آئے جو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دے۔ عوام کو ریلیف ملے، اس لیے اس وقت ان کی نظر میں عمران خان ہیں کہ دو پارٹیاں کچھ نہ کرسکیں شاید یہ کچھ کر جائیں۔ مگر ہمیں نہیں لگتا کہ عمران خان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہوگی جو یک دم سب ٹھیک کرلے۔