اڈیالہ سہالہ اور انتخابی لہو
مستقبل میں یہ سزائیں اور جرمانے کیا شکل اختیار کریں گے، یہ ابھی دیکھنا ہے۔
نیب عدالت کے جج، محمد بشیر، نے نواز شریف اور مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں جو سزائیں سنائی تھیں، دونوں باپ بیٹی اپنی اپنی سزائیں کاٹنے پاکستان واپس آ چکے ہیں۔نواز شریف کے داماد، کیپٹن (ر) صفدر اعوان، سزا کے لیے پہلے ہی اڈیالہ جیل پہنچادیے گئے تھے۔ نواز شریف اور مریم نواز کو بالترتیب دس سال اور سات سال کی جیل اور مجموعی طور پر دونوں کو100لاکھ پاؤنڈز جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں۔
مستقبل میں یہ سزائیں اور جرمانے کیا شکل اختیار کریں گے، یہ ابھی دیکھنا ہے لیکن نواز شریف اور مریم نواز نے لندن سے اڈیالہ پہنچ کر سب کو حیران کر دیا ہے۔کہا گیا تھا کہ دونوں باپ بیٹی واپس نہیں آئیں گے، جیسا کہ ہر بار جب بھی نواز شریف ملک سے باہر گئے،یہی کہا جاتا رہا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ ہر بار واپس آکر قیافے لگانے والوں کو غلط ثابت کرتے رہے۔ اِس بار بھی انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔اب دونوں باپ بیٹی جنرل ضیاء الحق کے دَور میں بنائی گئی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
اِس جیل کے نزدیک ہی وہ بدنامِ زمانہ جیل ہُوا کرتی تھی جہاں ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے گھاٹ اُتارا گیا تھا۔ یہ خیال کرکے کہ بھٹو کے عشاق اس جیل کو مزاحمت کا نشان بنا لیں گے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے حکم کے تحت اسے مسمار کر دیا گیا۔ یہاں ایک خوبصور ت پارک تو بنا دیا گیا لیکن بھٹو کی رُوح اب بھی یہیں کہیں موجود رہتی ہے۔ مسمار شدہ جیل سے پانچ کلومیٹر دُور واقع ایک گاؤں، اڈیالہ، کے نام سے ایک نیا زندان تعمیر کیا گیا جسے اب اڈیالہ جیل کہا جاتا ہے۔
نواز شریف، مریم نواز اور صفدر اعوان اِس جیل کے نئے قیدی ہیں۔نواز شریف کی والدہ محترمہ، بھائی اور بھتیجے اُن سے یہاں پہلی ملاقات کر چکے ہیں۔ شنید ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے گا۔ اڈیالہ جیل اور اس کے یہ نئے مکین اِس وقت سارے میڈیا کی آنکھوں کا مرکز بن چکے ہیں۔
عالمی میڈیا بھی اس طرف اپنی توجہ مرکوز کررہا ہے۔ نواز شریف اس جیل کے دوسری بار قیدی بنے ہیں۔ جناب نواز شریف نے اپنی سیاسی جدوجہد میں کئی سنگِ میل قائم کیے ہیں۔وہ تین بار منتخب وزیر اعظم بن کر منفرد ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ تینوں بار مگر اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ انھیں اٹک قلعے کا اسیر بھی بنایا گیا اور موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ سعودی فرمانروا کی دوستی اور قربت انھیں نئی زندگی بخش گئی۔وہ تیسری بار وزیر اعظم بن کر عدالتِ عظمیٰ کے حکم سے معزول بھی ہُوئے اور پارٹی صدارت سے بھی فارغ کیے گئے۔
اب نیب عدالت کے سخت فیصلے کے بعد اُن کے عشاق نئے ولولوں اور عزم کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ سارے ملک میں سخت ہیجان ہے۔ اِس ہیجان میں گزشتہ روز اُس وقت مزید شدت پیدا ہُوئی ہے جب پشاور، بنّوں اور مستونگ میں تین اہم انتخابی اُمیدواروں پر خود کش حملے ہُوئے۔ اے این پی کے ہارون بلور، جے یوآئی ایف کے اکرم خان درانی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ سراج رئیسانی کو ہدف بنایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اکرم خان درانی، جو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں، کو تو محفوظ رکھا لیکن ہارون بلور اور سراج رئیسانی شہید ہو گئے۔ اُن کے ساتھ مجموعی طور پر اب تک150سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔لاتعداد زخمی ہیں۔ رخصت ہونے والے یہ سب ہمارے پاکستانی بھائی تھے۔ دہشتگردی اور دشمنانِ پاکستان نے اُن کی جانیں نگل لی ہیں لیکن وہ سب شہید ہیں کہ سب بے گناہ تھے۔ اللہ کریم اُن سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
اکرم درانی صاحب اور سراج رئیسانی مرحوم (جو بلوچستان کے سابق گورنر نواب غوث بخش رئیسانی کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے بھائی تھے) پر عین اُس روز حملے کیے گئے جس روز نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ساتھ لندن سے لاہور آ رہے تھے۔ پاک، افغان سرحد سے متصل پشاور، بنّوں اور مستونگ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں ہم سب کی آنکھیں اشکبار اور دل لہو لہو ہیں۔ہارون بلور اور سراج رئیسانی محبِ وطن تھے۔ سراج صاحب مرحوم نے تو نہایت جرأت واستقامت سے بلوچستان میں پاکستان کا پرچم بلند کررکھا تھا۔ شاید دشمنانِ پاکستان نے اِسی لیے تاک کر انھیں ہدف بنایا ہے۔ جواں مردہارون بلور شہید نے اپنے والد، بشیر بلور، کی شہادت کے بعد دہشتگردوں کے سامنے سینہ تان رکھا تھا۔
پشاور، بنّوں اور مستونگ میں جن دہشتگردخود کش حملہ آوروں نے انتخابی امیدواروں کے خلاف خونی وارداتیں کی ہیں، یہ تینوں علاقے افغان سرحد سے متصل ہیں۔ بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ خود کش حملہ آور سرحد پار، افغانستان سے آئے ہوں گے۔ افغانستان میں ''را'' اور ''این ڈی ایس'' جس طرح ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پاکستان کے خلاف بروئے کار ہیں، یہ کارروائیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ وطنِ عزیز میں حالیہ دہشتگردی کی وارداتوں کے عقب میں افغانستان اور بھارتی ہاتھوں کو نظر انداز کرنا حماقت ہو گی۔
افغان خفیہ ادارے(این ڈی ایس) میں ''را'' نے جس کامیابی سے نقب لگا رکھی ہے، یہ کہانی اب محض کہانی نہیں رہ گئی۔ واقعہ بن چکا ہے؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ''این ڈی ایس'' نے، بھارتی خفیہ اداروں کے اشارے پر، کئی بار ہر اُس کوشش کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی ہے جس سے پاکستان اور افغانستان میں امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا۔مثال کے طور پر ''این ڈی ایس'' کے سابق سربراہ، رحمت اللہ نبیل، کے پاکستان دشمن اقدامات۔ یہ وہی رحمت اللہ نبیل ''صاحب'' ہیں جنہوں نے 2015ء میں امن عمل کو سبوتاژ کیاتھا اوریوں QCG(Quadrilateral Coordination Group)پروسیس رُک گیا تھا۔
یہ وہی رحمت اللہ نبیل ہے جس نے پاکستان دشمنی میں چند غیر معروف افغان ملّا ؤں سے مل کر وہ فتویٰ جاری کروایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے خلاف ''جہاد'' کرنا ضروری ہو گیا ہے۔یہ نہائت شیطانی اقدام تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں لہو بہانے کی جملہ وارداتوں میں ملوث رحمت اللہ نبیل اپنے صدر (ڈاکٹر اشرف غنی) سے بالا ہی بالا کام دکھا رہا تھا۔
نبیل کی سازشوں اور ذہنیت کو سمجھنے کے لیے اشرف غنی صاحب کو بھی کچھ عرصہ لگ گیا۔اور جب اُن کے علم میں یہ ساری باتیں پوری طرح کھل کر آئیں تو رحمت اللہ نبیل سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ اُسے ''این ڈی ایس'' سے فارغ کرنا اِس امر کا واضح ثبوت تھا کہ یہ شخص اپنے چند مفسد ساتھیوں کے تعاون سے پاکستان میں خون بہا رہا تھا۔ پاکستان میں انتخابی اُمیدواروں کے ڈیڑھ سو ووٹروں سپورٹروں کا جس بہیمانہ طریقے سے لہو بہایا گیا ہے، اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بچے کھچے فسادیوں سے افغان خفیہ اداروں کے رابطے ہنوذ ختم نہیں ہُوئے ہیں۔
این ڈی ایس میں رحمت اللہ نبیل کی باقیات پاکستان کے خلاف اپنا کام کررہی ہیں۔ پاکستان دَر گزر اور صبر سے کام لیتے ہُوئے خونریزی کے اِن سانحات میں افغانستان کا نام لینے گریز کررہا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے ''این ڈی ایس'' کی بدمعاشیوںسے ناآشنا ہیں۔ پاکستان نے 12جولائی 2018ء کو سعودی عرب میں سامنے آنے والے اُس اعلامئے(مکّہ ڈیکلئریشن، جس میں 100سے زائد عالمی اسلامی اسکالرز نے حصہ لیا ہے) کی بھی زبردست حمائت کی ہے جس میں افغان امن عمل میں تعاون کرنے اور صدراشرف غنی کے جمہوری ہاتھ مضبوط کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اِس سے قبل انڈونیشیا میں ہونے والی اُس کانفرنس کی بھی پاکستان نے کھل کر حمایت کی تھی جس میں علمائے انڈونیشیا نے افغانستان کو پُرامن بنانے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے مثبت رویوں کی موجودگی میں افغان صدر جناب ڈاکٹر اشرف غنی پر لازم ہے کہ وہ بھی ''افغان نیشنل آرمی'' اور ''این ڈی ایس'' میں پاکستان مخالف عناصر کا خاتمہ کرنے کے عملی اقدامات کریں۔
مستقبل میں یہ سزائیں اور جرمانے کیا شکل اختیار کریں گے، یہ ابھی دیکھنا ہے لیکن نواز شریف اور مریم نواز نے لندن سے اڈیالہ پہنچ کر سب کو حیران کر دیا ہے۔کہا گیا تھا کہ دونوں باپ بیٹی واپس نہیں آئیں گے، جیسا کہ ہر بار جب بھی نواز شریف ملک سے باہر گئے،یہی کہا جاتا رہا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن وہ ہر بار واپس آکر قیافے لگانے والوں کو غلط ثابت کرتے رہے۔ اِس بار بھی انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔اب دونوں باپ بیٹی جنرل ضیاء الحق کے دَور میں بنائی گئی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
اِس جیل کے نزدیک ہی وہ بدنامِ زمانہ جیل ہُوا کرتی تھی جہاں ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے گھاٹ اُتارا گیا تھا۔ یہ خیال کرکے کہ بھٹو کے عشاق اس جیل کو مزاحمت کا نشان بنا لیں گے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے حکم کے تحت اسے مسمار کر دیا گیا۔ یہاں ایک خوبصور ت پارک تو بنا دیا گیا لیکن بھٹو کی رُوح اب بھی یہیں کہیں موجود رہتی ہے۔ مسمار شدہ جیل سے پانچ کلومیٹر دُور واقع ایک گاؤں، اڈیالہ، کے نام سے ایک نیا زندان تعمیر کیا گیا جسے اب اڈیالہ جیل کہا جاتا ہے۔
نواز شریف، مریم نواز اور صفدر اعوان اِس جیل کے نئے قیدی ہیں۔نواز شریف کی والدہ محترمہ، بھائی اور بھتیجے اُن سے یہاں پہلی ملاقات کر چکے ہیں۔ شنید ہے کہ مریم نواز صاحبہ کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جائے گا۔ اڈیالہ جیل اور اس کے یہ نئے مکین اِس وقت سارے میڈیا کی آنکھوں کا مرکز بن چکے ہیں۔
عالمی میڈیا بھی اس طرف اپنی توجہ مرکوز کررہا ہے۔ نواز شریف اس جیل کے دوسری بار قیدی بنے ہیں۔ جناب نواز شریف نے اپنی سیاسی جدوجہد میں کئی سنگِ میل قائم کیے ہیں۔وہ تین بار منتخب وزیر اعظم بن کر منفرد ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ تینوں بار مگر اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ انھیں اٹک قلعے کا اسیر بھی بنایا گیا اور موت کی سزا بھی سنائی گئی۔ سعودی فرمانروا کی دوستی اور قربت انھیں نئی زندگی بخش گئی۔وہ تیسری بار وزیر اعظم بن کر عدالتِ عظمیٰ کے حکم سے معزول بھی ہُوئے اور پارٹی صدارت سے بھی فارغ کیے گئے۔
اب نیب عدالت کے سخت فیصلے کے بعد اُن کے عشاق نئے ولولوں اور عزم کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ سارے ملک میں سخت ہیجان ہے۔ اِس ہیجان میں گزشتہ روز اُس وقت مزید شدت پیدا ہُوئی ہے جب پشاور، بنّوں اور مستونگ میں تین اہم انتخابی اُمیدواروں پر خود کش حملے ہُوئے۔ اے این پی کے ہارون بلور، جے یوآئی ایف کے اکرم خان درانی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ سراج رئیسانی کو ہدف بنایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اکرم خان درانی، جو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بھی رہے ہیں، کو تو محفوظ رکھا لیکن ہارون بلور اور سراج رئیسانی شہید ہو گئے۔ اُن کے ساتھ مجموعی طور پر اب تک150سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔لاتعداد زخمی ہیں۔ رخصت ہونے والے یہ سب ہمارے پاکستانی بھائی تھے۔ دہشتگردی اور دشمنانِ پاکستان نے اُن کی جانیں نگل لی ہیں لیکن وہ سب شہید ہیں کہ سب بے گناہ تھے۔ اللہ کریم اُن سب کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
اکرم درانی صاحب اور سراج رئیسانی مرحوم (جو بلوچستان کے سابق گورنر نواب غوث بخش رئیسانی کے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے بھائی تھے) پر عین اُس روز حملے کیے گئے جس روز نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ساتھ لندن سے لاہور آ رہے تھے۔ پاک، افغان سرحد سے متصل پشاور، بنّوں اور مستونگ میں شہید ہونے والوں کی یاد میں ہم سب کی آنکھیں اشکبار اور دل لہو لہو ہیں۔ہارون بلور اور سراج رئیسانی محبِ وطن تھے۔ سراج صاحب مرحوم نے تو نہایت جرأت واستقامت سے بلوچستان میں پاکستان کا پرچم بلند کررکھا تھا۔ شاید دشمنانِ پاکستان نے اِسی لیے تاک کر انھیں ہدف بنایا ہے۔ جواں مردہارون بلور شہید نے اپنے والد، بشیر بلور، کی شہادت کے بعد دہشتگردوں کے سامنے سینہ تان رکھا تھا۔
پشاور، بنّوں اور مستونگ میں جن دہشتگردخود کش حملہ آوروں نے انتخابی امیدواروں کے خلاف خونی وارداتیں کی ہیں، یہ تینوں علاقے افغان سرحد سے متصل ہیں۔ بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ خود کش حملہ آور سرحد پار، افغانستان سے آئے ہوں گے۔ افغانستان میں ''را'' اور ''این ڈی ایس'' جس طرح ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پاکستان کے خلاف بروئے کار ہیں، یہ کارروائیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ وطنِ عزیز میں حالیہ دہشتگردی کی وارداتوں کے عقب میں افغانستان اور بھارتی ہاتھوں کو نظر انداز کرنا حماقت ہو گی۔
افغان خفیہ ادارے(این ڈی ایس) میں ''را'' نے جس کامیابی سے نقب لگا رکھی ہے، یہ کہانی اب محض کہانی نہیں رہ گئی۔ واقعہ بن چکا ہے؛چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ''این ڈی ایس'' نے، بھارتی خفیہ اداروں کے اشارے پر، کئی بار ہر اُس کوشش کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی ہے جس سے پاکستان اور افغانستان میں امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا۔مثال کے طور پر ''این ڈی ایس'' کے سابق سربراہ، رحمت اللہ نبیل، کے پاکستان دشمن اقدامات۔ یہ وہی رحمت اللہ نبیل ''صاحب'' ہیں جنہوں نے 2015ء میں امن عمل کو سبوتاژ کیاتھا اوریوں QCG(Quadrilateral Coordination Group)پروسیس رُک گیا تھا۔
یہ وہی رحمت اللہ نبیل ہے جس نے پاکستان دشمنی میں چند غیر معروف افغان ملّا ؤں سے مل کر وہ فتویٰ جاری کروایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے خلاف ''جہاد'' کرنا ضروری ہو گیا ہے۔یہ نہائت شیطانی اقدام تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں لہو بہانے کی جملہ وارداتوں میں ملوث رحمت اللہ نبیل اپنے صدر (ڈاکٹر اشرف غنی) سے بالا ہی بالا کام دکھا رہا تھا۔
نبیل کی سازشوں اور ذہنیت کو سمجھنے کے لیے اشرف غنی صاحب کو بھی کچھ عرصہ لگ گیا۔اور جب اُن کے علم میں یہ ساری باتیں پوری طرح کھل کر آئیں تو رحمت اللہ نبیل سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا۔ اُسے ''این ڈی ایس'' سے فارغ کرنا اِس امر کا واضح ثبوت تھا کہ یہ شخص اپنے چند مفسد ساتھیوں کے تعاون سے پاکستان میں خون بہا رہا تھا۔ پاکستان میں انتخابی اُمیدواروں کے ڈیڑھ سو ووٹروں سپورٹروں کا جس بہیمانہ طریقے سے لہو بہایا گیا ہے، اِس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے بچے کھچے فسادیوں سے افغان خفیہ اداروں کے رابطے ہنوذ ختم نہیں ہُوئے ہیں۔
این ڈی ایس میں رحمت اللہ نبیل کی باقیات پاکستان کے خلاف اپنا کام کررہی ہیں۔ پاکستان دَر گزر اور صبر سے کام لیتے ہُوئے خونریزی کے اِن سانحات میں افغانستان کا نام لینے گریز کررہا ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے ''این ڈی ایس'' کی بدمعاشیوںسے ناآشنا ہیں۔ پاکستان نے 12جولائی 2018ء کو سعودی عرب میں سامنے آنے والے اُس اعلامئے(مکّہ ڈیکلئریشن، جس میں 100سے زائد عالمی اسلامی اسکالرز نے حصہ لیا ہے) کی بھی زبردست حمائت کی ہے جس میں افغان امن عمل میں تعاون کرنے اور صدراشرف غنی کے جمہوری ہاتھ مضبوط کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
اِس سے قبل انڈونیشیا میں ہونے والی اُس کانفرنس کی بھی پاکستان نے کھل کر حمایت کی تھی جس میں علمائے انڈونیشیا نے افغانستان کو پُرامن بنانے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے مثبت رویوں کی موجودگی میں افغان صدر جناب ڈاکٹر اشرف غنی پر لازم ہے کہ وہ بھی ''افغان نیشنل آرمی'' اور ''این ڈی ایس'' میں پاکستان مخالف عناصر کا خاتمہ کرنے کے عملی اقدامات کریں۔