ڈیرہ اسماعیل خان میں غریب خاندان پر ظلم و ستم کی ایک اور اندوہناک داستان

ملزمان آزاد دندناتے گھوم رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ مظلوم خاندان کا ساتھ دینے والوں کا بھی یہی حشر کریں گے


جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد یہ غریب خاندان مکمل بے گھر اور مقروض بھی ہوچکا ہے جبکہ لڑکے کا والد (ساون، اوپر کی تصویر میں) اب 9 ہزار روپے ماہانہ مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود، بااثر دشمنوں کے انتقام کی آگ اب تک نہیں بجھ سکی ہے۔ (فوٹو: بلاگر)

ہوسکتا ہے کہ یہ بلاگ لکھنے کی پاداش میں مجھے بھی بہت کچھ جھیلنا پڑ جائے؛ اور شاید یہ میری زندگی کا آخری بلاگ بھی ثابت ہو۔ لیکن مرتے وقت اس بات کا اطمینان ضرور رہے گا کہ مجھے سچائی کا ساتھ دیتے ہوئے موت آئی اور میں سرخرو ہو کر اس دنیا سے گیا۔

میں حیران ہوں کہ معاشرے کے کن لوگوں کےلیے اکیسویں صدی آگئی ہے کیونکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے گاؤں بوہر میں بااثر سیاسی افراد نے ظلم و ستم کی ایک ایسی نئی داستان رقم کردی ہے جسے پڑھ کر، بحیثیت پاکستانی، آپ کا سر بھی شرم سے جھک جائے گا۔ اس واقعے کا ایک تکلیف دہ پہلو تو یہ ہے کہ غریبوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے ملزمان آزاد دندناتے ہوئے آزاد گھوم رہے ہیں اور سرِعام یہ بھی کہتے پھر رہے ہیں کہ وہ مظلوم خاندان کا ساتھ دینے والوں کا حشر بھی بہت بُرا کردیں گے۔ اسی واقع سے جڑا ہوا، دوسرا قابلِ شرم پہلو یہ ہے کہ ان بااثر اور ظالم افراد کے خلاف خیبر پختونخوا کی نام نہاد ''غیر سیاسی'' اور ''بااختیار پولیس'' بھی اب تک کچھ نہیں کررہی... یہاں تک کہ ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی۔

یہ واقعہ تفصیل سے پڑھیے اور خود فیصلہ کرلیجیے:

گزشتہ دنوں 8 جولائی بروز اتوار تقریباً عشاء کے وقت فلک شیر ولد ساون قوم کٹائی سکنہ گاؤں بھوہر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اپنی موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ کو تھانہ ڈیرہ ٹاؤن کی حدود درابن چوک سے رات گئے گاڑی پر سوار پانچ افراد نے اس کی موٹر سائیکل کو ٹکر ماری اور پھر آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر وہاں سے کئی کلومیٹر دور جھوک گھلیں کے قریب سنسان جگہ پر لے گئے جہاں ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے اس نہتے نوجوان پر خوب تشدد کیا گیا، جس سے مذکورہ نوجوان کی ٹانگ اور بازو کئی جگہ سے ٹوٹ گئے جبکہ ریڑھ کی ہڈی سمیت مکمل جسم شدید زخمی ہوگیا۔

پھر نوجوان کو اٹھا کر کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرے کئی فٹ گڑھے میں پھینک دیا گیا تاکہ شدید درد سے چلا چلا کر وہ خود بخود مرجائے۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے، خون سے لت پت نوجوان نیم بے ہوشی کی حالت میں ساری رات شدید تکلیف کے ساتھ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرے گڑھے میں پڑا رہا۔ بالآخر صبح کوئی 8 بجے بیل گاڑی پر سوار ایک شخص کا بیل قدرتی طور پر ڈر گیا اور اس گڑھے کے قریب آن پہنچا۔ چونکہ یہ دامان کا بنجر علاقہ ہے اس لیے یہاں کوئی درخت یا فصل نہ ہونے کے سبب بیل والے شخص کی نظر خون سے لت پت اس شخص پر پڑ گئی جو گڑھے میں پڑا تھا۔ بیل والے شخص نے زخمی نوجوان کو پانی پلایا اور اسے ٹانگوں سے کھینچ کر جیسے ہی باہر نکالنے کی کوشش کی تو ٹوٹی ہوئی ہڈیوں میں درد کے باعث فلک شیر کی چیخیں نکلنے لگی چونکہ نوجوان کا پورا جسم زخمی تھا۔ وہ شخص باہر نکالنے کےلیے جسم کے جس کسی حصے سے بھی پکڑتا تو نوجوان درد کے باعث چیخنے لگتا۔

اس دوران بیل والے کی نظر دور پڑے موبائل پر پڑی تو اس نے زخمی نوجوان سے پوچھا یہاں یہ موبائل کس کا پڑا ہوا ہے۔ چونکہ رات کو تشدد کے دوران زخمی نوجوان کا موبائل گرگیا تھا جب وہ ظالم افراد بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ پکڑ کر، بار بار اٹھا کر زمین پر پھینکتے رہے جس سے موبائل دور کی جانب جا گرا تھا، تو نوجوان نے اسے کہا کہ یہ میرا موبائل ہے۔ بالآخر فلک شیر زخمی نوجوان نے گھر پر رشتہ داروں کو کال کی اور اس مدد کرنے والے شخص نے جگہ بتائی کہ فلاں جگہ یہ نوجوان شدید زخمی حالات میں پڑا ہوا ہے۔ یوں سخت دھوپ میں دوپہر کا وقت ہوگیا جب زخمی کے عزیز و اقارب پہنچے اور اسے اسپتال لے گئے۔ اس واقعے کے چھ روز بعد خاکسار کو اس بارے علم ہوا تو کئی سو کلومیٹر کی مسافت کے بعد مفتی محمود اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں زیرِ علاج، مذکورہ نوجوان کےلیے آواز بلند کرنے جا پہنچا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب ہم زخمی نوجوان کا بیان ریکارڈ کررہے تھے تو دوران ریکارڈنگ ڈاکٹرصاحب نے منع کردیا کہ آپ اس کا بیان نہیں لے سکتے۔ بڑی منت سماجت کی مگر وہ نہ مانے۔

پھر ہم نے اس نوجوان کے والد کا (جن کا نام ساون ہے اور جو پیشے کے لحاظ مزدور ہیں) بیان ریکارڈ کیا جنہوں نے ہمیں ایک درد ناک داستان سنائی جس پر ناچیز اپنے آنسو نہ روک پایا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ تین سال قبل فلک شیر اور ایک گاؤں کی لڑکی ایک دوسرے سے محبت کر بیٹھے۔ لڑکی کا رشتہ پہلے ہی اپنے کزن کے ساتھ طے تھا اور دونوں کےلیے شادی کرنا بالکل ہی ناممکن تھا۔ لیکن پھر بھی دونوں نے شادی کرنے کی کوشش بھی کی جو ناکام رہی جس کے بعد دونوں پریمیوں نے بھاگ کر شادی کرلی جبکہ بعد میں مقامی وڈیروں نے ایک جرگہ کے تحت یہ فیصلہ دیا کہ لڑکے کے خاندان والے دس لاکھ روپے دیں گے اور گھر کی زمین بھی۔ اس کے ساتھ معافی بھی مانگیں گے اور یہ لڑکا طویل عرصے تک اپنے گاؤں (بھوہر) کی طرف بھی نہیں جائے گا جس پر اس غریب خاندان نے عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ ادا کیا جو جرگہ میں طے پایا تھا۔ اسی وجہ سے یہ غریب خاندان مکمل بےگھر ہونے کے ساتھ ساتھ مقروض بھی ہوگیا اور لڑکے کا والد اب 9 ہزار روپے ماہانہ مزدوری کرنے پر مجبور ہے۔

مگر پھر بھی، تین سال گزر جانے کے باوجود، طاقت کے نشے میں دُھت بااثر افراد کی بدلے کی آگ ختم نہ ہوئی اور ایک انتہائی غریب اور نہتے نوجوان کو محبت کی شادی کرنے کے جرم میں انتہائی ظالمانہ سزا دی گئی۔

واضح رہے کہ جب فلک شیر کو اغوا کرنے کے بعد ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے رات کے اندھیرے میں اس پر تشدد کیا جارہا تھا تو اس دوران فلک شیر نے ملزمان کو بھی پہچان لیا تھا جس کا ذکر اس نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں بھی کیا مگر کئی روز گزر جانے کے باوجود ابھی تک پولیس نے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر تک نہیں کاٹی کیونکہ وہ بااثر اور انتہائی طاقتور شخصیات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اسی لئے غیر سیاسی پولیس ابھی تک ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے سے بالکل گریزاں ہے۔ زخمی نوجوان انتہائی غریب، غیر تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے جن کے پاس اب رہنے کو اپنا گھر بھی نہیں رہا۔ یہ کمزور لوگ ہیں، ان ظالم وڈیروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ اب اس غریب خاندان پر فیصلہ کرنے کےلیے دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی خاص کارروائی پولیس کی جانب سے عمل میں لائی گئی ہے جبکہ دوسری جانب ملزمان آزاد دندناتے گھوم رہے ہیں اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم ان لوگوں کا بھی وہی حشر کریں گے جو لوگ اس مظلوم خاندان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔