کون کہاں کس کے مقابل
خیبرپختون خوا، فاٹا، پاٹا اور فرنٹیئر ریجن کا انتخابی منظرنامہ
یہ فیصلہ عوام کے ہاتھ ہے کہ وہ آئندہ پانچ سال کے لیے کس کے سر پر اپنی رضا کا تاج رکھتے ہیں اور کسے اپنے کوچے سے بے آب رُو کر کے نکالتے ہیں، ساتھ ہی یہ انتخابات وہ امتحان بھی ہیں، جس کے نتائج پتا دیں گے کہ عوام اپنے شعور کے کس مقام پر کھڑے ہیں۔
نظر بہ ظاہر جن انتخابی حلقوں میں دو امیدواروں کے مابین سخت اورکانٹے کے مقابلے نظرآرہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ نتیجہ کسی تیسرے کے حق میں برآمد ہو اور تجزیہ کار منہ دیکھتے رہ جائیں کیوں کہ
ہیں کواکب کچھ، نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ذیل میں خیبرپختون خوا اورفاٹا کیان چند قومی اورصوبائی حلقوں کی وہ تصویر پیش کی جا رہی ہے، جو دکھائی دے رہی ہے ۔۔۔۔ لیکن آپ جانیے! باطن کا حال بہ ہر حال اللّٰہ جانے۔
پاکستان میں انتخابی حلقوں کا آغاز صوبۂ خیبر پختون خوا سے ہوتا ہے۔ اس میں قومی اسمبلی کے 35 اورصوبائی اسمبلی کے 99 حلقے آتے ہیں۔ اس مرتبہ خیبر پختون خوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 517 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں 49 سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔ خیبر پختون خوا کے رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ 66 ہزار ایک سو 57 ہے۔ 2008 کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی شرح این اے 12 صوابی ایک میں اور سب سے کم این اے ون پشاور میں رہی۔ این اے بارہ صوابی میں کثیر تعداد میں ووٹ پڑنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان اورموجودہ عوامی جمہوری اتحادکے رہ نما عثمان خان ترکئی کے مابین ون ٹوون مقابلہ تھا، حلقے کی تمام دیگر سیاسی جماعتوں نے عثمان خان ترکئی کوسپورٹ کیاتھا، جس کی وجہ سے اسفندیار ولی خان ہارگئے تھے تاہم بہت کم ووٹوں سے۔
صوبائی دارلحکومت پشاور
پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے چار حلقے خیبر پختون خوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں این اے ون سے اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور منتخب ہوئے تھے، وہ اس مرتبہ بھی این ون سے اے این پی کے امیدوار ہیں تاہم اس مرتبہ ان کے مدمقابل 17 امیدوار ہیں اور ان میں اہم ترین نام پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کاہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مقابلہ ان ہی کے مابین ہوگا۔
2008 کے انتخابات میں حلقہ این اے 2 سے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر ارباب عالم گیر نے اے این پی کے امیدوار ارباب نجیب اللّٰہ خان کو شکست دی تھی اور یہاں اس بار بھی ان ہی دونوں میں دل چسپ مقابلہ کی توقع ہے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے اقبال خلیل اورجے یوآئی کے مفتی سعید بھی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ این اے 3 پشاور میں 2008 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہ نما ہاشم بابر کو پی پی پی کے نور عالم خان نے شکست دی تھی تاہم ہاشم بابر اس بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑ رہے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہ نما اقبال ظفر جھگڑا بھی یہاں سے امیدوار ہیں تاہم یہاں اصل ٹاکرا پی پی پی کے نورعالم خان، پی ٹی آئی کے ساجد نواز، جے یوآئی کے حاجی غلام علی اور اے این پی کے ارباب انعام اللّٰہ کے درمیان متوقع ہے۔
این اے 4 سے گذشتہ الیکشن میں کام یاب امیدوار اے این پی کے ارباب محمد ظاہر اس مرتبہ ٹکٹ حاصل نہیں کر پائے اور اے این پی نے ارباب ایوب جان کو ٹکٹ دیا ہے، جن کا مقابلہ جماعت اسلامی کے صابرحسین اعوان، پی ٹی آئی کے گل زارخان ماشوخیل اور خاتون آزاد امیدوارانیلا شاہین سے ہو گا۔
ضلع نوشہرہ
حلقہ این اے 5 اوراین اے 6 ضلع نوشہرہ میں ہیں، جہاں گذشتہ انتخابات میں این اے 5 پر پیپلز پارٹی کے انجینیئر طارق خٹک جب کہ این اے 6 پر عوامی نیشنل پارٹی کے مسعود عباس خٹک نے کام یابی حاصل کی تھی، اس مرتبہ این اے 5 پر اصل مقابلہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) کے فرزند آصف لقمان قاضی، عوامی نیشنل پارٹی کے داؤد خان خٹک، سینیٹرسردارعلی خان کے فرزندآزاد امیدوار شہزادخان اورتحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل پرویزخان خٹک کے مابین ہوگا، جب کہ این اے 6 پر عوامی نیشنل پارٹی نے مسعود عباس خٹک کو، متحدہ دینی محاذ نے جے یو آئی(س) کے امیرمولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامدالحق حقانی، پی ایم ایل (ن) نے ذوالفقار باچا، پی ٹی آئی نے سراج محمد خان اورجے یو آئی نے مفتی شوکت خٹک کو میدان میں اتارا ہے تاہم اصل ٹاکرا اے این پی کے مسعودعباس خٹک، پی ایم ایل (ن) کے ذولفقار باچا، متحدہ دینی محاذ کے مولانا حامدالحق اور پی ٹی آئی کے سراج محمد خان کے مابین متوقع ہے۔
ضلع چارسدہ
این اے 7 ضلع چارسدہ، جو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا آبائی حلقہ ہے، 2008 میں بھی وہ اسی نشست سے کام یاب ہوئے تھے اور اس مرتبہ بھی وہ اسی حلقے سے امیدوار ہیں، جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) اورقومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار مولانا گوہر شاہ، جماعت اسلامی کے ارشدخان اور پی ٹی آئی کے فضل خان حصہ لے رہے ہیں تاہم اصل اوردل چسپ مقابلہ مولانا گوہر شاہ اوراسفندیار ولی خان کے مابین ہوگا اوراس حلقے پر صوبے بھر کے عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں، حلقہ این اے 8 میں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ، عوامی نیشنل پارٹی کے تیمورخان اورجے یوآئی کے مثمرشاہ کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، آفتاب احمد خان شیرپاؤ گذشتہ الیکشن میں بھی اسی حلقے سے کام یاب ہوئے تھے۔
مردان
خیبر پختون خوا کے ضلع مردان سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں، جن میں سے این اے 9 مردان ون سے صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں اس نشست پر اے این پی کے خواجہ محمد ہوتی کام یاب ہوئے تھے تاہم اب انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس بار وہ اسی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر ہیں، پیپلز پارٹی نے اس نشست پر خاتون امیدوار شازیہ اورنگ زیب کو میدان میں اتارا ہے مگراصل کانٹے کا مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی اور پی ایم ایل (ن) کے خواجہ محمد خان ہوتی کے درمیان ہوگا۔
گذشتہ انتخابات میں این اے 10 سے ایم ایم اے کے امیدوار مولانا محمد قاسم کام یاب ہوئے تھے لیکن متحدہ مجلس عمل کے غیر فعال ہونے کے بعد وہ اس حلقے سے جے یو آئی (ف) کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ جماعت اسلامی کے سلطان محمد، اے این پی کے فاروق خان اور تحریک انصاف کے علی محمد خان سے ہو گا۔ این اے 11مردان تھری سے 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالاکبر خان کام یاب ہوئے تھے تاہم اس بار پی پی پی کا ٹکٹ خان زادہ خان کو ملا ہے، جن کا مقابلہ جے یو آئی(ف) کے مولانا امداد اللہ یوسف زئی اورپی ٹی آئی کے مجاہدخان کے درمیان ہو گا۔
صوابی
ضلع صوابی میں بھی قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں، 2008 میں این اے 12 صوابی ون سے انجینیئر عثمان ترکئی نے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کو شکست سے دو چار کیا تھا، عثمان ترکئی اس حلقے سے ایک بار پھر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ویسے تومذکورہ حلقے سے دیگرامیدواربھی قسمت آزمائی کررہے ہیں تاہم اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اورقومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار اشفاق اللّٰہ خان، اے این پی کے حاجی رحمان اللّٰہ اورعوامی جمہوری اتحادکے عثمان خان ترکئی کے مابین ہوگا۔
این اے 13 صوابی کی نشست 2008 میں اے این پی کے پرویزخان نے جیتی تھی، اس مرتبہ اس نشست سے اے این پی کے محمد سرور خان، جے یوآئی(ف) کے مولانا عطاالحق درویش، پی ایم ایل (ن) کے افتخاراحمد خان، تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر، پی پی پی کے محمد نعیم خان، عوامی جمہوری اتحادکے شہرام خان ترکئی، جماعت اسلامی کے امیرنوازخان، جے یوآئی (نظریاتی) کے خلیل احمد مخلص اورتحریک تحفظ پاکستان کے شہاب میدان میں موجودہیں مگر اصل مقابلہ جے یوآئی (ف) کے عطاء الحق درویش، پی پی پی کے محمد نعیم خان، پی ایم ایل (ن) کے افتخاراحمدخان، پی ٹی آئی کے اسد قیصر اور عوامی جمہوری اتحادکے امیدوار شہرام خان ترکئی کے درمیان ہوگا۔
کرک + ہنگو
2008 میں این اے 15 کرک سے جے یو آئی کے مفتی اجمل خان کام یاب ہوئے تھے اور اس مرتبہ اس حلقے سے تمام بڑی جماعتوں نے خٹک برادری سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، این اے 16 ہنگو سے عوامی نیشنل پارٹی کے سید حیدر علی شاہ نے کام یابی حاصل کی تھی اور وہی اس بار پھر اے این پی کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ پی پی پی کے سیّد ابن علی اور جے یو آئی (ف) کے مولانا حسین جلالی سے ہے۔
ایبٹ آباد
یہاں قومی حلقوں کی ابتداء ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد سے ہوتی ہے، جہاں 2008 میں قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے مسلم لیگ (ن) کو کام یابی ملی تھی۔ این اے 17 ایبٹ آباد ون سے جیتنے والے سردار مہتاب خان عباسی ہی اس بار بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں لیکن ان کے مدمقابل دس امیدواروں میں سے 9 چہرے نئے ہیں۔ گذشتہ الیکشن میں ان سے شکست کھانے والے ڈاکٹر اظہر خان جدون اس بار تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے اور وہی ان کے مضبوط حریف نظر آتے ہیں۔ این اے 18 ایبٹ آباد میں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنے سابق ایم این اے مرتضیٰ جاوید عباسی کو میدان میں اتارا ہے، گذشتہ الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والے سردار محمد یعقوب اس مرتبہ مسلم لیگ (ق) کے بجائے تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار ہیں، ان کے علاوہ اس حلقے سے تیسرا اہم نام صوبۂ ہزارہ کے قیام کے لیے جاری تحریک کے سرگرم رہ نما بابا حیدر زمان کا ہے۔
ہری پور
ضلع ہری پور میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ این اے 19 ہے۔ گذشتہ انتخابات میں یہاں مسلم لیگ (ن) کے سردار مشتاق خان نے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار اور سابق وزیر عمر ایوب کو ہرایا تھا لیکن اس بار عمر ایوب خود مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان سے ہے، اس نشست پر دو خواتین اِرم فاطمہ اے این پی جب کہ فائزہ رشید آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل کا حصہ بنیں گی۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان
2008 میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 24 پی پی پی کے فیصل کریم کنڈی نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو شکست دے کر جیتی تھی، اس بار پی پی پی نے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں وقار احمد خان کو اتارا ہے، ماضی کی معروف اداکارہ مسرت شاہین بھی اس حلقے کے 33 امیدواروں میں شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن ڈی آئی خان کم ٹانک این اے 25 سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس مرتبہ ان کا یہاں مقابلہ فیصل کریم کنڈی سے ہے۔
بنوں
حلقہ این اے 26 بنوں سے گذشتہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن نے کام یابی حاصل کی لیکن اس بار یہاں سے جے یو آئی (ف) کے رہ نماء اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ جے یوآئی (ف) کے ناراض آزاد امیدوار مولانا نسیم علی شاہ کے مابین ہوگا، مولانا نسیم علی شاہ کو اے این پی، پی پی پی اورقومی وطن پارٹی کی بھی بھرپورحمایت حاصل ہے، ساتھ اس حلقے سے دیگر امیدواروں میں پی ٹی آئی کے مطیع اللّٰہ خان، (ن) لیگ کے ملک اختر اور جماعت اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم خان کے نام بھی نمایاں ہیں۔
لکی مروت
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 27 سے 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے ہمایوں سیف اللّٰہ کام یاب قرار پائے تھے، اس مرتبہ یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے سلیم سیف الّٰلہ کا مقابلہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہو گا، یہاں سے اے این پی نے علی سرور، پی ٹی آئی نے کرنل (ر) امیر الّٰلہ مروت جب کہ (ق) لیگ نے محمد جاوید انور خان مروت غزنی خیل کو ٹکٹ دیا ہے۔
سوات
گزشتہ انتخابات میںاین اے 30 سوات 2 سے پی پی پی کے امیدوار سید علاؤالدین خان جیت گئے تھے، اب کی باران کے مدمقابل اہم نام مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر امیر مقام کا ہے، دونوں کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
قبائلی علاقہ جات
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے 7 ایجنسیاں، جن میں قومی اسمبلی کے کل 12 حلقے شامل ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پولٹیکل پارٹی ایکٹ 2011 کے نفاذ کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ امیدوار کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ فاٹا سے ہی بڑی پیش رفت یہ ہے کہ پہلی بار کوئی خاتون امیدوار جن کا نام بادام زری ہے، انتخابات میں حصہ لیں گی۔
مومند ایجنسی
فاٹا کے 12 حلقوں کی ابتداء مہمند ایجنسی سے ہوتی ہے، جو این اے 36 قبائلی علاقہ 1 ہے۔ گذشتہ بار اس حلقے سے 21 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، یہ تعداد اب 40 ہو چکی ہے۔ کام یاب ہونے والے بلال رحمٰن اس بار بھی میدان میں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر فاروق افضل، جماعت اسلامی نے غلام محمد صادق، تحریک انصاف نے داؤد شاہ جب کہ مسلم لیگ (ن) نے زر خان صافی کو ٹکٹ دیا ہے۔
کرم ایجنسی
کرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کے 2 حلقے ہیں۔ این اے 37 کرم ایجنسی کی تحصیل پاڑا چنار پر مشتمل ہے۔ گذشتہ انتخابات میں کام یاب ہونے والے ساجد حسین طوری اس بار بھی آزاد امیدوار ہیں جب کہ پی ٹی آئی نے حفیظ الّٰلہ، اے این پی نے رجب علی اور مسلم لیگ (ن) نے عبدالحمید اورکزئی کو ٹکٹ دیا ہے۔ این اے 38 پر گذشتہ انتخابات میں منیر خان اورکزئی کام یاب ہوئے تھے تاہم اس بار وہ اس نشست کے لیے جے یو آئی (ف) کے امیدوار ہیں، تحریک انصاف نے حضرت نبی، پی پی پی نے ملک ذوالفقار علی جب کہ مسلم لیگ (ن) نے نوید احمد خان کو میدان میں اتارا ہے۔
باجوڑ ایجنسی
این اے 43 قبائلی علاقہ 8 باجوڑ ایجنسی میں 2008 کے انتخابات میں انجینیئر شوکت اللّٰہ نے کام یابی حاصل کی تھی، جو فی الوقت خیبر پختونخوا کے گورنر بھی ہیں۔ اس بار پی پی پی نے سعید الرحمٰن، جماعت اسلامی نے صاحب زادہ ہارون الرشید، مسلم لیگ (ن) نے عبداللّٰہ اور جے یو آئی نے مولوی محمد صادق کو میدان میں اتارا ہے۔ اس حلقے سے مجموعی امیدواروں کی تعداد 16 ہے۔ حلقہ این اے 44 قبائلی علاقہ 9 پر مشتمل ہے، یہاں سے 2008 میں پی پی پی کے اخونزادہ چٹان کام یاب ہوئے تھے اس بار وہ دیگر 24 امیدواروں کا مقابلہ کریں گے، جن میں پی ٹی آئی کے گل داد خان، اے این پی کے گل افضل، جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالرّشید اور (ن) لیگ کے شہاب الدین شامل ہیں۔ قبائلی علاقوں کی نشست کے لیے پہلی مرتبہ ایک خاتون امیدوار بادام زری نے بھی اسی نشست کے لیے کاغذات نام زدگی جمع کرائے ہیں اور وہ بھی ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں۔
خیبر ایجنسی
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 45 قبائلی علاقہ 10 جمرود، لنڈی کوتل اور ملاغر پر مشتمل ہے۔ 2008 میں اس حلقے سے نورالحق قادری کام یاب ہوئے تھے، اس بار پی پی پی کے حضرت ولی، پی ٹی آئی کے خان شیر آفریدی، اے این پی کے ملک دیار خان، جے یو آئی کے سید جان اور مسلم لیگ (ن) کے زاہد خان آفریدی سمیت، 18 امیدوار مدمقابل ہیں۔ حلقہ این اے 46 قبائلی علاقہ 11 کہلاتی ہے، گذشتہ انتخابات میں یہاں سے حمید للّٰہ جان آفریدی نے کام یابی حاصل کی تھی، اس بار مدمقابل امیدواروں میں زیادہ تعداد آزاد امیدواروں کی ہے۔
فرنٹیئر ریجن
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 47 قبائلی علاقہ 12 ایف آر کے علاقوں پر مشتمل ہے، جن میں ایف آر بنوں، ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی، ایف آر ڈی آئی خان اور ایف آر ٹانک شامل ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جن کی سرحدیں قبائلی ایجنسیوں سے متصل ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں اس حلقے سے ظفر بیگ بیٹنی کام یاب ہوئے تھے، اس بار 36 امیدوار میدان میں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں جے یو آئی کے مفتی عبدالشکور بیٹنی، جماعت اسلامی کے محمد رسول آفریدی، مسلم لیگ (ن) کے ملک حاجی گل باز آفریدی، اے این پی کے ملک حاجی شاہد خان شیرانی اور پی ٹی آئی کے قیصر اقبال شامل ہیں۔
ملاکنڈ پروٹیکٹڈ ایریا، پاٹا
حلقہ این اے 35 سے گذشتہ انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار نے کام یابی حاصل کی تھی تاہم اس بار مقابلہ سخت ہے۔ اس دفعہ پی پی پی نے اس اکھاڑے میں لال محمد خان، عوامی نیشنل پارٹی نے معروف شاعر و ادیب رحمت شاہ سائل، جماعت اسلامی نے بختیار معانی، پی ٹی آئی نے جنید اکبر، مسلم لیگ (ن) نے حاجی محمد فدا جب کہ جے یو آئی (ف) نے حافظ محمد سعید کوا تارا ہے۔
صوبائی حلقوں میں کانٹے کے مقابلے
خیبر پختوخوا میں صوبائی اسمبلی کی 99 نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ کئی آزادامیدواربھی میدان میں ہیں، جہاں اس مرتبہ تحریک انصاف کے متحرک ہونے کی بناء پر کاٹنے دار مقابلے متوقع ہیں۔ یہاں ان صوبائی حلقوں کا اجمالی سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جہاں کچھ پرانے اور نئے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلوں کی توقع کی جارہی ہے۔
پی کے ون پشاور
صوبائی دارالحکومت پشاور کے اس حلقے سے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں اورآزادامیدواروںسمیت کل 27 امیدوار پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ اس حلقے سے اے این پی کے امیدوار اورسینیٹر الیاس بلور کے صاحب زادے غضنفر بلور، جماعت اسلامی کے بحر اللّٰہ خان ایڈووکیٹ، آزاد امیدوار ڈاکٹر ذاکر شاہ، جے یو آئی (ف) کے اخون زادہ عرفان اللّٰہ شاہ، تحریک انصاف کے ضیاء اللّٰہ آفریدی، پی پی پی کے محمد اکبر ایڈووکیٹ اور قومی وطن پارٹی کے ملک ندیم کے مابین کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
پی کے ٹو پشاور
اس صوبائی حلقے سے 23 امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید ظاہر علی شاہ، پاکستان تحریک انصاف کے شوکت یوسف زئی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا خیرالبشر اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ملک غلام مصطفٰی کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے تھری پشاور
اس حلقے پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار اور شہید بشیر احمد بلور کے فرزند ہارون بلور، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلیل جان، مسلم لیگ (ن) کے خادم علی یوسف زئی، جماعت اسلامی کے خالد گل مہمند، پی پی پی کے حاجی اقبال مہمند اور تحریک انصاف کے جاوید نسیم کے مابین سخت مقابلہ ہو گا۔
پی کے فور پشاور
اس صوبائی حلقے سے کل 18 امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں تاہم اصل مقابلہ 2008 کے عوامی نیشنل پارٹی کے کام یاب امیدوار سید عاقل شاہ، جماعت اسلامی کے ریاض احمد باچا، پی پی پی کے کفایت اللّٰہ اور محمد ابراہیم قاسمی، مسلم لیگ (ن) کے محمد ارشد قریشی اور تحریک انصاف کے عارف یوسف کے مابین ہو گا۔
پی کے فائیو پشاور
خیبر پختون خوا کے اس صوبائی حلقے سے 27 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے یٰسین خلیل، عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب طاہر، مسلم لیگ (ن) کے فرہاد علی، پی پی پی کے ارباب عالم گیر اور جے یو آئی (ف) کے مولانا امان اللّٰہ حقانی کے مابین ہو گا۔
پی کے سیون پشاور
اس حلقے سے 17 امیدوار میدان میں ہیں جب کہ پچھلی بار کام یابی حاصل کرنے والے خیبر پختون خوا اسمبلی کے سپیکر کرامت اللّٰہ چغر مٹی، تحریک انصاف کے محمود جان، اے این پی کے عزیز غفار اور جماعت اسلامی کے حشمت خان کے مابین کاٹنے دار مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے 12 نوشہرہ
یہ سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کا آبائی حلقہ ہے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 129184 ہے، جن میں 72203 مرد اور 56981 خواتین ووٹر شامل ہیں۔ اس حلقے میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ہے لیکن اس بار تحریک انصاف بھی اپنے حریفوں کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ 2008 میں میاں افتخار حسین نے 13072 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی جب کہ ان کے مدمقابل میاں خلیق الرحمٰن نے 12655 ووٹ حاصل کیے تھے۔ میاں افتخار حسین کے مدمقابل میاں خلیق الرحمٰن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ میاں خلیق الرحمٰن کا تعلق ڈاگ اسمٰعیل خیل کے میاں گھرانے سے ہے، جو اس دفعہ عمران خان کا ملک میں مثبت تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں نکلے ہیں، اس کے علاوہ میاں افتخار حسین کے مقابلے میں روایتی حریف مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر حاجی نور محمد کے صاحب زادے حاجی اشفاق احمد بھی میدان میں ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پبی کے رہائشی محمد اجمل خان کو اپنا امیدوار نام زد کیا ہے جب کہ میاں افتخار حسین کے مقابلے میں عوامی نیشنل پارٹی کی دو مرتبہ بلا مقابلہ منتخب ہونے والی خاتون کونسلر دل شاد بیگم بھی میدان میں ہیں۔
پی کے 13
یہ حلقہ تحصیل پبی کے علاقوں بانڈہ شیخ اسمٰعیل، اکبر پورہ، محب بانڈہ، امان کوٹ اور تحصیل نوشہرہ کے علاقوں اضاخیل، پیر پیائی، امان گڑھ انڈسٹریل سٹیٹ، بدرشی، پیران، والئی، تنگی، مانکی شریف، بہادر خیل، ملئی، کٹی خیل، کانا خیل، پلوسئی، سپین کانا، شیخئی اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 151842 ہے، جن میں 84429 مرد اور 67413 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر پرویز خٹک کا آبائی حلقہ ہے، جہاں سے وہ متعدد بار کام یابی حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں اس حلقے سے پرویز خٹک نے 15168 ووٹ حاصل کر کے کام یابی حاصل کی تھی، آنے والے الیکشن میں یہاں سے ان کا مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے شاہد خٹک، پیپلز پارٹی کے میاں یحییٰ شاہ کاکا خیل، جماعت اسلامی کے محمد حنیف، مسلم لیگ (ن) کے میاں راشد علی شاہ اور قومی وطن پارٹی کے ذوالفقار عزیز سے ہوگا جب کہ کچھ آزاد امیدوار بھی یہاں سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
پی کے 21 چارسدہ
کل 12 امیدوار، اصل مقابلہ قومی وطن پارٹی کے امیدوار اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے فرزند سکندر شیر پاؤ اور اے این پی کے امیدوارسابق وزیراعلی امیر حیدرخان ہوتی کے سیاسی مشیر سید معصوم شاہ کے مابین ہے۔
پی کے 23 مردان
بہت اہم حلقہ ہے، یہاں سے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کو مسلم لیگ (ن) کے نواب زادہ عمر فاروق ہوتی، تحریک انصاف کے سید عمر فاروق اور جے یو آئی (س) اور متحدہ دینی محاذکے امیدوار سابق صوبائی ڈپٹی سپیکر اکرم اللّٰہ شاہد کا سامنا ہے۔
پی کے 29 مردان
17 امیدوار مقابلے میں ہیں، اصل زور آزمائی پی پی پی کے عبدالاکبر خان، تحریک انصاف کے طفیل انجم، جماعت اسلامی کے محمد ابراہیم خان بلند، اے این پی کے ادریس باچا اور جے یو آئی کے مفتی سخی بہادر کے مابین ہو گی۔
پی کے 35 صوابی
امیدوار 12 ہیں، اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام اور قومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل علی حقانی، مسلم لیگ (ن) کے سجاد خان، تحریک انصاف کے اسد قیصر کے مابین ہوگا۔
پی کے 45 ایبٹ آباد
کل 11 امیدواروں میں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار مہتاب احمد خان، جماعت اسلامی کے سعید احمد عباسی، تحریک انصاف کے عبدالرحمٰن عباسی اور پی پی پی کے غضنفر علی عباسی کے مابین کانٹے کا دنگل ہوگا۔
پی کے 52 ہری پور
13 امیدوار ہیں، بڑے جوڑ پی ایم ایل کے صابر شاہ، تحریک انصاف کے فیصل زمان، جماعت اسلامی کے اختر زمان خان اور جے یو آئی کے قاضی محمد فاروق ہیں۔
پی کے 70 بنوں
10 امیدوار ہیں، جن میں جے یو آئی کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کو تحریک انصاف کے آصف الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے ملک ناصر خان کا سامنا ہے۔
پی کے 74 لکی مروت
یہاں سے 15 امیدوار ہیں تاہم پی پی پی کے انور سیف اللّٰہ خان، جمعیت علمائے اسلام کے انور حیات خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدرالدین مروت کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے 75 لکی مروت
یہاں سے 20 امیدوار ہیں، اصل رن پی پی پی کے صوبائی صدر انور سیف اللّٰہ خان اور جمعیت علمائے اسلام کے ملک نور سلیم کے درمیان پڑے گا۔
پی کے 80 سوات
اس صوبائی نشست کے13 امیدوار ہیں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر جنگلات واجد علی خان اور قومی وطن پارٹی کے فضل رحمان نونو کے مابین سخت مقابلہ ہے۔
پی کے 82 سوات
اس صوبائی حلقے سے 8 امیدوار ہیں، اصل مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ایم پی اے وقار احمد خان، پاکستان مسلم لیگ کے امیر مقام اور تحریک انصاف کے امجد علی کے مابین ہو گا۔
پی کے 95 لوئر دیر
اس صوبائی نشست کے لیے کل 9 امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل اور دل چسپ مقابلہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ہدایت اللّٰہ خان کے مابین ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے 11 مئی کس امیدوارکی قسمت کا سورج غروب اورکس کا طلوع ہوگا؟۔
نظر بہ ظاہر جن انتخابی حلقوں میں دو امیدواروں کے مابین سخت اورکانٹے کے مقابلے نظرآرہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ نتیجہ کسی تیسرے کے حق میں برآمد ہو اور تجزیہ کار منہ دیکھتے رہ جائیں کیوں کہ
ہیں کواکب کچھ، نظرآتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ذیل میں خیبرپختون خوا اورفاٹا کیان چند قومی اورصوبائی حلقوں کی وہ تصویر پیش کی جا رہی ہے، جو دکھائی دے رہی ہے ۔۔۔۔ لیکن آپ جانیے! باطن کا حال بہ ہر حال اللّٰہ جانے۔
پاکستان میں انتخابی حلقوں کا آغاز صوبۂ خیبر پختون خوا سے ہوتا ہے۔ اس میں قومی اسمبلی کے 35 اورصوبائی اسمبلی کے 99 حلقے آتے ہیں۔ اس مرتبہ خیبر پختون خوا سے قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کل 517 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جن میں 49 سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سمیت آزاد امیدوار بھی شامل ہیں۔ خیبر پختون خوا کے رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد ایک کروڑ 22 لاکھ 66 ہزار ایک سو 57 ہے۔ 2008 کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی شرح این اے 12 صوابی ایک میں اور سب سے کم این اے ون پشاور میں رہی۔ این اے بارہ صوابی میں کثیر تعداد میں ووٹ پڑنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس وقت اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان اورموجودہ عوامی جمہوری اتحادکے رہ نما عثمان خان ترکئی کے مابین ون ٹوون مقابلہ تھا، حلقے کی تمام دیگر سیاسی جماعتوں نے عثمان خان ترکئی کوسپورٹ کیاتھا، جس کی وجہ سے اسفندیار ولی خان ہارگئے تھے تاہم بہت کم ووٹوں سے۔
صوبائی دارلحکومت پشاور
پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے چار حلقے خیبر پختون خوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں این اے ون سے اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور منتخب ہوئے تھے، وہ اس مرتبہ بھی این ون سے اے این پی کے امیدوار ہیں تاہم اس مرتبہ ان کے مدمقابل 17 امیدوار ہیں اور ان میں اہم ترین نام پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کاہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مقابلہ ان ہی کے مابین ہوگا۔
2008 کے انتخابات میں حلقہ این اے 2 سے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر ارباب عالم گیر نے اے این پی کے امیدوار ارباب نجیب اللّٰہ خان کو شکست دی تھی اور یہاں اس بار بھی ان ہی دونوں میں دل چسپ مقابلہ کی توقع ہے، اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے اقبال خلیل اورجے یوآئی کے مفتی سعید بھی مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ این اے 3 پشاور میں 2008 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہ نما ہاشم بابر کو پی پی پی کے نور عالم خان نے شکست دی تھی تاہم ہاشم بابر اس بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑ رہے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے رہ نما اقبال ظفر جھگڑا بھی یہاں سے امیدوار ہیں تاہم یہاں اصل ٹاکرا پی پی پی کے نورعالم خان، پی ٹی آئی کے ساجد نواز، جے یوآئی کے حاجی غلام علی اور اے این پی کے ارباب انعام اللّٰہ کے درمیان متوقع ہے۔
این اے 4 سے گذشتہ الیکشن میں کام یاب امیدوار اے این پی کے ارباب محمد ظاہر اس مرتبہ ٹکٹ حاصل نہیں کر پائے اور اے این پی نے ارباب ایوب جان کو ٹکٹ دیا ہے، جن کا مقابلہ جماعت اسلامی کے صابرحسین اعوان، پی ٹی آئی کے گل زارخان ماشوخیل اور خاتون آزاد امیدوارانیلا شاہین سے ہو گا۔
ضلع نوشہرہ
حلقہ این اے 5 اوراین اے 6 ضلع نوشہرہ میں ہیں، جہاں گذشتہ انتخابات میں این اے 5 پر پیپلز پارٹی کے انجینیئر طارق خٹک جب کہ این اے 6 پر عوامی نیشنل پارٹی کے مسعود عباس خٹک نے کام یابی حاصل کی تھی، اس مرتبہ این اے 5 پر اصل مقابلہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد (مرحوم) کے فرزند آصف لقمان قاضی، عوامی نیشنل پارٹی کے داؤد خان خٹک، سینیٹرسردارعلی خان کے فرزندآزاد امیدوار شہزادخان اورتحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل پرویزخان خٹک کے مابین ہوگا، جب کہ این اے 6 پر عوامی نیشنل پارٹی نے مسعود عباس خٹک کو، متحدہ دینی محاذ نے جے یو آئی(س) کے امیرمولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامدالحق حقانی، پی ایم ایل (ن) نے ذوالفقار باچا، پی ٹی آئی نے سراج محمد خان اورجے یو آئی نے مفتی شوکت خٹک کو میدان میں اتارا ہے تاہم اصل ٹاکرا اے این پی کے مسعودعباس خٹک، پی ایم ایل (ن) کے ذولفقار باچا، متحدہ دینی محاذ کے مولانا حامدالحق اور پی ٹی آئی کے سراج محمد خان کے مابین متوقع ہے۔
ضلع چارسدہ
این اے 7 ضلع چارسدہ، جو عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا آبائی حلقہ ہے، 2008 میں بھی وہ اسی نشست سے کام یاب ہوئے تھے اور اس مرتبہ بھی وہ اسی حلقے سے امیدوار ہیں، جہاں جمعیت علمائے اسلام (ف) اورقومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار مولانا گوہر شاہ، جماعت اسلامی کے ارشدخان اور پی ٹی آئی کے فضل خان حصہ لے رہے ہیں تاہم اصل اوردل چسپ مقابلہ مولانا گوہر شاہ اوراسفندیار ولی خان کے مابین ہوگا اوراس حلقے پر صوبے بھر کے عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں، حلقہ این اے 8 میں قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ، عوامی نیشنل پارٹی کے تیمورخان اورجے یوآئی کے مثمرشاہ کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، آفتاب احمد خان شیرپاؤ گذشتہ الیکشن میں بھی اسی حلقے سے کام یاب ہوئے تھے۔
مردان
خیبر پختون خوا کے ضلع مردان سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں ہیں، جن میں سے این اے 9 مردان ون سے صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں اس نشست پر اے این پی کے خواجہ محمد ہوتی کام یاب ہوئے تھے تاہم اب انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس بار وہ اسی نشست پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر ہیں، پیپلز پارٹی نے اس نشست پر خاتون امیدوار شازیہ اورنگ زیب کو میدان میں اتارا ہے مگراصل کانٹے کا مقابلہ سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی اور پی ایم ایل (ن) کے خواجہ محمد خان ہوتی کے درمیان ہوگا۔
گذشتہ انتخابات میں این اے 10 سے ایم ایم اے کے امیدوار مولانا محمد قاسم کام یاب ہوئے تھے لیکن متحدہ مجلس عمل کے غیر فعال ہونے کے بعد وہ اس حلقے سے جے یو آئی (ف) کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ جماعت اسلامی کے سلطان محمد، اے این پی کے فاروق خان اور تحریک انصاف کے علی محمد خان سے ہو گا۔ این اے 11مردان تھری سے 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالاکبر خان کام یاب ہوئے تھے تاہم اس بار پی پی پی کا ٹکٹ خان زادہ خان کو ملا ہے، جن کا مقابلہ جے یو آئی(ف) کے مولانا امداد اللہ یوسف زئی اورپی ٹی آئی کے مجاہدخان کے درمیان ہو گا۔
صوابی
ضلع صوابی میں بھی قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں، 2008 میں این اے 12 صوابی ون سے انجینیئر عثمان ترکئی نے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کو شکست سے دو چار کیا تھا، عثمان ترکئی اس حلقے سے ایک بار پھر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ویسے تومذکورہ حلقے سے دیگرامیدواربھی قسمت آزمائی کررہے ہیں تاہم اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اورقومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار اشفاق اللّٰہ خان، اے این پی کے حاجی رحمان اللّٰہ اورعوامی جمہوری اتحادکے عثمان خان ترکئی کے مابین ہوگا۔
این اے 13 صوابی کی نشست 2008 میں اے این پی کے پرویزخان نے جیتی تھی، اس مرتبہ اس نشست سے اے این پی کے محمد سرور خان، جے یوآئی(ف) کے مولانا عطاالحق درویش، پی ایم ایل (ن) کے افتخاراحمد خان، تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر، پی پی پی کے محمد نعیم خان، عوامی جمہوری اتحادکے شہرام خان ترکئی، جماعت اسلامی کے امیرنوازخان، جے یوآئی (نظریاتی) کے خلیل احمد مخلص اورتحریک تحفظ پاکستان کے شہاب میدان میں موجودہیں مگر اصل مقابلہ جے یوآئی (ف) کے عطاء الحق درویش، پی پی پی کے محمد نعیم خان، پی ایم ایل (ن) کے افتخاراحمدخان، پی ٹی آئی کے اسد قیصر اور عوامی جمہوری اتحادکے امیدوار شہرام خان ترکئی کے درمیان ہوگا۔
کرک + ہنگو
2008 میں این اے 15 کرک سے جے یو آئی کے مفتی اجمل خان کام یاب ہوئے تھے اور اس مرتبہ اس حلقے سے تمام بڑی جماعتوں نے خٹک برادری سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں، این اے 16 ہنگو سے عوامی نیشنل پارٹی کے سید حیدر علی شاہ نے کام یابی حاصل کی تھی اور وہی اس بار پھر اے این پی کے امیدوار ہیں، جن کا مقابلہ پی پی پی کے سیّد ابن علی اور جے یو آئی (ف) کے مولانا حسین جلالی سے ہے۔
ایبٹ آباد
یہاں قومی حلقوں کی ابتداء ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد سے ہوتی ہے، جہاں 2008 میں قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے مسلم لیگ (ن) کو کام یابی ملی تھی۔ این اے 17 ایبٹ آباد ون سے جیتنے والے سردار مہتاب خان عباسی ہی اس بار بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں لیکن ان کے مدمقابل دس امیدواروں میں سے 9 چہرے نئے ہیں۔ گذشتہ الیکشن میں ان سے شکست کھانے والے ڈاکٹر اظہر خان جدون اس بار تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے اور وہی ان کے مضبوط حریف نظر آتے ہیں۔ این اے 18 ایبٹ آباد میں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنے سابق ایم این اے مرتضیٰ جاوید عباسی کو میدان میں اتارا ہے، گذشتہ الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والے سردار محمد یعقوب اس مرتبہ مسلم لیگ (ق) کے بجائے تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار ہیں، ان کے علاوہ اس حلقے سے تیسرا اہم نام صوبۂ ہزارہ کے قیام کے لیے جاری تحریک کے سرگرم رہ نما بابا حیدر زمان کا ہے۔
ہری پور
ضلع ہری پور میں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ این اے 19 ہے۔ گذشتہ انتخابات میں یہاں مسلم لیگ (ن) کے سردار مشتاق خان نے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار اور سابق وزیر عمر ایوب کو ہرایا تھا لیکن اس بار عمر ایوب خود مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے راجہ عامر زمان سے ہے، اس نشست پر دو خواتین اِرم فاطمہ اے این پی جب کہ فائزہ رشید آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل کا حصہ بنیں گی۔
ڈیرہ اسمٰعیل خان
2008 میں ڈیرہ اسمٰعیل خان سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 24 پی پی پی کے فیصل کریم کنڈی نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو شکست دے کر جیتی تھی، اس بار پی پی پی نے مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں وقار احمد خان کو اتارا ہے، ماضی کی معروف اداکارہ مسرت شاہین بھی اس حلقے کے 33 امیدواروں میں شامل ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن ڈی آئی خان کم ٹانک این اے 25 سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور اس مرتبہ ان کا یہاں مقابلہ فیصل کریم کنڈی سے ہے۔
بنوں
حلقہ این اے 26 بنوں سے گذشتہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن نے کام یابی حاصل کی لیکن اس بار یہاں سے جے یو آئی (ف) کے رہ نماء اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی امیدوار ہیں اور ان کا مقابلہ جے یوآئی (ف) کے ناراض آزاد امیدوار مولانا نسیم علی شاہ کے مابین ہوگا، مولانا نسیم علی شاہ کو اے این پی، پی پی پی اورقومی وطن پارٹی کی بھی بھرپورحمایت حاصل ہے، ساتھ اس حلقے سے دیگر امیدواروں میں پی ٹی آئی کے مطیع اللّٰہ خان، (ن) لیگ کے ملک اختر اور جماعت اسلامی کے پروفیسر محمد ابراہیم خان کے نام بھی نمایاں ہیں۔
لکی مروت
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 27 سے 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے ہمایوں سیف اللّٰہ کام یاب قرار پائے تھے، اس مرتبہ یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے سلیم سیف الّٰلہ کا مقابلہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ہو گا، یہاں سے اے این پی نے علی سرور، پی ٹی آئی نے کرنل (ر) امیر الّٰلہ مروت جب کہ (ق) لیگ نے محمد جاوید انور خان مروت غزنی خیل کو ٹکٹ دیا ہے۔
سوات
گزشتہ انتخابات میںاین اے 30 سوات 2 سے پی پی پی کے امیدوار سید علاؤالدین خان جیت گئے تھے، اب کی باران کے مدمقابل اہم نام مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر امیر مقام کا ہے، دونوں کے مابین کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
قبائلی علاقہ جات
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے 7 ایجنسیاں، جن میں قومی اسمبلی کے کل 12 حلقے شامل ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پولٹیکل پارٹی ایکٹ 2011 کے نفاذ کے بعد یہ پہلی بار ہے کہ امیدوار کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ فاٹا سے ہی بڑی پیش رفت یہ ہے کہ پہلی بار کوئی خاتون امیدوار جن کا نام بادام زری ہے، انتخابات میں حصہ لیں گی۔
مومند ایجنسی
فاٹا کے 12 حلقوں کی ابتداء مہمند ایجنسی سے ہوتی ہے، جو این اے 36 قبائلی علاقہ 1 ہے۔ گذشتہ بار اس حلقے سے 21 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، یہ تعداد اب 40 ہو چکی ہے۔ کام یاب ہونے والے بلال رحمٰن اس بار بھی میدان میں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر فاروق افضل، جماعت اسلامی نے غلام محمد صادق، تحریک انصاف نے داؤد شاہ جب کہ مسلم لیگ (ن) نے زر خان صافی کو ٹکٹ دیا ہے۔
کرم ایجنسی
کرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کے 2 حلقے ہیں۔ این اے 37 کرم ایجنسی کی تحصیل پاڑا چنار پر مشتمل ہے۔ گذشتہ انتخابات میں کام یاب ہونے والے ساجد حسین طوری اس بار بھی آزاد امیدوار ہیں جب کہ پی ٹی آئی نے حفیظ الّٰلہ، اے این پی نے رجب علی اور مسلم لیگ (ن) نے عبدالحمید اورکزئی کو ٹکٹ دیا ہے۔ این اے 38 پر گذشتہ انتخابات میں منیر خان اورکزئی کام یاب ہوئے تھے تاہم اس بار وہ اس نشست کے لیے جے یو آئی (ف) کے امیدوار ہیں، تحریک انصاف نے حضرت نبی، پی پی پی نے ملک ذوالفقار علی جب کہ مسلم لیگ (ن) نے نوید احمد خان کو میدان میں اتارا ہے۔
باجوڑ ایجنسی
این اے 43 قبائلی علاقہ 8 باجوڑ ایجنسی میں 2008 کے انتخابات میں انجینیئر شوکت اللّٰہ نے کام یابی حاصل کی تھی، جو فی الوقت خیبر پختونخوا کے گورنر بھی ہیں۔ اس بار پی پی پی نے سعید الرحمٰن، جماعت اسلامی نے صاحب زادہ ہارون الرشید، مسلم لیگ (ن) نے عبداللّٰہ اور جے یو آئی نے مولوی محمد صادق کو میدان میں اتارا ہے۔ اس حلقے سے مجموعی امیدواروں کی تعداد 16 ہے۔ حلقہ این اے 44 قبائلی علاقہ 9 پر مشتمل ہے، یہاں سے 2008 میں پی پی پی کے اخونزادہ چٹان کام یاب ہوئے تھے اس بار وہ دیگر 24 امیدواروں کا مقابلہ کریں گے، جن میں پی ٹی آئی کے گل داد خان، اے این پی کے گل افضل، جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالرّشید اور (ن) لیگ کے شہاب الدین شامل ہیں۔ قبائلی علاقوں کی نشست کے لیے پہلی مرتبہ ایک خاتون امیدوار بادام زری نے بھی اسی نشست کے لیے کاغذات نام زدگی جمع کرائے ہیں اور وہ بھی ایک مضبوط امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں۔
خیبر ایجنسی
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 45 قبائلی علاقہ 10 جمرود، لنڈی کوتل اور ملاغر پر مشتمل ہے۔ 2008 میں اس حلقے سے نورالحق قادری کام یاب ہوئے تھے، اس بار پی پی پی کے حضرت ولی، پی ٹی آئی کے خان شیر آفریدی، اے این پی کے ملک دیار خان، جے یو آئی کے سید جان اور مسلم لیگ (ن) کے زاہد خان آفریدی سمیت، 18 امیدوار مدمقابل ہیں۔ حلقہ این اے 46 قبائلی علاقہ 11 کہلاتی ہے، گذشتہ انتخابات میں یہاں سے حمید للّٰہ جان آفریدی نے کام یابی حاصل کی تھی، اس بار مدمقابل امیدواروں میں زیادہ تعداد آزاد امیدواروں کی ہے۔
فرنٹیئر ریجن
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 47 قبائلی علاقہ 12 ایف آر کے علاقوں پر مشتمل ہے، جن میں ایف آر بنوں، ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی، ایف آر ڈی آئی خان اور ایف آر ٹانک شامل ہیں، یہ وہ علاقے ہیں جن کی سرحدیں قبائلی ایجنسیوں سے متصل ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں اس حلقے سے ظفر بیگ بیٹنی کام یاب ہوئے تھے، اس بار 36 امیدوار میدان میں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں جے یو آئی کے مفتی عبدالشکور بیٹنی، جماعت اسلامی کے محمد رسول آفریدی، مسلم لیگ (ن) کے ملک حاجی گل باز آفریدی، اے این پی کے ملک حاجی شاہد خان شیرانی اور پی ٹی آئی کے قیصر اقبال شامل ہیں۔
ملاکنڈ پروٹیکٹڈ ایریا، پاٹا
حلقہ این اے 35 سے گذشتہ انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار نے کام یابی حاصل کی تھی تاہم اس بار مقابلہ سخت ہے۔ اس دفعہ پی پی پی نے اس اکھاڑے میں لال محمد خان، عوامی نیشنل پارٹی نے معروف شاعر و ادیب رحمت شاہ سائل، جماعت اسلامی نے بختیار معانی، پی ٹی آئی نے جنید اکبر، مسلم لیگ (ن) نے حاجی محمد فدا جب کہ جے یو آئی (ف) نے حافظ محمد سعید کوا تارا ہے۔
صوبائی حلقوں میں کانٹے کے مقابلے
خیبر پختوخوا میں صوبائی اسمبلی کی 99 نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے علاوہ کئی آزادامیدواربھی میدان میں ہیں، جہاں اس مرتبہ تحریک انصاف کے متحرک ہونے کی بناء پر کاٹنے دار مقابلے متوقع ہیں۔ یہاں ان صوبائی حلقوں کا اجمالی سا خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جہاں کچھ پرانے اور نئے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلوں کی توقع کی جارہی ہے۔
پی کے ون پشاور
صوبائی دارالحکومت پشاور کے اس حلقے سے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں اورآزادامیدواروںسمیت کل 27 امیدوار پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔ اس حلقے سے اے این پی کے امیدوار اورسینیٹر الیاس بلور کے صاحب زادے غضنفر بلور، جماعت اسلامی کے بحر اللّٰہ خان ایڈووکیٹ، آزاد امیدوار ڈاکٹر ذاکر شاہ، جے یو آئی (ف) کے اخون زادہ عرفان اللّٰہ شاہ، تحریک انصاف کے ضیاء اللّٰہ آفریدی، پی پی پی کے محمد اکبر ایڈووکیٹ اور قومی وطن پارٹی کے ملک ندیم کے مابین کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
پی کے ٹو پشاور
اس صوبائی حلقے سے 23 امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید ظاہر علی شاہ، پاکستان تحریک انصاف کے شوکت یوسف زئی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا خیرالبشر اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ملک غلام مصطفٰی کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے تھری پشاور
اس حلقے پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار اور شہید بشیر احمد بلور کے فرزند ہارون بلور، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلیل جان، مسلم لیگ (ن) کے خادم علی یوسف زئی، جماعت اسلامی کے خالد گل مہمند، پی پی پی کے حاجی اقبال مہمند اور تحریک انصاف کے جاوید نسیم کے مابین سخت مقابلہ ہو گا۔
پی کے فور پشاور
اس صوبائی حلقے سے کل 18 امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں تاہم اصل مقابلہ 2008 کے عوامی نیشنل پارٹی کے کام یاب امیدوار سید عاقل شاہ، جماعت اسلامی کے ریاض احمد باچا، پی پی پی کے کفایت اللّٰہ اور محمد ابراہیم قاسمی، مسلم لیگ (ن) کے محمد ارشد قریشی اور تحریک انصاف کے عارف یوسف کے مابین ہو گا۔
پی کے فائیو پشاور
خیبر پختون خوا کے اس صوبائی حلقے سے 27 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے یٰسین خلیل، عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب طاہر، مسلم لیگ (ن) کے فرہاد علی، پی پی پی کے ارباب عالم گیر اور جے یو آئی (ف) کے مولانا امان اللّٰہ حقانی کے مابین ہو گا۔
پی کے سیون پشاور
اس حلقے سے 17 امیدوار میدان میں ہیں جب کہ پچھلی بار کام یابی حاصل کرنے والے خیبر پختون خوا اسمبلی کے سپیکر کرامت اللّٰہ چغر مٹی، تحریک انصاف کے محمود جان، اے این پی کے عزیز غفار اور جماعت اسلامی کے حشمت خان کے مابین کاٹنے دار مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے 12 نوشہرہ
یہ سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کا آبائی حلقہ ہے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 129184 ہے، جن میں 72203 مرد اور 56981 خواتین ووٹر شامل ہیں۔ اس حلقے میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ہے لیکن اس بار تحریک انصاف بھی اپنے حریفوں کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ 2008 میں میاں افتخار حسین نے 13072 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی جب کہ ان کے مدمقابل میاں خلیق الرحمٰن نے 12655 ووٹ حاصل کیے تھے۔ میاں افتخار حسین کے مدمقابل میاں خلیق الرحمٰن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ میاں خلیق الرحمٰن کا تعلق ڈاگ اسمٰعیل خیل کے میاں گھرانے سے ہے، جو اس دفعہ عمران خان کا ملک میں مثبت تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں نکلے ہیں، اس کے علاوہ میاں افتخار حسین کے مقابلے میں روایتی حریف مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر حاجی نور محمد کے صاحب زادے حاجی اشفاق احمد بھی میدان میں ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے پبی کے رہائشی محمد اجمل خان کو اپنا امیدوار نام زد کیا ہے جب کہ میاں افتخار حسین کے مقابلے میں عوامی نیشنل پارٹی کی دو مرتبہ بلا مقابلہ منتخب ہونے والی خاتون کونسلر دل شاد بیگم بھی میدان میں ہیں۔
پی کے 13
یہ حلقہ تحصیل پبی کے علاقوں بانڈہ شیخ اسمٰعیل، اکبر پورہ، محب بانڈہ، امان کوٹ اور تحصیل نوشہرہ کے علاقوں اضاخیل، پیر پیائی، امان گڑھ انڈسٹریل سٹیٹ، بدرشی، پیران، والئی، تنگی، مانکی شریف، بہادر خیل، ملئی، کٹی خیل، کانا خیل، پلوسئی، سپین کانا، شیخئی اور دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 151842 ہے، جن میں 84429 مرد اور 67413 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ یہ تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر پرویز خٹک کا آبائی حلقہ ہے، جہاں سے وہ متعدد بار کام یابی حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 کے انتخابات میں اس حلقے سے پرویز خٹک نے 15168 ووٹ حاصل کر کے کام یابی حاصل کی تھی، آنے والے الیکشن میں یہاں سے ان کا مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے شاہد خٹک، پیپلز پارٹی کے میاں یحییٰ شاہ کاکا خیل، جماعت اسلامی کے محمد حنیف، مسلم لیگ (ن) کے میاں راشد علی شاہ اور قومی وطن پارٹی کے ذوالفقار عزیز سے ہوگا جب کہ کچھ آزاد امیدوار بھی یہاں سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
پی کے 21 چارسدہ
کل 12 امیدوار، اصل مقابلہ قومی وطن پارٹی کے امیدوار اور آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے فرزند سکندر شیر پاؤ اور اے این پی کے امیدوارسابق وزیراعلی امیر حیدرخان ہوتی کے سیاسی مشیر سید معصوم شاہ کے مابین ہے۔
پی کے 23 مردان
بہت اہم حلقہ ہے، یہاں سے سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی کو مسلم لیگ (ن) کے نواب زادہ عمر فاروق ہوتی، تحریک انصاف کے سید عمر فاروق اور جے یو آئی (س) اور متحدہ دینی محاذکے امیدوار سابق صوبائی ڈپٹی سپیکر اکرم اللّٰہ شاہد کا سامنا ہے۔
پی کے 29 مردان
17 امیدوار مقابلے میں ہیں، اصل زور آزمائی پی پی پی کے عبدالاکبر خان، تحریک انصاف کے طفیل انجم، جماعت اسلامی کے محمد ابراہیم خان بلند، اے این پی کے ادریس باچا اور جے یو آئی کے مفتی سخی بہادر کے مابین ہو گی۔
پی کے 35 صوابی
امیدوار 12 ہیں، اصل مقابلہ جمعیت علمائے اسلام اور قومی وطن پارٹی کے مشترکہ امیدوار مولانا فضل علی حقانی، مسلم لیگ (ن) کے سجاد خان، تحریک انصاف کے اسد قیصر کے مابین ہوگا۔
پی کے 45 ایبٹ آباد
کل 11 امیدواروں میں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار مہتاب احمد خان، جماعت اسلامی کے سعید احمد عباسی، تحریک انصاف کے عبدالرحمٰن عباسی اور پی پی پی کے غضنفر علی عباسی کے مابین کانٹے کا دنگل ہوگا۔
پی کے 52 ہری پور
13 امیدوار ہیں، بڑے جوڑ پی ایم ایل کے صابر شاہ، تحریک انصاف کے فیصل زمان، جماعت اسلامی کے اختر زمان خان اور جے یو آئی کے قاضی محمد فاروق ہیں۔
پی کے 70 بنوں
10 امیدوار ہیں، جن میں جے یو آئی کے امیدوار اور سابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی کو تحریک انصاف کے آصف الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے ملک ناصر خان کا سامنا ہے۔
پی کے 74 لکی مروت
یہاں سے 15 امیدوار ہیں تاہم پی پی پی کے انور سیف اللّٰہ خان، جمعیت علمائے اسلام کے انور حیات خان اور عوامی نیشنل پارٹی کے صدرالدین مروت کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
پی کے 75 لکی مروت
یہاں سے 20 امیدوار ہیں، اصل رن پی پی پی کے صوبائی صدر انور سیف اللّٰہ خان اور جمعیت علمائے اسلام کے ملک نور سلیم کے درمیان پڑے گا۔
پی کے 80 سوات
اس صوبائی نشست کے13 امیدوار ہیں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر جنگلات واجد علی خان اور قومی وطن پارٹی کے فضل رحمان نونو کے مابین سخت مقابلہ ہے۔
پی کے 82 سوات
اس صوبائی حلقے سے 8 امیدوار ہیں، اصل مقابلہ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ایم پی اے وقار احمد خان، پاکستان مسلم لیگ کے امیر مقام اور تحریک انصاف کے امجد علی کے مابین ہو گا۔
پی کے 95 لوئر دیر
اس صوبائی نشست کے لیے کل 9 امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل اور دل چسپ مقابلہ جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر سراج الحق اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر ہدایت اللّٰہ خان کے مابین ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے 11 مئی کس امیدوارکی قسمت کا سورج غروب اورکس کا طلوع ہوگا؟۔