11 مئی کو فنکشنل لیگ کی فتح ہوگی امتیاز احمد شیخ

فنکشنل مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری امتیاز احمد شیخ کا خصوصی انٹرویو

امتیاز احمد شیخ نے1999ء ملازمت سے استعفیٰ دیا اور سیاست میں قدم رکھا۔ فوٹو : فائل

سندھ کی سیاست میں امتیاز احمد شیخ کا نام کسی تعرف کا محتاج نہیں امتیاز احمد شیخ نے1999ء ملازمت سے استعفیٰ دیا اور سیاست میں قدم رکھا ،ابتداء میں انہوں نے سیاست میں جو مقام حاصل کیا وہ شایدکبھی کسی سیاستدان کو نصیب نہیں ہوا ہو گا ۔امتیازاحمد شیخ بنیادی طور پر ایک بیورکریٹ تھے اور انہوں نے سندھ کی بیورکریسی میں بڑانام کمایا۔ امتیاز احمد شیخ نے پہلی مرتبہ 2002ء کے انتخابات میں حصہ لیا ۔

امتیاز احمد شیخ نے سندھ کی سطح پر ایک اتحاد سندھ ڈیموکریٹس الائنس کے نام سے بنایا اس اتحاد میں ان کے ساتھ مرتضیٰ خان جتوئی ، میر حسن کھوسو ، میر نصیر کھوسو ، سلیم جان مزاری ، جلال محمود شاہ ، خان محمد ڈاہری ، بہادرڈاہری ، اصغر رند ، شاہ محمد شاہ ، مجیب پیرزادہ ،( مرحوم ) ڈاکٹر بدر اقبال ، عرفان مروت ، سردار ممتاز بھٹو کے صاحبزادے امیر بخش بھٹو ، ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ، کشن چند پاروانی، راحیلہ ٹوانہ ، افشاں عمران نزہت پٹھان اور دیگر شامل تھے اس اتحاد نے سندھ میں شاندار فتح حاصل کرکے سندھ میں حکومت بنائی اور امتیاز احمد شیخ کو پہلی بار مشیر وزیراعلیٰ سندھ مقرر کیا گیا بعدازاں ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور انہیں ریونیو کا وزیر بنایا گیا ۔

لیکن سندھ میں سیاسی بحران کے باعث اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر کو 2004ء وزیراعلیٰ سندھ کے منصب سے ہٹایا گیا تو امتیاز احمد شیخ اور ارباب غلام رحیم کا نام سامنے آیا ۔ ارباب غلام رحیم دور میں امتیاز احمد شیخ کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے لیکن امتیاز احمد شیخ نے ان مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کیا اور تمام مقدمات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اس دوران انہوں نے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت اختیار کرلی اور الیکشن 2008ء میں انہوں نے پی ایس 34 گمبٹ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار نعیم کھرل کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا ۔ لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے واقعے کے باعث جو حالات پیدا ہوئے ان حالات کے باعث وہ کامیاب نہیں ہوسکے ۔

لیکن پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر صاحب پگارا شاہ مردان شاہ اور آصف علی زرداری مفاہمت کی پالیسی کے باعث وہ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر رہے۔ 2012ء میں پاکستان مسلم لیگ کے انتخابات میں انہیں فنکشنل لیگ کا سکریٹری جنرل منتخب کیا گیا ۔ اس طرح انہوں نے سندھ میں جس انداز سے پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کو ایک منظم جماعت کے طور متعارف کرایا اور سندھ کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر وہ سامنے لے آئے ۔ امتیاز احمد شیخ کا شمار پیر صاحب پگارا کے قریبی رفقاء میں ہوتا ہے ۔

2012ء میں جب سندھ میں بلدیاتی نظام کا مسئلہ چلا تو فنکشنل لیگ نے اس کے حل کے لیے فنکشنل فارمولا پیش کیا لیکن بات سندھ کی تقسیم تک آگئی تو پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے وزارتیں قربان کردیں لیکن سندھ کی تقسیم پر کوئی سمجھتا نہیں کیا ۔ امیتاز شیخ کی کاوشوں کے باعث سندھ حکومت کو سندھ کی تقسیم کا کالا قانون واپس لینا پڑا ۔ الیکشن 2013ء کا ماحول بنا تو امتیاز احمد شیخ کی کاوشوں سے سندھ بھر میں پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے 10جماعتی اتحاد سامنے آیا ۔ تو پیش پیش رہے ان کی کوششوں سے سندھ میں قومی اسمبلی کی 47 اور صوبائی اسمبلی کی 90 نشستوں پر متفقہ امیدوار لائے گئے ۔

٭ الیکشن 2013ء میں آپ کی جماعت نے عوام کے لیے کیا پروگرام ترتیب دیا ہے ؟
امتیاز احمد شیخ ۔ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) نے عزت ، ترقی اور خوشحالی ، کے عنوان سے 2013ء کے عام انتخابات کے لیے پارٹی کے منشور دیا ہے جس میں عوام سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ملک میں امن و امان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہوم لینڈ سیکورٹی کا نیا نظام متعارف کراتے ہوئے اسپیشل فورس تشکیل دی جائے گی ، تعلیم اور صحت کا بجٹ 6 فیصد کیا جائے گا ، صوبہ بہاولپور بحال کیا جائے گا ، سندھی سمیت علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا ، 1991ء کا آبپاشی معاہدہ نافذ اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کی حمایت کریں گے لیکن کالا باغ ڈیم کی تعمیر برداشت نہیں ہوگی ، ہم نے منشور کے 26 بنیادی نکات میں اولین نکتہ میں وعدہ کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل منتخب ہونے کے بعد ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرکے اہلیت کو معیار بنایا جائے گا ۔

سندھ سمیت ملک کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کمیونٹی پولیس لائیزان کمیٹی (سی پی ایل سی) کا نظام قائم کیا جائے گا جبکہ تمام 'نوگوایریاز' ختم کردیئے جائیں گے ۔ ہم نے منشور میں عوام کے ہر کام کے لیے وقت کی معیاد مقرر کی جائے گی ، سرکاری ملازمین اس معیاد کے اندر وہ کام کرنے کے پابند ہوں گے ۔ ملک میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضاء کو پروان چڑھا کر قومی وحدت کو تقویت دیں گے اور فرقہ وارانہ ، علاقائی تعصب ، لسانیت ، رنگ و نسل کی تفریق کے بجائے پاکستانیت کے جذبہ سے متحد قوم کے مقصد کو حاصل کیا جائے گا ۔

منشور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کو افراط زر میں اضافہ سے منسلک کیا جائے گا اور دفتری اوقات کے بعد سرکاری اجازت سے شام کے اوقات میں سرکاری ملازمین پر کام کرنے پر پابندی نہیں ہوگی ۔ ملک بھر میں بارھویں جماعت تک مفت تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا ۔ منشور میں اے گریڈ میں بارھویں جماعت پاس کرنے والے تمام طلبہ وطالبات کو ٹیبلیٹ پی سی دیئے جائیں گے ۔ بچیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو خصوصی وظائف دئیے جائیں گے۔



جبکہ خصوصی بچوں کے لیے ملک بھر میں تعلقہ سطح پر اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز بنائے جائیں گے ۔ منشور میں مسلم لیگ (ٖف) اقتدار میں آنے پرکراچی کے تعلیمی اداروں میں اندرونِ سندھ کے طلباء کے داخلے پر عائد پابندی فوری ختم کرے گی جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو ایک آزاد اور خودمختار ادارہ بناتے ہوئے اس میں تمام صوبوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔


صحت کے حوالہ سے منشور میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو علاج معالجے کی خصوصی سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی ۔ معذور افراد کو نوکریوں میں تین فیصد کوٹہ دینے کا وعدہ کیاگیا کہ اس کوٹہ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے پسماندہ علاقوں کے ملازمتوں اور دیگر کوٹہ جات کوآئینی تحفظ دیاجائے گا اور پسماندہ طبقات کے لیے خصوصی کوٹے متعارف کرائے جائیں گے تاکہ یہ علاقے بھی قومی ترقی کے عمل میں آگے بڑھ سکیں ۔

منشور میں وعدہ کیاگیا کہ تمام اضلاع میں ریسکیو 1122سروس شروع کی جائے گی جبکہ کراچی میں دوبئی کی طرز پر ، مونوریل ، چلائی جائے گی اور سرکلر ریلوے کو بلٹ ٹرین کے ساتھ فوری بحال کیا جائے گا ۔ مسلم لیگ (ف) اقتدار میں آکر ملک سے بیروزگاری کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور ہنرمند ، نیم ہنر مند افراد کا ، ڈیٹا بیس ، تیار کیا جائے گا جسے ملک میں ، ووکیشنل ٹریننگ اور امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں نوکریوں کی فراہمی کے لیے بروئے کار لایا جائے گا ۔

منشور میں کہاگیا کہ سرکاری زرعی اراضی 12، 12 ایکڑ کی مقدار میں غریب اور مستحق کاشت کاروں اور ہاریوں میں تقسیم کی جائے گی ۔ عوام سے وعدہ کیاگیا کہ کراچی کے ساحلی جزیروں سے متعلق غیر شفاف اور غیر قانونی معاہدوں کو ختم کردیاجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ منشور کے مطابق ضلعی ہیڈ کواٹر ز کی سطح پر ماسٹر پلان مرتب کیا جائے گا جس کے تحت بیوٹی فکیشن ، سیوریج ، روڈ ، پارک ، فلٹر واٹر سپلائی اسکیمیں وغیرہ شروع کی جائیں گی جبکہ کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام شروع کیا جائے گا اور موٹر وے پولیس کی طرز پر کراچی ، حیدرآباد اور سکھر سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں ٹریفک کا نظام رائج کیا جائے گا ۔

٭ ملک میں 11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات شفاف ہونگے؟
امتیاز احمد شیخ ۔ 10جماعتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ چاروں صوبوں سے سیاسی گورنرز کو ہٹا کر ان کی جگہ غیر ساسی گورنرز مقرر کیے جائیں ۔کیونکہ موجودہ حکومت نے انتخابات سے قبل ہی پری پول رگنگ کا آغاز کردیا ہے ۔ جس سے الیکشن کی شفافیت سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔ حکومت اپنے مذموم مقاصد کے لیے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے ۔ اپنے من پسند افسران کی تقریا ں و تبادلے کر رہی ہے ۔ فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوں اور پولنگ بوتھ پر فوج تعینات ہو تاکہ کوئی جعلی ووٹ نہ ڈال سکے ۔

٭ ملک میں امن و امان کی جو صورت حال ہے اس میں ووٹرز اپنے گھروں سے باہر نکلیں گے ؟
ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے نگران حکومت ملک میں امن و امان قائم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے ملک میں پر فضاء ماحول کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاسکے ۔

٭ 11مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات میں فنکشنل مسلم لیگ کی کیا پوزیشن رہے گی ؟
سندھ میں قیادت کا فقدان ہے کوئی سیاسی قائد نہیں پیر صاحب پگارا پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کی صورت میں سندھ کو ایک قائد ملا ہے جس کی مدبرانہ قیادت کے نتیجے میں سندھ کے لوگ اپنا مستقبل روشن دیکھ رہے ہیں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی مقبولیت کو دیکھ کر یہاں کی بڑی سیاسی شخصیات پریشان ہیں ۔ سندھ کو تقسیم کرنے والا کالا قانون ہو یا کوئی اور مسئلہ پاکستان مسلم لیگ فنکشنل نے ہمیشہ سندھ کے عوام کا ساتھ دیا ہے اس لیے 11مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے نتائج حیران کن ہوں گے اس بار بڑے بڑے برج گریں گے اور پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی ۔

٭ آپ 2002ء سے اب تک ایک بار وزیر اور 4 بار مشیر رہے ہیں آپ نے ان ادوار میں شکارپور کے عوام کے لیے کیا کام کیے ہیں ؟
شکارپور کے عوام جانتے ہیں کہ ہم نے یہاں کیا ترقیاتی کام کرائے ہیں ، شکارپور سٹی میں 45 کروڑ روپے کا ڈرینج پروگرام ہم لائے ، شاہی باغ کو تفریخ کے قابل بنایا ، شکارپور میں شاہ لطیف یونیورسٹی کیمپس کا قیام ، گنگارام بائی اسپتال کو ٹیچنگ اسپتال کا درجہ دلوایا ، شہر میں جو سڑکیں آپ کو نظر آ رہی ہیں وہ سب ہمارے منصوبے ہیں ، 2010ء میں جب سیلاب آیا تو یہاں کے منتخب نمائندوں نے شکارپور کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن ہم نے اس شہر کو ڈوبنے سے بچایا ۔ لیکن جب امداد کا وقت آیا تو یہاں کے لوگوں کو وطن کارڈ تک سے محروم رکھا گیا ۔ ہم عوام کے ساتھ رہے اور ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا ۔

٭ شکارپور کی سیاست میں آپ لوگوں کا رخ کس جانب دیکھ رہے ہیں کیا لگتا ہے کہ آپ کامیابی حاصل کرلیں گے؟
میں 10جماعتی اتحاد کا متفقہ امیدوار ہوں یہاں کے لوگ مجھ سے واقف ہیں کہ میں نے لوگوں کی کیا خدمت کی ہے شکارپور کی بزنس کمیونٹی ، آل پاکستان دایا ویلفیئر ایسوسی ایشن شکارپور، قاسمیہ جماعت ، سومرو ، سولنگی ،شیخ ، پٹھان ، بھٹو ،چانڈیو ، بروہی ، پھلپھوٹو ، مسلم لیگ (ن) ، بھیو ، میمن ، لاڑک اور دیگر برادیوں نے ہمارا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ ہم نے شکارپور عوام کا ہر موڑ پر ساتھ دیا ہے اس لیے شکارپور کی عوام بھی ہمارا ساتھ دے گی ۔ ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے پاس گئے ہیں ۔ یہ موقع ہے عوام کے پاس کہ وہ ایوان میں ایسے لوگوں کو لے آئیں جو عوام کے لیے کام کریں ۔
Load Next Story