سیٹوں کی تقسیم
صحافت کی اصل بنیاد اپنے موضوع سے متعلقہ افراد اور اداروں سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے رپورٹنگ کرنا ہے...
صحافت کی اصل بنیاد اپنے موضوع سے متعلقہ افراد اور اداروں سے مسلسل رابطہ رکھتے ہوئے رپورٹنگ کرنا ہے۔باقی سب کہانیاں ہیں اور مضمون طرازیاں۔ میں اب کالم لکھتا ہوں۔ ایک کالم نگار ہمیشہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ آپ کو ان سے اتفاق یا اختلاف کرنے کا پورا حق ہے۔
مگر اس کالم میں اگر میں یہ دعویٰ کر بیٹھوں کہ 11مئی 2013ء کے دن فلاں فلاں جماعت اتنے ووٹ یا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اتنی اتنی سیٹیں لے گی تو مجھ سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں ہوگا۔ سچ پوچھیں تو رپورٹر اسی دن مرجاتا ہے جب وہ خود کو عقلِ کل سمجھنا شروع ہوجائے۔
11مئی 2013ء کے دن قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کے لیے صرف پنجاب ہی نہیں پاکستان کے تین دوسرے صوبوںمیں بھی انتخابی مقابلہ ہونا ہے۔ میں ابھی تک دس سے زیادہ قومی اسمبلی کے حلقوں میں نہیں جاسکا۔ جہاں بھی گیا عام لوگوں سے تھوڑی بہت گپ شپ لگانے کے بعد فوراً اس تشویش میں مبتلا ہوگیا کہ گزشتہ دس برسوں میں اس ملک میں بڑی تیزی سے پھیلنے والے چینلز ٹھوس حقائق کی مناسب تصویر کشی نہیں کرپا رہے۔ صحافت میرا پیشہ نہیں جنون بھی ہے۔
میں اپنے شعبے میں اتنا سرمایہ اور ابلاغ کے جدید ترین آلات آجانے کے بعد آج کل ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے والے ایسے پست معیار کی ہرگز توقع نہیں کررہا تھا۔ مگر سوائے دُکھ کا اظہار کرنے کے اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔ میرا اپنا عالم یہ ہے کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر روزانہ دس سے زیادہ اخبارات بڑی تفصیل سے پڑھنے اور سارا دن ٹی وی کے ریموٹ اور کمپیوٹر کے بٹن دباتے کچھ مفروضے بنا لیے تھے۔ ان مفروضوں کے ساتھ جب بھی گاڑی لے کر اسلام آباد سے نکلا تو ہکا بکا رہ گیا۔
میرا اپنا ووٹ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر48میں رجسٹرڈ ہے۔ یہ حلقہ بنیادی طورپر اسلام آباد کے شہری علاقوں پر مشتمل ہے۔ میڈیا کے بنائے تاثر پر جائیں تو اس شہر میں اصل مقابلہ نواز شریف اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہونا چاہیے۔
ایسا مگر ہرگز نہیں ہورہا۔ اس حلقے میں گھر گھر جاکر ووٹ مانگنے کی قوت کو ذہن میں رکھیں تو جماعتِ اسلامی کے میاں اسلم کی مہم سب سے کامیاب جارہی ہے۔ اسلام آباد کے جوخوش حال سیکٹر ہیں وہاں عمران خان کے چاہنے والے بہت بڑی تعداد میں رہ رہے ہیں۔ ان کی اکثریت اور خاص طور پر خواتین نے کبھی سیاست اور انتخابی عمل میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اس بار وہ سب نہ صرف ووٹ ڈالنے کو تیار بیٹھے ہیں بلکہ اپنے اپنے طور پر تحریک انصاف کی مہم بھی چلارہے ہیں۔ اس سب کے باوجود مجھے 11مئی کو تحریک انصاف کے امیدوار بڑی مشکل سے کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔
میرے باقاعدہ قاری مجھ پر کبھی بھی جماعتِ اسلامی کا ہمدرد ہونے کا الزام نہیں لگاسکتے۔ تحریک انصاف کے بارے میں میں چاہے جو بھی لکھتا رہوں جاوید ہاشمی مجھے ذاتی طور پر بہت پیارا ہے۔ وہ میرے طالب علمی کے دنوں میں ''ایک بہادرآدمی'' بنا تھا۔ اس کی سیاسی سوچ سے میں نے کبھی اتفاق نہیں کیا مگر ذاتی تعلق کافی گہرا ہے۔ ان سب حقیقتوں کے باوجود میرے اندر کا رپورٹر جو نظر آرہا ہے وہ لکھنے پر مجبور ہے۔
اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے مجھے یہ گماں بھی تھا کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف خیبرپختون خواہ میں بہت مقبول ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دن رات 12بجے تک میں نے دس سے زیادہ گھنٹے مردان اور پشاور میں گزارے۔ عمران خان کو اس دن مردان آنا تھا۔ موٹروے سے شہر کی طرف مڑنے کے فوراً بعد اس سڑک پر جو آپ کو دیر اور سوات لے جاتی ہے ایک کھلے میدان میں تحریک انصاف کا پنڈال لگا تھا۔ وہاں جیپوں اور کھلی سوزوکیوں میں لوگ عمران خان کے خطاب کے لیے جمع کیے جارہے تھے۔
زیادہ ترلوگ مردان سے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر9سے نہیں بلکہ ملحقہ حلقے سے آرہے تھے۔ خود مردان شہر میں کوئی زیادہ ہلچل نہ تھی۔ لوگ اپنے اپنے دھندوں اور روزمرہّ کی زندگی میں مگن تھے۔ عمران خان کی آمد سے پہلے لوگوں میں گھل مل کر دریافت ہوا کہ مردان شہر میں مقابلہ اب بھی اے این پی کے امیر حیدر ہوتی اور مسلم لیگ نواز کے خواجہ خان ہوتی کے درمیان ہے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار شازیہ اورنگ زیب گھر گھر جاکر بڑی تگڑی مہم چلاتی بھی بتائی گئیں۔
پشاور شہر میں حال بالکل مختلف ہے۔یہاں قومی اسمبلی کے حلقہ NA-1پر عمران خان بذات خود اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے عمران خان نے پشاور میں کسی بڑے جلسے یا کارنر میٹنگ سے خطاب نہ کیا۔ مجھے البتہ یہ بتایا گیا کہ وہ اپنے صوبائی اسمبلی کے امیدوار شوکت یوسف زئی کے انتخابی دفتر کا افتتاح کریں گے۔ پھر شاید میڈیا سے کوئی بات چیت یا کارکنوں سے خطاب۔ وہ دفتر جہاں عمران خان نے آنا تھا پشاور کی ایک نسبتاً نئی بستی گل بہار کی ایک گلی میں قائم ہوا تھا۔ یہ گلی جس محلے میں ہے وہاں متوسط طبقے کی اکثریت ہے۔
وہاں نوجوان اور پرجوش کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کی اکثریت نے مجھے بتایا کہ ان کے والدین ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں۔ صرف دو چار ایسے لوگ ملے جو اے این پی سے واسطہ توڑ کر تحریک انصاف کے حامی بنے تھے۔ ایسے نوجوانوں کے جوش وخروش کے باوجود اِردگرد کے بازاروں اور گلیوں میں معمول کی زندگی رواں دواں رہی۔ لوگوں کی اکثریت کو انتخابی مہم سے لاتعلق پایا۔ دکانوں اور ریستورانوں میں لوگوں سے بات کریں تو عمران خان کی بڑی حمایت محسوس ہوتی ہے۔ مگر ان کے بہت جذباتی حامی بھی شکایت کررہے تھے کہ تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بہت کمزور ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے کوئی منظم رابطہ نہیں۔
11مئی کے دن لوگوں کو عمران خان کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے کیسے نکالنا ہے۔ کسی کو کچھ اندازہ نہیں اور بلور برادران اس معاملے میں بڑے جہاندیدہ ہیں۔ الغرض اس کالم میں عرض صرف یہ کر رہا ہوں کہ اپنی رپورٹنگ کے تمام تر داؤلگانے کے باوجود میں اب بھی اعتماد کے ساتھ NA-1کا نتیجہ آپ کو نہیں بتاسکتا۔ ایسے میں اپنے ان ساتھیوں پر بڑا رشک آتا ہے جو اب تک مختلف جماعتوں میں وہ سیٹیں''بانٹ'' چکے ہیں جو 11مئی کی رات کو آشکار ہوں گی۔