وہ غلطیاںجوگلے کا ہار بنیں
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں روشن خیالی اورخرد افروزی پر مبنی بائیں بازوکی سیاست کے لیے کبھی سازگار نہیں رہے ہیں...
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں روشن خیالی اورخرد افروزی پر مبنی بائیں بازوکی سیاست کے لیے کبھی سازگار نہیں رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجودگزشتہ عشرے تک سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم واضح رہی۔گوکہ انتخابات میں قدرے لبرل اور سینٹرلسٹ جماعتیں کامیاب ہواکرتی تھیں،مگر اسٹبلشمنٹ کو لبرل جماعتوں کا اقتدار میں آناکبھی گوارا نہیں رہا۔
اس لیے وہ ہمیشہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔اب یہ ذمے داری بعض غیرریاستی عناصر نے سنبھال لی ہے،جو لبرل سیاسی جماعتوں کو مختلف طریقوں سے سیاسی عمل سے جبراً بیدخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن اس صورتحال کی ذمے داری لبرل جماعتوںپربھی عائدہوتی ہے، جن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے انھیں آج خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔بہت پیچھے نہیں جاتے، 1970ء کے عام انتخابات اور1971ء میں ملک دولخت ہونے کے بعدباقی ماندہ پاکستان میں لبرل سیاست کی داعی جماعتوں سے ہونے والی غلطیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
1970ء کے انتخابات میں اس وقت کی حکومت کی تمام تر سرپرستی کے باوجود دائیں بازو کی جماعتیں مجموعی طور پر 30 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کرسکیں۔ جن میں مسلم لیگ (قیوم) 9،جمعیت علمائے پاکستان7،مسلم لیگ (کنونشن) 7، جماعت اسلامی4اورمسلم لیگ (کونسل) 2نشستیں حاصل کرسکی ۔
اس کے برعکس 1967ء میں قائم ہونے والی لبرل سیاسی جماعت پیپلز پارٹی81نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے طورپرسامنے آئی۔ جب کہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور جمعیت علمائے اسلام نے7,7نشستیں حاصل کیں۔ اس زمانے میں مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی،اس لیے اس کا اتحاد دائیں بازو کی جماعتوں کے بجائے NAPکے ساتھ ہوا تھا۔
20دسمبر1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں حالات کے جبر کے تحت سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں تووفاق کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی،جب کہ پختونخواہ اوربلوچستان میںNAP اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ ملک کے روشن خیال حلقوں کو یہ امید تھی کہ پیپلز پارٹی، NAP اور جمعیت علمائے اسلام ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہونے کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے اس ملک میں وسیع البنیاد تعلق قائم کریں گے۔
اس طرح یہ توقع تھی کہ روشن خیالی،لبرل ازم اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ مگر یہ خواہش اس لیے سراب ثابت ہوئی، کیونکہ اقتدار میں آتے ہی پیپلز پارٹی نے اپنی روش تبدیل کرلی ۔بھٹو صاحب نے جہاں شکستگی کے شکار پاکستانی عوام کو اعتماد کی نئی تازگی عطا کی،ملکی معیشت کو بحال کیا اورعالمی سطح پر پاکستان کوایک نئی شناخت دی،وہیں انھوں نے بعض ایسے فیصلے کیے جس سے نہ صرف لبرل سیاست کونقصان پہنچا،بلکہ خود ان کی اپنی جماعت کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔
بھٹو مرحوم سے اقتدارمیں آنے کے بعد جوچند فاش غلطیاں سرزد ہوئیں،ان میں دو انتہائی اہم ہیں۔ اول، بلوچستان کی مخلوط حکومت کا خاتمہ اور وہاں آپریشن کا آغاز۔جس کے ردعمل میںپختونخواہ کی حکومت مستعفی ہوئی ۔پھر حیات محمدخان شیرپاؤ کی بم دھماکے میں شہادت کے بعد خان ولی خان مرحوم کی گرفتاری اورNAPپر پابندی،جس نے بھٹو صاحب کو فطری حلیفوں سے دور کردیا۔دوئم ،چند ایسے پارلیمانی فیصلے اور قانون سازیاں،جولبرل سیاست کو نقصان پہنچانے اور دائیں بازوکے سیاسی افکار کو مستحکم کرنے کا سبب بنے۔لہٰذا 1977 کے عام انتخابات کے بعدجب قومی اتحادPNA) (نے اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر تحریک چلائی تو پیپلزپارٹی پورے سیاسی منظر نامے میںتنہا تھی۔نتیجتاً ملک پر ایسی بدترین آمریت کا آغاز ہوا،جس نے مذہب اور فرقہ واریت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے لبرل تصورات کی بدترین بیخ کنی کا آغازکیا ۔
اب دوسری طرف آئیے۔جنرل ضیاء کی بدترین فوجی آمریت کے خلاف 1982ء میں مفتی محمود مرحوم کی کاوشوں سے تحریک بحالیِ جمہوریت (MRD)کا آغاز ہوا۔MRD نے 1983ء سے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف کامیاب تحریک کا آغازکیا،جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے۔ 1988ء کے انتخابات سے قبل میرغوث بخش بزنجو مرحوم نے یہ تجویز دی تھی کہMRD میں شامل جماعتیں یہ فیصلہ کریں کہ آیندہ انتخابات میں وہ کم ازکم پارٹی سربراہوں کے خلاف امیدوارکھڑا نہیں کریں گی۔
مگر پیپلز پارٹی جسے اقتدارملتا نظر آرہاتھا،اس نے اس تجویز کو اہمیت نہیں دی۔ بلکہ MRDمیں شامل ہر جماعت کے سربراہ کے مقابلے میں امیدوارکھڑے کرکے جمہوری اورلبرل قوتوں کے مستقل اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ خاص طورپر میرصاحب مرحوم کے خلاف لیاری میں اپنا امیدوار کھڑاکیا اور اسی طرح لانڈھی اور کورنگی کے حلقوں سے معراج محمد خان کے مقابلے میں قومی محاذ آزادی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم کوٹکٹ دیے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات سے قبل ہی MRDغیر فعال ہوگئی اور وہ قوتیں جو جمہوریت کے استحکام کے لیے کوشاں تھیں بکھر گئیں۔
1988ء میں سندھ کے اربن علاقوں سے ایم کیو ایم نمایندہ جماعت کے طورپر سامنے آئی۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جب اتحاد ہوا،تو ان حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا جو شہری اور دیہی کی تفریق ختم کرنا چاہتے تھے۔ساتھ ہی اس خلیج کو پر کرنے کے خواہشمند تھے، جو چند عاقبت نااندیش دانشوروں کی وجہ سے 1972ء میں سندھی اور اردو بولنے والے عوام کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔مگر ایم کیو ایم نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں شرکت کرکے نہ صرف سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان عدم اعتمادی کے ماحول کو بڑھاوا دیا،بلکہ ملک میں لبرل سیاسی ماحول کے فروغ کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگا۔ 1990ء میںپیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان دونوں جماعتوں کے درمیان بدترین تصادم شروع ہوگیا، جس کا فائدہ رجعت پسند قوتوں نے اٹھایا۔ مگر جن قوتوں کی اس نے دومرتبہ حمایت کی انھوں نے ہی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔جوایم کیو ایم کے لیے لمحہ فکریہ تھا اور ہے۔
ان واقعات نے ثابت کیا کہ ایم کیو ایم کا فطری اتحاد صرف اور صرف پیپلز پارٹی ہی سے ممکن ہے اور اس اتحاد کے ذریعے ہی سندھ کے شہری اور دیہی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتا ہے۔ اسی طرح 1985ء میں بشریٰ زیدی کیس کے بعد کراچی میں پٹھان مہاجر جھگڑے کے خاتمے میں مرحوم ولی خان اور الطاف حسین کی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔بیس برس تک ایم کیو ایم اورANP ایک دوسرے کی حلیف رہنے کے بعد2007ء میں بعض غیر اہم ایشوزپرایک دوسرے سے متصادم ہوئیں، تو ان تمام حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بنیں ،جو سیاسی جدوجہدکو لسانی کے بجائے طبقاتی آویزش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
2008ء کے انتخابات کے بعد جب ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی وفاق اور سندھ میں یپلزپارٹی کی حلیف بنیں تو ایک بار پھر یہ توقع پیدا ہوئی کہ ملک میںلبرل سیاست کو استحکام حاصل ہوگااور ترقی پسندی اور روشن خیالی کی نئی شمعیں روشن ہوگی۔مگر ان تینوں جماعتوں نے پانچ برس ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور الزام تراشیوں میں یہ وقت ضایع کردیا۔ان جماعتوں کی باہمی چپقلش اور ٹکراؤ کے نتیجے میں مختلف مافیاؤں اور شدت پسندعناصر کوسندھ کے مختلف علاقوں میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ، کراچی تباہ ہوا، اور نتیجتاً ان جماعتوں کی رٹ کمزور پڑتی چلی گئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ شدت پسند عناصر نے انھیں جبراًانتخابی عمل سے دور رہنے پر مجبورکردیا ہے۔لہٰذا پانچ برس ان تینوں جماعتوں سے جو فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، اس کاخمیازہ آج انھیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اس وقت انتخابی معرکہ بظاہرکسی نظریہ کے بغیرمحض سیاسی شخصیات کے درمیان ہوتا نظر آرہاہے۔ خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی شکل میں دو سینٹرلسٹ سیاسی جماعتیں جس اندازمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں،وہ اسٹبلشمنٹ کے اس مخصوص منصوبے کوظاہر کرتا ہے،جس کے تحت وہ ملک میں اگلاسیٹ اپ سینٹرلسٹ جماعتوں کا دیکھناچاہتی ہے۔ تاکہ2014ء میں جب امریکی فوجوں کا امریکا سے انخلاء شروع ہو،تو ایک طرف امریکا پر پسندیدہ فیصلوں کے لیے دباؤ بڑھایاجاسکے،جب کہ دوسری طرف افغانستان میں متوقع طور پر اقتدار میں آنے والے طالبان سے معاملات احسن طور پر طے کیے جاسکیں۔لیکن درحقیقت پاکستان میں اصل لڑائی طالبان نواز اور طالبان مخالف قوتوں کے درمیان شروع ہوچکی ہے۔
اس لیے پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کوماضی کی ان غلطیوںکاادراک کرتے ہوئے ان کو دہرانے سے گریز کا راستہ اختیارکرنا ہوگا،جو نہ صرف ان کے گلے کا ہار بنی ہیں ، بلکہ ملک میں لبرل سیاست کے لیے بھی ایک بڑاچیلنج بن چکی ہیں۔ لہٰذا یہ تینوں سیاسی جماعتیں اگرواقعی لبرل سیاست اورجمہوری اقدار کے فروغ میں مخلص ہیں تو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرسیاست کرنا ہوگی ۔اگر ایسانہ ہوسکا تو ملک میں بائیں بازو کی طرح لبرل سیاست کا چراغ بھی گل ہوسکتاہے۔
اس لیے وہ ہمیشہ اس کا راستہ روکنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔اب یہ ذمے داری بعض غیرریاستی عناصر نے سنبھال لی ہے،جو لبرل سیاسی جماعتوں کو مختلف طریقوں سے سیاسی عمل سے جبراً بیدخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن اس صورتحال کی ذمے داری لبرل جماعتوںپربھی عائدہوتی ہے، جن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے انھیں آج خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے۔بہت پیچھے نہیں جاتے، 1970ء کے عام انتخابات اور1971ء میں ملک دولخت ہونے کے بعدباقی ماندہ پاکستان میں لبرل سیاست کی داعی جماعتوں سے ہونے والی غلطیوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
1970ء کے انتخابات میں اس وقت کی حکومت کی تمام تر سرپرستی کے باوجود دائیں بازو کی جماعتیں مجموعی طور پر 30 سے زائد نشستیں حاصل نہیں کرسکیں۔ جن میں مسلم لیگ (قیوم) 9،جمعیت علمائے پاکستان7،مسلم لیگ (کنونشن) 7، جماعت اسلامی4اورمسلم لیگ (کونسل) 2نشستیں حاصل کرسکی ۔
اس کے برعکس 1967ء میں قائم ہونے والی لبرل سیاسی جماعت پیپلز پارٹی81نشستیں حاصل کرکے مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے طورپرسامنے آئی۔ جب کہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور جمعیت علمائے اسلام نے7,7نشستیں حاصل کیں۔ اس زمانے میں مفتی محمود کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی،اس لیے اس کا اتحاد دائیں بازو کی جماعتوں کے بجائے NAPکے ساتھ ہوا تھا۔
20دسمبر1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں حالات کے جبر کے تحت سیاسی حکومتیں قائم ہوئیں تووفاق کے علاوہ سندھ اور پنجاب میں پیپلز پارٹی،جب کہ پختونخواہ اوربلوچستان میںNAP اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ ملک کے روشن خیال حلقوں کو یہ امید تھی کہ پیپلز پارٹی، NAP اور جمعیت علمائے اسلام ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہونے کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے اس ملک میں وسیع البنیاد تعلق قائم کریں گے۔
اس طرح یہ توقع تھی کہ روشن خیالی،لبرل ازم اور ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ مگر یہ خواہش اس لیے سراب ثابت ہوئی، کیونکہ اقتدار میں آتے ہی پیپلز پارٹی نے اپنی روش تبدیل کرلی ۔بھٹو صاحب نے جہاں شکستگی کے شکار پاکستانی عوام کو اعتماد کی نئی تازگی عطا کی،ملکی معیشت کو بحال کیا اورعالمی سطح پر پاکستان کوایک نئی شناخت دی،وہیں انھوں نے بعض ایسے فیصلے کیے جس سے نہ صرف لبرل سیاست کونقصان پہنچا،بلکہ خود ان کی اپنی جماعت کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔
بھٹو مرحوم سے اقتدارمیں آنے کے بعد جوچند فاش غلطیاں سرزد ہوئیں،ان میں دو انتہائی اہم ہیں۔ اول، بلوچستان کی مخلوط حکومت کا خاتمہ اور وہاں آپریشن کا آغاز۔جس کے ردعمل میںپختونخواہ کی حکومت مستعفی ہوئی ۔پھر حیات محمدخان شیرپاؤ کی بم دھماکے میں شہادت کے بعد خان ولی خان مرحوم کی گرفتاری اورNAPپر پابندی،جس نے بھٹو صاحب کو فطری حلیفوں سے دور کردیا۔دوئم ،چند ایسے پارلیمانی فیصلے اور قانون سازیاں،جولبرل سیاست کو نقصان پہنچانے اور دائیں بازوکے سیاسی افکار کو مستحکم کرنے کا سبب بنے۔لہٰذا 1977 کے عام انتخابات کے بعدجب قومی اتحادPNA) (نے اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر تحریک چلائی تو پیپلزپارٹی پورے سیاسی منظر نامے میںتنہا تھی۔نتیجتاً ملک پر ایسی بدترین آمریت کا آغاز ہوا،جس نے مذہب اور فرقہ واریت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے لبرل تصورات کی بدترین بیخ کنی کا آغازکیا ۔
اب دوسری طرف آئیے۔جنرل ضیاء کی بدترین فوجی آمریت کے خلاف 1982ء میں مفتی محمود مرحوم کی کاوشوں سے تحریک بحالیِ جمہوریت (MRD)کا آغاز ہوا۔MRD نے 1983ء سے جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف کامیاب تحریک کا آغازکیا،جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے۔ 1988ء کے انتخابات سے قبل میرغوث بخش بزنجو مرحوم نے یہ تجویز دی تھی کہMRD میں شامل جماعتیں یہ فیصلہ کریں کہ آیندہ انتخابات میں وہ کم ازکم پارٹی سربراہوں کے خلاف امیدوارکھڑا نہیں کریں گی۔
مگر پیپلز پارٹی جسے اقتدارملتا نظر آرہاتھا،اس نے اس تجویز کو اہمیت نہیں دی۔ بلکہ MRDمیں شامل ہر جماعت کے سربراہ کے مقابلے میں امیدوارکھڑے کرکے جمہوری اورلبرل قوتوں کے مستقل اتحاد کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ خاص طورپر میرصاحب مرحوم کے خلاف لیاری میں اپنا امیدوار کھڑاکیا اور اسی طرح لانڈھی اور کورنگی کے حلقوں سے معراج محمد خان کے مقابلے میں قومی محاذ آزادی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم کوٹکٹ دیے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات سے قبل ہی MRDغیر فعال ہوگئی اور وہ قوتیں جو جمہوریت کے استحکام کے لیے کوشاں تھیں بکھر گئیں۔
1988ء میں سندھ کے اربن علاقوں سے ایم کیو ایم نمایندہ جماعت کے طورپر سامنے آئی۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جب اتحاد ہوا،تو ان حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا جو شہری اور دیہی کی تفریق ختم کرنا چاہتے تھے۔ساتھ ہی اس خلیج کو پر کرنے کے خواہشمند تھے، جو چند عاقبت نااندیش دانشوروں کی وجہ سے 1972ء میں سندھی اور اردو بولنے والے عوام کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔مگر ایم کیو ایم نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں شرکت کرکے نہ صرف سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان عدم اعتمادی کے ماحول کو بڑھاوا دیا،بلکہ ملک میں لبرل سیاسی ماحول کے فروغ کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگا۔ 1990ء میںپیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان دونوں جماعتوں کے درمیان بدترین تصادم شروع ہوگیا، جس کا فائدہ رجعت پسند قوتوں نے اٹھایا۔ مگر جن قوتوں کی اس نے دومرتبہ حمایت کی انھوں نے ہی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا۔جوایم کیو ایم کے لیے لمحہ فکریہ تھا اور ہے۔
ان واقعات نے ثابت کیا کہ ایم کیو ایم کا فطری اتحاد صرف اور صرف پیپلز پارٹی ہی سے ممکن ہے اور اس اتحاد کے ذریعے ہی سندھ کے شہری اور دیہی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتا ہے۔ اسی طرح 1985ء میں بشریٰ زیدی کیس کے بعد کراچی میں پٹھان مہاجر جھگڑے کے خاتمے میں مرحوم ولی خان اور الطاف حسین کی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔بیس برس تک ایم کیو ایم اورANP ایک دوسرے کی حلیف رہنے کے بعد2007ء میں بعض غیر اہم ایشوزپرایک دوسرے سے متصادم ہوئیں، تو ان تمام حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بنیں ،جو سیاسی جدوجہدکو لسانی کے بجائے طبقاتی آویزش کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
2008ء کے انتخابات کے بعد جب ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی وفاق اور سندھ میں یپلزپارٹی کی حلیف بنیں تو ایک بار پھر یہ توقع پیدا ہوئی کہ ملک میںلبرل سیاست کو استحکام حاصل ہوگااور ترقی پسندی اور روشن خیالی کی نئی شمعیں روشن ہوگی۔مگر ان تینوں جماعتوں نے پانچ برس ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور الزام تراشیوں میں یہ وقت ضایع کردیا۔ان جماعتوں کی باہمی چپقلش اور ٹکراؤ کے نتیجے میں مختلف مافیاؤں اور شدت پسندعناصر کوسندھ کے مختلف علاقوں میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ، کراچی تباہ ہوا، اور نتیجتاً ان جماعتوں کی رٹ کمزور پڑتی چلی گئی۔آج صورتحال یہ ہے کہ شدت پسند عناصر نے انھیں جبراًانتخابی عمل سے دور رہنے پر مجبورکردیا ہے۔لہٰذا پانچ برس ان تینوں جماعتوں سے جو فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، اس کاخمیازہ آج انھیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اس وقت انتخابی معرکہ بظاہرکسی نظریہ کے بغیرمحض سیاسی شخصیات کے درمیان ہوتا نظر آرہاہے۔ خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی شکل میں دو سینٹرلسٹ سیاسی جماعتیں جس اندازمیں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہیں،وہ اسٹبلشمنٹ کے اس مخصوص منصوبے کوظاہر کرتا ہے،جس کے تحت وہ ملک میں اگلاسیٹ اپ سینٹرلسٹ جماعتوں کا دیکھناچاہتی ہے۔ تاکہ2014ء میں جب امریکی فوجوں کا امریکا سے انخلاء شروع ہو،تو ایک طرف امریکا پر پسندیدہ فیصلوں کے لیے دباؤ بڑھایاجاسکے،جب کہ دوسری طرف افغانستان میں متوقع طور پر اقتدار میں آنے والے طالبان سے معاملات احسن طور پر طے کیے جاسکیں۔لیکن درحقیقت پاکستان میں اصل لڑائی طالبان نواز اور طالبان مخالف قوتوں کے درمیان شروع ہوچکی ہے۔
اس لیے پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کوماضی کی ان غلطیوںکاادراک کرتے ہوئے ان کو دہرانے سے گریز کا راستہ اختیارکرنا ہوگا،جو نہ صرف ان کے گلے کا ہار بنی ہیں ، بلکہ ملک میں لبرل سیاست کے لیے بھی ایک بڑاچیلنج بن چکی ہیں۔ لہٰذا یہ تینوں سیاسی جماعتیں اگرواقعی لبرل سیاست اورجمہوری اقدار کے فروغ میں مخلص ہیں تو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرسیاست کرنا ہوگی ۔اگر ایسانہ ہوسکا تو ملک میں بائیں بازو کی طرح لبرل سیاست کا چراغ بھی گل ہوسکتاہے۔