امانت میں خیانت نہ کیجیے
انسان شدت غم اور بے انتہا خوشی کے عالم میں کچھ دیر کے لیے اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے...
KARACHI:
انسان شدت غم اور بے انتہا خوشی کے عالم میں کچھ دیر کے لیے اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ بلکہ بے انتہاء خوشی کی صورت میں تو شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ عرض یہ کہ انتہائی خوشی کے وقت انسان بعض اوقات اپنے حواس پر قابو برقرار نہیں رکھ پاتا اور اگر کسی دیرینہ خواہش کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا وقت قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہو تو وہ ایسی صورتحال میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ یہی کچھ ہمارے خان صاحب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ اﷲ عمران کو صحت عطا فرمائے، وہ گزشتہ روز لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے۔
بہرحال کچھ روز پہلے جوش خطابت میں ایک جلسہ عام میں اپنی پارٹی کے نوجوان کارکنان (یوتھ) سے فرمایا کہ آپ کے بڑے چاہے پہلے کسی بھی سیاسی نظریے سے وابستہ رہے ہوں مگر ان انتخابات میں وہ صرف شیر پر ہی مہر لگائیں، خان صاحب کے حمایتی اور کارکنان بے چارے پریشان کہ ان کے دل پسند لیڈر کیسے اچانک میاں صاحب کے حامی ہی نہیں بلکہ پبلسٹی سیکریٹری بن گئے؟ ... بہر حال صورتحال کو سنبھال تو لیا گیا مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب کے حواس پر تیر یا شیر کا خوف ضرور طاری ہے، باقی کسی اور کو تو وہ اپنے مد مقابل کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے اور کریں بھی کیوں ایک مخصوص انداز فکر کے میدان میں تو یہی دو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، باقی سیاسی جماعتوں کے تو میدان عمل ہی دوسرے ہیں۔
یکم مئی کو ایک اور خبر ہمارے ''آیندہ کے منتخب ہونے والے وزیراعظم '' صاحب کے حوالے سے یہ شایع ہوئی کہ ''ہم 11مئی کو شیر کے تکے بنا کر کھائیں گے، غالباً یہ بات انھوں نے بقائمی ہوش و حواس فرمائی ہے کیونکہ ہم نے تو صرف خبر پڑھی ہے چشم دید گواہ ہم نہیں ہیں۔
البتہ ان کا اطمینان اور چہرے پر بھرپور اعتماد اس بات کی گواہی ہے کہ جو انسانوں کے تکے بنا رہے ہیں شاید انھوں نے ان کو یہ پر تکلف دعوت دی ہو ... بہر حال لوگ کو تو پہلے ہی کچھ شک تھا مگر اب یقین ہو چلا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ضرور، ایک جانب وہ انتخابی نشان شیر پر مہر لگانے کا کہتے ہیں تو دوسری جانب مزے لے لے کر شیر ہی کے تکے کھانے کی بات کرتے ہیں اور تیسری جانب بے چاری یوتھ کے کاندھوں پر کچھ زیادہ کی بوجھ ڈال رہے ہیں، خدا بھلا کرے ہمارے ایک سینئر کالم نگار کا کہ انھوں نے اپنے ایک کالم میں یوتھ کی تعریف Definition اور اقسام پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر لکھ دیا اور قوم کو بڑی تفصیل سے بتایا کہ کونسی یوتھ؟ کیسی یوتھ؟ کس علاقے کے یوتھ؟ پڑھی لکھی تعلیم یافتہ یا جاہل یوتھ؟ اگر پڑھی لکھی تو کس نظام تعلیم کے تحت اور کس درس گاہ سے پڑھی ہوئی؟ ...
اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ یا کسی مدرسے کی؟ اور اگر مدرسے سے فارغ التحصیل تو کس مسلک کے مدرسے کی؟ اصلی ڈگری والی یا جعلی ڈگری یافتہ؟... مجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی شرمندگی نہیں کہ جب سے انتخابات کا غوغا اٹھا ہے یوتھ کی ان اقسام پر (سیاسی طور پر) پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا، حالانکہ13مارچ کے اپنے ایک کالم بعنوان ''قومی یکجہتی اور تعلیمی ترجیحات'' میں پاکستان میں تمام اقسام کے نظام تعلیم ان کے تحت پڑھنے والے نوجوانوں پر تقریباً اتنی ہی اقسام کا ذکر کیا تھا مگر اس کالم کا دائرہ کار صرف تعلیمی میدان تک محدود تھا ...
لیکن ہمارے ان سینئر اور معتبر کالم نگار نے یوتھ کی جو سیاسی اقسام پر روشنی ڈالی ہے وہ ایک جانب تو واقعی چشم کشا ہے اور دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں (سوائے پی ٹی آئی) کے اطمینان قلب کا باعث بھی ہے کیونکہ 11 مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پہلی بار ساڑھے چار کروڑ نوجوان بحیثیت ووٹر حصہ لے رہے ہیں اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ تمام یوتھ ان کے ساتھ ہیں یعنی ساڑھے چار کروڑ ووٹ تو ان کے بالکل پکے ہیں، پی ٹی آئی کے اس دعویٰ نے دوسری تمام سیاسی جماعتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
کالم نگار کے تجزیے اور یوتھ کی نئی نویلی اقسام کے بعد اب دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ جیسے نوجوان ویسی ان کی پسند کی سیاسی جماعتیں یہ بتانے کا صاف مطلب ہے کہ سارے کے سارے نوجوان تحریک انصاف ہی کے ساتھ نہیں بلکہ خالصتاً مذہبی، عوام دوست جاگیردارانہ انداز فکر رکھنے والوں کے علاوہ اور جو کئی اقسام کی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں بھی تو کچھ نہ کچھ نوجوانوں کی حمایت حاصل ہو گی یوں اب صرف تحریک انصاف ہی نوجوانوں کی قدردان اور دعویدار نہیں رہی، چلیے ایک طرف سے تو اطمینان (سیاست دانوں کو) ہوا کہ ساڑھے چار کروڑ سارے کے سارے ووٹ محض ایک پارٹی کے نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہم نے لکھا ہے یہ آپ سب بھی مختلف کالموں، مضامین، اداریوں یا پھر مختلف چینلز کے ٹاک شوز میں سن اور پڑھ چکے ہوں گے۔
ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کو محض یکجا کیا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کو ہم پی ٹی آئی سے بد دل کر کے اس کو ووٹ نہ دینے پر اکسا رہے ہیں، کیونکہ یہ آپ کا قومی فرض ہے اور آپ کا اپنا فیصلہ کہ کس کو اپنے ووٹ کا حقدار سمجھتے ہیں ... مگر صرف گزارش یہ ہے کہ ان انتخابات کو محض انتخابات نہ سمجھئے بلکہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کا معاملہ سمجھ کر ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اچھی طرح سوچ سمجھ کر پاکستان کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے زمینی و جغرافیائی حالات کے آئینے میں دیکھ کر اپنے ووٹ کا فیصلہ کیجیے...
اس سلسلے میں خطرہ تو ہے مگر کیا یہ خطرہ اس خطرے سے بڑھ کر ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کے سر پر منڈلا رہا ہے، ہماری ترقی و خوشحالی کو درپیش ہے، سب سے بڑھ کر پاکستان کے وجود کو لاحق ہے، جان کا خطرہ تو کوئی خطرہ ہی نہیں کیونکہ مرنا تو ایک دن سب کو ہے اور رضائے الٰہی کی بغیر کوئی مر نہیں سکتا، دیکھئے! موت تو برحق ہے... مگر من حیثیت القوم جو ہماری ذمے داری ہے اس سے ہمیں یہاں بھی احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونا ہے اور آخرت میں بھی اس کے بارے میں باز پرس ہو گی... ووٹ کا حق استعمال نہ کر کے بھی آپ قومی امانت میں خیانت کے مرتکب ہونگے اب جب کہ ہر طرح سے حفاظتی انتظامات بھی بہتر ہو رہے ہیں تو آپ بھی اپنا فرض سمجھ کر 11 مئی کو کچھ وقت نکال کر گھر سے ضرور نکلیے ورنہ پھر پچھتانے کا بھی وقت نہ ملے گا...
انسان شدت غم اور بے انتہا خوشی کے عالم میں کچھ دیر کے لیے اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ بلکہ بے انتہاء خوشی کی صورت میں تو شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ عرض یہ کہ انتہائی خوشی کے وقت انسان بعض اوقات اپنے حواس پر قابو برقرار نہیں رکھ پاتا اور اگر کسی دیرینہ خواہش کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا وقت قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہو تو وہ ایسی صورتحال میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ یہی کچھ ہمارے خان صاحب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے ۔ اﷲ عمران کو صحت عطا فرمائے، وہ گزشتہ روز لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے۔
بہرحال کچھ روز پہلے جوش خطابت میں ایک جلسہ عام میں اپنی پارٹی کے نوجوان کارکنان (یوتھ) سے فرمایا کہ آپ کے بڑے چاہے پہلے کسی بھی سیاسی نظریے سے وابستہ رہے ہوں مگر ان انتخابات میں وہ صرف شیر پر ہی مہر لگائیں، خان صاحب کے حمایتی اور کارکنان بے چارے پریشان کہ ان کے دل پسند لیڈر کیسے اچانک میاں صاحب کے حامی ہی نہیں بلکہ پبلسٹی سیکریٹری بن گئے؟ ... بہر حال صورتحال کو سنبھال تو لیا گیا مگر اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ خان صاحب کے حواس پر تیر یا شیر کا خوف ضرور طاری ہے، باقی کسی اور کو تو وہ اپنے مد مقابل کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتے اور کریں بھی کیوں ایک مخصوص انداز فکر کے میدان میں تو یہی دو ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں، باقی سیاسی جماعتوں کے تو میدان عمل ہی دوسرے ہیں۔
یکم مئی کو ایک اور خبر ہمارے ''آیندہ کے منتخب ہونے والے وزیراعظم '' صاحب کے حوالے سے یہ شایع ہوئی کہ ''ہم 11مئی کو شیر کے تکے بنا کر کھائیں گے، غالباً یہ بات انھوں نے بقائمی ہوش و حواس فرمائی ہے کیونکہ ہم نے تو صرف خبر پڑھی ہے چشم دید گواہ ہم نہیں ہیں۔
البتہ ان کا اطمینان اور چہرے پر بھرپور اعتماد اس بات کی گواہی ہے کہ جو انسانوں کے تکے بنا رہے ہیں شاید انھوں نے ان کو یہ پر تکلف دعوت دی ہو ... بہر حال لوگ کو تو پہلے ہی کچھ شک تھا مگر اب یقین ہو چلا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے ضرور، ایک جانب وہ انتخابی نشان شیر پر مہر لگانے کا کہتے ہیں تو دوسری جانب مزے لے لے کر شیر ہی کے تکے کھانے کی بات کرتے ہیں اور تیسری جانب بے چاری یوتھ کے کاندھوں پر کچھ زیادہ کی بوجھ ڈال رہے ہیں، خدا بھلا کرے ہمارے ایک سینئر کالم نگار کا کہ انھوں نے اپنے ایک کالم میں یوتھ کی تعریف Definition اور اقسام پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر لکھ دیا اور قوم کو بڑی تفصیل سے بتایا کہ کونسی یوتھ؟ کیسی یوتھ؟ کس علاقے کے یوتھ؟ پڑھی لکھی تعلیم یافتہ یا جاہل یوتھ؟ اگر پڑھی لکھی تو کس نظام تعلیم کے تحت اور کس درس گاہ سے پڑھی ہوئی؟ ...
اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ یا کسی مدرسے کی؟ اور اگر مدرسے سے فارغ التحصیل تو کس مسلک کے مدرسے کی؟ اصلی ڈگری والی یا جعلی ڈگری یافتہ؟... مجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی شرمندگی نہیں کہ جب سے انتخابات کا غوغا اٹھا ہے یوتھ کی ان اقسام پر (سیاسی طور پر) پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا، حالانکہ13مارچ کے اپنے ایک کالم بعنوان ''قومی یکجہتی اور تعلیمی ترجیحات'' میں پاکستان میں تمام اقسام کے نظام تعلیم ان کے تحت پڑھنے والے نوجوانوں پر تقریباً اتنی ہی اقسام کا ذکر کیا تھا مگر اس کالم کا دائرہ کار صرف تعلیمی میدان تک محدود تھا ...
لیکن ہمارے ان سینئر اور معتبر کالم نگار نے یوتھ کی جو سیاسی اقسام پر روشنی ڈالی ہے وہ ایک جانب تو واقعی چشم کشا ہے اور دوسری جانب تمام سیاسی جماعتوں (سوائے پی ٹی آئی) کے اطمینان قلب کا باعث بھی ہے کیونکہ 11 مئی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پہلی بار ساڑھے چار کروڑ نوجوان بحیثیت ووٹر حصہ لے رہے ہیں اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ تمام یوتھ ان کے ساتھ ہیں یعنی ساڑھے چار کروڑ ووٹ تو ان کے بالکل پکے ہیں، پی ٹی آئی کے اس دعویٰ نے دوسری تمام سیاسی جماعتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
کالم نگار کے تجزیے اور یوتھ کی نئی نویلی اقسام کے بعد اب دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ جیسے نوجوان ویسی ان کی پسند کی سیاسی جماعتیں یہ بتانے کا صاف مطلب ہے کہ سارے کے سارے نوجوان تحریک انصاف ہی کے ساتھ نہیں بلکہ خالصتاً مذہبی، عوام دوست جاگیردارانہ انداز فکر رکھنے والوں کے علاوہ اور جو کئی اقسام کی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں بھی تو کچھ نہ کچھ نوجوانوں کی حمایت حاصل ہو گی یوں اب صرف تحریک انصاف ہی نوجوانوں کی قدردان اور دعویدار نہیں رہی، چلیے ایک طرف سے تو اطمینان (سیاست دانوں کو) ہوا کہ ساڑھے چار کروڑ سارے کے سارے ووٹ محض ایک پارٹی کے نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ جو ہم نے لکھا ہے یہ آپ سب بھی مختلف کالموں، مضامین، اداریوں یا پھر مختلف چینلز کے ٹاک شوز میں سن اور پڑھ چکے ہوں گے۔
ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ اپنے مشاہدے اور مطالعے کو محض یکجا کیا ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کو ہم پی ٹی آئی سے بد دل کر کے اس کو ووٹ نہ دینے پر اکسا رہے ہیں، کیونکہ یہ آپ کا قومی فرض ہے اور آپ کا اپنا فیصلہ کہ کس کو اپنے ووٹ کا حقدار سمجھتے ہیں ... مگر صرف گزارش یہ ہے کہ ان انتخابات کو محض انتخابات نہ سمجھئے بلکہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کا معاملہ سمجھ کر ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اچھی طرح سوچ سمجھ کر پاکستان کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے زمینی و جغرافیائی حالات کے آئینے میں دیکھ کر اپنے ووٹ کا فیصلہ کیجیے...
اس سلسلے میں خطرہ تو ہے مگر کیا یہ خطرہ اس خطرے سے بڑھ کر ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کے سر پر منڈلا رہا ہے، ہماری ترقی و خوشحالی کو درپیش ہے، سب سے بڑھ کر پاکستان کے وجود کو لاحق ہے، جان کا خطرہ تو کوئی خطرہ ہی نہیں کیونکہ مرنا تو ایک دن سب کو ہے اور رضائے الٰہی کی بغیر کوئی مر نہیں سکتا، دیکھئے! موت تو برحق ہے... مگر من حیثیت القوم جو ہماری ذمے داری ہے اس سے ہمیں یہاں بھی احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونا ہے اور آخرت میں بھی اس کے بارے میں باز پرس ہو گی... ووٹ کا حق استعمال نہ کر کے بھی آپ قومی امانت میں خیانت کے مرتکب ہونگے اب جب کہ ہر طرح سے حفاظتی انتظامات بھی بہتر ہو رہے ہیں تو آپ بھی اپنا فرض سمجھ کر 11 مئی کو کچھ وقت نکال کر گھر سے ضرور نکلیے ورنہ پھر پچھتانے کا بھی وقت نہ ملے گا...